Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Israa : 85
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ١ؕ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا
وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور آپ سے پوچھتے ہیں عَنِ : سے۔ْمتعلق الرُّوْحِ : روح قُلِ : کہ دیں الرُّوْحُ : روح مِنْ اَمْرِ : حکم سے رَبِّيْ : میرا رب وَمَآ اُوْتِيْتُمْ : اور تمہیں نہیں دیا گیا مِّنَ الْعِلْمِ : علم سے اِلَّا : مگر قَلِيْلًا : تھوڑا سا
اور تم سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہہ دو کہ وہ میرے پروردگار کی ایک شان ہے۔ اور تم لوگوں کو (بہت ہی) کم علم دیا گیا ہے۔
(85) اے محمد ﷺ یہ لوگ آپ سے روح کی حقیقت کو پوچھتے ہیں، اہل مکہ یعنی ابوجہل اور اس کے ساتھیوں نے روح کے متعلق آپ سے دریافت کیا تھا، آپ فرما دیجیے کہ وہ میرے پروردگار کے عجائبات میں سے یا یہ اس کے علم اور حکم سے بنی ہے اور علوم خدا وندی میں سے تمہیں بہت تھوڑ اعلم دیا گیا ہے۔ شان نزول : (آیت) ”۔ ویسئلونک عن الروح“۔ (الخ) امام بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت نقل کی ہے فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں رسول اکرم ﷺ کے ساتھ مدینہ منورہ میں جارہا تھا۔ آپ کھجور کی ایک چھڑی پر ٹیک دیے ہوئے تھے، آپ کا گزر کچھ یہودیوں کے پاس سے ہوا وہ آپس میں کہنے لگے کہ ان سے کچھ پوچھو، چناچہ وہ بولے کہ ہم سے روح کے بارے میں بیان کیجیے، آپ یہ سن کر کچھ دیر کھڑے ہوئے اور اپنا سر مبارک اوپر کو اٹھایا میں سمجھ گیا کہ آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے یہاں تک کہ وحی بند ہوگئی تو آپ نے ان سے فرمایا (آیت) ”الروح من امر بن وما اوتیتم من العلم الا قلیلا“۔ اور امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ قریش نے یہود سے کہا کہ ہمیں کوئی ایسی بات بتاؤ، جو ہم اس شخص یعنی رسول اکرم ﷺ سے پوچھیں یہودیوں نے کہا کہ آپ روح کے بارے میں دریافت کرو، چناچہ قریش نے آپ سے دریافت کیا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، یعنی اور یہ لوگ آپ سے روح کو پوچھتے ہیں آپ فرمادیجیے کہ روح میرے رب کے حکم سے بنی ہے، حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ان دونوں روایتوں میں متعدد نزول کی توجیہہ سے مطابقت پیدا کی جائے گی یہی قول حافظ ابن حجر عسقلانیرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس توقع میں کہ اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں اور مزید تفصیل بتادے، اس لیے سکوت اختیار فرمایا ہو ورنہ تو پھر صحیح بخاری کی روایت زیادہ صحیح ہے۔ امام سیوطی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ صیح بخاری کی روایت کو اس حیثیت سے بھی ترجیح حاصل ہے کہ اس روایت کے راوی واقعہ کے وقت موجود ہیں، برخلاف حضرت ابن عباس ؓ کے وہ واقعہ کے وقت موجود نہیں۔
Top