Asrar-ut-Tanzil - Al-Baqara : 274
اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ بِالَّیْلِ وَ النَّهَارِ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً فَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ١ۚ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَؔ
اَلَّذِيْنَ : جو لوگ يُنْفِقُوْنَ : خرچ کرتے ہیں اَمْوَالَھُمْ : اپنے مال بِالَّيْلِ : رات میں وَالنَّهَارِ : اور دن سِرًّا : پوشیدہ وَّعَلَانِيَةً : اور ظاہر فَلَھُمْ : پس ان کے لیے اَجْرُھُمْ : ان کا اجر عِنْدَ : پاس رَبِّهِمْ : ان کا رب وَلَا : اور نہ خَوْفٌ : کوئی خوف عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا : اور نہ ھُمْ : وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
جو لوگ اپنا خرچ کرتے ہیں رات کو اور دن کو ، پوشیدہ اور ظاہر تو ان کے لئے ان کے پروردگار کے پاس ان کا ثواب ہے اور نہ ان پر کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے
274 تا 281 اسرارو معارف الذین ینفقون…………ولاھم یحزنون۔ جو لوگ دن رات ظاہر پوشیدہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں یعنی جیسے ضرورت پیش آئے اسے پورا کرنے کو لپکتے ہیں۔ اعلانیہ دینا پڑے یا چھپا کر ، رات ہو یا دن کا وقت نہ تاخیر کرتے ہیں اور نہ کسی حالت کو آڑے آنے دیتے ہیں جیسے سیدنا صدیق اکبر ؓ ، کہ شاعر مشرق (رح) نے کیا خوب کہا ہے ؎ آں امن الناس بر مولائے ما آں حکیم وادی سینائے ما دولت اوکشت ملت راچوں ابر ثانی اثنین وغار وبدر وقبر یا دیگر جملہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جن کے صدقات اور مالی جانی قربانیوں سے تاریخ عالم مزین ہے اور چشم فلک حیران۔ ایسی قوم نہ سورج نے ان سے پہلے دیکھی اور نہ ان کے بعد امید کرسکتا ہے۔ ان کے لئے ان کے پروردگار کے پاس ان کی جاں نثاریوں کا بدلہ محفوظ ہے۔ نہ انہیں اپنی حق تلفی کا یا اپنے کئے پر پشیمانی کا یا عذاب الٰہی کا خوف ہی ہوگا۔ نہ آئندہ کا غم کہ کل کیا ہوگا۔ ان کا کل ان کے آج سے بھی درخشاں ہوگا۔ والحمد للہ علی ذالک اللھم ارزقنا ابتاء عھم۔ جوشخص بھی اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرے گا ایسے ہی اعلیٰ انعامات کا امیدوار ہوگا۔ صدقہ مال کو بغیر کسی مادی نفع کی امید کے اللہ کی رضا کے لئے دینے کو کہتے ہیں۔ اس کے مقابل ربو ہے۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ بغیر کسی معاوضہ کے دوسرے کا مال لیا جاتا ہے۔ ارشاد ہے ، الذین یا کلون الربوا…………ھم فیھا خالدون۔ کہ جو لوگ سود لیتے ہیں اگرچہ یہاں ارشاد سود کھانا ہے مگر مراد سود کا لینا ہی ہے خواہ کھانے میں استعمال کرے یا لباس میں یا مکان وغیرہ کے بنانے میں۔ مطلقاً سود لینا ہی سود کھانا ہے کہ سود خور کو حاصل کردہ رقم پر مکمل قبضہ اور تصرف حاصل ہوتا ہے اور اس کی واپسی کی کوئی صورت نہیں۔ اس لئے سود لینے کو سود کھانے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ لوگ قیامت کو اس طرح کھڑے ہوں گے جیسے شیطان نے ان سے لپٹ کر ان کو خبطی بنادیا ہے۔ جنات و شیاطین کا اثر : اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جنات و شیاطین کے اثر سے انسان بےہوش یا مجنون ہوسکتا ہے یہ بات کتاب اللہ ، احادیث مبارکہ اور متواتر مشاہدات سے بھی ثابت ہے اور اطبانے بھی اس کو تسلیم کیا ہے کہ صرع ، جنون یا بےہوشی کے مختلف اسباب میں سے ایک سبب جنات کا اثر بھی ہوسکتا ہے ۔ یہ بھی یاد رہے کہ جزا از قسم اعمال ہوا کرتی ہے۔ دنیا میں سود خوار ایسا مدہوش تھا کہ کسی کی غربت اور بےکسی کی پرواہ تھی نہ احکام الٰہی کی۔ آخرت میں اٹھا تو ایسا خبطی تھا جیسے کسی کو جنات لپٹ کر مخبوط الحواس بنادیں۔ کہ یہ دنیا میں کہتا تھا سود مثل بیع ہی تو ہے۔ کہ اشیاء کی خریدوفروخت سے مقصود دولت کو بڑھانا اور نفع کمانا ہے اور سود سے بھی دولت کی بڑھوتری ہی مراد ہے تو پھر تم لوگوں نے بیع کو کیوں حلال سمجھ رکھا ہے اور وہ یہ بات بھول جاتا ہے کہ اللہ نے بیع کو حلال قرار دیا ہے اور سود کو حرام اور اللہ مالک الملک والملکوت ہے وہ ساری مخلوق کے نفع نقصان کو خود مخلوق سے بہت ہی زیادہ جانتا ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ اللہ حاکم ہے جب اس نے حکم دے دیا تو بات ختم ہوگئی۔ بیع حلال اور ربو حرام ، کسی کو اس کی ذات پر اعتراض کرنے یا سوال کرنے کا حق ہی حاصل نہیں۔ دوسری بات یہ کہ سود کو حلال کہنے والے کی دلیل تو عقلی تھی اور جواب حاکمانہ ہے عرض ہے اللہ حاکم بھی ہے اور رب العالمین بھی۔ وہ مجموعہ نظام عالم کا خالق بھی اور ساری مخلوق سے اور مخلوق کے بھلے برے سے آگاہ بھی۔ جب اس نے حرام کردیا تو ظاہر ہے اس میں ضرور نقصان چھپا ہوا ہوگا اور خباثت بھی خواہ ہم اس کو کسی حد تک جان سکیں یا بالکل ہی نہ جان سکیں کہ ہم اپنے نفع ونقصان کو تو ممکن ہے کسی حد تک سمجھ سکتے ہوں مگر پورے عالم پر کیا گزرے گی یا پوری قوم پر کیا اثر ہوگا ؟ اسے وہی علیم وخبیر جانتا ہے۔ جس کے پاس اللہ کی نصیحت پہنچی اور وہ سود کو حلال کہنے کے کفریہ فعل سے باز آگیا اور سود لینا بھی چھو ڑ دیا ، تو اس سے پہلے جو کچھ وہ لے چکا ہے وہ اسی کا ہوا اور ظاہراً اس کی توبہ قبول ہوئی ، اگرچہ اس کا معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے یعنی صحیح تائب ہوا ہے یا نہیں۔ یہ اللہ کے علم میں ہے اور وہی اس سے باز پرس کرے گا لیکن اگر توبہ کے بعد پھر سود لینا شروع کردیا تو یہ فعل اسے دوزخ میں لے جائے گا اور اگر حرام جان کر بھی کھائے تو بھی۔ ہاں ! حرام جاننے والا ہمیشہ دوزخ میں نہ رہے گا۔ واللہ اعلم۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد وگرامی ہے کو جو گوشت حرام لقمے سے بنا اس کے لئے آگ ہی سزاوار ہے نیز یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ ابن کثیر اور صاحب مظہری رحمہم اللہ تعالیٰ نے احادیث نقل فرمائی ہیں جن میں ارشاد ہے کہ سود کے ستر گناہ ہیں اور ادنیٰ یہ ہے کہ کوئی اپنی ماں سے زنا کرے۔ العیاذ باللہ ! یہ گناہ اسے دوزخ میں لے جائے گا اور اگر حلال جانتا ہے تو یہ کفر ہے پھر ہمیشہ دوزخ ہی میں رہے گا۔ بیع کیا ہے ؟ اور ربوٰ کسے کہا جائے گا یہ بحث تفسیر مظہری میں دیکھ لی جائے۔ یا صاحب معارف القرآن نے بہت اعلیٰ انداز میں بیان فرمایا ہے وہاں سے ملاحظہ فرمائیں۔ بحق اللہ الربو …………کفار اثیم۔ اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتے اور صدقات کو بڑھاتے ہیں اور کسی کافر یعنی سود کو حلال جاننے والے یا بدکار یعنی سود جیسا کبیرہ گناہ کرنے والے کو پسند نہیں فرماتے بلکہ مبغوض رکھتے ہیں یاد رہے کہ سود لینے والا ، دینے والا یا سود کی دستاویز لکھنے والا سب برابر کے گنہگار ہیں نیز جس لالچ میں سود خور کام کرتا ہے وہ ہو بھی نہیں پاتا کہ اللہ سود کو مٹاتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ سٹے کے بازاروں میں بڑے بڑے کروڑ پتی دیکھتے دیکھتے دیوالیہ ہوجاتے ہیں اور اصل بات یہ ہے کہ دولت فی نفسہ مقصود نہیں ، نہ سونا چاندی کوئی کھانے کی چیز ہے بلکہ مقصود دولت سے ان اشیاء کا حصول ہے جو جسم کو آرام پہنچادیں تو اول سود خور اپنے آرام کے لئے بھی خرچ نہیں کرتا اگر کوئی کرے بھی تو جب اللہ آرام اندر نہیں پہنچنے دیتے تو ظاہری اسباب کا کیا فائدہ۔ ان محلوں میں رہنے کا کیا سکھ جن میں نیند کی گولیوں کے بغیر رات بسر نہ ہو اور پھر آخری بات یہ ہے کہ سارا جمع شدہ مال تو دنیا میں رہ گیا لیکن ابدی زندگی کے لئے ایک بہت بڑا عذاب بن کر مسلط ہوگیا۔ صاحب تفسیر مظہری نے ایک حدیث واقعہ معراج کے بارے میں نقل فرمائی ہے کہ میں نے کچھ لوگوں کو راستے میں پڑا ہوا دیکھا جن کے پیٹ بڑی بڑی کوٹھڑیوں جتنے تھے اور ان میں سانپ بھرے ہوئے تھے جو باہر سے نظر آتے تھے پھر دور سے لوگوں کے دوڑنے کی آواز آئی تو ان لوگوں نے راستے سے ہٹنا چاہا مگر وہ پیٹ انہیں اٹھنے نہ دیتے تھے حتیٰ کہ وہ لوگ آپہنچے اور انہیں روند کر گزر گئے۔ جبرائیل امین (علیہ السلام) نے بتایا کہ یہ سود کھانے والے راستے میں پڑے ہیں اور انہیں روند کر گزرنے والے فرعونی ہیں جو صبح وشام آگ پر پیش کئے جاتے ہیں جو دوڑتے ہوئے چیخ اٹھتے ہیں کہ اللہ کبھی قیامت قائم نہ ہو۔ ایک اور حدیث میں ارشاد ہے کہ خون کی نہر میں کچھ لوگ تھے جو کنارے پر آتے تر فرشتہ منہ میں پتھر ٹھونس دیتا۔ پھر لڑھکتے ہوئے واپس چلے جاتے۔ پوچھنے پر جبرائیل (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ یہ سود خوار ہیں۔ ایسے طرح طرح کے عذاب تو برزخ میں ہو رہے ہیں آخرت میں اس سے کہیں شدید ہوں گے۔ رہا معاملہ صدقات کا تو اللہ ایسے آدمی کے مال میں برکت دیتا ہے۔ اس کا دل مطمئن رہتا ہے وہ تنکوں پر ایسی راحت پاتا ہے جو سود خوار کو محل میں نصیب نہیں ، اور پھر آخرت میں اس کا مال ہزاروں گنا بڑھا کر اسے اجر کی صورت میں ملتا ہے یہاں تک ارشاد ہے کہ جو اللہ کی راہ پر ایک کھجور دے اللہ اس کی پرورش فرماتا ہے حتیٰ کہ وہ کھجور احد پہا ڑ کے برابر ہوجاتی ہے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے کبھی دیوالیہ ہوتے نہیں دیکھے بلکہ ان کے مال میں برکت ہوتی ہے ۔ زندگی پرسکون اور اخروی اجر کا اندازہ ممکن نہیں جو مقصود ہے اور حقیقی زندگی کی حقیقی راحت بھی ہے اور اس کے ساتھ اللہ کی رضا ، اس کی خوشنودی تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہے جو سود خواروں کو نصیب نہیں۔ ان الذین امنوا……………ولاھم یحزنون۔ پھر ابدی راحت کا صحیح راستہ ارشادفرمادیا۔ جو صرف ایک ہے کہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے یعنی تکمیل ایمان یہ ہے کہ انسان کا عمل اس کے عقیدے کے تابع ہوجائے زندگی کے تمام امور ، معاملات ہوں یا اخلاقیات سب اس عقیدے کے تابع ہوں جس کا وہ مدعی ہے اور پھر عبادات کے لئے اپنی ممکن کوشش صرف کردے۔ اقام الصلوٰۃ یعنی نماز کو قائم کرے پوری محنت ، پورے خلوص کے ساتھ۔ نماز اور زکوٰۃ ارشاد فرما کر جو مقصود عبادات ہیں بدنی ہوں یا مالی ، پورے خلوص سے ادا کرے تو ایسے ہی لوگ ہیں جن کے لئے ان کے رب کے پاس انعامات اور اجر ہے جنہیں نہ کسی قسم کا ڈر ہوگا اور نہ افسوس۔ جو گزشتہ پر بھی اللہ کا شکر ادا کر رہے ہوں گے۔ اور آئندہ بھی اللہ کی نعمتوں میں روز افزوں زیادتی کے امیدوار۔ یایھا الذین امنوا تقو اللہ…………وھم لا یظلمون۔ (278- 281) اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو۔ اللہ کی رضامندی اور خوشنودی کو کبھی ہاتھ سے نہ جانے دو اور سود چونکہ اللہ نے تمہارے لئے حرام قرار دیا ہے جو باقی ہے سب چھوڑ دو ۔ اگر تم اپنی بات میں سچے ہو اور تم نے صدق دل سے ایمان قبول کیا ہے تو پھر اطاعت کے سوا کوئی راستہ نہیں اور اگر تم باز نہ آئے تو ظاہر ہے صرف دعویٰ ایمان ہے ورنہ سود جیسی لعنت میں مبتلا ہونے کی کیا ضرورت تھی ؟۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ لڑنے کے لئے تیار ہوجائو ! یعنی سود کو مسلمان حاکم زبردستی روک دے اور اگر سود خواروں کی جماعت ہو جن کو روکنے کے لئے لڑنا پڑے تو ان سے جہاد کیا جائے گا ۔ جب تک وہ تائب نہیں ہوجاتے۔ یہی حکم نماز ، روزہ اور زکوٰۃ کا ہے کہ انکار کرنے والا قطعی کافر ہو کر مرتد ہوگا اور واجب القتل۔ اگر کثیر جماعت ہے تو اس کے ساتھ جہاد مسلمان امیر پر فرض ہے تاوقتیکہ وہ توبہ کریں یا قتل ہوں ، اور اگر نہ انکار کرے نہ عمل کرے تو فاسق ہوگا اور حاکم اسے قید کرے تاوقتیکہ وہ تائب ہو۔ اگر بغیر توبہ کے مرجائے تو نہ جنازہ پڑھا جائے گا اور نہ ہی مسلمانوں کے قبرستان میں دفن ہوگا۔ فرمایا اگر تم توبہ کرلو تو تم اصل مال لینے کے حقدار ہو نہ تم کسی سے زیادہ لے کر ظلم کرو ، اور نہ کوئی تمہارا اصل مال روک کر تم پر زیادتی کرے۔ یہاں ثابت ہوتا ہے کہ سود خوار اگر توبہ نہ کرے تو اس کا اصل مال بھی ضبط کیا جائے گا۔ اسے نہیں مل سکے گا۔ ہاں ! اگر جس سے اصل مال واپس لینا ہے اسے تنگی میں پائو تو اسے مہلت دو صبر سے کام لو ، اس پر احسان کرو۔ تاوقتیکہ اللہ اسے فراخی دے اور وہ مال واپس کرنے کے قابل ہوجائے۔ لیکن اگر بالکل ہی بےبس ہے تو صدقہ کردو۔ اللہ کے لئے چھوڑ دو ۔ یہ تمہارے لئے بہت ہی بہتر اور بہت بڑے اجر کا سبب ہے۔ اگر تم سمجھ سکو تو یہ بہت اعلیٰ نیکی ہے۔ احادیث مبارکہ میں اس کی بہت بڑی فضیلت آئی ہے۔ بلکہ یہاں تک ارشاد ہے کہ غریبوں کو تنگی کی حالت میں ادائے قرض کی مہلت دینے والے یا اللہ کے لئے معاف کرنے والے لوگ عرش الٰہی کے سایہ میں ہوں گے جبکہ میدان حشر میں اس کے سوا کوئی سایہ ہ ہوگا۔ فرمایا کہ اس دن کا خیال کرو اور اس روز کے لئے اپنی کوئی جائے پناہ بنالو۔ جس روز تم سب اللہ کی بارگاہ میں حاضر کئے جائو گے اور پھر ہر کسی کو اس کی محنت یا کارکردگی کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی سے کوئی زیادتی نہ کی جائے گی ، جو کچھ کسی نے دنیا میں عقیدہ وایمان رکھا ، اس کے مطابق اور جو کچھ اس نے کیا اس پر جو بھی اجر ملنا چاہیے عذاب یا ثواب ہر کسی کو بغیر کسی کی حق تلفی کئے دیا جائے گا۔ سبحان اللہ ! انداز بیان ایسا ہے کہ گناہ بخشش کی گنجائش ہے مگر نیکی کے زیاں کا کوئی امکان نہیں۔
Top