Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 274
اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ بِالَّیْلِ وَ النَّهَارِ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً فَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ١ۚ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَؔ
اَلَّذِيْنَ : جو لوگ يُنْفِقُوْنَ : خرچ کرتے ہیں اَمْوَالَھُمْ : اپنے مال بِالَّيْلِ : رات میں وَالنَّهَارِ : اور دن سِرًّا : پوشیدہ وَّعَلَانِيَةً : اور ظاہر فَلَھُمْ : پس ان کے لیے اَجْرُھُمْ : ان کا اجر عِنْدَ : پاس رَبِّهِمْ : ان کا رب وَلَا : اور نہ خَوْفٌ : کوئی خوف عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا : اور نہ ھُمْ : وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
جو لوگ خرچ کرتے ہیں اپنے مال رات (کے اندھیرے) میں بھی، اور دن (کے اجالے) میں بھی، پوشیدہ بھی، اور ظاہری طور پر بھی تو ان کے لئے ان کا اجر ہے ان کے رب کے یہاں، نہ ان پر کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے،
788 ہر حال میں خرچ کرنے والوں کی عظمت شان : یعنی وہ اپنی ہمت و بساط کے مطابق جب بھی ہوسکے، بغیر کسی تخصیص و تعیین کے، ہر موقع پر، اور ہر حال میں، خرچ کرتے ہیں۔ تاکہ رب راضی ہوجائے اور آخرت کا توشہ بن جائے۔ تو ان کے لئے ان کا وہ اجر وثواب ہے جو ان کے صدق و اخلاص کے مطابق، اور ان کے لائق ہوگا۔ سو یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں مال کی محبت کیلئے کوئی جگہ نہیں رہ جاتی، اور ان کا شغل شاغل اور مقصود اصلی اپنے رب کی رضا و خوشنودی کا حصول ہوتا ہے۔ اور بس اس کیلئے وہ ہر حال میں اور ہر موقع پر خرچ کرنے کی فکر و کوشش میں ہوتے ہیں۔ سو ان کو بدلہ اور جزا کے اس دن میں کوئی خوف نہیں ہوگا اور نہ ہی یہ غمگین ہوں گے، بلکہ یہ خوش ہو رہے ہوں گے کہ ہم نے اپنے رب ذوالجلال کی توفیق و عنایت سے اپنے مالوں کو اس کی راہ میں اور اس کی رضاء کیلئے خرچ کرکے یہ صلہ اور بدلہ پایا، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر وہ یہ تمنا کریں گے کہ کاش کہ ہم نے یہ سب کچھ اسی کی راہ میں اور اسی کی رضاء کیلئے لٹا دیا ہوتا۔ جبکہ کنجوس اور بخیل لوگ اس وقت رہ رہ کر افسوس کریں گے کہ کاش کہ ہم نے اپنے مالوں کو جوڑ جوڑ کر رکھنے کی بجائے اللہ کی راہ میں خرچ کیا ہوتا، تو آج کے اس یوم عصیب و رہیب میں کام آتا۔ مگر اس وقت کی اس تمنا و آرزو سے ان کو کوئی فائدہ بہرحال نہیں ہوگا سوائے ان کی آتش یاس و حسرت میں اضافے کے۔ والعیاذ باللہ ۔ واضح رہے کہ یہاں پر " رات " کو " دن " کے مقابلے میں اور " سِرّ " یعنی پوشیدہ کو " علانیہ " کے مقابلے میں پہلے ذکر فرمایا گیا ہے، جس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ رات کا صدقہ اور پوشیدہ طور پر دیئے جانے والے صدقے کا اجر وثواب زیادہ ہوتا ہے بنسبت اس صدقے کے جو دن کو اور علانیہ طور پر کیا جائے۔ روایات کے مطابق یہ آیت کریمہ حضرت صدیق اکبر ؓ کے بارے میں نازل ہوئی، جنہوں نے چالیس ہزار دینار صدقہ کیے۔ دس ہزار رات کو، دس ہزار دن کو، اور دس ہزار پوشیدہ طور پر، اور دس ہزار علانیہ طور پر۔ (تفسیر المراغی وغیرہ) ۔ بہرکیف اس آیت کریمہ میں اوقات بھی سب آگئے اور پوشیدہ اور علانیہ کی دونوں حالتوں کا ذکر بھی آگیا۔ سو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جو بھی میسر آئے، اور جب بھی آئے، وہ خرچ کرنا چاہئے کہ جو اس کے نام پر دیا اور اس کی راہ میں خرچ کیا وہی محفوظ ہوگیا اور باقی رہ گیا۔ اور باقی سب یونہی رہ گیا سو اللہ تعالیٰ کی راہ میں اور اس کی رضاء و خوشنودی کے لیے خرچ کرنا ایک عظیم الشان سعادت ہے ۔ وَبِاللّٰہ التَّوْفِیْق لِمَا یُحِبُّ وَیُرِیْدُ-
Top