Tafseer-e-Jalalain - Al-Israa : 85
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ١ؕ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا
وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور آپ سے پوچھتے ہیں عَنِ : سے۔ْمتعلق الرُّوْحِ : روح قُلِ : کہ دیں الرُّوْحُ : روح مِنْ اَمْرِ : حکم سے رَبِّيْ : میرا رب وَمَآ اُوْتِيْتُمْ : اور تمہیں نہیں دیا گیا مِّنَ الْعِلْمِ : علم سے اِلَّا : مگر قَلِيْلًا : تھوڑا سا
اور تم سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہہ دو کہ وہ میرے پروردگار کی ایک شان ہے۔ اور تم لوگوں کو (بہت ہی) کم علم دیا گیا ہے۔
آیت نمبر 85 تا 93 ترجمہ : یہود آپ سے روح کے بارے میں جس کے ذریعہ جسم انسانی زندہ ہوتا ہے سوال کرتے ہیں آپ ان کو جواب دیجئے کہ روح میرے رب کا حکم ہے جس کی حقیقت وہ جانتا ہے تم نہیں جانتے، اور اس کے علم کی نسبت سے تمہیں بہت ہی کم دیا گیا اور اگر ہم چاہیں تو جو وحی ہم نے آپ کی طرف بھیجی ہے یعنی قرآن کو سلب کرلیں بایں طور کہ اس کو سینوں سے اور مصاحف سے مٹا دیں پھر آپ کو اس کیلئے ہمارے مقابلہ میں کوئی حمایتی میسر نہ ہو لیکن اس کو تیرے رب کی طرف سے رحمت کے طور پر باقی رکھا ہے یقیناً آپ پر اس کا بڑا ہی فضل ہے، اس لئے کہ اس نے اس کو آپ پر نازل کیا اور مقام محمود آپ کو عطا کیا اور اس کے علاوہ دیگر فضائل بھی ( عطا فرماکر) آپ کہہ دیجیئے کہ اگر انسان اور جنات اس بات پر متفق ہوجائیں کہ فصاحت و بلاغت میں اس قرآن کا مثل لے آئیں تو وہ اس کا مثل نہیں لاسکتے اگرچہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے مددگارہو جائیں ، (یہ آیت) ان کے اس قول کے جواب میں نازل ہوئی کہ، اگر ہم چاہیں تو ہم بھی ایسا کلام لاسکتے ہیں، ہم نے تو اس قرآن میں لوگوں کے سمجھنے کیلئے ہر قسم کی مثالیں بیان کردیں ہیں (من کل مثل) مثلاً ، محذوف کی صفت ہے ای مثلا من جنس کل مثل تاکہ اس سے نصیحت حاصل کریں، (ہر نوح کے عمدہ عمدہ مضامین بیان کئے ہیں) مگر اہل مکہ میں سے اکثر لوگ حق کے انکار سے باز نہیں آتے، انہوں نے کہا کہ ہم آپ پر ہرگز ایمان لانے والے نہیں تاوقتیکہ آپ زمین سے ہمارے لئے کوئی چشمہ جاری نہ کردیں ایسا چشمہ کہ اس سے پانی جاری ہو یا خود آپ کیلئے کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ ہو اور اس کے درمیان آپ نہریں جاری کردکھائیں یا تو آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہمارے اوپر گرا دیں جیسا کہ تیرا دعویٰ ہے یا خدا اور فرشتوں کو ہمارے روبرو لے آؤ جن کو ہم بچشم سر دیکھیں یا تیرے لئے سونے کا ایک گھر ہو یا تو آسمان پر سیڑھی کے ذریعہ چڑھ جائے اور اگر تو آسمان پر چڑھ بھی جائے تو ہم تیرے چڑھنے کا یقین نہ کریں گے تاوقتیکہ تو ایک تحریر نہ لے آئے جس میں تیرے (چڑھنے کی) تصدیق ہو جس کو ہم پڑھیں، (اے محمد ﷺ تم ان سے کہو پاک ہے میرا پروردگار یہ اظہار تعجب ہے میں تو صرف دیگر رسولوں کی طرح پیغام لانے والا ایک انسان ہوں اور وہ بھی کوئی معجزہ اللہ کی اجازت کے بغیر نہیں لائے۔ تحقیق و ترکیب و تفسیری فوائد قولہ : عن الروح، ای عن حقیقۃ الروح۔ قولہ : عَلِمَہٗ ، یعنی الروح من الامور الّتی خصَّ اللہ نَفسَہٗ بعلمِہٖ ، فالامر بمعنی الشان، ای الروح من شان ربی۔ قولہ : بالنسبۃ الی علمہ تعالیٰ یہ اس شبہ کا جواب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ومن یُؤتَ الحکمۃ فقد اوتی خیراً کثیراً اور یہاں فرمایا ” ما اوتیتم من العلم الا قلیلاً “ دونوں میں تعارض ہے۔ جواب : جواب کا حاصل یہ ہے کہ پوری کائنات کا علم اللہ کے علم کے مقابلہ میں قلیل ہے۔ قولہ : لام قسمٍ یہ حذف قسم پر دال ہے لَنَذْھَبَنَّ جواب قسم ہے جو کہ جواب شرط کے قائم مقام بھی ہے، اور بعض حضرات نے ذھبنا بہ جواب شرط محذوف مانا ہے۔ قولہ : لکن ابقیناہ اِلاَّ کی تفسیر لکن سے کرکے اشارہ کردیا کہ یہ مستثنیٰ منقطع ہے نہ کہ متصل اسلئے کہ اِلاَّ کا ماقبل رحمت کی جنس سے نہیں ہے۔ قولہ : ابقیناہ، ابقیناہ محذوف مانا تاکہ کلام تام ہوجائے اس لئے کہ اس کے بغیر کلام نا تمام ہے۔ قولہ : صفۃ لمحذوف یہ اس سوال کا جواب ہے کہ بینا، متعدی بنفسہٖ ہے اس کو من کے ذریعہ متعدی کرنے کی ضرورت نہیں ہے، جواب یہ ہے کہ اس کا مفعول محذوف ہے اور وہ مثلاً ہے اور من کلّ مثلٍ ، کائنًا کے متعلق ہو کر مفعول محذوف کی صفت ہے۔ قولہ : اِلاَّ کفوراً ۔ سوال : جب ضربت اِلاَّ زیدًا جائز نہیں تو پھر ابی اکثر الناس اِلاَّ کفوراً ، کیوں درست ہے ؟ یہ تو مثبت میں مستثنیٰ مفرغ واقع ہے اور یہ جائز نہیں ہے۔ جواب : ابیٰ نفی کا فائدہ دے رہا ہے گویا کہ کہا گیا فلم یرضوا اِلاَّ کفورا، (فارسی میں ترجمہ) پس قبول نہ کرو بیشتر مرد ماں مگر نا سپاسی را۔ قولہ : عطف علیٰ قالوا، یعنی مستثنیٰ پر عطف نہیں ہے جس کی وجہ سے معنی کا فساد لازم آئے۔ تفسیر و تشریح روح کیا ہے ؟ روح وہ لطیف شئ ہے جو کسی کو نظر نہیں آتی لیکن ہر جاندار کی قوت و توانائی اسی روح کے اندر مضمر ہے، اس کی حقیقت و ماہیت کیا ہے ؟ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، یہود نے بھی روح کے متعلق آپ ﷺ سے سوال کیا تھا تو آیت یسئلونک عن الروح الخ نازل ہوئی۔ یہاں روح سے کیا مراد ہے : قرآن کریم میں روح کا اطلاق متعدد معنی پر ہوا ہے ایک معنی تو معروف ہیں یعنی جس پر کسی بھی حیوان کی زندگی کا مدار ہوتا ہے، دوسرے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کیلئے استعمال ہوا ہے قال اللہ تعالیٰ نَزَل بہ الروح الامین علی قلبک، تیسرے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کیلئے بھی روح کا لفظ کئی آیات میں بولا گیا ہے، اور قرآن کیلئے بھی روح کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جیسا کہ اَوْحینا الیک روحًا من امرنا میں بعض مفسرین نے سیاق وسباق کی رعایت سے یہ سوال وغی اور قرآن یا وحی لانے والے فرشتے جبرائیل کے متعلق قرار دیا ہے اسلئے کہ اس سے پہلے ” نُنَزِّلُ من القرآن “ میں قرآن کا ذکر تھا اور بعد کی آیات میں پھر قرآن کا ذکر ہے اس سیاق وسباق کی مناسبت سے یہ سمجھا کہ اس آیت میں مذکورہ روح سے بھی وحی، قرآن، یا جبرئیل ہی مراد ہیں، اور مطلب سوال کا یہ ہوگا کہ آپ پر وحی کس طرح آتی ہے ؟ کون لاتا ہے ؟ قرآن کریم نے اس کے جواب میں اس پر اکتفا کیا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے وحی آتی ہے تفصیلات اور کیفیات کا ذکر نہیں کیا۔ مرفوع حدیث میں مذکور شان نزول : احادیث صحیحہ مرفوعہ میں جو شان نزول مذکور ہے اور اسبات میں صریح ہے کہ سوال روح حیوانی کے بارے میں تھا کہ وہ کیا چیز ہے ؟ بدن انسانی میں کس طرح آتی ہے ؟ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کی ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ ایک روز مدینہ کے غیر آباد حصہ میں چل رہے تھے میں بھی آپ کے ساتھ تھا، آپ کے دست مبارک میں کھجور کی سوکھی شاخ تھی آپ کا گذر چند یہودیوں پر ہوا، یہ لوگ آپس میں کہنے لگے محمد ﷺ آرہے ہیں ان سے روح کے متعلق سوال کرو بعض نے منع کیا مگر ایک شخص نے سوال کر ہی ڈالا، یہ سوال سن کر رسول اللہ ﷺ لکڑی پر ٹیک لگا کر خاموش کھڑے ہوگئے جس سے مجھے اندازہ ہوگیا کہ آپ پر وحی نازل ہونے والی ہے کچھ دیر کے بعد وحی نازل ہوئی تو آپ نے آیت ” یسئلونک عن الروح “ پڑھ کر سنائی یہاں ظاہر ہے کہ قرآن یا وحی کو روح کہنا یہ قرآن کی ایک خاص اصطلاح ہے، مشرکین کے سوال کو اس پر محمول کرنا بہت بعید ہے، البتہ روح حیوانی و انسانی کا معاملہ ایسا ہے کہ اس کا سوال ہر شخص کے دل میں پیدا ہوتا ہی ہے، اسلئے جمہور مفسرین، ابن کثیر، ابن جریر، قرطبی روح المعانی سب ہی نے اس کو صحیح قرار دیا ہے کہ سوال روح حیوانی ہی کی حقیقت کے متعلق تھا، رہایہ سوال کہ سیاق وسباق میں ذکر قرآن کا چلا آرہا ہے، درمیان میں روح کا سوال بےجوڑ ہے تو اس کا جواب واضح ہے کہ اس سے پہلے آیات میں کفار مشرکین کی مخالفت اور معاندانہ سوالات کا ذکر آیا ہے جن کا مقصد رسول اللہ ﷺ کا دوبارۂ رسالت امتحان کرنا تھا یہ سوال بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے اس لئے بےجوڑ نہیں، خصوصاً شان نزول کے متعلق ایک دوسری صحیح روایت منقول ہے اس میں یہ بات زیادہ وضاحت سے آئی ہے کہ سوال کرنے والوں کا مقصد رسول اللہ ﷺ کی رسالت کا امتحان لینا تھا، چناچہ مسند احمد میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ قریش مکہ جو رسول اللہ ﷺ سے جا اور بےجا ہر قسم کے سوالات کرتے رہتے تھے انہوں نے سوچا کہ یہود اہل علم ہیں ان کو گذشتہ کتابوں کا بھی علم ہے ان سے کچھ سوالات حاصل کئے جائیں جن کے ذریعہ رسول اللہ ﷺ کا امتحان لیا جائے اسلئے قریش نے یہود سے سوالات دریافت کرنے کے لئے اپنے آدمی بھیجے انہوں نے کہا کہ تم ان سے روح کے متعلق سوال کرو (ابن کثیر) اور حضرت ابن عباس ؓ ہی سے اس آیت کی تفسیر میں یہ بھی نقل کیا گیا ہے کہ یہود نے رسول اللہ ﷺ سے اپنے سوال میں یہ بھی کہا تھا کہ آپ ہمیں یہ بتلائیں کہ روح پر عذاب کس طرح ہوتا ہے، اس وقت تک رسول اللہ ﷺ پر اس بارے میں کوئی بات نازل نہ ہوئی تھی اسلئے اس وقت فوری جواب نہیں دیا پھر جبرئیل امین یہ آیت لے کر نازل ہوئے ” قل الروح من امر ربی “۔ (معارف) واقعہ سوال، مکہ میں پیش آیا یا مدینہ میں : حضرت عبد اللہ بن مسعود کی روایت کے مطابق یہ واقعۂ سوال مدینہ میں پیش آیا اسلئے بعض مفسرین نے اس آیت کو مدنی قرار دیا ہے، اور ابن عباس کی روایت کا تعلق مکہ سے ہے ابن کثیر نے اسی احتمال کو راجح قرار دیا ہے اور ابن مسعود ؓ کی روایت کا یہ جواب دیا ہے کہ ممکن ہے کہ اس آیت کا نزول مدینہ میں دوسری مرتبہ ہوا ہو سوال مذکور کا جواب : مذکورہ سوال کا جواب قرآن مجید نے یہ دیا ہے ” قل الروح من امر ربی “ اس جواب کی تشریح میں قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے جو طریقہ اختیار کیا وہ یہ ہے کہ اس جواب میں جتنی بات کا بتلانا ضروری تھا اور جو عام لوگوں کی سمجھ میں آنے کے قابل ہے صرف وہ بتلا دی گئی اور روح کی مکمل حقیقت جس کا سوال تھا اس کو اسلئے نہیں بتلایا گیا کہ وہ عوام کی سمجھ سے بالاتر تھی اور اس کی کوئی ضرورت اس کے سمجھنے پر موقوف بھی نہیں تھی، یہاں آپ ﷺ کو یہ حکم ہوا کہ آپ ان کے جواب میں یہ فرما دیجئے کہ روح میرے پروردگار کے حکم سے ہے یعنی وہ عام مخلوقات کی طرح نہیں کہ جو مادہ کے قطروں اور توالد و تناسل کے ذریعہ وجود میں آتی ہے بلکہ وہ بلاواسطہ حق تعالیٰ کے حکم ” کن “ سے پیدا ہونے والی چیز ہے۔ روح کی حقیقت کا علم کسی کو ہوسکتا ہے یا نہیں ؟ قرآن کریم نے اس سوال کا جواب مخاطب کی ضرورت اور فہم کے مطابق دیدیا، حقیقت روح کو بیان نہیں فرمایا، مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ روح کی حقیقت کوئی سمجھ ہی نہیں سکتا، اور یہ کہ رسول اللہ ﷺ کو بھی روح کی حقیقت معلوم نہیں تھی، صحیح بات یہ ہے کہ یہ آیت اس کی نہ نفی کرتی ہے اور نہ اثبات، اگر کسی نبی یا رسول کو وحی کے ذریعہ، کسی ولی کو کشف والہام کے ذریعہ اس کی حقیقت معلوم ہوجائے تو اس آیت کے خلاف نہیں، بلکہ عقل اور فلسفہ کی رو سے بھی اس پر کوئی بحث و تحقیق کی جائے تو اس کو فضول اور لا یعنی تو کہا جاسکتا ہے مگر ناجائز نہیں کہا سکتا، اسی لئے بہت سے علماء متقدمین اور متاخرین نے روح کے متعلق مستقل کتابیں لکھی ہیں آکر دور میں شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی (رح) تعالیٰ نے ایک مختصر رسالے میں اس مسئلہ کو بہترین انداز سے لکھا ہے اور اس میں جس قدر حقیقت عام انسان کیلئے سمجھنا ممکن ہے وہ سمجھا دی ہے جس پر ایک تعلیم یافتہ انسان قناعت کرسکتا ہے اور شبہات و اشکالات سے بچ سکتا ہے۔ روح عقل و نقل کی روشنی میں : ویسئلونک عَن الروح : ” اور سوال کرتے ہیں تجھ سے روح کی نسبت “۔ یعنی روح انسانی کیا چیز ہے، اس کی ماہیت و حقیقت کیا ہے : یہ سوال صحیحین کی روایت کے موافق یہود مدینہ نے آنحضرت ﷺ کے آزمانے کو کیا تھا اور ” سیر “ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ” قریش “ نے یہود سے یہ سوال کیا تھا، اسی لئے آیت کے ” مکی “ اور ” مدنی “ ہونے میں اختلاف ہے، ممکن ہے کہ نزول مکرر ہوا ہو، واللہ اعلم، یہاں اس سوال کے درج کرنے سے غالباً یہ مقصود ہوگا کہ جن چیزوں کے سمجھنے کی ان لوگوں کو ضرورت ہے، ادھر سے تو اعراض کرتے ہیں اور غیر ضروری مسائل میں ازراہ تعنت وعناد جھگڑتے رہتے ہیں، ضرورت اس کی تھی کہ وحی قرآنی کی روح سے باطنی زندگی حاصل کرتے اور اس نسخۂ شفا سے فائدہ اٹھاتے۔ وَکَذَالِکَ اَوْ حَیْنَا اِلَیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا (شوری) ، یُنَزِّلُ الْمَلَائِکَۃَ بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِہٖ عَلیٰ مَنْ یَّشَاءُ مِنْ عِبَادِہٖ ۔ (نحل) ۔ (مگر انہیں دوراز کار اور معاندانہ بحثوں سے فرصت کہاں ؟ ) روح کیا ہے، جو ہر ہے یا عرض ؟ مادی ہے یا مجرد ؟ بسیط ہے یا مرکب ؟ اس قسم کے غامض اور بےضرورت مسائل کے سمجھنے پر نہ نجات موقوف ہے، نہ یہ بحثیں انبیاء کے فرائض تبلیغ میں داخل ہیں، بڑے بڑے حکماء اور فلاسفر آج تک خود ” مادہ “ کی حقیقت پر مطلع نہ ہوسکے، روح جو بہر حال مادّہ سے کہیں زیادہ لطیف وخفی ہے اس کی ماہیت وکنہ تک پہنچنے کی پھر کیا ُ مید کی جاسکتی ہے ؟ مشرکین مکہ کی جہالت اور یہود مدینہ کی اسرائیلیات کا مطالعہ کرنے والوں کو معلوم ہے کہ جو قوم موٹی موٹی باتوں اور نہایت واضح حقائق کو نہیں سمجھ سکتی وہ ” روح “ کے حقائق پر دسترس پانے کی کیا خاک استعداد و اہلیت رکھتی ہوگی۔ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ ، کہہ دے روح میرے رب کے حکم سے ہے۔ موضح القرآن میں ہے کہ حضرت کے آزمانے کو یہود نے پوچھا سو اللہ تعالیٰ نے (کھول کر) نہ بتایا کیونکہ اس کو سمجھنے کا حوصلہ نہ تھا، آگے پیغمبروں نے بھی مخلوق سے ایسی باریک باتیں نہیں کہیں، اتنا جاننا کافی ہے کہ اللہ کے حکم سے ایک چیز بدن میں آپڑی وہ جی اٹھا، جب نکل گئی وہ مرگیا۔ الفاظ قرآنی کی سطح کے نیچے عمیق حقائق مستور ہیں : حق تعالیٰ کا کلام اپنے اندر عجیب و غریب اعجاز رکھتا ہے، روح کے متعلق یہاں جو کچھ فرمایا اسکا سطحی مضمون عوام اور قاصر الفہم یا کج رومعاندین کیلئے کافی ہے، لیکن اسی سطح کے نیچے، ان ہی مختصر الفاظ کی تہ میں روح کے متعلق وہ بصیرت افروز حقائق مستور ہیں جو بڑے سے بڑے عالی دماغ نکتہ رس فلسفی اور ایک عارف کامل کی راہ طلب و تحقیق کیلئے چراغ ہدایت کا کام دیتی ہیں۔ ” روح “ کے متعلق عہد قدیم سے جو سلسلہ تحقیقات کا جاری ہے وہ آج تک ختم نہیں ہوا اور نہ شاید ہو سکے، روح کی اصلی کنہ و حقیقت تک پہنچنے کا دعویٰ تو بہت مشکل ہے، کیونکہ ابھی تک کتنی ہی محسوسات ہیں جن کی کنہ و حقیقت معلوم کرنے سے ہم عاجز رہے ہیں، تاہم میرے نزدیک آیات قرآنیہ سے روح کے متعلق چند نظریات پر صاف روشنی پڑتی ہے۔ روح قرآنی کے متعلق چند نظریات : (1) انسان میں اس مادی جسم کے علاوہ کوئی اور چیز موجود ہے، جسے روح کہتے ہیں، وہ ” عالم امر “ کی چیز ہے اور خدا کے حکم سے فائض ہوتی ہے۔ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ (بنی اسرائیل) ، خَلَقَہٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ (آل عمران) ، ثُمَّ اَنْشَأنَاہُ خَلْقًا اٰخَرَ ، فَتَبَارَکَ اللہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ (المؤمنون) اِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَئٍ اِذَا اَرَدْنَاہُ اَنْ نقولَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ (نحل) ۔ (2) روح کی صفاتِ علم و شعور وغیرہ بتدریج کمال کو پہنچتی ہیں اور ارواح میں حصول کمال کے اعتبار سے بیحد تفاوت اور فرق مراتب ہے حتی کہ خدا تعالیٰ کی تربیت سے ایک روح ایسے بلند اور اعلیٰ مقام پر پہنچ جاتی ہے جہاں دوسری ارواح کی قطعاً رسائی نہ ہو سکے جیسے روح محمدی ﷺ کی نسبت ہمارا اعتقاد ہے۔ محققین کہتے ہیں کہ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ میں امر کی اضافت رب کی طرف اور رب کی یاء متکلم کی طرف جس سے مراد نبی کریم ﷺ ہیں اس طرف مشیر ہے کیونکہ امام راغب (رح) تعالیٰ کی تصریح کے موافق رب اس ہستی کو کہتے ہیں جو کسی چیز کو بتدریج حدّ کمال تک پہنچائے جہاں تک پہنچنے کی اس میں استعداد پائی جاتی ہو، چناچہ دیکھ لو نبی کریم ﷺ کی اعلیٰ استعداد کے موافق اللہ نے آپکو حسیّ و معنوی حیثیت سے کس قدر بلند مقام پر پہنچایا، آپ کو علوم و معارف سے بھری ہوئی وہ کتاب مرحمت فرمائی جسکی نسبت ارشاد فرماتے ہیں۔ قُلِ لَّئِنِ اجْتَمعتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ ۔ (الآیۃ) ( سورة بنی اسرائیل) اور حسی طور پر آپ کو شب معراج میں سدرۃ المنتہیٰ سے بھی اوپر لے گئے جہاں تک کسی نبی یا فرشتے کو عروج میسر نہ ہوا تھا۔ (3) مگر روح کے یہ کمالات ذاتی نہیں، وہاب حقیقی کے عطا کئے ہوئے اور محدود ہیں چناچہ وَمَا اُوْتِیٌتُمٌ مِنَ الْعِلْمِ اِلاَّ قَلِیْلاً سے معلوم ہوا کہ علم کسی اور کا دیا ہوا ہے اور جو علم تم کو دیا گیا وہ سب، دینے والے کے علم کے سامنے نہایت قلیل اور محدود ہے، قُلْ لَوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّکَلِمَاتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ یَمٗدُّہٗ مِنْ بَعْدِہٖ سَبْعَۃُ اَبْحُرٍ مَا نَفِدَتْ کَلِمَاتُ اللہِ (لقمان) اسی طرح آگے مشرکین کے قول لَنْ نُؤْمِنَ لَکَ حَتٰی تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرضِ یَنْبُوْعًا کے جواب میں قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ ھَلْ کُنْتُ اِلاَّ بَشَرًا رَسُوْلاً ، فرمانا اس کی دلیل ہے کہ علم کی طرح بشر کی قدرت بھی بہر حال محدود و مستعار ہے۔ ” خلق “ کیا ہے ؟ اس مثال سے یہ بات واضح ہوگئی کہ مشین کا ڈھانچہ تیار کرنا اس کے پرزوں کا ٹھیک انداز رکھنا، پھر فٹ کرنا ایک سلسلہ کے کام ہیں جس کی تکمیل کے بعد مشین کو چالو کرنے کے لئے ایک دوسری چیز بجلی یا اسٹیم اس کے خزانہ سے لانے کی ضرورت ہے اسی طرح سمجھ لو کہ حق تعالیٰ نے اول آسمان و زمین کی تمام مشینیں بنائیں جس کو ” خلق “ کہتے ہیں، ہر چھوٹا بڑا پرزہ ٹھیک اندازہ کے مطابق تیار کیا جس کو ” تقدیر “ کیا گیا ہے قَدَّرَہٗ تَقْدِیْرًا سب کل پرزوں کو جوڑ کر مشین کو فٹ کیا جسے ” تصویر “ اور ” تسویہ “ کہتے ہیں خَلَقْنٰکُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰکُمْ اور فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ یہ سب افعال خلق کی مد میں تھے۔ ” امر “ کیا ہے ؟ اب ضرورت تھی کہ جس مشین کو جس کام میں لگانا ہے، لگا دیا جائے مشین کو چالو کرنے کیلئے، ” امر الٰہی “ کی بجلی چھوڑ دی گئی شاید اس کا تعلق اسم باری سے ہے اَلْخَالِقُ الْبَارِئُ المُصَورُ وفی الحدیث فَلقَ الحَبَّۃَ وبَرأ النسمۃ وفی سورة الحدید مِنْ قَبْلِ اَنْ بَّبْرَأَھَا ای النفوس کما ھو مروی عن ابن عباس وقتادۃ والحسن۔ غرض ادھر سے حکم ہوا ” چل “ فوراً چلنے لگی، اسی ” امر الٰہی “ کو فرمایا اِنَّمَا اَمْرُہٗ اِذَا اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ دوسری جگہ نہایت وضاحت کے ساتھ امر کن کو خلق جسد پر مرتب کرتے ہوئے ارشاد ہوا خَلَقَہٗ مِنْ تُرَاب ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنَ بلکہ تتبع سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں ” کُنْ فَیَکُوْنُ “ کا مضمون جتنے مواضع میں آیا عموماً خلق اور ابداع کا ذکر کے بعد آیا ہے جس سے خیال گذرتا ہے کہ کلمہ ” کن “ کا خطاب ” خلق “ کے بعد تدبیر و تصرف وغیرہ کیلئے ہوتا ہوگا۔ (واللہ اعلم) روح کا مبدأ صفت کلام ہے : بہرحال میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ” امر “ کے معنی یہاں حکم کے ہیں اور وہ حکم یہی ہے جسے لفظ ” کن “ سے تعبیر کیا گیا، اور کن جنس کلام سے ہے جو حق تعالیٰ کی صفت قدیمہ ہے جس طرح ہم اس کی تمام صفات (مثلاً حیات، سمع، بصر وغیرہ) کو بلا کیف تسلیم کرتے ہیں، کلام اللہ اور کلمۃ اللہ کے متعلق بھی یہی مسلک رکھنا چاہیے۔ خلاصہ یہ ہوا کہ ” روح “ کے ساتھ اکثر جگہ قرآن میں ” امر “ کا لفظ استعمال ہوا ہے مثلاً قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ ، وکَذَالِکَ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ رُوْحًا مِنْ اَمْرِنَا، یُلْقِی الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِہٖ عَلیٰ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ ، یُنَزِّکُ الْملٰئِکَۃَ بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِہٖ عَلیٰ مَنْ یَّشَاءُ مِنْ عِبَادِہٖ اور پہلے گذر چکا کہ ” امر “ عبارت ہے کلمۂ کن سے یعنی وہ کلام انشائی جس سے مخلوقات کی تدبیر و تصریف اس طریقہ پر کی جائے جس سے غرض ایجاد وتکوین مرتب ہو، لہٰذا ثابت ہوا کہ روح کا مبدأ حق تعالیٰ کی صفت قدیم کلام ہے جو صفت علم وحیات کے ماتحت ہے، شاید اسی حیثیت کا لحاظ کرتے ہوئے نَفَخْتُ فِیْدِ مِنْ رُوْحِیْ میں اسے اپنی طرف منسوب کیا ہے، کیونکہ ” کلام “ اور ” امر “ کی نسبت متکلم و آمر سے صادر ومصدر کی ہوتی ہے مخلوق و خالق کی نہیں ہوتی، اسی لئے الا لَہُ الخَلْقُ وَالاَمْرُ میں امر کو خلق کے مقابل رکھا ہاں یہ امر ” کن “ باری تعالیٰ شانہٗ سے صادر ہو کر ممکن ہے کہ جو ہر مجرد کے لباس میں یا ایک ملک اکبر اور روح اعظم کی قدرت میں ظہور پکڑے جس کا ذکر بعض آثار میں ہوا ہے اور جسے کم کہربائیہ روحیہ کا خزانہ کہہ سکتے ہیں۔ گویا یہیں سے روح حیات کی لہریں دنیا کی ذوی الارواح پر تقسیم کی جاتی ہیں اور الَارْوَاحُ جُنُوْدٌ مُّجَنَّدَۃٌ الخ کے بیشمار تاروں کا یہیں سے کنکشن ہوتا ہے، اب جو کرنٹ چھوٹی بڑی مشینوں کی طرف چھوڑا جاتا ہے وہ ہر مشین سے اس کی بناوٹ اور استعداد کے موافق کام لیتا اور اسکی ساخت کے مناسب حرکت دیتا ہے، بلکہ جن لیمپوں اور قمقموں میں یہ بجلی پہنچتی ہے انہی کے مناسب رنگ وہیئت اختیار کرلیتی ہے۔ روح کا مبدأ صفت کلام ہے پھر وہ جو ہر مجردو جسم لطیف کیونکر بن گئی ؟ رہی یہ بات کہ ” کن “ (ہوجا) کا حکم جو قسم کلام ہے جو ہر مجرد جسم نورانی لطیف کی شکل کیونکہ اختیار کرسکتا ہے، اسے یوں سمجھ لو کہ تمام عقلاء اس پر متفق ہیں، کہ ہم خواب میں جو اشکال و صور دیکھتے ہیں بعض اوقات وہ محض ہمارے خیالات ہوتے ہیں جو دریا، پہاڑ، شیر، چیتے وغیرہ کی شکلوں میں نظر آتے ہیں۔ اب غور کرنے کا مقام ہے کہ خیالات جو اعراض ہیں اور دماغ کے ساتھ قائم ہیں، وہ جواہر و اجسام کیونکر بن گئے، اور کس طرح ان میں اجسام کے لوازم و خواص پیدا ہوگئے، یہاں تک کہ بعض مرتبہ خواب دیکھنے والے سے بیدار ہونے کے بعد بھی آثار و لوازم جدا نہیں ہوتے۔ خواب کی مثال سے مطلب کی تفہیم : فی الحقیقت خدا تعالیٰ نے ہر انسان کو خواب کے ذریعہ سے بڑی بھاری ہدایت کی ہے کہ جب ایک آدمی کی قوت مصورہ میں اس نے اد قدر طاقت رکھی ہے کہ وہ اپنی بساط کے موافق غیر مجسم خیالات کو جسمی سانچہ میں ڈھال لے اور ان میں وہی خواص و آثار باذن اللہ پیدا کرلے جو عالم بیداری میں اجسام سے وابستہ تھے، پھر تماشہ یہ ہے کہ وہ خیالات خواب دیکھنے والے کے دماغ سے ایک منٹ کو علیحدہ بھی نہیں ہوئے ان کا ذہنی وجود بدستور قائم ہے، تو کیا اس حقیر سے نمونہ کو دیکھ کر ہم اتنا نہیں سمجھ سکتے کہ ممکن ہے قادر مطلق اور مصور برحق جل و علا کا امر بےکیف (کن) باوجود صفت قائمہ بذاتہ تعالیٰ ہونے کے کسی ایک یا متعدد صورتوں میں جلوہ گر ہوجائے ان صورتوں کو ہم ارواح یا فرشتے یا کسی اور نام سے پکاریں۔ روح حادث ہے اور اس کا مبدأ (امرِ رب) قدیم ہے : وہ ارواح ملائکہ وغیرہ سب حادث ہوں اور امر الٰہی بحالہٖ قائم رہے، امکان و حدوث کے احکام و آثار ارواح وغیرہ تک محدود ہیں اور ” امر الٰہی “ ان سے پاک برتر ہو جیسے جو صورت خیالیہ بحالت خواب مثلاً آگ کی صورت میں نظر آتی ہے اس صورت ناریہ میں احراق، سوزش، گرمی وغیرہ سب آثار ہم محسوس کرتے ہیں، حالانکہ اسی آگ کا تصور سالہا سال بھی دماغوں میں رہے تو ہمیں ایک لمحہ کیلئے یہ آثار محسوس نہیں ہوتے۔ ظاہر اور مظہر کے احکام جُدا جدا ہیں : پس کوئی شبہ نہیں کہ روح انسانی (خواہ جو ہر مجرد ہو یا جسم لطیف نورانی) امر ربی کا مظہر ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ مظہر کے تمام احکام و آثار ظاہر پر جاری ہوں کما ہوا لظاہر واضح رہے کہ جو کچھ ہم نے لکھا اور جو مثالیں پیش کیں ان سے مقصود محض تسہیل و تقریب الی الفہم ہے ورنہ ایسی کوئی مثال دستیاب نہیں ہوسکتی جو ان حقائق غیبیہ پر پوری طرح منطبق ہو۔ روح جوہر مجرد ہے یا جسم لطیف ؟ رہا یہ مسئلہ روح جو ہر مجرد ہے جیسا کہ اکثر حکماء قدیم اور صوفیہ کا مذہب ہے یا جسم نورانی لطیف جیسا کہ جمہور اہلحدیث کی رائے ہے اس میں میرے نزدیک قول فیصل وہی ہے جو بقیۃ السلف بحر العلوم حضرت علامہ سید محمد انور شاہ صاحب (رح) تعالیٰ نے فرمایا کہ بالفاظِ عارف جامی (رح) تعالیٰ یہاں تین چیزیں ہیں۔ (1) وہ جواہر جن میں مادہ اور کمیت دونوں ہوں جیسے ہمارے ابدان مادیہ۔ (2) وہ جواہر جن میں مادہ نہیں صرف کمیت ہے جنہیں صوفیہ ” اجسام مثالیہ “ کہتے ہیں۔ (3) وہ جواہر جو مادہ اور کمیت دونوں سے خالی ہوں جن کو صوفیہ ” ارواح “ یا حکماء جواہر مجردو کے نام سے پکارتے ہیں۔ پس جمہور اہل شرع جس کو ” روح “ کہتے ہیں وہ صوفیہ کے نزدیک بدن مثالی سے موسوم ہے جو بدن مادی میں حلول کرتا ہے اور بدن مادی کی طرف آنکھ ناک ہاتھ پاؤں وغیرہ اعضاء رکھتا ہے۔ روح کا بدن سے جدا ہونا موت کو مستلزم نہیں : یہ روح بدن سے کبھی جدا ہوجاتی ہے اور اس جدائی کی حالت میں بھی ایک طرح کا مجہول الکیف علاقہ بدن کے ساتھ قائم رکھتی ہے جس سے بدن پر حالت موت طاری نہیں ہونے پاتی، گویا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے قول کے موافق جو بغوی نے اللہ یَتَوَفَّی حِیْنَ مَوْتِھَا وَالَّتِیْ کَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِھَا کی تفسیر میں نقل کیا ہے اس وقت روح خود علیحدہ رہتی ہے مگر اس کی شعاع جسد میں پہنچ کر بقاء حیات کا سبب بنتی ہے جیسے آفتاب لاکھوں میل سے بذریعہ شعاعوں کے زمین کو گرم رکھتا ہے یا جیسا کہ حال ہی میں فرانس کے محکمہ پرواز نے ہوا بازوں کے بغیر طیارے چلا کر خفیہ تجربے کئے ہیں اور تعجب خیز نتائج رونما ہوئے، اطلاع موصول ہوئی ہے کہ حال میں ایک خاص بم پھینکنے والا طیارہ بھیجا گیا تھا جس میں کوئی شخص سوا نہ تھا لیکن لاسلکی کے ذریعہ سے وہ منزل مقصود پر پہنچایا گیا، اس طیارہ میں بم بھر کر وہاں گرائے گئے اور پھر وہ مرکز میں واپس لایا گیا، دعویٰ کیا جاتا ہے کہ لاسلکی کے ذریعہ سے ہوائی جہاز نے خودبخود جو کام کیا وہ ایسا ہی مکمل ہے جیسا کہ ہوا باز کی مدد سے عمل میں آتا۔ آج کل یورپ میں جو سوسائٹیاں روض کی تحقیقات کر رہی ہیں انہوں نے بعض ایسے مشاہدات بیان کئے ہیں جن میں روح جسم سے علیحدہ تھی اور روح کی ٹانگ پر حملہ کرنے کا اثر جسم مادی کی ٹانگ پر ظاہر ہوا، بہرحال اہل شرع جو روح ثابت کرتے ہیں صوفیہ کو اسکا انکار نہیں بلکہ وہ اس کے اوپر ایک اور روح مجرد مانتے ہیں جس میں استحالہ نہیں بلکہ اس روح مجرد کی بھی اگر کوئی اور روح ہو اور آخر میں کثرت کا سارا سلسلہ سمٹ کر امر ربی کی وحدت پر مبنی ہوجائے تو انکار کی ضرورت نہیں۔ روح ہر چیز میں ہے اور ہر چیز کو ایک حیثیت سے زندہ یا مُر دہ کہہ سکتے ہیں : مذکورہ بالا تقریر سے یہ نکلتا ہے کہ ہر چیز میں جو ” کن “ کی مخاطب ہوئی روح حیات پائی جائے بیشک میں یہی سمجھتا ہوں کہ مخلوق کی ہر نوع کو اس کی استعداد کے موافق قوی یا ضعیف زندگی ملی ہے یعنی جس کام کیلئے وہ چیز پیدا کی گئی ڈھانچہ تیار کرکے اس کو حکم دینا ” کن “ (اس کام میں لگ جا) بس یہی اس کی روح حیات ہے، جبتک اور جس حد تک یہ اپنی غرض ایجاد کو پورا کریگی اسی حد تک زندہ سمجھی جائے گی، اور جس قدر اس سے بعید ہو کر معطل ہوتی جائے گی، اسی قدر موت سے نزدیک یا مردہ کہلائے گی۔ یہ مضمون بہت طویل اور محتاج بسط و تفصیل ہے، ہم نے اہل علم و فہم کیلئے اپنی بساط کے موافق کچھ اشارے کر دئیے ہیں، شاید قرآن مجید پر نکتہ چینی کرنے والے اصحاب اتنا سمجھ لیں کہ روح کے متعلق بھی قرآن حکیم میں وہ رموز و حقائق بیان ہوئے ہیں جن کا عشر عشیر دوسری آسمانی کتاب میں بیان نہیں ہوا۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم وھو الملھم للصواب۔ (خطبات عثمانی ملخصا) فائدۂ جلیلہ : امام بغوی نے اس مقام پر حضرت عبد اللہ بن عباس سے ایک مفصل روایت اس طرح نقل فرمائی ہے کہ یہ آیت مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی جبکہ مکہ کے قریشی سرداروں نے جمع ہو کر مشورہ کیا کہ محمد ﷺ ہمارے اندر پیدا ہوئے اور جواب ہوئے ان کی امانت و دیانت اور سچائی میں کبھی کسی کو شبہ نہیں ہوا اور کبھی ان کے متعلق جھوٹ بولنے کی تہمت بھی کسی نے نہیں لگائی اور اس کے باوجود اب جو دعوائے نبوت وہ کر رہے ہیں وہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا، اس لئے ایسا کرو کہ اپنا ایک وفد مدینہ کے علماء یہود کے پاس بھیج کر ان سے ان کے بارے میں تحقیقات کرو چناچہ قریش کا ایک وفد علماء یہود کے پاس مدینہ پہنچا، علماء یہود نے ان کو مشورہ دیا کہ تمہیں تین چیزیں بتلاتے ہیں تم ان سے ان تینوں کا سوال کرو اگر انہوں نے تینوں کا جواب دیدیا تو وہ نبی نہیں اسی طرح اگر تینوں میں سے کسی کا جواب نہ دیا تو بھی نبی نہیں، اور اگر دو کا جواب دیا اور تیسری کا نہ دیا تو سمجھ لو کہ وہ نبی ہیں اور وہ تین سوال یہ بتلائے ایکؔ تو تم ان سے ان لوگوں کا حال معلوم کرو جو قدیم زمانہ میں شرک سے بچنے کیلئے کسی غار میں چھپ گئے تھے کیونکہ ان کا واقعہ عجیب ہے، دوسرےؔ اس شخص کا حال معلوم کرو جس نے زمین کے مشرق و مغرب کا سفر طے کیا کہ اس کا کیا واقعہ ہے، تیسرےؔ روح کے متعلق سوال کرو کہ اس کی حقیقت کیا ہے ؟ یہ وفد آپ کی خدمت میں واپس آیا اور مذکورہ تینوں سوال آپ ﷺ کے سامنے پیش کر دئیے، آپ نے فرمایا کہ میں ان کا جواب کل دوں گا مگر اس پر انشاء اللہ نہیں کہا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چند روز تک وحی کا سلسلہ بند ہوگیا بارہ پندرہ سے لے کر چالیس دن کی روایات ہیں جن میں سلسلہ وحی بند رہا، قریش مکہ کو طعن وتشنیع کا موقع ملا، کہ کل جواب دینے کو کہا تھا آج اتنے دن گذر گئے جواب نہیں ملا رسول اللہ ﷺ کیلئے بھی پریشانی ہوئی پھر حضرت جبرئیل امین یہ آیت لے کر نازل ہوئے ” ولا تقولنَّ لشئٍ انی فاعل ذلک غدًا الا ان یشاء اللہ “ جس میں آپ کو یہ تلقین کی گئی کہ آئندہ کسی کام کے کرنے کا وعدہ کیا جائے تو انشاء اللہ کہہ کر کیا جائے اور اس کے بعد روح کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی جو اوپر گذر چکی ہے اور غار میں چھپنے والوں کے متعلق اصحاب کہف کا واقعہ اور مشرق سے مغرب تک سفر کرنے والے ذوالقرنین کا واقعہ پوری تفصیل کے ساتھ جواب میں بیان فرمایا گیا اور روح کے متعلق جو حقیقت کا سوال تھا اس کا جواب نہیں دیا گیا، جس سے یہود کی بتلائی ہوئی علامت صدق نبوت کی ظاہر ہوگئی، اس واقعہ کو ترمذی نے مختصراً بیان کیا ہے۔ (مظہری) بےسروپا معاندانہ سوالات کا پیغمبر انہ جواب : وقالوا کن نؤمن۔۔۔۔ ینبوعًا، آیات مذکورہ میں جو سوالات اور فرمائشیں رسول اللہ ﷺ سے اپنے ایمان لانے کی شرط قرار دیکر کی گئیں وہ سب ایسی ہیں کہ ہر انسان ان کو سنکر ایک قسم کا تمسخر اور ایمان نہ لانے کے بیہودہ بہانے کے سوا کچھ نہیں سمجھ سکتا، ایسے سوالات کے جواب میں انسان کو فطرۃً غصہ آتا ہے اور جواب بھی اسی انداز کا دیتا ہے مگر ان آیات میں ان کے بیہودہ سوالات کا جو جواب حق تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو تلقین فرمایا وہ قابل نظر اور مصلحین امت کے لئے ہمیشہ یادگار اور لائحہ عمل بنانے کی چیز ہے کہ ان سب کے جواب میں نہ ان کی بےوقوفی کا اظہار کیا گیا نہ ان کی معاندانہ شرارت کا، نہ ان پر کوئی فقرہ کسا گیا، بلکہ نہایت سادہ الفاظ میں اصل حقیقت کو واضح کردیا گیا کہ تم لوگ شاید یہ سمجھتے ہو کہ جو شخص خدا کا رسول ہو کر آئے وہ سارے خدائی اختیارات کا مالک اور ہر چیز پر قادر ہونا چاہیے یہ تخیل غلط ہے، اور رسول کا کام صرف اللہ کا پیغام پہنچانا ہے، اللہ تعالیٰ ان کی رسالت کو ثابت کرنے کیلئے بہت سے معجزات بھی بھیجتے ہیں مگر وہ سب کچھ محض اللہ کی قدرت و اختیار سے ہوتا ہے، رسول تو ایک انسان ہی ہوتا ہے اور انسانی قوت وقدرت سے باہر نہیں ہوتا الا یہ کہ اللہ تعالیٰ ہی اس کی امداد کیلئے اپنی قوت قاہرہ کو ظاہر کر دے۔
Top