Fi-Zilal-al-Quran - Al-Israa : 80
وَ قُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًا
وَقُلْ : اور کہیں رَّبِّ : اے میرے رب اَدْخِلْنِيْ : مجھے داخل کر مُدْخَلَ : داخل کرنا صِدْقٍ : سچا وَّاَخْرِجْنِيْ : اور مجھے نکال مُخْرَجَ : نکالنا صِدْقٍ : سچا وَّاجْعَلْ : اور عطا کر لِّيْ : میرے لیے مِنْ لَّدُنْكَ : اپنی طرف سے سُلْطٰنًا : غلبہ نَّصِيْرًا : مدد دینے والا
اور دعا کرو کہ پروردگار ، مجھ کو جہاں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنا دے۔
وقل رب ……نصیرا (71 : 08) ۔ ” اور دعا کرو ، کہ پروردگار مجھ کو جہاں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنا دے “۔ یہ دعا ہے جو اللہ اپنے نبی ﷺ کو سکھاتا ہے تاکہ وہ ان الفاظ میں اللہ کو پکارے۔ اور آپ ﷺ کے بعد آپ کی امت کو بھی معلوم ہو کہ وہ کس طرح اللہ کو پکارے اور کن معاملات میں اللہ کی طرف متوجہ ہو ، سچائی کے ساتھ دخول اور سچائی کے ساتھ خروج کی دعا کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ میرا دل اور آخر ، اور اولیٰ اور آخری کے مابین تمام مراحل میں مجھے سچائی پر قائم رکھ۔ اور یہاں سچائی کی دعا کی اہمیت یوں بڑھ جاتی ہے کہ جس مرحلے میں یہ آیات آئیں اس میں داخل کردیں اور ظاہر ہے کہ یہ اللہ پر افتراء ہوتا۔ نیز سچائی کا اپنا پر تو اور رنگ ہوتا ہے ، مثلاً ثابت قدمی ، اطمینان ، پاکیزگی معاملات ، اخلاص وغیرہ سب کے سب سچائی کے رنگ ہیں۔ واجعل لی من لدنک سلطنا نصیرا (71 : 08) ” اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنا دے “۔ ایک قوت ، ہیبت مجھے حاصل ہوجائے ، جس کی وجہ میں زمین کے اقتدار پر قابض ہوجائوں اور مشرکین کی قوت کو مغلوب کرلوں۔ من لدنک (71 : 08) یعنی (اپنی طرف سے) میں یہ رنگ ہے کہ اللہ کے ساتھ حضور اکرم ﷺ کا گہرا قرب ہے۔ اور آپ ﷺ صرف اللہ پر بھروسہ رکھتے ہیں اور صرف اس سے مدد کے طلبگار ہیں اور اللہ ہی حمایت و حفاظت میں اپنے آپ کو سمجھتے ہیں۔ کوئی بھی داعی صرف اللہ ہی سے اقتدار کا طالب ہوتا ہے اور ایک داعی سے لوگ صرف اس صورت میں خوف کھاتے ہیں کہ وہ الٰہی قوت سے مسلح ہو۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کوئی حاکم اور صاحب اقتدار نبی ﷺ یا کسی داعی کی حمایت پر کمربستہ ہوجائے بلکہ کسی دنیاوی قوت سے پہلے داعی کو الٰہی قوت سے لیس ہونا ضروری ہے۔ یوں بھی ہوتا ہے کہ کوئی تحریک اور دعوت بعض اوقات اہل اقتدار اور صاحب قوت لوگوں کے دلوں کو فتح کرلیتی ہے ، اور وہ دعوت کے سپاہی بن جاتے ہیں اور دعوت کی خدمت کرتے ہیں اور فلاح پاتے ہیں۔ لیکن اگر دعوت اور تحریک کسی بادشاہ یا صاحب اقتدار کے تابع ہو اور اس کی سپاہ گری کا کام کرے اور کسی شخص کی خدمت گار ہو تو وہ دعوت کبھی کامیاب نہیں ہوتی۔ دعوت اسلامی تو امر الٰہی ہے ، اور اسے اعلیٰ وارفع ہونا چاہیے۔ اور اہل اقتدار اور ذی جائو لوگوں کو اس کا خادم ہونا چاہیے۔
Top