Tafseer-e-Baghwi - Al-Baqara : 274
اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ بِالَّیْلِ وَ النَّهَارِ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً فَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ١ۚ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَؔ
اَلَّذِيْنَ : جو لوگ يُنْفِقُوْنَ : خرچ کرتے ہیں اَمْوَالَھُمْ : اپنے مال بِالَّيْلِ : رات میں وَالنَّهَارِ : اور دن سِرًّا : پوشیدہ وَّعَلَانِيَةً : اور ظاہر فَلَھُمْ : پس ان کے لیے اَجْرُھُمْ : ان کا اجر عِنْدَ : پاس رَبِّهِمْ : ان کا رب وَلَا : اور نہ خَوْفٌ : کوئی خوف عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا : اور نہ ھُمْ : وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
جو لوگ اپنا مال رات اور دن اور پوشیدہ اور ظاہر راہ خدا میں خرچ کرتے رہتے ہیں ان کا صلہ پروردگار کے پاس ہے اور ان کو (قیامت کی دن) نہ کسی طرح کا خوف ہوگا اور نہ غم
(تفسیر) 274۔: (آیت)” الذین ۔۔۔۔۔۔۔۔ وعلانیۃ “۔ جو لوگ اللہ کے راستے میں اپنامال خرچ کرتے ہیں دن ورات کو پوشیدہ یا علانیہ) حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ یہ آیت حضرت علی بن ابی طالب ؓ کے بارے میں نازل ہوئی کہ ان کے پاس چار دراہم تھے ، اس کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں تھی حضرت علی ؓ نے ایک درہم رات کو اور ایک درہم دن کو اور ایک درہم پوشیدہ اور ایک علانیہ صدقہ کیا ۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی (آیت)” للفقراء الذین احصروا فی سبیل اللہ “۔ تو عبدالرحمن بن عوف ؓ نے بہت سارے دراہم کثیرہ اصحاب صفہ کو بھیجے اور حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے ایک وسق تمر آدھی رات کو بھیجی ، اس وقت یہ آیت نازل ہوئی (آیت)” الذین ینفقون اموالھم باللیل والنھار “۔ اس سے مراد دن کے وقت اعلانیہ صدقہ کرنا عبدالرحمن بن عوف ؓ کا اور رات کے وقت حضرت علی ؓ کا صدقہ کرنا خفیہ طور پر ، ابوامامہ ؓ ، ابو الدرداء ؓ مکحول (رح) ، اوزاعی (رح) ، فرماتے ہیں کہ یہ آیت ان لوگوں کے متعلق نازل ہوئی جو اپنے گھوڑوں کو جہاد کے لیے تیار رکھتے اور ان کو دن رات چراتے سرا بھی اور علانیہ بھی ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کے لیے گھوڑے باندھے اور وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان بھی رکھتا ہے اور اس کے وعدہ کو سچا سمجھتا ہے تو گھوڑے کا کھانا پینا ، لید، پیشاب ، قیامت کے دن اس کے میزان میں رکھا جائے گا ، (فلھم اجرھم عند ربھم تو ان کا اجر اللہ کے پاس مخصوص ہے) اخفش کا قول ہے یہاں خبر کے جواب پر فاء داخل کی ہے ، اس لیے ” الذین “ بمعنی ” من “ کے ہے ، آیت کا معنی یہ ہے کہ جو شخص اتنا خرچ کرے گا اس کا اجر اس کے رب کے پاس اتنا ہی ہے (ولا خوف علیھم ولا ھم یحزنون ، اس کو کسی کو خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے) ۔
Top