Madarik-ut-Tanzil - Al-Israa : 85
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ١ؕ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا
وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور آپ سے پوچھتے ہیں عَنِ : سے۔ْمتعلق الرُّوْحِ : روح قُلِ : کہ دیں الرُّوْحُ : روح مِنْ اَمْرِ : حکم سے رَبِّيْ : میرا رب وَمَآ اُوْتِيْتُمْ : اور تمہیں نہیں دیا گیا مِّنَ الْعِلْمِ : علم سے اِلَّا : مگر قَلِيْلًا : تھوڑا سا
اور تم سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہہ دو کہ وہ میرے پروردگار کی ایک شان ہے۔ اور تم لوگوں کو (بہت ہی) کم علم دیا گیا ہے۔
روح کا سوال : 85: وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ قُلِ (اور آپ سے روح کے متعلق وہ سوال کرتے ہیں آپ کہہ دیں) الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ (روح میرے رب کا حکم ہے) یعنی ایسے معاملات میں سے ہے جس کو میرا رب جانتا ہے۔ جمہور کا قول : حیوان میں جو روح پائی جاتی ہے اس کے متعلق انہوں نے سوال کیا تھا کہ اس کی حقیقت کیا ہے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اطلاع دی کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے یعنی ان چیزوں میں سے جس کا حقیقی علم اس ہی کے پاس ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے آپ ﷺ دنیا سے تشریف لے گئے۔ اور روح کے متعلق نہ جانتے تھے۔ (واحدی فی الوسیط) پہلے لوگ اس کی حقیقت کو دریافت کرنے سے عاجز و درماندہ ہوئے باوجودیکہ انہوں نے اپنی طویل عمریں اس کی تفتیش و دریافت میں صرف کردیں۔ اور حکمت اس میں یہ ہے کہ مخلوق تو اپنے سے قریب ترین مخلوق کی حقیقت کو دریافت کرنے سے عاجز ہے۔ پس وہ اللہ کی ذات کا ادراک کرنے سے بدرجہ اولی عاجز تر ہے۔ اسی وجہ سے اس کی تعریف میں جو کچھ کہا گیا وہ قابل رد ہے۔ نمبر 1۔ کہ وہ ایک لطیف ہوائی جسم ہے جو حیوان کے ہر جزء میں پایا جاتا ہے۔ نمبر 2۔ وہ فرشتے سے بڑی روحانی مخلوق ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے۔ روح سے جبرئیل (علیہ السلام) مراد ہیں۔ جیسا دوسری آیت میں فرمایا : نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ ] الشعراء : 193 [ حضرت حسن (رح) کہتے ہیں اس سے قرآن مراد ہے اس کی دلیل اس آیت میں ہے کہ : وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا 1 ] الشوری : 52[ اور دوسری دلیل ہے کہ قرآن سے دلوں کو زندگی میسر آتی ہے۔ مِنْ اَمْرِرَبِّیْ یعنی اس کی وحی سے اللہ تعالیٰ کا کلام انسانوں جیسا کلام نہیں۔ روایت میں ہے کہ یہود نے ایک وفد قریش کی طرف بھیجا۔ کہ اپنے پیغمبر سے تم تین سوال کرو۔ نمبر 1۔ اصحاب کہف کون تھے۔ نمبر 2۔ ذوالقرنین بادشاہ کی مہم جوئی۔ نمبر 3۔ روح کی حقیقت کیا ہے اگر وہ تمام کا جواب نہ دیں تو وہ پیغمبر نہیں اور اگر بعض کا جواب دیں اور بعض سے خاموش رہیں تو وہ پیغمبر ہیں۔ پس آپ نے دونوں واقعات کو ان کے سامنے واضح طور پر بیان کردیا۔ اور روح والے جواب کو مبہم رکھا۔ یہ تورات میں بھی مبہم ہے۔ پس قریش کو اپنے سوالات پر خفت ہوئی۔ بعض کہتے ہیں کہ سوال روح کی تخلیق کے متعلق تھا۔ یعنی وہ مخلوق ہے یا غیر۔ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان من امر ربی۔ یہ روح کے مخلوق ہونے کی دلیل ہے پس یہ ان کے سوال کا جواب ہوا۔ انسانی علم قلیل ہے : وَمَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلاً (اور تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا) اس میں خطاب عام ہے۔ روایت میں وارد ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب ان کو یہ پڑھ کر سنایا تو وہ کہنے لگے یہ خطاب ہمیں خاص کر کیا گیا یا آپ اس خطاب میں ہمارے ساتھ ہیں۔ آپ نے فرمایا بلکہ ہم اور تم دونوں کو تھوڑا ہی علم دیا گیا۔ ] رواہ الثعلبی[ نمبر 2۔ یہ خصوصًا یہود کو خطاب ہے کیونکہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو کہا ہمیں تورات کا علم دیا گیا جس میں حکمت ہے۔ اور تم نے خود تلاوت کی ہے وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کثیْرًا (البقرۃ 249) کہ جس کو حکمت مل جائے وہ خیر کثیر پالیتا ہے۔ اس کے جواب میں انہیں کہا گیا تورات کا علم اللہ تعالیٰ کے علم کے مقابلہ میں قلیل ہے۔ پس قلت و کثرت تو اضافی چیزیں ہیں۔ اس لئے بندے کو جو خیر کثیر میسر آئی ذاتی اعتبار میں وہ اگرچہ کثیر ہے مگر اس کا تقابل جب علم الہٰی سے ہوگا تو اس وقت وہ قلیل درقلیل واقع ہوگی۔
Top