Tafseer-e-Madani - Al-Israa : 80
وَ قُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًا
وَقُلْ : اور کہیں رَّبِّ : اے میرے رب اَدْخِلْنِيْ : مجھے داخل کر مُدْخَلَ : داخل کرنا صِدْقٍ : سچا وَّاَخْرِجْنِيْ : اور مجھے نکال مُخْرَجَ : نکالنا صِدْقٍ : سچا وَّاجْعَلْ : اور عطا کر لِّيْ : میرے لیے مِنْ لَّدُنْكَ : اپنی طرف سے سُلْطٰنًا : غلبہ نَّصِيْرًا : مدد دینے والا
اور یہ دعاء کرتے رہا کرو کہ میرے رب ! مجھے (جہاں بھی لے جانا ہو) سچائی کے ساتھ لے جانا، اور (جہاں سے بھی نکالنا ہو) سچائی کے ساتھ نکالنا اور مجھے اپنی طرف سے ایسا غلبہ عطا فرما جس کے ساتھ (تیری دائمی) نصرت شامل ہو،
145۔ پیغمبر کو ایک خاص دعاء کی تعلیم و تلقین :۔ سو اس سے پیغمبر کو ہجرت سے قبل ایک خاص دعاء کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے کہ ” اے میرے رب مجھے سچائی کے ساتھ لے جانا اور سچائی کے ساتھ نکالنا “ خواہ وہ مکہ مکرمہ سے خروج اور مدینہ طیبہ کا دخول ہو یا قبر کا دخول اور حشر کا خروج و قیام وغیرہ کہ کلمات کریمہ کا عموم وشمول ان سب ہی کو حاوی و محیط ہے۔ اگرچہ یہ دعاء حضرت حق جل مجدہ کی طرف سے آپ ﷺ کو ہجرت سے قبل تعلیم و تلقین فرمائی گئی تھی اس لئے اس کا اولین مصداق تو ہجرت مدینہ ہی ہے مگر الفاظ کا عموم ایسے تمام ہی مواقع کو عام اور شامل ہے اور حضور کے توسط سے آپ ﷺ کی امت کے ہر شخص کیلئے بھی یہ تعلیم و تلقین ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعاء کرتارہا کرے وباللہ التوفیق بہرکیف جب آنحضرت ﷺ کی مکہ مکرمہ سے ہجرت ناگزیر ہوگئی لیکن اللہ کا رسول اللہ کے اذن کے بغیر ہجرت نہیں کرتا اس لئے آپ سب مشکلات اور اہل کفر وباطل کی جملہ فتنہ سامانیوں اور ایذاء رسانیوں کے باوجود اپنے موقف پر ڈٹے رہے تاآنکہ آپ کو اپنے رب کی طرف سے اس دعاء کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی جس میں نہ صرف یہ کہ ہجرت کی طرف اشارہ تھا بلکہ یہ بشارت بھی مضمر تھی کہ آپ کے اپنے وطن مالوف سے نکلنے سے پہلے ہی آپ کے داخل ہونے کا انتظام کرلیا اور یہ کہ آپ کا نکلنا اور داخل ہونا دونوں ہی عزت ووقار اور رسوخ واستحکام کے ساتھ ہوں گے جیسا کہ بعد میں بالفعل ہوا، مدینہ منورہ میں پہلی اسلامی حکومت قائم ہوئی، مکہ مکرمہ فتح ہوا اور اسلام کا نور چاردانگ پھیلا، اور ظلمت شرک کا وہاں سے ہمیشہ ہمیش کیلئے خاتمہ ہوگیا، والحمد وللہ جل وعلا۔ 146۔ اللہ تعالیٰ کے حضور نصرت والے غلبے کی دعاء و درخواست :۔ سو اس ارشاد سے آنحضرت ﷺ کو اللہ تعالیٰ سے نصرت والے غلبے کی دعاودرخواست تعلیم و تلقین فرمائی گئی۔ یعنی ” ایسا غلبہ عطا فرما جو حق اور اہل حق کے غلبے اور ان کی عزت و عظمت کا باعث بنے۔ چناچہ ایسے ہی ہوا۔ اللہ پاک کی نصرت و عنایت سے اسلام کو جملہ ادیان پر غلبہ نصیب ہوا اور مسلمانوں کی عزت و عظمت کو استحکام ملا۔ فالحمد للہ رب العالمین۔ سو اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ پیغمبر مختار کل نہیں ہوتا کیونکہ اختیار کلی اور دعا کے درمیان منافات ہے۔ جو مختار کل ہوتا ہے وہ کسی سے مانگتا نہیں ہے اور جو دوسرے سے مانگتا اور دعا کرتا ہے وہ مختار کل نہیں ہوسکتا۔ پس پیغمبر کا کام ہے اپنے خالق ومالک سے مانگنا اور بس۔ آگے اس کی دعا کو قبول کرنا یا نہ کرنا اس مالک مختار کے حوالے اس کی مشیت ومرضی پر موقوف اور اسی کے قبضہ قدرت واختیار میں ہوتا ہے۔ وہ جو چاہے اور جب چاہے قبول فرمائے۔ جیسا کہ اس کے مختلف نمونے خود قرآن پاک کے اندر موجود ہیں اور نہ چاہے تو نہ قبول فرمائے جیسا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا ان کے والدین کیلئے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعا ان کے بیٹے کیلئے اور خود سرکاردوعالم کی دعا اپنے چچا ابو طالب کیلئے قبول نہیں فرمائی گئی۔ جیسا کہ قرآن وسنت کی مختلف نصوص کریمہ میں اس کی پوری صراحت و وضاحت موجود مذکور ہے۔ بہرکیف پیغمبر کو ہجرت مدینہ سے پہلے اس خاص دعا کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی جس میں ایک عظیم الشان بشارت بھی مضمر تھی جو بعد میں سفر ہجرت کے دوران حرف بحرف پوری ہوئی اور ظاہر ہے کہ یہ اسی نصرت خداوندی کا نتیجہ تھا جس کی تعلیم و تلقین آنحضرت ﷺ کو فرمائی تھی۔
Top