Dure-Mansoor - Al-Israa : 85
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ١ؕ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا
وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور آپ سے پوچھتے ہیں عَنِ : سے۔ْمتعلق الرُّوْحِ : روح قُلِ : کہ دیں الرُّوْحُ : روح مِنْ اَمْرِ : حکم سے رَبِّيْ : میرا رب وَمَآ اُوْتِيْتُمْ : اور تمہیں نہیں دیا گیا مِّنَ الْعِلْمِ : علم سے اِلَّا : مگر قَلِيْلًا : تھوڑا سا
اور لوگ آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ فرما دیجئے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمہیں بس تھوڑا ساعلم دیا گیا ہے۔
1:۔ ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ویسئلونک عن الروح “ (کہ روح کے بارے میں) یہودیوں نے آپ سے سوال کیا تھا۔ 2:۔ احمد، بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی، ابن منذر، ابن حبان، ابن مردویہ، ابونعیم اور بیہقی دونوں نے دلائل میں ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چل رہا تھا مدینہ منورہ کی ویران جگہوں میں اور آپ کھجور کی ایک ٹہنی پر سہارے چل رہے تھے یہود کی ایک قوم سے گذرے ان کے بعض نے بعض سے کہا ان سے روح کے بارے میں سوال کرو لیکن بعض نے کہا کہ ان سے تم مت سوال کرو مگر انہوں نے آپ سے پوچھا اور کہنے لگے اے محمد ﷺ روح کیا ہے ؟ آپ برابر اس کھجور کی ٹہنی پر سہارا لگائے کھڑے رہے اور میں گمان کیا کہ آپ کی طرف وحی ہورہی ہے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری (آیت) ” ویسئلونک عن الروح، قل الروح من امر ربی وما اوتیتم من العلم الا قلیلا “ 3:۔ احمد، ترمذی، نسائی، ابن منذر، ابن حبان، ابوالشیخ نے عظمہ میں، ابن مردویہ ابونعیم اور بیہقی دونوں نے دلائل میں (حاکم اور ترمذی نے تصحیح بھی کی) ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ قریش نے یہودیوں سے کہا کوئی چیز ہم کو ایسی دو (یعنی بتلاؤ) کہ ہم اس سے اس آدمی (یعنی محمد ﷺ سے سوال کریں انہوں نے کہا ان سے روح کے بارے میں سوال کرو تو انہوں نے (جب) سوال کیا تو یہ (آیت) ” ویسئلونک عن الروح، قل الروح من امر ربی وما اوتیتم من العلم الا قلیلا “ کہنے لگے ہم کو بہت علم دیا گیا ہم کو تورات گئی اور جس کو تورات دی گئی تو اس کو خیر کثیر دی گئی تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا (آیت) ” قل لوکان البحر مدادا لکلمت ربی لنفد البحر قبل ان تنفد کلمت ربی ولو جئنا بمثلہ مددا “ روح کے متعلق یہود کا سوال کے جواب : 4:۔ ابن مردویہ نے عوفی کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ یہودیوں نے نبی کریم ﷺ سے کہا ہم کو بتائیے روح کیا چیز ہے ؟ اور کس طرح روح کو عذاب دیا جاتا ہے جو جسم میں ہے ؟ اور بلاشبہ روح اللہ کی طرف سے ہے اور اس کے بارے میں آپ پر جو کچھ نازل ہوا ؟ اور آپ ﷺ نے ان کو کوئی جواب نہیں دیا جبرائیل (علیہ السلام) تشریف لائے اور یہ حکم سنایا (آیت) ” قل الروح من امر ربی وما اوتیتم من العلم الا قلیلا “ نبی کریم ﷺ نے ان کو یہ ارشاد سنایا تو انہوں نے کہا یہ پیغام کون لے کر آیا ہے ؟ فرمایا جبرائیل (علیہ السلام) یہودیوں نے کہا اللہ کی قسم جس نے آپ کو یہ بات کہی ہے وہ ہمارا دشمن ہے تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا (آیت) ” قل من کان عدوالجبریل “ 5:۔ ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابن انباری نے کتاب الاضداد میں، ابوالشیخ نے عظمہ میں اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں علی بن ابی طالب ؓ نے (آیت) ” ویسئلونک عن الروح “ کے بارے میں فرمایا کہ روح فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہے جس کے ستر ہزار چہرے ہیں، ہر منہ میں ستر ہزار زبانیں ہیں اور ہر نماز کی ستر ہزار لغت ہیں ان ساری لغات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتا ہے۔ ہر تسبیح کے ساتھ اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ پیدا فرماتے ہیں جو فرشتوں کے ساتھ اڑتا رہے گا قیامت کے دن تک۔ 6:۔ ابن منذر ابن ابی حاتم اور ابوالشیخ نے عطاء کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ویسئلونک عن الروح، قل الروح “ میں روح ایک فرشتہ ہے جس کے دس ہزار پر ہیں ان میں سے دو پر مشرق اور مغرب کے درمیان ہیں اور اس کے ہزار منہ ہیں ہر میں کے لئے ایک زبان دو آنکھیں اور ہونٹ ہیں جو قیامت کے دن تک اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہیں۔ 7:۔ عبد بن حمید اور ابوالشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ روح خدا تعالیٰ کے امر میں سے ایک امر ہے اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں ایک مخلوق ہے اللہ تعالیٰ نے ان کی صورتیں آدم کی صورت پر بنائی اور جو فرشتہ آسمان سے نازل ہوتا ہے تو اس کے ساتھ روح میں ایک ہوتا ہے پھر یہ (آیت) ” یوم یقوم الروح والملائکۃ صفا (النباء 38) “ پڑھی۔ 8:۔ ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ ابن عباسؓ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” ویسئلونک عن الروح، قل الروح من امر ربی “ کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا یہ مقام اور مرتبہ پایا نہیں جاسکتا بس تم اس پر زیادتی نہ کرو پس تم اتنا کہو جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور نبی کریم ﷺ کو سکھایا (آیت) ” وما اوتیتم من العلم الا قلیلا “ 9:۔ ابن ابی حاتم اور ابوالشیخ نے عبداللہ بن بریدہ (رح) سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ اس دنیا سے اٹھالئے گئے اور آپ روح کے بارے میں کچھ نہ جانتے تھے۔ 10:۔ ابن ابی حاتم نے یزید بن زیادرحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ ان کو یہ بات پہنچی کہ دو آدمیوں نے اس آیت کے بارے میں اختلاف کیا یعنی (آیت) ” وما اوتیتم من العلم الا قلیلا “ ان میں سے ایک نے کہا کہ اس سے مراد اہل کتاب ہیں اور دوسرے نے کہا وہ محمد ﷺ مراد ہیں ان میں سے ایک ابن مسعود ؓ کے پاس گیا انہوں نے فرمایا کیا تو نے سورة بقرہ نہیں پڑھی اس نے کہا جی ہاں تو فرمایا سورة بقرہ میں کون ساعلم نہیں ہے بلاشبہ اس سے مراد یہود ہیں۔ 11:۔ بیہقی نے الاسماء والصفات میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ویسئلونک عن الروح ، “ میں روح سے مراد فرشتہ ہے۔ 12:۔ ابن عساکر نے عبدالرحمان بن عبداللہ بن ام الحکم التقضی ؓ سے رویت کیا کہ اس درمیان کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ کی ایک گلی میں تھے کہ یہودی آپ کو پیش آگئے اور کہا اے محمد ﷺ روح کیا چیز ہے ؟ اور آپ کے ہاتھ میں کھجور کی ایک ٹہنی تھی آپ اس پر سہارا لے رہے تھے آپ ﷺ نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا پھر فرمایا (آیت) ” ویسئلونک عن الروح “ سے لے کر ” قلیلا “ تک۔ 13:۔ ابن انباری نے کتاب الاضداد میں مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ روح کو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ساتھ پیدا فرمایا ان کو فرشتے بھی نہیں دیکھتے جیسے تم فرشتوں کو نہیں دیکھتے اور فرمایا کہ روح ایک ایسی چیز ہے جس کا علم اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ مخصوص رکھا ہے اور اپنی مخلوق میں سے کسی کو اس کا علم عطا نہیں فرمایا اور وہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے (آیت) ” ویسئلونک عن الروح، قل الروح من امر ربی “۔ 14:۔ ابوالشیخ نے سلمان فارسی ؓ سے روایت کیا کہ انسان اور جن دس اجزاء ہیں انسان ایک جزء ہے اور جن نوا اجزاء ہیں فرشتے اور جن دس اجزء تھے جن ان میں سے ایک جزء ہے اور فرشتے نو اجزاء ہیں فرشتے اور روح دس اجزاء ہیں اس میں سے فرشتے ایک جزء ہیں اور روح نواجزاء ہیں پھر روح اور کروبیون دس اجزاء ہیں روح ان میں سے ایک جزء ہے اور کروبیون نو اجزاء ہیں۔ 15:۔ ابن اسحاق اور ابن جریر نے عطاء بن یسار (رح) سے روایت کیا کہ یہ (آیت) ” وما اوتیتم من العلم الا قلیلا “ مکہ میں نازل ہوئی جب رسول اللہ ﷺ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی تو یہودیوں کے بڑے علماء آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے اے محمد ہم کو یہ خبر پہنچی ہے کہ آپ یہ فرماتے ہیں (آیت) ” وما اوتیتم من العلم الا قلیلا “ اس سے آپ نے ہماری ذات مراد لی ہے یا پنی قوم کی ؟ فرمایا ہرگز نہیں میں نے تمہاری قوم مراد لی ہے یہود نے کہا آپ تلاوت کرتے ہیں کہ ہم کو تورات دی گئی اور اس میں ہر چیز کا بیان ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ (تمہارا علم) اللہ کے علم میں تھوڑا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہم کو وہ عطاء فرمایا ہے جس پر تم نے عمل کیا اور نفع اٹھایا تو اس پر اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا (آیت) ” ولوان ما فی الارض من شجرۃ اقلام “ سے لے کر (آیت) ” ان اللہ سمیع بصیر “ تک۔ 16:۔ ابن جریر اور ابن منذر ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وما اوتیتم من العلم الا قلیلا “ محمد اور سارے لوگ مراد ہیں۔ 17:۔ ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وما اوتیتم من العلم الا قلیلا “ سے مراد ہے یہودی۔
Top