Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 259
اَوْ كَالَّذِیْ مَرَّ عَلٰى قَرْیَةٍ وَّ هِیَ خَاوِیَةٌ عَلٰى عُرُوْشِهَا١ۚ قَالَ اَنّٰى یُحْیٖ هٰذِهِ اللّٰهُ بَعْدَ مَوْتِهَا١ۚ فَاَمَاتَهُ اللّٰهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهٗ١ؕ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ١ؕ قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ١ؕ قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانْظُرْ اِلٰى طَعَامِكَ وَ شَرَابِكَ لَمْ یَتَسَنَّهْ١ۚ وَ انْظُرْ اِلٰى حِمَارِكَ وَ لِنَجْعَلَكَ اٰیَةً لِّلنَّاسِ وَ انْظُرْ اِلَى الْعِظَامِ كَیْفَ نُنْشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوْهَا لَحْمًا١ؕ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَهٗ١ۙ قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
اَوْ : یا كَالَّذِيْ : اس شخص کے مانند جو مَرَّ : گزرا عَلٰي : پر سے قَرْيَةٍ : ایک بستی وَّهِيَ : اور وہ خَاوِيَةٌ : گر پڑی تھی عَلٰي عُرُوْشِهَا : اپنی چھتوں پر قَالَ : اس نے کہا اَنّٰى : کیونکر يُحْيٖ : زندہ کریگا ھٰذِهِ : اس اللّٰهُ : اللہ بَعْدَ : بعد مَوْتِهَا : اس کا مرنا فَاَمَاتَهُ : تو اس کو مردہ رکھا اللّٰهُ : اللہ مِائَةَ : ایک سو عَامٍ : سال ثُمَّ : پھر بَعَثَهٗ : اسے اٹھایا قَالَ : اس نے پوچھا كَمْ لَبِثْتَ : کتنی دیر رہا قَالَ : اس نے کہا لَبِثْتُ : میں رہا يَوْمًا : ایک دن اَوْ : یا بَعْضَ يَوْمٍ : دن سے کچھ کم قَالَ : اس نے کہا بَلْ : بلکہ لَّبِثْتَ : تو رہا مِائَةَ عَامٍ : ایک سو سال فَانْظُرْ : پس تو دیکھ اِلٰى : طرف طَعَامِكَ : اپنا کھانا وَشَرَابِكَ : اور اپنا پینا لَمْ يَتَسَنَّهْ : وہ نہیں سڑ گیا وَانْظُرْ : اور دیکھ اِلٰى : طرف حِمَارِكَ : اپنا گدھا وَلِنَجْعَلَكَ : اور ہم تجھے بنائیں گے اٰيَةً : ایک نشانی لِّلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَانْظُرْ : اور دیکھ اِلَى : طرف الْعِظَامِ : ہڈیاں کَيْفَ : کس طرح نُنْشِزُھَا : ہم انہیں جوڑتے ہیں ثُمَّ : پھر نَكْسُوْھَا : ہم اسے پہناتے ہیں لَحْمًا : گوشت فَلَمَّا : پھر جب تَبَيَّنَ : واضح ہوگیا لَهٗ : اس پر قَالَ : اس نے کہا اَعْلَمُ : میں جان گیا اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز قَدِيْرٌ : قدرت والا
یا جیسے کہ وہ جس کا گزر ایک بستی پر ہوا جو اپنی چھتوں پر گری پڑی تھی، اس نے کہا کہ بھلا اللہ اس کو اس کے فنا ہوچکنے کے بعد کس طرح زندہ کرے گا ؟ توا للہ نے اس کو سو سال کی موت دے دی، پھر اس کو اٹھایا۔ پوچھا کتنی مدت اس حال میں رہے ؟ بولا ایک دن یا ایک دن کا کچھ حصہ، فرمایا بلکہ تم پورے سو سال اس حال میں رہے۔ اب تم اپنے کھانے پینے کی چیزوں کی طرف دیکھو، ان میں سے کوئی چیز بسی تک نہیں۔ اور اپنے گدھے کو دیکھو، ہم اس کو کس طرح زندہ کرتے ہیں تاکہ تمہیں اٹھائے جانے پر یقین ہو اور تاکہ ہم تمہیں لوگوں کے لیے ایک نشانی بنائیں اور ہڈیوں کی طرف دیکھو، کس طرح ہم ان کا ڈھانچہ کھڑا کرتے ہیں، پھر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں۔ پس جب اس پر حقیقت اچھی طرح واضح ہوگئی وہ پکار اٹھا کہ میں مانتا ہوں کہ بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
‘ او ’ کا محل استعمال : حرف“ او ”اصلا تقسیم کے لیے آیا کرتا ہے۔ پہلے ان لوگوں کی مثال پیش کی جن کا ذکر اوپر الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَوْلِيٰۗــــــُٔــھُمُ الطَّاغُوْتُ کے الفاظ سے فرمایا تھا، اب یہ ان لوگوں کی مثال بیان ہو رہی ہے جن کا ذکر اَللّٰهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۙيُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ سے فرمایا ہے۔ ایک بندہ مومن جو طالب یقین تھا۔ اس تقسیم کی مثال اسی سورة کی آیات 17-20 میں گزر چکی ہے۔ اس وجہ سے ہمارے نزدیک صاحب کشاف کا یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ یہاں جس شخص کا حوالہ دیا گیا ہے وہ کافر تھا بلکہ یہ ایک ایسے بندہ مومن کا ذکر معلوم ہوتا ہے جو ایمان سے تو بہرہ ور تھا لیکن وہ اپنے اس ایمان میں اس اطمینانِ قلب اور یقین کا طالب تھا جس کو حق الیقین کہتے ہیں۔ اس کا یہ سوال کہ“ اس بستی کو خدا اس طرح فنا ہوجانے کے بعد کس طرح زندہ کرے گا ”انکار کی نوعیت کا نہیں بلکہ اظہار حیرت کی نوعیت کا ہے انان بسا اوقات ایک چیز کو مانتا ہے اس لیے کہ عقل و فطرت اس کی گواہی دے رہی ہوتی ہے لیکن وہ بات بجائے خود ایسی حیران کن ہوتی ہے کہ اس سے متعلق دل میں بار بار یہ سوال ابھرتا رہتا ہے کہ یہ کیسے واقع ہوگی ؟ یہ سوال انکار کے جذبہ سے نہیں بلکہ جستجوئے حقیقت کے جوش سے ابھرتا ہے اور خاص طور پر ان مواقع پر زیادہ زور سے ابھرتا ہے جب سامنے کوئی ایسا منظر آجائے جو باطن کو جھنجھوڑ دینے والا ہو۔ یہ حالت ایمان کے منافی نہیں بلکہ اس ایمان کے مقتضیات میں سے ہے جس کی بنیاد عقل و بصیرت پر ہو۔ یہ سلوک باطن کی ایک ریاضت ہے جس سے ہر طالب حقیقت کو گزرنا پر تا ہے اور یہ سفر برابر اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک حتی یاتیک الیقین کے انوار سے قلب و نظر جگمگا نہ جائیں۔ اس سفر میں ہر منزل اگرچہ خوب سے خوب تر کی طرف اقدام کی نوعیت کی ہوتی ہے لیکن عارف کی نظر میں اس کا ہر آج اس کے گزشتہ کل سے اتنا زیادہ روشن ہوتا ہے کہ وہ کل اس کو آج کے مقابل میں شب نظر آتا ہے۔ الَّذِيْ مَرَّ عَلٰي قَرْيَةٍ سے یہاں کس کی طرف اشارہ ہے ؟ اس سوال کا کوئی قطعی جواب دینا مشکل ہے۔ ارباب تفسیر میں کسی نے خضر کا نام لیا ہے، کسی نے عزیر کا لیکن قدیم صحیفوں میں ان دونوں بزرگوں سے متعلق کوئی اس قسم کا واقعہ منقول نہیں ہے جس کی طرف قرآن نے یہاں اشارہ کیا ہے۔ البتہ صحیفہ حزقی ایل میں اس سے ملتی جلتی ہوئی ایک چیز ملتی ہے جس کی نوعیت ایک مکاشفہ کی ہے۔ ملاحظہ ہو حزقی ایل نبی کا ایک مکاشفہ :“ خداوند کا ہاتھ مجھ پر تھا اور اس نے مجھے اپنی روح میں اٹھا لیا اور اس وادی میں جو ہڈیوں سے پر تھی مجھے اتار دیا اور مجھے ان کے پاس چوگرد پھرایا اور دیکھ وہ وادی کے میدان میں بکثرت اور نہایت سوکھی تھیں اور اس نے مجھے فرمایا اے آدم زاد، کیا یہ ہڈیاں زندگہ ہوسکتی ہیں ؟ میں نے جواب دیا، اے خداوند تو ہی جانتا ہے، پھر اس نے مجھے فرمایا تو ان ہڈیوں پر نبوت کر اور ان سے کہہ اے سوکھی ہڈیو، خداوندی کلام سنو، خداوند خدا ان ہڈیوں کو یوں فرماتا ہے کہ میں تمہارے اندر روح ڈالوں گا اور تم زندہ ہوجاؤ گی اور تم پر نسیں پھیلاؤں گا اور گوشت چڑھاؤں گا اور تم کو چمڑا پہنچاؤں گا اور تم میں دم پھونکوں گا اور تم زندہ ہوگی اور جانو گی کہ میں خداوند ہوں۔ پس میں حکم کے مطابق نبوت کی اور جب میں نبوت کر رہا تھا تو ایک شور ہوا اور ایک زلزلہ آیا اور ہڈیاں آپس میں مل گئیں۔ ہر ایک ہڈی اپنی ہڈی سے۔ اور میں نے نگاہ کی تو کیا دیکھتا ہوں کہ نسیں اور گوشت ان پر چڑھ آئے اور ان پر چمڑے کی پوشش ہوگئی پر ان میں دم نہ تھا، تب اس نے مجھے فرمایا کہ تو نبوت کر، تو ہوا نبوت کر اے آدم زاد اور ہوا سے کہہ خداوند یوں فرماتا ہے کہ اے دم تو چاروں طرف سے آ اور ان مقتولوں پر پھونک کہ زندہ ہوجائیں۔ پس میں نے حکم کے مطابق نبوت کی اور ان میں دم آیا اور وہ زندہ ہو کر اپنے پاؤں پر کھڑی ہوئیں۔ ایک نہایت بڑا لشکر ”(حزقی ایل باب 37-1-11)۔ قرآن اور تورات تورات کے اختلاف کی نوعیت : اگرچہ قرآن اور تورات کے بیان میں کچھ فرق ہے لیکن یہ فرق تضاد کی نوعیت کا نہیں بلکہ اجمال و تفصیل کی نوعیت کا ہے۔ اس طرح کا فرق بسا اوقات ایک ہی مقصد کی دو روایات میں پایا جاتا ہے جس کو تناقض پر نہیں بلکہ اجمال و تفصیل پر محمول کیا جاتا ہے۔ قرآن میں بعض باتیں زیادہ ہیں جو تورات میں نہیں ہیں۔ ایسے مواقع میں قرآن کے بیان کو ترجیح حاصل ہوگی اس لیے کہ وہ براہ راست خدا کا کلام اور بالل محفوظ ہے۔ مثلاً تورات میں اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ خود حزقی ایل پر بھی سو سال کے لیے موت طاری کدی گئی۔ اسی طرح ان کے کھانے کے نہ بسنے اور گدھے کے دوبارہ زندہ ہونے کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے۔ لیکن ان کے ذکر نہ کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ مشاہدات حزقی ایل کو نہیں ہوئے۔ جو مشاہدات ان کو رائے گئے ان میں یہ بھی ہیں لیکن تورات میں یا تو ان کا ذکر نہیں ہوا یا ذکر تو ہوا لیکن اہل تورات نے اس کو ضائع کردیا۔ آیات الٰہی کے مشاہدہ کے لیے سیر ملکوت : اگر قرآن کے اس حوالہ کا علق حزقی ایل نبی کے اسی مشاہدہ ملکوت سے مان لیا جاجائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ یہ آیات الٰہی کے مشاہدہ کے لیے ایک سیر ملکوت تھی جس طرح کی سیر ملکوت کی اس سے اعلی مثال ہمارے یہاں واقعہ معراج ہے۔ یہ معاملات چونکہ ایک ایسے عالم میں پیش آتے ہیں جو علمارے عالم کون و فساد کے ضابطوں اور زمان و مکاں کی حد بندیوں سے ماوری ہے اس وجہ سے ایک احکام کو دوسرے پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہے۔ اس عالم میں صدیوں اور قوں کے معاملات منٹوں اور لمحوں میں انجام پاتے ہیں۔ وَّهِيَ خَاوِيَةٌ عَلٰي عُرُوْشِهَا، یہ گری ہوئی بستی کی تصویر ہے۔ عموماً یہ ہوتا ہے کہ کہنہ عمارتیں جب گرتی ہیں تو ان کے انہدام کا آٓتاز ان کے کنگروں میناروں اور ان کی چھتوں سے ہوتا ہے۔ پہلے بلندیاں پست ہوتی ہیں، اس کے بعد دیواروں کی باری آتی ہے۔ اَنّٰى يُـحْيٖ ھٰذِهِ کے سوال کی نوعیت : اَنّٰى يُـحْيٖ ھٰذِهِ اللّٰهُ بَعْدَ مَوْتِهَا، یہ سوال، جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا، انکار کی نوعیت کا نہیں بلکہ حیرت و استعظام کی نوعیت کا ہے۔ اس سے مقصود حق الیقین کی طلب تھی اس وجہ سے یہ ایمان کے منافی نہیں بلکہ اس کے مدارج و مقامات میں سے ہے۔ یقین کے مختلف مدارج ہیں اس وجہ سے اس کی طلب ہر درجے کے اشخاص میں پائی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ حضرات انبیاء بھی جو ایمان و یقین کے بلند ترین مدارج پر فائز ہوتے ہیں، اس سے مستغنی نہیں ہوتے بلکہ اس میں اضافہ کے لیے وہ بھی برابر دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ اس طرح کے سوالات کے ابھرنے کا محل ایک طالب حقیقت کا اپنا ہی باطن ہوتا ہے۔ وہ یہ سوال دوسروں سے نہیں بلکہ خود اپنے ہی سے کرتا ہے اور اس کا جواب دوسروں سے نہیں بلکہ اس رہنمائے غیب سے چاہتا ہے جس کی تجلیات اس کے اپنے باطن کے افِ اعلی پر نمایاں ہوتی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے، اسی نوعیت کی ایک خلش حزقی ایل بھی اپنے اندر محسوس فرماتے تھے چناچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی آیات کا مشاہدہ کرا کے ان کی یہ الجھن دور فرما دی اور اس طرح ان کو نہ صرف حیات بعد الموت کے معاملے میں اطمینان قلب کی ٹھنڈک حاصل ہوگئی بلکہ بلکہ، جیسا کہ آگے واضح ہوگا، احیائے بنی اسرائیل کی اس مہم کے لیے بھی ان کا دل پوری طرح مضبوط ہوگیا جس پر وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوئے تھے یہ سنت الٰہی ہے کہ وہ ہدایت کے طالبوں پر اپنی راہیں کھولتا ہے اور ان کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے ان کی تربیت فرماتا اور ان کو روشنی عطا کرتا ہے۔ كَمْ لَبِثْتَ ۭ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا اَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ۭ قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ ، یہ سوال و جواب اس حقیقت کے اظہار کے لیے ہے کہ آدمی کا جو زمانہ عالم برزخ میں گزرے گا، اٹھنے پر اس کا کوئی احساس باقی نہیں رہے گا، ایسا معلوم ہوگا کہ ابھی سوئے تھے ابھی جاگ اٹھے ہیں۔ آج معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی زندگی، پھر موت، پھر برزخ، پھر قیامت ایک بہت دور کی بات ہے، اس کے لیے ابھی سے اپنا عیش مکدر کرنے کی کیا ضرورت ہے لیکن جب قیامت کو اٹھیں گے تو معلوم ہوگا جو کچھ گزرا ہے وہ بہت دور کی بات نہیں بلکہ بلکل صبح و شام کا قصہ ہے۔ وَانْظُرْ اِلٰى حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ اٰيَةً لِّلنَّاسِ۔ یہاں انظر الی حمارک، کے بعد، کیف نحییہ کے الفاظ محذوف ہیں۔ یعنی دیکھو کہ کس طرح ہم اس گدھے کو زندہ کیے دیتے ہیں۔ اس حذف کی وجہ یہ ہوئی کہ آگے زندہ کرنے سے زیادہ عجیب ماجرے، اس کی سڑی گلی ہڈیوں کو جوڑنے اور ان پر گوشت اور کھال چڑھانے کی تفصیل آرہی ہے۔ اس مذکور کے اندر یہ محذوف آپ سے آپ موجود ہے۔ وَلِنَجْعَلَكَ اٰيَةً لِّلنَّاسِ میں حرف عطف کا وجود، در آنحالیکہ یہاں کوئی لفظ ایسا موجود نہیں ہے جو اس کا معطوف علیہ بن سکے، اس بات کا واضح قرینہ ہے کہ یہاں معطوف علیہ محذوف ہے۔ اس قسم کے حذف کی مثالیں قرآن مجید میں بکثرت ہیں۔ آگے جگہ جگہ اس کی وضاحت ہوگی۔ اس حذف کا فائدہ یہ ہے کہ الفاظ بہت کم اسعمال ہوتے ہیں اور بت اس کے اندر بہت زیادہ سما سکتی ہے۔ اس لیے کہ ایسے مواقع میں وہ اسی بات حذف کی جاسکتی ہے جس پر سیاق وسباق دلیل بن سکے۔ یہاں موقع دلیل ہے کہ، لتومن بالبعث، اور اس معنی کے الفاط حذف ہیں۔ گویا پوری بات یوں ہوگی کہ“ اور تم اپنے گدھے کو دیکھو کہ کس طرح ہم اس کو زندہ کیے دیتے ہیں تاکہ حیات بعد الممات پر تمہارا ایمان پکا ہوجائے اور تاکہ تمہیں ہم لوگوں کے لیے نشانی بنائیں۔ یہ نشانی بنانا چونکہ اس کا ایک بعید فائدہ تھا جس کی طرف آسانی سے ذہن منتقل نہیں ہوسکتا تھا اس وجہ سے اس کو ظاہر کردیا اور ایمان بالبعث اس کا بالکل واضح اور قریبی فائدہ تھا اس وجہ سے اس کو حذف رکدیا اور حرف ربط کے ذریعہ سے اس کی طرف اشارہ کردیا۔ بنی اسرائیل کے لیے پیغام حیات : اور تاکہ ہم تم کو لوگوں کے لیے نشانی بنائیں، یعنی ہم نے تم کو آیات الٰہی کا یہ مشاہدہ اس لیے بھی کرایا ہے کہ تم بنی اسرائیل کے لیے اس بات کی نشانی بن سکو کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے یہ بات بعید نہیں ہے کہ وہ ان کو از سرِ نو غلامی و محکومی کی ذلت سے چھڑا کر آزادی اور قوت و عزت کی زندگی بخش دے۔ یہ امر یہاں واجح رہے کہ حزقی ایل نبی منکروں کی طرف نہیں بلکہ بنی اسرائیل کی طرف بھیجے گئے تھے اور ان کا خاص مقصد بنی اسرائیل کو از سرِ نو زندہ کرنا تھا لیکن تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں بنی اسرائیل اپنے مستقبل کی طرف سے بہت مایوس تھے۔ چناچہ اوپر ہم نے صحیفہ حزقی ایل کی جو عبارت نقل کی ہے اس کا خاتمہ ان الفاظ پر ہوتا ہے۔“ تب اس نے مجھے فرمایا اے آدم زاد یہ ہڈیاں تمام بنی اسرائیل ہیں، دیکھ یہ کہتے ہیں، ہماری ہڈیاں سوکھ گئیں اور ہماری امید جاتی رہی ہم تو بالکل فنا ہوگئے اس لیے تو نبوت کر اور ان سے کہہ خداوند خدا یوں فرماتا ہے کہ اے میرے لوگو، دیکھو میں تمہاری قبروں کو کھولوں گا اور تم کو ان سے باہر نکالوں گا تب تم جانو گے کہ خداوند میں ہوں اور میں اپنی روح تم میں ڈالوں گا اور تم زندہ ہوجاؤ گے اور میں تم کو تمہارے ملک میں بساؤں گا تب تم جانوگے کہ میں خداوند نے فرمایا ”(حزقی ایل باب 37۔ 11-14)۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حزقی ایل نبی کو ان آیات کا مشاہدہ کرانے سے مقصود ایک تو یہ تھا کہ موت کے بعد زندگی کے مسئلہ میں خود ان کو شرح صدر حاصل ہوجائے۔ دوسرا یہ کہ ان کا یہ مشاہدہ بنی اسرائیل کے لیے پیغام حیات کا کام دے اور ان کے اندر یہ حوصلہ پیدا ہو کہ اللہ تعالیٰ انہیں بھی دوبارہ ایک زندہ قوم بنانے پر قادر ہے۔ ایک سوال اور اس کا جواب : یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ یہاں کھانے پینے کی چیزوں سے متعلق تو فرمایا کہ لَمْ يَتَسَـنَّهْ ، ان میں کوئی تغیر واقع نہیں ہوا، برعکس اس کے گھدے کی ہر چیز سڑ گل گئی۔ ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ ایک ہی طرح کے حالات میں یہ دو مختلف اثرات کیوں نمایاں ہوئے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ طالب کی جو اصلی ذہنی خلش تھی وہ یہی تھی کہ ایک چیز مر کھپ جانے اور مٹی میں مل جانے کے بعد از سر نو زندگی کس طرح حاصل کرلے گی ؟ اس مشاہدے نے اس کی یہ خلش دور کردی۔ ساتھ ہی کھانے پینے کی چیزوں کا کوئی تغیر نہ قبول کرنا اس کے لیے اس بات کا ثبوت بن گیا کہ اصل شیئ اللہ کا حکم ہے، اگر اللہ چاہے تو کسی ایک شے کو اس کے گل سڑ جانے کے بعد بھی از سرِ نو زندگی بخش سکتا ہے اور اگر چاہے تو کسی شے کو تمام قوانین طبعی کے عمل سے بالا تر بھی رکھ سکتا ہے۔ قرآن میں اصحاب الکہف کا جو واقعہ مذکورہ ہے وہ اس کی مثال ہے۔ آخر میں فرمایا کہفَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهٗ ۙ قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۔ یعنی اس مشاہدے کے بعد جب ان پر حیات بعد الممات کا راز بےنقاب ہوگیا تو وہ پکار اٹھے کہ اب میں مانتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ یہاں اَعْلَمُ کا لفظ اپنے کامل معنی میں ہے۔ یعنی وہ جاننا جس کو قرآن نے علم الیقین سے تعبیر فرمایا ہے۔ یہ علم الیقین ان کو قیامت سے متعلق بھی حاصل ہوگیا اور بنی اسرائیل کے مستقبل کے باب میں بھی گویا اس پردے میں انہوں نے بنیا سرائیل کی سوکھی ہڈیوں میں زنگی پیدا ہوتے اور ان پر گوشت پوست چڑھتے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور اپنے مشن کی کامیابی پر انہیں پورا اعتماد ہوگیا۔ اس پہلو سے وہ اپنی قوم کے لیے ایک نشانی ٹھہرائے گئے۔
Top