Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 269
یُّؤْتِی الْحِكْمَةَ مَنْ یَّشَآءُ١ۚ وَ مَنْ یُّؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا كَثِیْرًا١ؕ وَ مَا یَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الْاَلْبَابِ
يُّؤْتِي : وہ عطا کرتا ہے الْحِكْمَةَ : حکمت، دانائی مَنْ : جسے يَّشَآءُ : وہ چاہتا ہے وَ : اور مَنْ : جسے يُّؤْتَ : دی گئی الْحِكْمَةَ : حکمت فَقَدْ اُوْتِيَ : تحقیق دی گئی خَيْرًا : بھلائی كَثِيْرًا : بہت وَمَا : اور نہیں يَذَّكَّرُ : نصیحت قبول کرتا اِلَّآ : سوائے اُولُوا الْاَلْبَابِ : عقل والے
وہ جسے چاہتا ہے حکمت دے دیتا ہے اور جس کو حکمت مل گئی تو یقین جانو اس نے بڑی ہی بھلائی پا لی اور نصیحت حاصل نہیں کرتے مگر وہی لوگ جو عقل وبصیرت رکھنے والے ہیں
حکمت کیا ہے ؟ خیر کثیر ہے : 470: حکمت کی تشریح میں بہت کچھ لکھا گیا ہے اور فی الحقیقت بہت کچھ ہی لکھا جاسکتا ہے ، جب اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے کہ جو حکمت دیا گیا اس کو خیر کثیر دے دی گئی تو گویا اب حکمت کیا ہوئی ؟ خیر کثیر ۔ تو پھر وہ کیا چیز ہے جو باقی رہ گئی کیونکہ خیر کثیر میں تو سب کچھ آگیا۔ امام راغب اصفہانی (رح) نے مفردات القرآن میں فرمایا ہے کہ لفظ حکمت جب اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال کیا جائے تو معنی تمام اشیاء کی پوری معرفت اور مستحکم ایجاد کے ہوتے ہیں اور جب غیر اللہ کی طرف اس کی نسبت کی جاتی ہے تو موجودات کی صحیح معرفت اور اس کے مطابق عمل مراد ہوتا ہے۔ پھر اس مفہوم کی تعبیریں مختلف کی گئی ہیں کہ کس جگہ اس سے مراد قرآن کریم ہے ، کس جگہ حدیث ، کس جگہ علم صحیح ، کس جگہ عمل صالح ، کس جگہ قول صادق ، کس جگہ فقہ فی الدین ، کس جگہ اصابت رائے اور کس جگہ خشیت اللہ اور ایک حدیث بھی ہے : (راس الحکمۃ خشیۃ اللہ) یعنی اصل حکمت اللہ تعالیٰ سے ڈرنا ہے اور حقیقت وہی ہے جو اوپر بیان کردی گئی کہ ” حکمت “ میں سب چیزیں آجاتی ہیں کیونکہ وہ خیر کثیر ہے۔ (بحر محیط ص : 320 ، ج 2) جب یہ بتا دیا کہ انفاق فی سبیل اللہ سے تنگدستی کا پیدا ہونا محض شیطانی ڈراوا ہے تو اب اس جگہ بتا دیا کہ صرف مال ہی خیر نہیں بلکہ اصول حقہ کو سمجھ لینا تو خیر کثیر ہے اور یہ اصول حقہ یا اصول دین کی سمجھ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے دیتا ہے ، گویا اس اصول کو سمجھ لینا کہ اللہ کی راہ میں دینے سے انسان تنگدست نہیں ہوتا ، اصول دین میں سے ایک اصل ہے اور اس کو سمجھ کر انسان خیر کثیر کا مالک ہوجاتا ہے۔ اس حکمت کو صحابہ کرام ؓ نے سمجھا اور باوجودیکہ وہ غریب تھے اپنے مالوں کو انہوں نے اللہ کی راہ میں خرچ کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا میں بھی خیر کثیر کے مالک ہوگئے کیونکہ وہ ایک زندہ اور کامیاب قوم بن گئے۔ آج مسلمان ان سے بہت زیادہ مالدار ، تعداد میں ہزارہا گنا زیادہ ہیں ، مگر اس حکمت کی بات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ان کا مال ان کے ہاتھوں سے نکل کر دوسروں کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے اور اس حکمت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے وہ پوری دنیا میں ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ جو قومیں کبھی ان کی مرہون منت زندہ تھیں آج وہ ان کے مرہون منت زندہ ہیں۔ آیت کے آخر میں ” اُولُوا الْاَلْبَابِ “ کے الفاظ ارشاد فرمائے اور الباب ” لب “ کی جمع ہے اور ” لب “ کسی چیز کے خلاصہ یا مغز کو کہتے ہیں اور انسان میں ” لب “ اس عقل خالص کو کہتے ہیں جو ہر قسم کے شائبوں سے پاک ہو یعنی نہایت ہی خالص عقل۔ پس ہر لب عقل ہے اور ہر عقل لب نہیں۔ فرمایا : ” نصیحت حاصل نہیں کرتے مگر وہی لوگ جو خالص عقل و بصیرت رکھنے والے ہیں۔ “
Top