Tafheem-ul-Quran - Al-Israa : 80
وَ قُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًا
وَقُلْ : اور کہیں رَّبِّ : اے میرے رب اَدْخِلْنِيْ : مجھے داخل کر مُدْخَلَ : داخل کرنا صِدْقٍ : سچا وَّاَخْرِجْنِيْ : اور مجھے نکال مُخْرَجَ : نکالنا صِدْقٍ : سچا وَّاجْعَلْ : اور عطا کر لِّيْ : میرے لیے مِنْ لَّدُنْكَ : اپنی طرف سے سُلْطٰنًا : غلبہ نَّصِيْرًا : مدد دینے والا
اور دُعا کرو کہ پروردگار ، مجھ کو جہاں بھی تُو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال،99 اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنادے۔100
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل 99 اس دعا کی تلقین سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہجرت کا وقت اب بالکل قریب آ لگا تھا۔ اس لیے فرمایا کہ تمہاری دعا یہ ہونی چاہیے کہ صداقت کا دامن کسی حال میں تم سے نہ چھوٹے، جہاں سے بھی نکلو صداقت کی خاطر نکلو اور جہاں بھی جاؤ صداقت کے ساتھ جاؤ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل 100 یعنی یا تو مجھے خود اقتدار عطا کر، یا کسی حکومت کو میرا مددگار بنا دے تاکہ اس کی حمایت سے میں دنیا کے اس بگاڑ کو درست کرسکوں، فواحش اور معاصی کے اس سیلاب کو روک سکوں، اور تیرے قانون عدل کو جاری کرسکوں۔ یہی تفسیر ہے اس آیت کی جو حسن بصری اور قتادہ رحمہما اللہ نے کی ہے، اور اسی کو ابن جریر اور ابن کثیر رحمہما اللہ جیسے جلیل القدر مفسرین نے اختیار کیا ہے، اور اسی کی تائید نبی ﷺ کی یہ حدیث کرتی ہے کہ اِنَّ اللہَ لَیَزَعُ بالسُّلطَانِ مَا لَا یَزَعُ بالقُرْاٰنِ ، یعنی " اللہ تعالیٰ حکومت کی طاقت سے ان چیزوں کا سدباب کردیتا ہے جن کا سد باب قرآن سے نہیں کرتا "۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام دنیا میں جو اصلاح چاہتا ہے وہ صرف وعظ و تذکیر سے نہیں ہو سکتی بلکہ اس کو عمل میں لانے کے لیے سیاسی طاقت بھی درکار ہے۔ پھر جبکہ یہ دعا اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو خود سکھائی ہے تو اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اقامت دین اور نفاذ شریعت اور اجرائے حدود اللہ کے لیے حکومت چاہنا اور اس کے حصول کی کوشش کرنا نہ صرف جائز بلکہ مطلوب و مندوب ہے اور وہ لوگ غلطی پر ہیں جو اسے دنیا پرستی یا دنیا طلبی سے تعبیر کرتے ہیں۔ دنیا پرستی اگر ہے تو یہ کہ کوئی شخص اپنے لیے حکومت کا طالب ہو۔ رہا خدا کے دین کے لیے حکومت کا طالب ہونا تو یہ دنیا پرستی نہیں بلکہ خدا پرستی ہی کا عین تقاضا ہے۔ اگر جہاد کے لے تلوار کا طالب ہونا گناہ نہیں ہے تو اجرائے احکام شریعت کے لیے سیاسی اقتدار کا طالب ہونا آخر کیسے گناہ ہوجائے گا ؟
Top