Al-Quran-al-Kareem - Al-Israa : 80
وَ قُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًا
وَقُلْ : اور کہیں رَّبِّ : اے میرے رب اَدْخِلْنِيْ : مجھے داخل کر مُدْخَلَ : داخل کرنا صِدْقٍ : سچا وَّاَخْرِجْنِيْ : اور مجھے نکال مُخْرَجَ : نکالنا صِدْقٍ : سچا وَّاجْعَلْ : اور عطا کر لِّيْ : میرے لیے مِنْ لَّدُنْكَ : اپنی طرف سے سُلْطٰنًا : غلبہ نَّصِيْرًا : مدد دینے والا
اور کہہ اے میرے رب ! داخل کر مجھے سچا داخل کرنا اور نکال مجھے سچا نکالنا اور میرے لیے اپنی طرف سے ایسا غلبہ بنا جو مددگار ہو۔
وَقُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِيْ مُدْخَلَ صِدْقٍ۔۔ : اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ اور آپ کے ہر امتی کو یہ دعا سکھائی کہ اے میرے رب ! تو مجھے دنیا و آخرت میں جس جگہ بھی داخل کرے باعزت اور آبرو مندانہ طریقے سے داخل کر اور جس جگہ سے بھی نکالے باعزت طریقے سے نکال اور میرے لیے دلیل وبرہان کے ساتھ قوت و سلطنت کا ایسا غلبہ عطا فرما جو میرا مددگار ہو۔ دلیل کے غلبے کے لیے دعوت اور سلطنت کے غلبے کے لیے جہاد ضروری ہے، جس کا پہلا قدم دار الکفر سے ہجرت ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ آیت اس وقت اتری جب آپ ﷺ کو ہجرت کا حکم دیا گیا، چناچہ یہ دعا قبول ہوئی اور آپ آبرو مندانہ طور پر مدینہ وارد ہوئے، انصار سے اور مہاجرین سے دین کی مدد بھی ہوئی۔ ”سُلْطٰنًا نَّصِيْرًا“ سے اس آیت میں مراد قوت و سلطنت کا غلبہ ہے، کیونکہ دلیل وبرہان میں تو آپ مکہ میں بھی ہر وقت غالب تھے۔ کوئی شخص سورة کوثر جیسی ایک سورت بھی نہ بنا سکا تھا، اب عناد اور ضد سے اکڑی ہوئی گردنوں کے لیے جہاد کی ضرورت تھی، جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے رسولوں کے ساتھ ساتھ لوہا بھی نازل فرمایا۔ دیکھیے سورة حدید (25) کی تفسیر۔ اہل حق کے لیے حق سے دشمنی رکھنے والوں پر غلبہ حاصل کرنا فرض ہے، تب ہی وہ اسلام کو تمام ادیان پر غالب کرسکتے ہیں اور اپنی سلطنت ہی میں وہ پورے اسلام پر عمل کرسکتے ہیں جو اب صرف مسجد، نکاح اور جنازے وغیرہ تک رہ گیا ہے۔ بعض اہل علم نے فرمایا : ”إِنَّ اللّٰہَ لَیَزَعُ بالسُّلْطَانِ مَا لَا یَزَعُ بالْقُرْآنِ“ ”اللہ تعالیٰ سلطان کے ذریعے سے ان فواحش اور گناہوں سے روک دیتا ہے جن کے ارتکاب سے بہت سے لوگ قرآن سننے کے باوجود باز نہیں آتے۔“
Top