Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 269
یُّؤْتِی الْحِكْمَةَ مَنْ یَّشَآءُ١ۚ وَ مَنْ یُّؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا كَثِیْرًا١ؕ وَ مَا یَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الْاَلْبَابِ
يُّؤْتِي : وہ عطا کرتا ہے الْحِكْمَةَ : حکمت، دانائی مَنْ : جسے يَّشَآءُ : وہ چاہتا ہے وَ : اور مَنْ : جسے يُّؤْتَ : دی گئی الْحِكْمَةَ : حکمت فَقَدْ اُوْتِيَ : تحقیق دی گئی خَيْرًا : بھلائی كَثِيْرًا : بہت وَمَا : اور نہیں يَذَّكَّرُ : نصیحت قبول کرتا اِلَّآ : سوائے اُولُوا الْاَلْبَابِ : عقل والے
وہ جس کو چاہتا ہے حکمت بخشتا ہے اور جسے حکمت ملی اسے خیر کثیر کا خزانہ ملا، مگر یاد دہانی وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔
انفاق کی حکمت کے خزانے کی کلید ہے : لفظ“ حکمت ”کی تشریح ہم اسی سورة کی آیت 151 کے تحت کرچکے ہیں۔ یہاں اس کا دہرانا باعث طوالت ہوگا۔ البتہ اتنی بات یاد رکھنی چاہئے کہ اس کی اصل روح ایمان اور عمل کی وہ پختگی ہے جس کی بنیاد گہری بصیرت پر ہو۔ جس کو یہ چیز حاصل ہوتا ہے وہ اپنا خزانہ اس دنیائے فانی میں نہیں جمع کرتا بلکہ اپنے خدا کے پاس جمع کرتا ہے۔ وہ شیطان کے ڈراو وں سے نہیں ڈرتا بلکہ اپنے پروردگار کے وعدوں پر اعتماد کرتا ہے اور اس دنیا کے خزف ریزے نہیں جمع کرتا بلکہ ان کے بدلے میں حکمت کے خزانے کا طالب بنتا ہے اور یہ حکمت کا خزانہ بہت بڑی چیز ہے۔ اتنی بڑی کہ دنیا کا کوئی خزانہ بھی اس کے آگے کوئی وقعت نہیں رکھتا۔ یہ خزانہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے دیتا ہے۔ یعنی اس کو دیتا ہے جو اس خزانے کے پانے کا استحقاق پیدا کرتے ہیں اس لیے کہ اللہ کا کوئی چاہتا بھی حکمت سے خلاف نہیں ہوسکتا۔ چناچہ اس کی سنت یہ ہے کہ جو اس دنیائے فانی کی لذتوں پر فریفتہ ہونے کے بجائے خدا کی مغفرت اور اس کے فضل کے حصول کے لیے اپنے مال لٹاتے ہیں وہ اس کے صلے میں اپنے دل کے خزانے حکمت کے لعل و گہر سے بھرتے ہیں۔ آخر میں فرمایا کہ یہ بات ہر ایک کے سمجھنے کی نہیں ہے۔ اس کو وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو عقل والے ہیں۔ یعنی جن کی حکمت عقل حکمت کے نور سے منور ہے۔ اس دنیا کی نقد لذوں کو چھوڑ کر ایک نادیدہ عالم کی کامرانیوں کے لیے اپنی کمائی کو لٹانا انہی لوگوں کا حوصلہ ہوسکتا ہے جن کو حکمت سے بہرہ وافر ملا ہو۔
Top