Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Israa : 85
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ١ؕ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا
وَيَسْئَلُوْنَكَ
: اور آپ سے پوچھتے ہیں
عَنِ
: سے۔ْمتعلق
الرُّوْحِ
: روح
قُلِ
: کہ دیں
الرُّوْحُ
: روح
مِنْ اَمْرِ
: حکم سے
رَبِّيْ
: میرا رب
وَمَآ اُوْتِيْتُمْ
: اور تمہیں نہیں دیا گیا
مِّنَ الْعِلْمِ
: علم سے
اِلَّا
: مگر
قَلِيْلًا
: تھوڑا سا
اور سوال کرتے ہیں یہ لوگ آپ سے روح کے بارے میں ، آپ کہہ دیجئے روح میرے رب کے امر سے ہے اور نہیں دیا گیا تم کو علم میں سے مگر بہت تھوڑا حصہ ۔
ربط آیات : گذشتہ درس میں اللہ نے قرآن کریم کے بارے میں فرمایا کہ یہ روحانی بیماریوں کے لیے شفا بخش اور اللہ کی مہربانی اور رحمت کا ذریعہ ہے ، ساتھ یہ بھی واضح کیا کہ قرآن پاک کی شفا اور رحمت سے مستفید ہونے کے لیے استعداد اور صلاحیت کا ہونا ضروری ہے کیونکہ ظالموں کے حق میں یہ نقصان ہی کو زیادہ کرتا ہے ، اللہ نے انسان کی ناشکری کا ذکر بھی فرمایا اور یہ بھی کہ محاسبہ اعمال یقینا ہوگا اللہ تمام انسانوں کے اعمال اور کوائف سے باخبر ہے اور وہ بہتر جانتا ہے کہ کون ہدایت کے راستے پر چل رہا ہے اور کون گمراہی میں متبلا ہے ، اب آج کی آیت کریمہ میں روح کا ذکر ہے اس کے بعد پھر قرآن کریم کا ذکر آئے گا اور پیغمبر اسلام کے خلاف مشرکین کے بیہودہ اعتراضات اور بےجا فرمائشوں کا ذکر ہوگا ۔ (شان نزول) آج کی آیت کریمہ کا موضوع روح ہے (آیت) ” ویسئلونک عن الروح “۔ اے پیغمبر ! ﷺ یہ لوگ آپ سے روح کے متعلق دریافت کرتے ہیں ، سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سوال پوچھنے والے کون لوگ ہیں ، یہ سورة مکی زندگی میں ہجرت سے دو سال قبل نازل ہوئی جب کہ حضور ﷺ کا واسطہ مشرکین مکہ سے تھا جو کہ اس قسم کے پیچیدہ سوالات پوچھنے کہ اہل نہیں تھے ، چناچہ اس آیت اور بعض دیگر آیات کی شان نزول کے متعلق مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ مشرکین مکہ نے اپنا ایک اعلی وفد نضر بن حارب کی قیادت میں یہودیوں کے پاس مدینہ اس غرض سے بھیجا کہ وہ ان سے بعض ایسے مشکل سوالات پوچھ کر آئیں جو حضور ﷺ کے سامنے پیش کیے جائیں اور آپ ان کا جواب نہ دے سکیں ، اس طرح مشرکین اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف پراپیگنڈا کرنے کے لیے مواد حاصل کرنا چاہتے تھے ، نضر ایک جہاں گشت آدمی تھا اور بادشاہوں کی مجالس کے آداب سے واقف تھا وہ اپنے وفد کے ہمراہ مدینہ پہنچا اور یہودی علماء کے سامنے اپنا مدعا بیان کیا ، یہودیوں نے اس مقصد کے لیے تین سوال پیش کیے ان میں سے ایک سوال تو روح کے متعلق تھا جس کا ذکر اس آیت کریمہ میں آگیا ہے دوسرا سوال اصحاب کہف اور تیسرا ذوالقرنین بادشاہ کے متعلق تھا جن کا ذکر اگلی سورة کہف میں آرہا ہے ، یہودیوں کا خیال تھا کہ حضور ﷺ ان سوالات کا جواب نہیں دے سکیں گے اور اگر ان میں سے بعض کا جواب دے بھی دیا تو آپ کے جواب کو درست تسلیم کرلیا جائے گا ، مذکورہ وفد نے مکہ واپس آکر یہ تینوں سوالات حضور ﷺ کے پاس کیے جن میں دو کا جواب اللہ نے آگلی سورة میں تفصیل کے ساتھ دے دیا البتہ روح سے متعلق سوال کا جواب اس مختصر سی آیت میں اجمالی طور پر ہی دیا چونکہ روح کا ذکر تورات میں بھی اجمالی طور پر ہی آیا ہے ، اس لیے یہودی قرآن پاک کئے اس مختصر جواب سے بھی مطمئن تھے ۔ (روح کے مختلف معانی) قرآن پاک میں لفظ ” روح “ کے مختلف معانی آتے ہیں روح کا اطلاق خود قرآن پاک پر کیا گیا ہے (آیت) ” وکذلک اوحینا الیک روحا من امرنا “۔ (الشوری ، 52) اسی طرح ہم نے اپنے حکم میں سے ایک روح آپ کی طرف وحی کی ، اسی طرح تورات کو بھی روح کہا گیا ہے ، اس کے علاوہ روح کا اطلاق جبرائیل (علیہ السلام) پر بھی کیا گیا ہے جیسے فرمایا (آیت) ” نزل بہ الروح الامین “۔ (الشعرآئ۔ 193) اس قرآن پاک کو روح الامین کے ذریعے نازل کیا گیا ، تاہم صحیح بات یہ ہے کہ اس مقام پر روح سے مراد روح انسانی ہے ، جس کے داخل ہونے سے انسانی جسم کو حیات ملتی ہے اور جس کو علیحدگی سے انسان پر موت طاری ہوجاتی ہے ، تخلیق آدم کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں انسان کو مٹی سے پیدا کرنا والا ہوں ، پس جب میں اس کو برابر کرلو (آیت) ” ونفخت فیہ من روحی “۔ اور جب میں اس میں اپنی طرف سے روح پھونک دوں ، تو تم اس کے سامنے سجدے میں گر پڑو ، اس طرح گویا اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے تمام افراد میں روح ڈالی ، امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ روح انسانوں کے علاوہ ملائکہ اور خبات میں بھی ڈالی گئی ہے ، اگرچہ ان کی روح انسانی روح کی نسبت نہایت لطیف ہے ۔ (انسانی روح) انسان کی پیدائش کے متعلق اللہ نے سورة المومنون میں یہ طریقہ بتلایا ہے کہ ہم نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا ، پھر اس کو ایک جگہ میں نطفہ بنا کر رکھا ، پھر نطفے کا لوتھڑا بنایا ، پھر لوتھڑے کی بوٹی بنائی پھر ہڈیوں پر گوشت پوست چڑھایا اور پھر اس کو نئی صورت میں بنا دیا ، حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب قرار حمل پر چار ماہ گزر جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ایک فرشتے کو بھیجتے ہیں جو شکم مادر میں بچے میں روح ڈال دیتا ہے ، اس کی مثال بالکل ایسی سمجھ لیں کہ اگر کسی شخص کوئی کوئی مشین لگانی ہو ، تو پہلے اس کے لیے مکان کا بندوبست کرتا ہے پھر مشین فٹ کرنے کی جگہ منتخب کرتا ہے ، اور وہاں پر مشین کا ایک ایک پرزہ جوڑتا چلا جاتا ہے ، جب مشین کے سارے پر زرے فٹ ہوجاتے ہیں تو پھر آخر میں اسے بجلی کا کنکشن دے دیا جاتا ہے ۔ جس سے اس مشین کے پرزے حرکت میں آجاتے ہیں اور مشین اپنا کام شروع کردیتی ہے ، اسی طرح جب شکم مادر میں انسانی ڈھانچہ تیار ہوجاتا ہے تو پھر اس میں روح ڈال دی جاتی ہے جس سے انسانی اعضاء کا م کرنے لگتے ہیں اور انسان میں شعور ، علم اور عقل پیدا ہوتی ہے یہ بات قابل ذکر ہے کہ انسانی روح کی آمد سے پہلے انسانی اعضاء کی تیاری کے مختلف مراحل پر بھی ایک روح کار فرما ہوتی ہے ، جو روح حیوانی کہلاتی ہے تاہم انسانی روح چوتھے چلے میں ہی داخل ہوتی ہے جو زندگی پھر انسان کے ساتھ رہتی ہے اس مقام پر یہی روح مراد ہے ۔ (روح پر نظریاتی بحث) (روح کی حقیقت پر قدیم زمانے سے حکماء نے بڑا کلام کیا ہے اس کو سمجھنے سمجھانے کے لیے مضامین اور بڑی بڑی کتابیں لکھی ہیں جدید یورپ میں روحانی سوسائٹیاں معرض وجود میں آچکی ہیں جن کے اراکین مختلف عملیات اور طریقوں سے مردہ روحوں کے ساتھ تعلق جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں ، لیکن ابھی تک کسی کو مکمل کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ، قدیم یونانی ، رومی اور ہندوستانی لوگوں نے روح پر بڑی بڑی بحثیں کی ہیں ، صوفیائے کرام نے بھی اس بارے میں کافی کلام کیا ہے شیخ ابن عربی (رح) کی کتابوں میں روح اور نفس کے بارے کثرت سے باتیں ملتی ہیں ، عبدالکریم جیلی (رح) نے ” الانسان الکامل “ نامی کتاب لکھی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی صفات اور عالم بالا کی باتوں کے بارے میں کثفی انداز میں کلام کیا ہے ۔ روح کی حقیقت کے بارے میں بعض بڑے بڑے علماء نے بھی کلام کیا ہے ، ان میں امام غزالی (رح) ہیں جنہوں نے روح کے متعلق چھوٹی سی کتاب لکھی ہے ، پھر چھٹی صدی کے عظیم مفسر امام رازی (رح) ہیں جنہوں نے ” کتاب النفس و الاخلاق “ تحریر کی ہے ، اس میں انہوں نے انسانی روح اور اخلاق کے متعلق ایک چھوٹی سی کتاب لکھی ہے ، پھر چھٹی صدی کے عظیم مفسر امام رازی (رح) ہیں جنہوں نے ” کتاب النفس والا خلاق “ تحریر کی ہے ، اس میں انہوں نے انسان روح اور اخلاق کے متعلق بحث کی ہے ، اسی طرح امام ابن تیمیہ (رح) کے شاگرد امام ابن قیم (رح) نے بھی بڑی مفید کتابیں لکھی ہیں ، آپ نے ” زاد المعاد “ کے نام سے سیرت پر بہترین کتاب لکھی ہے ، آپ نے تفسیر علم حقائق اور سلوک کے موضوعات پر بھی کتابیں لکھی ہیں ، موضوع زیر بحث پر آپ نے ” کتاب الروح “ کے نام سے ایک ضخیم کتاب تحریر کی ہے جس میں انہوں نے روح کے بارے میں قدیم وجدید محققین کے نظریات کا تجزیہ کیا ہے ۔ آخر میں امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) نے اپنی مختلف کتابوں میں روح کے متعلق جامع کلام کیا ہے ، آپ کی عادت ہے کہ کسی ایک موضوع کو کسی ایک مقام پر ہی بیان کرکے نہیں چھوڑ دیتے بلکہ اس کا تذکرہ مختلف کتب میں مختلف مقامات پر کرتے چلے جاتے ہیں ان کی کتابیں مشکل ضرور ہیں مگر علم کا بیش بہا خزانہ ہیں آپ کے بڑے فرزند شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ میرے والد ماجد کی کتابوں کے ساتھ جو شخص نسبت رکھتا ہے اسے اللہ تعالیٰ ضرور فیضیاب کرتا ہے ، کہتے ہیں کہ میرے والد کی کتابیں نور اور حکمت سے پر ہیں ، پچاس ساٹھ چھوٹی موٹی کتابوں میں قرآن کریم کا ترجمہ ، اصول تفسیر ، شرح حدیث موطا وغیرہ میں علم و حکمت کا سب سے بڑا مخزن آپ کی عظیم کتاب ” حجۃ اللہ البالغہ “ ہے جس میں اسلام کی مکمل تشریح اور حکمت آگئی ہے گذشتہ بارہ صدیوں میں ایسی عمدہ کتاب ضبط تحریر میں نہیں آئی بہرحال آپ نے روح کے موضوع پر بھی عمدہ اور جامع کلام کیا ہے ۔ (روح کی مادیت پر بحث) امام رازی (رح) نے اپنی تفسیر میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ قدیم حکماء نے روح کے موضوع پر بڑی بحث کی ہے ، ان کے زیر بحث یہ نکتہ بھی رہا ہے کہ روح متحیز ہے یا غیر متحیز یعنی یہ کسی جگہ مکان ، یا ٹھکانے میں رہتی ہے یا اسے اس کی ضرورت نہیں ، اس کے علاوہ روح کے متعلق یہ بحث بھی ہوتی رہی ہے کہ یہ قدیم ہے یا حادث یعنی کیا روح خدا تعالیٰ کی طرح قدیم ہے یا اس کی مخلوق ، بعض گمراہ فرقے روح کو بھی قدیم مانتے ہیں حالانکہ قدیم ذات صرف اللہ وحدہ لاشریک کی ہے ، باقی سب حادث یا مخلوق ہے ، ہندوؤں میں آریہ سماج فرقہ ترقی یافتہ اور جدید فرقہ سمجھا جاتا ہے جب مسلمانوں نے ہندوؤں کی بت پرستی کے خلاف مدلل آواز اٹھائی تو آریہ سماجیوں نے تینیس (33) کروڑ دیوتاؤں کا تو انکار کردیا مگر تین معبودوں میں آکر وہ بھی پھنس گئے ، انہوں نے ایک خدا کی بجائے تین چیزوں کو قدیم مانا یعنی پر ماتما (خدا تعالی) روح اور مادہ ، یہ بھی عیسائیوں کی طرح باپ بیٹا اور روح القدس کی تثلیث میں پڑگئے ۔ اس سلسلہ میں قرآن پاک کی تعلیم یہ ہے کہ قدیم ذات وہ ہے جس کی کوئی ابتداء اور کوئی انتہا نہیں اور وہ صرف ذات خداوندی ہے اس کے علاوہ ہر چیز مخلوق ہے (آیت) ” اللہ خالق کل شیئ “۔ (الرعد) ہر چیز کا خالق ، بدیع اور فاطر وہی ہے اور اپنی تمام صفات کے ساتھ وہی قدیم بھی ہے ، اس کے علاوہ کوئی چیز قدیم نہیں ، اس کے علاوہ ہر چیز حادث ہے جس پر فنا لازم ہے (آیت) ” کل من علیھا فان ، ویبقی وجہ ربک ذوالجلال والا کرام “۔ (الرحمن) اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا ہر چیز فانی ہے کچھ چیزیں فنا ہوچکی ہیں اور کچھ آگے چل کر فنا ہوجائیں گی ، ازلی ، ابدی ، دائمی اور سرمدی ذات صرف ذات خداوندی ہے ، بہرحال قدیم حکما نے اس بارے میں طویل بحثیں کی ہیں کہ روح قدیم ہے یا حادث ، انسان کے بعد روح باقی رہتی ہے یا نہیں اور پھر یہ بھی کہ روح کی سعادت اور شقاوت کیا ہے ۔ جہاں تک مادے کا تعلق ہے پرانے سائنس دان بھی اس کی قدامت کے حامی تھے ، وہ کہتے تھے کہ مادے کو نہ پیدا کیا جاسکتا ہے اور نہ فنا کیا جاسکتا ہے ، مگر اب بیسویں صدی میں جرمنی کے سائنسدان ائن سٹائن نے اس نظریے کو بھی غلط ثابت کردیا ہے ، اس نے ثابت کیا ہے کہ مادہ کوئی چیز نہیں ، مادے کو قوت میں اور قوت کو مادے میں تبدیل بھی کیا جاسکتا ہے ، اب تمام سائنسدان اس بات کو تسلیم کرچکے ہیں ، چناچہ ایٹم بم کی تھیوری اسی بنیاد پر قائم ہوئی ہے غرضیکہ مادے اور روح کی قدامت میں بھی غلط ثابت ہوچکی ہے ، قدیم صرف ذات خداوندی ہے ، جو ازلی اور ابدی ہے ۔ (شاہ ولی اللہ (رح) کا نظریہ) امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ روح ایک ایسی چیز ہے جس کے متعلق ہر ادنی ، اعلی ، پڑھا لکھا اور ان پڑھ جانتا ہے ، کہ جب یہ انسان کے جسم میں موجود ہوتی ہے تو انسان حرکت کرتا ہے ، کھاتا ، پیتا ، بولتا سنتا اور کاروبار کرتا ہے ، اور جب یہ روح انسان جسم سے نکل جاتی ہے تو انسان بےجان ہوجاتا ہے مگر فرماتے ہیں کہ اس بات میں کوئی صداقت نہیں کہ روح کی حقیقت کو کوئی نہیں جانتا ، اس نظریے کی دلیل میں کوئی قرآنی نص موجود نہیں ، البتہ حضرت اعمش (رح) کی قرات میں جو حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے منقول ہے ، اس آیت کے الفاظ (آیت) ” وما اوتیتم من العلم کو من العلم “۔ کو ، (آیت) ” وما اوتوا من العلم “۔ بھی پڑھا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ روح کے متعلق سوال کرنے والوں اور امت محمدیہ سمیت تم سب لوگوں کو اس کا بہت کم علم دیا گیا ہے ، روح کی تفصیلات کے ضمن میں شریعت بھی خاموش ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں لیا جاسکتا کہ اس سے کوئی بھی واقف نہیں ، شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ اس معاملہ میں شریعت کی خاموشی اس وجہ سے ہے کہ عام لوگوں کو روح کو علم نہیں حاصل کرنا چاہئے ، اور نہ اس کے درپے ہونا چاہئے کیونکہ ہر شخص میں ہر چیز کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہوتی ، عام لوگوں کو اجمالی طور پر صرف اتنی بات سمجھ لینی چاہئے کہ روح اللہ تعالیٰ کے امر میں سے ایک چیز ہے ، البتہ خواص کو اس کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے اس بناء پر آپ نے روح کی تشریح بیان کی ہے ۔ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ روح انسانی تین چیزوں کا مرکب ہے ان میں سے ایک چیز بمنزلہ سواری کے ہے جس پر آسمانی روح آکر سوار ہوتی ہے اس کو نسمہ کہا جاتا ہے اور اس کا ذکر حدیث شریف میں بکثرت آیا ہے ، جیسے والذی خلق وبرء النسمۃ “ یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ہے جس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور نسمے کو بھی بنایا ، نسمے سے عام طور پر روح مراد لیتے ہیں اور تعبیر میں نفس ناطقہ ، روح الہی یا روح انسانی بھی کہتے ہیں ، یہ نسمہ جسم انسانی میں اس طرح سرایت کیے ہوئے ہے جس طرح گلاب کے پھول میں اس کا عرق ہوتا ہے یا کوئلہ میں آگ ہوتی ہے نسمہ ایک لطیف بخار یا دھواں سا ہے ، جب تک یہ بخار آدمی کے جسم میں موجود ہو ، اس کی حرکت جاری رہتی ہے اور جب یہ بخار ختم ہوجائے تو آدمی بھی ختم ہوجاتا ہے ، یہ بخار یا حرارت انسان کی غذا سے پیدا ہوتا ہے خوراک انسانی معدے میں جا کر ہضم ہوتی ہے ، پھر یہ جگر میں جا کر خون میں تبدیل ہوجاتی ہے جس میں انسانی جسم کی نشونما کی ضروریات کے تمام اجزاء شامل ہوتے ہیں ، پھر جگر ، قلب اور دماغ تینوں کی شراکت سے نسمہ پیدا ہوتا ہے جس کا مکمل جوش قلب میں ہوتا ہے ، لطیف بخار کی آمیزش والا خون قلب میں پہنچ کر پمپ ہوتا ہے اور پھر سارے جسم میں پھیل جاتی ہے ، شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ روح انسانی کا تیسرا جزو نفس ناطقہ ہے جس طرح ہر انسان میں ایک روح پائی جاتی ہے ، اسی طرح پوری کائنات کی بھی ایک روح ہے جس کو نفس کل کہا جاتا ہے نفس ناطقہ دراصل نفس کل کا عکس ہوتا ہے یہ نفس کل حنطیرۃ القدس میں مجموعہ انسانیت کا ایک نمونہ (ماڈل) ہے جس کا عکس نفس ناطقہ کے نام سے انسانی روح کا تیسرا جزو بنتا ہے ، اس طرح روح سماوی اور نفس ناطقہ دونوں اجزاء نسمہ سے آکر مل جاتے ہیں ، اور روح انسانی وجود میں آجاتی ہے ۔ (روح اعظم کے ساتھ تعلق) روح الہی کے متعلق ضعیف حدیثوں میں آتا ہے جیسا کہ امام رازی (رح) نے بیان فرمایا ہے کہ اس کے ستر ہزار منہ اور ستر ہزار زبانیں ہیں دوسری روایت میں ایک ہزار منہ اور ایک ہزار زبانوں کا ذکر بھی ملتا ہے ، یہ سب انسانیت کا ایک نمونہ ہے جسے انسان اکبر یا روح اعظم بھی کہا جاتا ہے ، جب شکم مادر میں انسان کا چھوٹا سا ڈھانچہ تیار ہوجاتا ہے تو پھر روح اعظم کا ایک عکس اس کے ساتھ آکر مل جاتا ہے ، ہر انسان میں روح اعظم کے عکس در آنے کی مثال ایسی ہے جیسے کسی چیز کے سامنے آئینہ رکھ دیا جائے تو اس چیز کا عکس اس آئینے میں آجائے گا ، اب اگر اس آئینے کے سامنے مزید ہزار آئینے بھی رکھ دیے جائیں تو ہر آئینے میں اس چیز کا عکس پہنچ جائے گا ، اس طرح روح الہی کا عکس ہر انسان میں اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ آجاتا ہے ، اس طرح نفس ناطقہ کا عکس بھی اپنی تمام تر خصوصیات کے ساتھ انسانی جسم میں نسمہ کے ساتھ آکر مل جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق اس قدر پیچیدہ کی ہے کہ کوئی دوسری مخلوق اس قدر پیچیدہ نہیں ، روح انسانی کے جزونسمہ کے آگے پھر تین شعبے بن جاتے ہیں جن کو نفس ، قلب اور عقل کہا جاتا ہے ، شیطان اپنا اثر نفس کے ذریعے اثر انداز ہوتے ہیں اور عقل کا رخ خدا تعالیٰ کی تجلی اعظم کی طرف ہوتا ہے ۔ (تجلی اعظم کا عکس) انسان کے پانچ بڑے بڑے لطائف کو تو تمام حکماء تسلیم کرتے ہیں یعنی نفس ، قلب ، عقل ، روح اور سر ، اس کے بعد تمام لطائف بڑے غامض ہیں ، مثلا سر کے بعد خفی آتا ہے ، اس کے بعد اخفی ، پھر انانیت کبری ، ، پھر نور القدس اور پھر حجر بخت ، اس کی مثال ایسے ہے جیسے کسی شخص کو بہت سے پردوں والا لباس پہنا دیا جائے ایک پردہ اتاریں گے تو دوسری چیز سامنے آئے گی اور اس طرح چلتے چلتے آخر میں حجربحت آتا ہے ، یہ اتنا لطیف ہوتا ہے کہ اس میں تجلی اعظم کا عکس پڑتا ہے ، اس لیے شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ ہر انسانی قلب میں تجلی اعظم کا عکس پڑتا ہے ، یہ اس زندگی میں تو محسوس نہیں ہوتا ، مگر مرنے کے بعد جب اس عکس کی کشش تجلی اعظم کی طرف ہوگی تو انسان اسے شدت سے محسوس کرے گا ، اگر اس نے آخرت کے لیے تیاری کر رکھی ہے تو اسے سرور اور راحت حاصل ہوگی اور اگر کچھ تیاری نہیں کی تو یہی کشش اس کے لیے عذاب بن جائے گی ۔ روح الہی کو روح ملکوت بھی کہتے ہیں یہ تمام مجموعہ انسانیت کا ایک عکس ہے جس کا نمونہ حظیرۃ القدس میں رکھا ہوا ہے ، ہر انسان روح کا تجلی اعظم کے ساتھ تعلق اسی کے واسطے سے ہوتا ہے ، سعید روح سے شاہ صاحب (رح) یہی مراد لیتے ہیں کہ اس روح میں تجلی اعظم کا پورا نمونہ پایا جاتا ہے ، اس نمونہ میں جتنی کمی ہوگی اتی ہی اس روح کی سعادت میں کمی واقع ہوجائے گی ، بہرحال تجلی اعظم کے عکس کو روح الہی ، روح سماوی ، روح انسانی ، روح ملکوتی روح قدسی یا امر ربی کہا جاتا ہے ۔ (روح کے متعلق کم علمی) تو روح کے متعلق سوال کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا (آیت) ” قل الروح من امر ربی “۔ اے پیغمبر ! ﷺ آپ کہہ دیں کہ روح میرے رب کے امر سے ایک حقیقت ہے ، (آیت) ” وما اوتیتم من العلم الا قلیلا “۔ اور تم کو اس کا بہت کم علم دیا گیا ہے اللہ تعالیٰ نے تفصیل بیان نہیں فرمائی مگر اجمالی طور پر ساری بات ذکر کردی ہے جیسا کہ شان نزول کے ضمن میں عرض کیا گیا تھا کہ مشرکین کے وفد نے یہودیوں کے ایما پر حضور ﷺ سے تین سوال پوچھے تھے ان میں سے دو سوالوں کا تفصیلی جواب سورة الکہف میں آرہا ہے جب کہ تیسرے سوال یعنی روح کی حقیقت کے متعلق اجمالی طور پر ہی جواب دیا کیونکہ عام لوگوں کے فہم اس کی حقیقت کو سمجھنے کی صلاحیت نہی رکھتے ، انہیں صرف اتنا ہی جان لینا کافی ہے کہ انسان اپنے جسم میں روح کی موجودگی کی وجہ سے حس و حرکت کرتا ہے ، چلتا پھرتا ہے اور دنیا کے کام کاج انجام دیتا ہے اور جب روح انسانی جسم سے خارج ہوجاتی ہے تو جسم بےجان ہوجاتا ہے ، عام لوگ اتنی بات ہی سمجھ سکتے ہیں اس لیے اسے امر ربی سے تعبیر کیا گیا ہے ۔
Top