Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 274
اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ بِالَّیْلِ وَ النَّهَارِ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً فَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ١ۚ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَؔ
اَلَّذِيْنَ : جو لوگ يُنْفِقُوْنَ : خرچ کرتے ہیں اَمْوَالَھُمْ : اپنے مال بِالَّيْلِ : رات میں وَالنَّهَارِ : اور دن سِرًّا : پوشیدہ وَّعَلَانِيَةً : اور ظاہر فَلَھُمْ : پس ان کے لیے اَجْرُھُمْ : ان کا اجر عِنْدَ : پاس رَبِّهِمْ : ان کا رب وَلَا : اور نہ خَوْفٌ : کوئی خوف عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا : اور نہ ھُمْ : وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
وہ لوگ جو اپنے مالوں کو خرچ کرتے ہیں رات کے وقت اور دن کے وقت پوشیدہ طور پ ر اور ظاہری طور پر ان کے لیے ان کے رب کے پاس بدلہ ہے ، اور نہ ان پر خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے
صدقہ بمقابلہ سود گزشتہ کئی دروس میں صدقہ کا بیان آتا ہے اور گزشتہ درس میں صدقات سے متعلق ساتویں بات یعنی اس کے بہترین مصرف کا ذکر تھا۔ اب آج کے درس میں پہلے صدقات ہی کے ضمن میں ان کی فضلیت بیان کی گئی ہے اور پھر اس کے مقابلے میں سود کی مذمت ہے ، صدقہ و خیرات کرنے سے انسان کے اندر فیاضی کا مادہ پیدا ہوتا ہے اور بخل دور ہوتا ہے۔ اس کے سبب انسان کے اندر بنی نوع انسان کے لیے جذبہ ہمدردی پیدا ہوتا ہے ، مکارم اخلاق کی تکمیل ہوتی ہے ، اور پھر یہی خصائل انسان کی نجات کا ذریعہ بن جاتے ہیں ۔ بر خلاف اس کے سود خور میں بخل کا مادہ پیدا ہوتا ہے۔ اخلاق کا جنازہ نکلتا ہے اور لا محدودپیمانہ پر مال جمع کرنے کی حرص پیدا ہوتی ہے۔ انسانی ہمدردی اور فیاضی اٹھ جاتی ہے سود خود سنگ دل اور ظالم بن جاتا ہے۔ جسکی وجہ سے اس کا دین تباہو بربادہو جاتا ہے ۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت برستی ہے ۔ حدیث شریف میں آتا ہے۔ لعن اللہ اکل الربو و موکلہ۔۔۔۔۔ الخ اللہ تعالیٰ نے سود لینے والے اور دینے والے پر ، اسکی دستاویز کے کاتب اور گواہان سب پر لعنت کی ہے ادھر صدقہ و خیرات کرنے والوں پر اللہ کی حمتوں کا نزول ہوتا ہے تو ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے دونوں متضاد چیزوں کو اکٹھا بیان کیا ہے۔ صدقہ کے چار مواقع اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے خیرات کے چار مستحسن مواقع بیان کیے ہیں ۔ الذین ینفقون اموالھم بالیل والنھار وہ لوگ جو اپنے مالوں کو خرح کرتے ہیں رات اور دن سرا وعلانیۃ چھپا کر اور ظاہر کر کے یعنی اہل ایمان چارحالتوں میں خرچ کرتے ہیں ، وقت کے لحاظ سے رات ہوگی یا دن ہوگا اور حالت کے لحاظ سے پوشیدہ طور پر ہوگا یا ظاہر ہوگا ، چناچہ حضور ﷺ کے صحابہ کرام ؓ اس آیت کے مکمل مصداق تھے۔ امیر المومنین حضر ت علی ؓ کے پاس اگر چاردرہم آگئے ہیں ، تو انہوں نے ایک رات خرچ کردیا ، ایک دن کے وقت ایک پوشیدہ طور پر خیرات کردیا اور ایک کسی عام مجلس کے اندر اور اس طرح اس آیت کریمہ پر پورا پورا عمل کیا ۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پاس چالیس ہزار درہم آئے ، انہوں نے بھی قرآن پاک کے حکم کے مطابق انہیں چار حصوں میں تقسیم کیا ۔ دس ہزاردرہم رات میں خرچ کیے ، دس ہزار دن پھر دس ہزار پوشیدہ طور پر اور دس ہزار علانیہ خرچ کیے ۔ حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ بہت بڑے تاجر اور مالدار تھے ۔ آپ بھی خرچ کرتے وقت چاروں مواقع کا خیال رکھتے تھے۔ یہاں سے یہ بات اخذ ہوتی ہے کہ صدقہ خیرات کے لیے کوئی خاص وقت یا کوئی خاص جگہ معین نہیں ہے ، بلکہ رات دن کے چوبیس گھنٹوں اور ظاہرا ً باطنا ً ہر حالت میں خرچ کیا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا فلھم اجرھم عند ربھم ایسے لوگوں کے لیے ان کے رب کے ہاں اجر ہے ، وہ ضرو ر اس جر سے مستفید ہوں گے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہے ولا خوف علیھم وہ مستقبل میں پیش آنے والے کسی خطرہ سے خوفزدہ نہیں ہوں گے۔ ولا ھم یحزنون اور نہ ہی گزری ہوئی زندگی پر انہیں کسی قسم کا افسوس اور غم ہوگا کیونکہ انہوں نے دنیا میں نیکی اور بھلائی کا کام کیا ہے ، وہ عند اللہ ماجورہوں گے۔ ایصال ثواب کے لیے تعین وقت اس آیت پاک سے واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صدقہ و خیرات کے لیے کوئی خاص وقت یا دن مقرر نہیں کیا کہ ضرو ر فلاں دن اور فلاں وقت پر ہو ، بلکہ ہر روز اور ہر وقت خیرات ہو سکتی ہے۔ مگر اکثر لوگ اس کے لیے جمعرات کا روز یا ہر ماہ کی گیارہویں تاریخ مقرر کرتے ہیں ۔ شعبان کی پندرہویں اور رمضان کی ستائیسویں تاریخ بھی بطور خاص مقرر کی جاتی ہے ، یہ چیز اصولاً غلط ہے ، اللہ تعالیٰ نے ایسی کوئی پابندی عائد نہیں کی ، البتہ جس چیز کی پابندی ہونی چاہئے وہ یہ ہے کہ جو کچھ خرچ کیا جا رہا ہے ، وہ حلال کمائی سے ہو ۔ دن رات اور تاریخ کا کوئی تعین نہیں ، غرباء مساکین کی خدمت کرنی ہے تو کسی وقت بھی کی جاسکتی ہے ، نیت درست ہونی چاہئے ۔ محض اللہ کی رضا کے لیے ہو ، مردوں کو ایصال ثواب کے لیے تیسرا دن ، ساتواں ، دسواں یا چالیسواں دن ہی کیوں ضروری ہے۔ اسی طرح مردوں کے ثواب کے لیے جمعرات کی تخصیص بھی ناقابل فہم ہے یہ محض ڈھونگ اور غلط طریقہ ہے ۔ صدقہ و خیرات کے لیے کوئی تاریخ اور کوئی وقت مقرر نہیں ہے ، یہ جو کچھ ہو رہا ہے ، خود ساختہ شریعت کے احکام ہیں ۔ سود خور کی حالت زار سود کی مذمت اور حرمت کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے الذین یاکلون الربوا یعنی جو لوگ سود کھاتے ہیں ، ان کی مثال ایسی ہے ، امام بیضاوی (رح) فرماتے ہیں کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے سود کھانے کا ذکر فرمایا ہے لیکن مراد اس سے لینا دینا ہی ہے ، صرف کھانا مراد نہیں ۔ یہاں پر کھانے کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ انسانی زندگی کھانے پینے پر منحصر ہے اور یہ انسان کی اولی ضروریات میں سے ہے۔ اس لیے جب بھی کوئی محنت مزدوری ، کام کاج کرتا ہے تو کہتے ہیں کہ پیٹ کی خاطر یہ کچھ کیا جا رہا ہے۔ آدمی کو دو وقت کی روٹی تو ضرور ملنی چاہئے ، باقی چیزیں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں ۔ تو امام صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ اس مقام پر کھانے کا ذکر انہی معنوں میں کیا گیا ہے۔ تا ہم سود کھانے سے مراد سود کا لینا دینا اور ہر قسم کے استعمال میں لانا ہے ۔ فرمایا جو لوگ سود کھاتے ہیں لا یقومون وہ قیامت کے دن نہیں کھڑے ہونگے اپنی قبروں سے الا کما یقوم الذین یتخبطہ الشیطن م المس مگر اس شخص کی طرح جسے شیطان نے چمٹ کر مخبوط الحواس کردیا ہو۔ جب کسی شخص پر جن اثر ڈالتا ہے ، جسے جن کا سایہ یا جن کا چمٹنا کہتے ہیں تو وہ شخص اپنے ہوش و حواس قائم نہیں رکھ سکتا ۔ اچھے طریقے سے کھڑا نہیں ہو سکتا ، طرح طرح کی حرکتیں کرتا ہے۔ تو فرمایا قیامت کے دن سود خود کی بھی یہی حالت ہوگی ، جب وہ قبروں سے اٹھیں گے ، تو ان کے پائوں لڑکھڑاتے ہوں گے اور ان پر جنون کی سی کیفیت طاری ہوگی یہ ان کے لیے سود خوری کی سزا ہوگی۔ جن کا سایہ جن کا انسان کو چمٹ جانا اکثر مشاہدہ میں آتا رہتا ہے۔ جب کوئی شخص ایسی غلط کرتا ہے ۔ جس سے شیاطین کو تکلیف پہنچتی ہے ، تو وہ لوگوں کو چمٹ کر تکلیف میں مبتلا کردیتے ہیں ۔ جنات کی مختلف قسمیں ہیں ۔ جیسا کہ سورة جن میں آتا ہے ” منا المسلمون ومنا القسطون “ جس طرح انسانوں میں مومن اور کافر فاسق وغیرہ ہوتے ہیں ، اسی طرح جنوں میں بھی ہوتے ہیں ۔ فرق یہ ہے کہ وہ انسانوں کو نظر نہیں آتے کیونکہ ان کا مادہ تخلیق زیادہ لطیف ہے۔ انسانی آبادی کی طرح یہ دنیا جنوں سے بھی بھری ہوئی ہے وہ بعض اوقات انسانوں کو چمٹ جاتے ہیں ، من المس سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے ۔ مگر یہاں پنجاب میں کچھ مصنوعی اور جعلی کاروبار بھی ہوتا ہے عامل لوگ ایسے واقعات اور بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں ۔ اکثر عورتوں کو بعض بیماریاں ہوتی ہیں مگر عاملین اسے بھی جنات چمٹنے پر محمول کرتے ہیں ۔ حالانکہ بیماری کا علاج طبی طور پر ہی کرنا چاہئے ، یہ اعتقاد کی کمزوری اور جہالت کا نتیجہ ہے ، وگرنہ حقیقی طور پر جن چمٹنے کی کیفیت تو سب کو معلوم ہی ہے کہ انسان کیسی کیسی حرکتیں کرتا ہے اور کس طرح حواس باختہ ہوجاتا ہے۔ تجارت بمقابلہ سود فرمایا سود خور قیامت کے روز قبر سے حواس باختہ اٹھے گا ۔ ذلک بانھم اس کی وجہ یہ ہے کہ قالوا انما البیع مثل الربوا انہوں نے کہا تجارت سود کی مانند ہے۔ دونوں چیزوں میں کوئی فرق نہیں ، لوگ تجارت کرتے ہیں ، کاروبار کرتے ہیں ، اور پھر اس میں نفع کماتے ہیں ۔ اس طرح ساہو کار بھی اپنی رقم لگاتا ہے اور اس پر نفع لیتا ہے ۔ سود خور کا یہ نظریہ ظاہر کرتا ہے کہ دنیا میں اسے سرمایہ جمع کرنے اور حلال حرام میں عد م تمیز کا جنون ہوچکا ہے ۔ اسی لیے یہ سود کو تجارت کے برابر قرار دے رہا ہے ، حالانکہ منافع کس جنس کے بدلے میں ہوتا ہے ، ایک شخص کوئی چیز بیچتا ہے اور اپنی لاگت سے زیادہ وصول کر کے نفع کماتا ہے ، مگر سود میں تو کسی چیز کا تعلق ہی نہیں ہوتا ۔ سود خور نہ کوئی چیزخریدتا ہے اور نہ اسے بیچتا ہے ، بلکہ صرف روپیہ ادھار دیکر اس پر سود لیتا ہے جو قطعاً حرام ہے۔ سود دو شکلوں میں ہوتا ہے ، ادھار کی شکل میں یا اجناس کی صورت میں ، اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو قرض کے طور پر کچھ رقم دیتا ہے اور پھر مقررہ مدت کے بعد اصل رقم کے ساتھ کچھ زائد بھی لیتا ہے تو یہ صریحاً سود ہے ، کیونکہ قرض دینے والے نے نہ اس میں محنت کی ہے ، نہ وقتدیا اور نہ صلاحیت صرف کی ہے ۔ وہ محض اپنی رقم کے بل بوتے پر مقررہ نفع حاصل کرنا چاہتا ہے جو سود ہے۔ جنس کی صورت میں یہ ہے کہ کوئی شخص جنس کسی دوسرے شخص کو مقررہ مدت کے لیے دے اور پھر واپسی پر ادا شدہ جنس سے زیادہ لے ۔ یہ بھی سود ہوگا ۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے۔ الذھب بالذھب یعنی جب جنس کا لین دین ہو اور ایک جنس کا تبادلہ ہو تو برابر برابر ہونا چاہئے ، سونے کے بدلے سونا ہو ، چاندی کے بدلے چاندی ہو ، نمک کے بدلے نمک ہو ، جو کے بدلے جو ہو ، گندم کے عوض میں گندم ہو تو یہ تبادلہ برابری کی بنیاد اور دست بدست ہونا چاہئے ، جو کوئی ایک سیر گندم دیکر سوا سیر گندم واپس لے گا تو یہ سود ہوگیا اسی طرح ایک سیر گندم دے کر کچھ مدت کے بعد ایک سیر چاول واپس لے تو یہ بھی سود ہوگا ۔ ہاں اگر اجناس مختلف ہوں تو شرح تبادلہ میں کمی بیشی جائز ہے ، مثلاً ایک سیر گندم کے بدلے میں دو سیر جو لے سکتا ہے ، ایک تولہ سونے کے عوض کئی گنا زیادہ چاندی حاصل کی جاسکتی ہے ، علی ہذا القیاس ، مگر یہاں پر شرط یہی ہے کہ سودا دست بدست ہو ۔ اگر اس میں ادھار کیا ہے اور اس مدت کے معاوضہ میں کچھ زیادہ حاصل کرلیا تو یہ سود ہوجائیگا ۔ امام مالک (رح) فرماتے کہ جو چیز بطور خوراک استعمال ہو سکتی ہے ، جیسے گندم ، جو ، چنا وغیرہ اور وہ اپنی قیمت بھی رکھتی ہے۔ اس میں اگر ادھار کی بنیاد پر کمی بیشی ہوگی ، تو یہ سود ہوگا ۔ امام شافعی (رح) اور امام احمد (رح) بھی خوراک والی اشیاء میں یہی حکم لگاتے ہیں ۔ امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ ایسی جنس جس کا وزن یا پیمائش ہو سکتی ہے۔ اس کے تبادلے میں کمی بیشی کریگا ، تو سود شمار ہوگا ۔ لوہے کا ایک سر یا دیکر دوسرے نہیں لے سکتا ، ایک من چونا دیکر ڈیڑھ من وصول نہیں کرسکتا ۔ غرضیکہ ہر وہ چیز جو وزن یا ناپ یا پیمائش میں آسکتی ہے۔ اس کا تبادلہ برابری کی بنیاد پر ہو تو اجازت ہے ، اگر زیادہ وصول کیا ، تو پھر یہ سود ہوگا ۔ سابقہ سود کی معافی فرمایا سود خوروں کا نظریہ یہ ہے کہ تجارت سود کی مثل ہے۔ واحل اللہ البیع وحرم الربو حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال قرار دیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے ۔ تجارت میں کبھی منافع ہوتا ہے اور کبھی نقصان کا احتمال بھی ہوتا ہے ، جب کہ سود ایک مقرر منافع ہے ، جو بہر صورت رقم دہندہ کو وصول ہوتا رہتا ہے ، چناچہ فتح مکہ کے اندر حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا ، سود بالکل چھوڑ دو ، سابقہ تمام سود ختم ہوگئے ۔ فرمایا میرے حاندان والے جو سود وصول کرتے تھے ، وہ بھی میں نے ختم کردیا ، اب کسی کو سو د کی رقم لینے کی اجازت نہیں ۔۔۔ سب سے پہلے حضور ﷺ نے اپنے چچا حضرت عباس ؓ کا سود ختم کیا اور فرمایا کہ اصل قرضہ واپس لے سکتا ہے ، مگر سود کا ایک پیسہ تک لینے کی اجازت نہیں ، تمام سود مٹا دیے گئے۔ فرمایا فمن جاء ہ موعظۃ من ربہ جس شخص کے پاس اس کے رب کی طرف سے نصیحت آگئی۔ یعنی سود کی حرمت کا حکم پہنچ گیا ۔ فانتھی تو اس شخص نے سود لینا چھوڑ دیا ۔ فلہ ما سلف تو جو کچھ ہوچکا وہ اس کے لیے ہے ، یعنی جو سود حاصل کرچکا ہے ۔ اس کا کچھ مواخذہ نہیں یعنی حرکت سود کا قانون آنے سے پہلے سود کی جو رقم لے چکا ہے۔ وہ اس کی ہوگئی ، اب اس کی واپسی کی ضرورت نہیں۔ وامرہ الی اللہ اس کا معاملہ اللہ کی طرف ہے۔ وہ اسے معاف کرنے پر قادر ہے ، تا ہم یہ اس کی نیت پر منحصر ہے کہ اس نے دل سے اللہ کے حکم کو قبول کرلیا ہے یا محض دکھاوے کے لیے سود لینا بند کیا ہے ، اسی لیے فرمایا کہ ایسے شخص کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ ومن عاد اور جو کوئی دوبارہ سودی کاروبار شروع کر دے گا۔ فاولئک اصحب النار یہی لوگ اہل جہنم ہیں ھم فیھا خلدون وہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے ۔ مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آجانے کے بعد جو شخص سودی لین دین سے باز نہ آیا ، تو وہ اسی لائق ہے کہ جہنم کے گڑھے میں پھینک دیا جائے۔ جہاں سے کبھی چھٹکارا نہ ہو ، اگر اس نے سود کو حلال سمجھ کر کھایا ہے تو پھر تو قطعی کافر ہے ، اور حلال تو نہیں جانتا مگر کھا رہا ہے ، تو بھی شدید درجے کا گناہ گار ہے اور دوزخ کا مستحق ہے۔ حرمت سود کی حکمت سود کے واضح احکام بیان کرنے کے بعد اسکی حکمت بھی بیان فرما دی ۔ یمحق اللہ الربوا اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے ، سود کا جتنا بھی مال اکٹھا کرلو ، مگر انجام کار اس سے فائدے کی بجائے نقصان ہی پہنچے گا ۔ ایسا مال اکثر تعیش کے کاموں ، لہو و لعب ، بینڈباجے ، اتش بازی ، بےجا فیش یا غلط رسم و رواج کی نظر میں ہوجاتا ہے۔ مال حرام بود بجائے حرام رفت کے مصداق حرام کے مال سے صحیح نتائج مرتب نہیں ہو پاتے اس میں خیر و برکت نہیں آتی ۔ انسان سکون قلب سے محروم رہتا ہے ، حرص بڑھتی رہتی ہے ، باقی لوگ خواہ بھوکوں مر جائیں ، اسے مال اکٹھا کرنے سے غرض رہے ، یہ سب نقصان دہ چیزیں ہیں ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے۔ ویربی الصدقت اور صدقات کو بڑھاتا ہے ، زکوٰۃ و صدقات دینے والے کے مال میں اللہ تعالیٰ برکت عطا کرتا ہے۔ صدقات کا جذبہ بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی اور خیر سگالی کا جذبہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کے مال میں دنیا میں بھی اضافہ کرتا ہے اور آخرت میں تو سات سو گنا تک بلکہ اس سے بڑھا چڑھا کر اجر عطا ہوگا۔ اللہ مالک الملک کھجور کے ایک دانے کو احد پہاڑ جتنا بڑھا کر معاوضہ دیگا ۔ صدقہ و خیرات کی یہ برکات ہیں ، گویا اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھاتا ہے۔ واللہ لا یجب کل کفار اثیم اللہ تعالیٰ ناشکرگزار اور گناہ گار آدمی کو پسند نہیں کرتا ، جو شخص اللہ تعالیٰ کی عط کردہ نعمت کو چند دن کے لیے کسی کو ادھار نہیں دے سکتا ، کسی غریب و لاچار کی مدد نہیں کرسکتا۔ کسی بھوکے کو کھانا نہیں کھلا سکتا ، اللہ ایسے ناشکر گزار کو پسند نہیں کرتا اور پھر جو شخص الٹا کسی کی بیماری سے فائدہ اٹھا کر اسے سود پر قرض دیتا ہے۔ اس کا خواہ چوستا ہے ، وہ پہلے ہی کمزور ہے ، اس پر اور مالی بوجھ ڈالتا ہے ، وہ شخص سخت گناہ گار ہے اور اللہ ایسے آدمی کو بھی ہرگز پسند نہیں کرتا۔ اہل ایمان کے لیے بشارت احکام الٰہی کی خلاف ورزی کرنے والوں کے بر خلاف ان الذین امنوا جو لوگ ایمان لائے وعملو الصلحت اور نیک اعمال کئے ، یعنی اولاً وہ اہل ایمان ہیں ۔ ان کا عقیدہ صحیح ہے ، توحید خداوندی پر پورا یقین رکھتے ہیں ۔ بعث بعد الموت پر یقین ہے ، کتب سماویہ پر ایمان ہے اور ثانیا ً وہ اچھے اور شائستہ کا م انجام دیتے ہیں ۔ برائی سے بچتے ہیں ۔ بالخصوص واقاموالصلوٰۃ نماز کو قائم کرتے ہیں ۔ جو کہ امام العبادۃ المقریہ اللہ کا تقرب دلانے والی چیز ہے ۔ اسلام کی جڑ اور بنیاد ہے ، اس کے علاوہ واتوالزکوۃ زکوٰۃ بھی ادا کرتے ہیں ۔ یعنی بدنی عبادت کے ساتھ ساتھ مالی عبادت بھی کرتے ہیں ۔ ان کے دل میں انسانی ہمدردی کا جذبہ موجود ہے ۔ بخل سے محفوظ ہیں ۔ لھم اجرھم عند ربھم ان کے لیے ان کے رب کے ہاں اجر مقرر ہے۔ ان کے نیک اعمال کا ایک ایک ذرہ محفوظ ہے ، اگر رائی کے دانے کے برابر بھی کوئی عمل ہے تو اللہ اسے ضائع نہیں کرتا بلکہ اس کا بدلہ سات سو گنا تک یا اس سے بھی بڑھا چڑھا کر عطا کرتا ہے ، ایسے ہی نیکو کار لوگوں کے متعلق فرمایا ولا خوف علیھم نہ انہیں اس دنیا میں کسی قسم کا خوف ہوگا ۔ ولا ھم یحزنون اور نہ ہ آخرت میں وہ کسی غم و فکر میں مبتلا ہوں گے۔ قیامت کا ڈر تو ہر ایک کو ہونا چاہئے ، مگر حقیقت میں وہ اپنے اچھے اعمال کی وجہ سے مامون ہونگے بر خلاف اس کے اللہ کے احکام کی خلاف ورزی کرنے والے سخت مغمول ہوں گے۔ ایسے لوگ قیامت کے دن اپنے کیے پر پشیمان ہونگے ۔ اور کہیں گے یحسرتی علی ما قرطت فی جنب اللہ افسوس اللہ کی دی ہوئی مہلت سے میں نے کوئی فائدہ نہ اٹھایا اور آج قیامت کے دن نقصان اٹھانے والوں میں شمار ہوگا ۔ بہر حال ایمان اور اعمال صالحہ کے حامل لوگوں کو نہ خوف ہوگا اور نہ کسی قسم کا غم ہوگا ۔
Top