Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 280
وَ اِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَیْسَرَةٍ١ؕ وَ اَنْ تَصَدَّقُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
وَاِنْ : اور اگر كَانَ : ہو ذُوْ عُسْرَةٍ : تنگدست فَنَظِرَةٌ : تو مہلت اِلٰى : تک مَيْسَرَةٍ : کشادگی وَاَنْ : اور اگر تَصَدَّقُوْا : تم بخش دو خَيْرٌ : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو تَعْلَمُوْنَ : جانتے
اور اگر مقروض تنگ دست ہو تو فراخی تک اس کو مہلت دو اور بخش دو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے، اگر تم سمجھو۔
تفسیر آیت 80۔ 81۔ اوپر مہاجنوں کو یہ اجازت جو دی ہے کہ وہ اپنی اصل رقم قرضداروں سے واپس لے سکتے ہیں، اس کے ساتھ ان کو یہ ہدایت دی کہ اگر قرض دار تنگ دست ہو تو اس کو ہاتھ کشادہ ہونے تک مہلت دو ، اور اگر ایسی حالت میں اپنی اصل رقم بھی معاف کردو تو یہ بہت بہتر ہے، اس کا اجر وثواب بےپایاں ہے۔ حامیانِ سود کا ایک دعوی اور اس کا جواب : اس زمانے میں بعض کم سواد یہ دعوی کرتے ہیں کہ عرب میں زمانہ نزول قرآن سے پہلے جو سود رائج تھا یہ صرف مہاجنی سود تھا۔ فریب اور نادار لوگ اپنی ناگیر ضروریات زندگی حاصل کرنے کے لیے مہاجنوں سے قرض لینے پر مجبور ہوتے تھے اور یہ مہاجن ان مظلوموں سے بھاری بھاری سود وصول کرتے تھے۔ اسی سود کو قرآن نے ربوٰ قرار دیا ہے اور اسی کو یہاں حرام ٹھہرایا ہے۔ رہے یہ تجارتی کاروباری قرضے جن کا اس زمانے میں رواج ہے تو ان کا اس زمانے میں نہ دستور تھا نہ ان کی حرمت و کراہت سے قرآن نے کوئی بحث کی ہے۔ عرب میں تجارتی قرضوں پر سود لینے کا بھی رواج تھا : ان لوگوں کا نہایت واضح جواب خود اس آیت کے اندر ہی موجود ہے۔ جب قرآن یہ حکم دیتا ہے کہ اگر قرض دار تنگ دست (ذو عسرۃ) ہو تو اس کو کشادگی (میسرہ) حاصل ہونے تک مہلت دو تو اس آیت نے گویا پکار کر یہ خبر دے دی کہ اس زمانے میں قرض لینے والے امیر اور مال دار لوگ بھی ہوتے تھے۔ بلکہ یہاں اگر اسلوب بیان کا صحیح صحیح حق ادا کیجیے تو یہ بات نکلتی ہے کہ قرض لین دین کی معاملت زیادہ تر مال داروں ہی میں ہوتی تھی۔ البتہ امکان اس کا بھی تھا کہ کوئی قرض دار تنگ حالی میں مبتلا ہو کہ اس کے لیے مہاجن کی اصل رقم کی واپسی بھی ناممکن ہو رہی ہو تو اس کے متعلق یہ ہدایت ہوئی کہ مہاجن اس کو اس کی مالی حالت سنبھلنے تک مہلت دے اور اگر اصل بھی معاف کردے تو یہ بہتر ہے۔ اس معنی کا اشارہ آیت کے الفاظ سے نکلتا ہے اس لیے کہ فرمایا ہے کہ اِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَيْسَرَةٍ (اگر قرض دار تنگ حال ہو تو اس کو کشادگی حاصل ہونے تک مہلت دی جائے) عربی زبان میں ‘ ان ’ کا استعمال عام اور عادی حالات کے لیے نہیں ہوتا بلکہ بالعموم نادر اور شاذ حالات کے بیان کے لیے ہوتا ہے۔ عام حالات کے بیان کے لیے عربی میں ‘ اذا ’ ہے۔ اس روشنی میں غور کیجیے تو آیت کے الفاظ سے یہ بات صاف نکلتی ہے کہ اس زمانہ میں عام طور پر قرض دار ذو میسرۃ (خوش حال) ہوتے تھے لیکن گاہ گاہ ایسی صورت بھی پیدا ہوجاتی تھی کہ قرضدار غریب ہا یا قرض لینے کے بعد غریب ہوگیا ہو تو اس کے ساتھ اس رعایت کی ہدایت فرمائی۔ یوں تو اس تفسیر میں جو کچھ بھی میں لکھ رہا ہوں سب استاذ ؒ ہی کا فیض ہے لیکن خاص اس آیت سے متعلق ان کے اپنے الفاظ بھی مجھے مل گئے ہیں جو کم از کم آج سے پچاس ساٹھ برس پہلے ان کے قلم سے نکلے ہیں جب سود کے مسئلہ میں معترضین کی یہ موشگافیاں نہیں پیدا ہوئی تھیں جو اب پیدا ہوگئی ہیں۔ اس وقت مولانا نے بالکل غیر جانبدارانہ ذہن کے ساتھ، مجرد قرآن کے الفاظ سے جو رائے اس مسئلہ پر قائم فرمائی تھی وہ یہ ہے۔“ وَاِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَيْسَرَةٍ ۭ وَاَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ ، یلوح من ھذہ الکلمات انھم کانوا یاخذون الربوا من ذی میسرۃ والقریش کا نت تجادا واصحاب الربوا فلا اری فرقا بین حالھم وحال ابناء زماننا فی الربوا، واللہ اعلم بالصواب : وان کان ذو عسرۃ الایۃ کے الفاظ سے یہ بات صاف نکلتی ہے کہ اہل عرب خوش حالوں سے بھی سود لیتے تھے۔ پھر قریش تاجر لوگ تھے اور سودی بیوپار ان میں راج تھا۔ اس وجہ سے اس معاملے ان کے اور ہمارے حالات کے درمیان کوئی خاص فرق مجھے در باب سود نظر نہیں آتا۔ واللہ اعلم بالصواب ”۔ ظاہر ہے کہ مالدار لوگ اپنی ناگزیر ضروریات زندگی کے لیے مہاجنوں کی طرف رجوع نہیں کرتے رہے ہوں گے بلکہ وہ اپنے تجارتی مقاصد ہی کے لیے قرض لیتے رہے ہوں گے۔ پھر ان کے قرض اور اس زمانے کے ان قرضوں میں جو تجارتی اور کاروباری مقاصد سے لیے جاتے ہیں کیا فرق ہوا ؟
Top