Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 269
یُّؤْتِی الْحِكْمَةَ مَنْ یَّشَآءُ١ۚ وَ مَنْ یُّؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا كَثِیْرًا١ؕ وَ مَا یَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الْاَلْبَابِ
يُّؤْتِي : وہ عطا کرتا ہے الْحِكْمَةَ : حکمت، دانائی مَنْ : جسے يَّشَآءُ : وہ چاہتا ہے وَ : اور مَنْ : جسے يُّؤْتَ : دی گئی الْحِكْمَةَ : حکمت فَقَدْ اُوْتِيَ : تحقیق دی گئی خَيْرًا : بھلائی كَثِيْرًا : بہت وَمَا : اور نہیں يَذَّكَّرُ : نصیحت قبول کرتا اِلَّآ : سوائے اُولُوا الْاَلْبَابِ : عقل والے
وہ جس کو چاہتا ہے صحیح فہم عطا کرتا ہے اور جو شخص صحیح فہم سے بہرہ ور کیا گیا اس کو بلاشبہ بہت بڑی بھلائی عطا کی گئی اور نصیحت نہیں قبول کرتے مگر وہی جن کو صحیح عقل ہے۔3
3 شیطان تم کو مفلسی اور محتاجی سے ڈراتا ہے اور تم کو ناشائستہ اور بری باتوں کی ترغیب اور مشورہ دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ تم کو اپنی طرف سے گناہ بخشنے اور زیادہ دینے کا وعدہ کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑا صاحب وسعت بڑا فیاض اور ہر چیز کا جاننے والا ہے وہ جس کو چاہتا ہے صحیح فہم عطا فرما دیتا ہے اور یقین جانو کہ جس کو صحیح فہم دے دیا گیا اس کو بہت بڑی بھلائی اور خیر کثیر سے نوازا گیا اور نصیحت تو صرف وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو صحیح اور خالص عقل رکھتے ہیں۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ شیطان تم کو یہ کہہ کر ڈراتا ہے کہ دیکھو اگر خیرات کرو گے یا عمدہ اور نفیس چیزیں بانٹ کر بیٹھ جائو گے تو دیوالیہ نکل جائے گا۔ فقیر اور محتاج ہو جائو گے ایک طرف ڈراتا ہے دوسری طرف بری بات یعنی بخل کی ترغیب دیتا ہے اور خدا کی راہ میں خرچ نہ کرنے کا مشورہ دیتا ہے جب ایسا ہو تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ یاد کرو اس کا وعدہ یہ ہے کہ جب ہماری راہ میں خرچ کرو گے تو عام دستور کے مطابق ہم تمہارے گناہ بخش دیں گے کیونکہ نیکی اور طاعت کفارئہ سیات کا موجب ہوتی ہے۔ ان الحسنات یذھبن السیات نیز یہ کہ ہم تم کو اپنا فضل عطا فرمائیں گے یعنی دنیا میں مال بڑھا دیں گے یا آخرت میں ثواب زیادہ دیں گے پھر فرمایا یہ بات بالکل صاف اور ظاہر ہے مگر وہی سمجھتا ہے جس کو صحیح فہم اور دین کی سمجھ عطا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ چونکہ ہر شخص کی حالت کو خوب جانتا ہے اس لئے جس کو چاہتا ہے دین کے فہم اور صحیح سمجھ سے بہرہ مند کر دیات ہے اور بات تو یہ ہے کہ جس کو دین کا فہم عطا کردیا گیا اس کو خیر کثیر کا مالک بنادیا گیا۔ حدیث میں آتا ہے ہر روز جب خدا تعالیٰ کے بندے صبح کرتے ہیں تو دو فرشتے آواز لگاتے ہیں ایک کہتا ہے یا اللہ ! خرچ کرنے والے کو عضو عطا فرما دے دوسرا کہتا ہے۔ یا اللہ ! روک کر رکھنے والے کا مال تلف کر دے۔ سورئہ سبا میں ارشاد ہے۔ وما انفقتم من شئی فھو یخلفہ تم جو کچھ خرچ کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس کا عوض عطا فرما دیتا ہے وعید اور وعد میں فرق یہ ہے کہ وعید عام طور سے شرک کے لئے استعمال ہوتا ہے اور وعد شر اور خیر دونوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے یعنی ہوتے دونوں وعدے ہیں لیکن ایک ضرر اور نقصان کا وعدہ اور ایک نفع کا اور کبھی نقصان کا وعدہ اس لئے ہم نے یعدکم کا ترجمہ ڈرانے سے کیا ہے۔ شیطان کا ڈرانا یہی کہ مختلف قسم کے وسوسے ڈالتا ہے اور اوہام و تخیلات میں مبتلا کرت ا ہے۔ فحشا کا ترجمہ عام طور سے بےحیائی کیا جاتا ہے۔ صاحب کشاف نے کہا ہے کہ اہل عرب بخیل کو بھی فاحش کہتے ہیں اور یہی معنی یہں زیادہ مناسب ہیں کہ شیطان بخل کی ترغیب دیتا ہے اور سخی کو بخیل بنانے کی سعی کرتا ہے ۔ امر کے معنی حکم کرنے کے ہیں مطلب یہ ہے کہ جب شیطان کسی انسان پر قابو پا لیتا ہے تو تحکمانہ انداز میں مشورہ دیتا ہے بخشش سیئات کا مطلب یہ ہے کہ صدقہ دینے اور خیرات کرنے سے صغیرہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں فضل کے معنی زیادتی، بزرگی، بڑائی وغیرہ کے ہیں یہاں خیرات کرنے والوں کے مال کی یا ثواب کی افزوتی مراد ہے۔ حکمت کے مفسرین نے بہت معنی کئے ہیں لیکن تقریباً سب قریب المعنی ہیں یہاں دین کا صحیح فہم اور قرآن کی صحیح سمجھ مراد ہے۔ حضرت شاہ صاحب واسع علیم پر فرماتے ہیں یعنی جب دل میں خیال آوے کہ مال خیرات میں دے ڈالوں تو میں مفلس رہ جائوں اور ہمت آوے بےحیائی پر کہ اللہ تعالیٰ کی تاکید سن کر پھر بھی خرچ نہ کرے تو جان لیوے کہ یہ شیطان کی طرف سے آیا اور جب خیال آوے کہ خیرات سے گناہ بخشے جاویں گے اور لالہ کے یہاں کمی نہیں چاہے گا تو اور دے گا تو جان لیوے کہ یہ اللہ کی طرف سے آیا ۔ (موضح القرآن) فقیہ ابوللیث فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دنیاوی سامان کو متاع قلیل فرمایا ہے اور دین کے فہم کو خیر کثیر فرمایا ہے لہٰذا ایک عالم دین کو کسی دنیا دار کے سامنے اپنے آپ کو ذلیل نہیں کرنا چاہئے۔ بہرحال خلاصہ یہ ہے کہ ایک طرف شیطان کے وسوسے اور تخیلات ہیں فقر و افلاس کے اندیشے ہیں بخل کی ترغیب و تحریص ہے اور دوسری طرف حصہ جل و علا جو بڑے فیاض اور صاحب وسعت ہیں ان کی مغفرت اور فضل کا وعدہ ہے مگر ان باتوں کا صحیح فیصلہ وہی لوگ کرسکتے ہیں جن کو حضرت حق نے دین کا صحیح فہم عطا کیا ہے اور جو لوگ ارباب سلوک ہیں وہی شیطان کی تخویف اور خدا کے وعدوں کو صحیح طور پر سمجھتے ہیں اور یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ کون سی بات فع کرنے کے قابل ہے اور کون سی ایمان لانے اور قبول کرنے کے لائق ہے۔ حضرت شاہ صاحب نے خوب فرمایا ہے اور نہایت مناسب اور موزوں تقسیم کی ہے مگر جب تک کوئی شیخ کامل نہ ہو اور کسی مرشد کی صحبت میسر نہ ہو ان باتوں پر واقفیت حاصل نہیں ہوتی اور نہ ان خطرات کا صحیح احساس اور ادراک ہوتا ہے جو قلب پر دار ہوتے رہتے ہیں آیت کے آخر میں صحیح عقل والوں سے اپیل ہے کیونکہ جن کے پاس عقل سلیم ہے اور جو عقل خلاص کے مالک ہیں وہی قرآنی نصائح سے نصیحت پذیر ہوتے ہیں۔ (تسہیل)
Top