Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 268
اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَ یَاْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَآءِ١ۚ وَ اللّٰهُ یَعِدُكُمْ مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَ فَضْلًا١ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌۖۙ
اَلشَّيْطٰنُ : شیطان يَعِدُكُمُ : تم سے وعدہ کرتا ہے الْفَقْرَ : تنگدستی وَيَاْمُرُكُمْ : اور تمہیں حکم دیتا ہے بِالْفَحْشَآءِ : بےحیائی کا وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعِدُكُمْ : تم سے وعدہ کرتا ہے مَّغْفِرَةً : بخشش مِّنْهُ : اس سے (اپنی) وَفَضْلًا : اور فضل وَاللّٰهُ : اور اللہ وَاسِعٌ : وسعت والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
شیطان تمہیں تنگ دستی سے ڈراتا اور بےحیائی کی راہ سجھاتا ہے اور اللہ اپنی طرف سے مغفرت اور فضل کا وعدہ کرتا ہے اور اللہ بڑی سمائی اور بڑا علم رکھنے والا ہے۔
“ فحشاء ”سے مراد : فحشاء کے معنی کھلی ہوئی بےحیائی اور بدکاری کے ہیں ہیں۔ قرآن میں اس سے زنا، لواطت اور عریانی وغیرہ جیسے کھلے جرائم کو تعبیر کیا گیا ہے، امر کا لفظ جس طرح حکم دینے کے معنی میں آتا ہے اسی طرح مشورہ دینے اور سمجھانے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ تحقیق اس کی ہم دوسری جگہ بیان کر آئے ہیں۔ انفاق کی راہ کی مزاحمتیں : یہ ان مزاحمتوں کی طرف اشارہ ہے جو شیطان اور اس کی ذریات کی طرف سے انفاق کی راہ میں پیش آتی ہیں۔ آدمی جب کسی نیک کام میں خرچ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو شیطان اور اس کے ایجنٹ اس کو دو طرح سے اس کے ارادے سے ہٹانے کی کوشش کرتے رہیں۔ ایک تو مستقبل کے موہوم خطرات سے اس کو ڈراتے ہیں کہ فلاں اور فلاں مشکل کام اس کے آگے پڑے ہیں اس وجہ سے وہ اپنے ہاتھ روکے رکھے، ورنہ سخت دشواریوں میں پھنس جائے گا۔ دوسرے اس کو عیاشی، مے نوشی، سینما بینی اور اسراف و تبذیر کی دوسری لتوں میں پھنساتے ہیں تاکہ کسی اعلی مقصد میں خرچ کرنے کے لیے کوئی گنجائش اس کے پاس باقی ہی نہ رہ جائے۔ شیطان کا فتنہ بڑا ہی سخت و شدید ہے۔ جو لوگ اس میں مبتلا ہوجاتے ہیں وہ اپنی بدمستیوں میں اس طرح ڈوب جاتے ہیں کہ وہ اللہ اور اس کے بندوں میں سے کسی کا حق ادا کرنے کے قابل رہ ہی نہیں جاتے۔ چناچہ سورة بنی اسرائیل میں جہاں انفاق کا حکم دیا ہے وہاں شیطان کے اس ہتھکنڈے سے بچتے رہنے کی خاص طور پر تاکید فرمائی ہے۔ وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا (26)إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا (27): قرابت مند اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق دو اور اپنے مال کو عیاشیوں میں نہ اڑاؤ، بے اس طرح اپنے مال کو اڑانے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی نا شکرا ہے۔ (اسراء :26-27)۔ بعینہ یہی مضمون اسی طرح کے سیاق وسباق کے ساتھ آل عمرا کی آیات 134-135 میں بیان ہوا ہے۔ وَاللّٰهُ يَعِدُكُمْ مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَفَضْلًا ۭ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ : مغفت یہاں فحشاء کے مقابل میں ہے اور فضل کا لفظ فر کے مقابل میں ہے۔ یعنی شیطان تو تمہیں اللہ کی راہ میں انفاق کے بجائے نفس کی راہ میں فضول خرچی اور عیاشی کی راہ سجھاتا ہے تاکہ تمہیں سیدھے جہنم میں لے جائے لیکن اللہ اپنی راہ میں خرچ کی دعوت دے کر تمہیں مغفرت اور جنت کی طرف بلاتا ہے۔ اسی طرح شیطان تمہیں فق کے ہوے سے ڈرا کر تمہارے دل بٹھاتا ہے لیکن اللہ تم سے اس انفاق کے عوض میں دنیا اور آخرت دونوں میں اپنے بےپایاں فضل و انعام کا وعدہ فرماتا ہے۔ اللہ بڑا سمائی رکھنے والا اور تمہارے ایک ایک عمل سے واقف ہے۔ نہ اس کے پاس دینے کے لیے کمی ہے اور نہ وہ تمہارے راہ خدا میں دیے ہوئے کسی پیسے دھیلے سے بیخبر ہے۔
Top