Tadabbur-e-Quran - Al-Israa : 80
وَ قُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًا
وَقُلْ : اور کہیں رَّبِّ : اے میرے رب اَدْخِلْنِيْ : مجھے داخل کر مُدْخَلَ : داخل کرنا صِدْقٍ : سچا وَّاَخْرِجْنِيْ : اور مجھے نکال مُخْرَجَ : نکالنا صِدْقٍ : سچا وَّاجْعَلْ : اور عطا کر لِّيْ : میرے لیے مِنْ لَّدُنْكَ : اپنی طرف سے سُلْطٰنًا : غلبہ نَّصِيْرًا : مدد دینے والا
اور دعا کرو کہ اے میرے رب مجھے داخل کر عزت کا داخل کرنا اور مجھے نکال عزت کا نکالنا اور مجھے خاص اپنے پاس سے مددگار قوت نصیب کر
وَقُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِيْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِيْ مُخْــرَجَ صِدْقٍ وَّاجْعَلْ لِّيْ مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِيْرًا۔ لفظ " قل " یہاں دعا کرنے کے مفہوم میں ہے۔ اس مفہوم میں یہ لفظ قرآن میں جگہ جگہ آیا ہے۔ ملاحظہ ہو آیت 29 مومنون۔ لفظ صدق کی اصل روح، جیسا کہ ہم دوسرے مقام میں واضح کرچکے ہیں، عزت، رسوخ اور استحکام ہے۔ " سلطان " کے معنی غلبہ اور تمکن کے ہیں۔ قرب ہجرت کا اشارہ اور ایک عظیم بشارت : اوپر کی آیات سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ حالات اتنے سخت ہوچکے تھے کہ اب آنحضرت ﷺ کے لیے مکہ سے ہجرت ناگزیر ہوچکی تھی لیکن اللہ کا رسول اللہ کے اذن کے بغیر ہجرت نہیں کرتا۔ اس وجہ سے آں حضرت ﷺ اپنی دعوت اور اپنے مقام پر ڈٹے رہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ آپ کو یہ دعا تلقین کی گئی جس میں نہ صرف یہ کہ قرب ہجرت کی طرف اشارہ ہے بلکہ یہ بشارت بھی مضمر ہے کہ آپ کے نکلنے سے پہلے ہی آپ کے دخل ہونے کا انتظام کرلیا گیا ہے، آپ کا نکلنا اور داخل ہونا دونوں عزت و قار اور رسوخ و استحکام کے ساتھ ہوگا اور یہ کہ اس سفر میں غلبہ اور نصرت الٰہی کا خاص خدائی بدرقہ آپ کے ہم رکاب ہوگا۔ دعا میں اَدْخِلْنِيْ مُدْخَلَ صِدْقٍ کا اخرجنی پر مقدم ہنوا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تمہارے داخلہ کا انتظام تمہارے نکلنے سے پہلے ہی ہوچکا ہے اور " من لدنک " کے الفاظ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ گو ظاہری حالات کیسے ہی نامساعد و مخالف ہوں لیکن تمہارا رب اپنے پاس سے تمہارے لیے سارے انتظام فرمائے گا۔ غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ ظاہری الفاظ کے اعتبار سے تو یہ ایک دعا ہے جو آپ کو تلقین فرمائی گئی ہے لیکن حقیقت میں یہ ایک عظیم بشارت ہے جو نہایت پر خطر حالات میں آپ کو دی گئی۔ پھر ہجرت کے سفر کی سرگزشت اور مدینہ کے حضور کے داخلہ کے حالات پڑھیے تو معلوم ہوگا کہ خلق نے اس بشارت کے ایک ایک لفظ کو عملاً ظہور میں آتے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
Top