Al-Qurtubi - Al-Furqaan : 11
بَلْ كَذَّبُوْا بِالسَّاعَةِ١۫ وَ اَعْتَدْنَا لِمَنْ كَذَّبَ بِالسَّاعَةِ سَعِیْرًاۚ
بَلْ : بلکہ كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا بِالسَّاعَةِ : قیامت کو وَاَعْتَدْنَا : اور ہم نے تیار کیا لِمَنْ كَذَّبَ : اس کے لیے جس نے جھٹلایا بِالسَّاعَةِ : قیامت کو سَعِيْرًا : دوزخ
بلکہ یہ تو قیامت کو ہی جھٹلاتے ہیں اور ہم نے قیامت کے جھٹلانے والوں کے لئے دوزخ تیار کر رکھی ہے
(بل کذبو بالساعۃ۔۔۔۔۔ ) بل کذبوا بالساعۃ اس ساعت سے مراد یوم قیامت ہے۔ واعتدنالمن کذب بالساعۃ سعیرا۔ سعیر سے مراد جہنم ہے جو ان پر جوش مار رہی ہوگی۔ اذا اتھم من مکان بعید وہ پانچ سو سال کی مسافت سے انہیں دیکھے گی۔ سمعوا لھا تعیظا وزفیرا ایک قول یہ کیا گیا ہے : جب جہنم انہیں دیکھے گی تو وہ اس کی آواز سنیں گے جو آواز اس کے ان پر حد درجہ غصے ہونے کی ہوگی۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : معنی ہے جب جہنم کے خازن انہیں دیکھیں گے تو وہ لوگ ان خازنوں کے غصے ہونے کی آواز سنیں گے جو ان کو عذاب دینے کے حریص ہوں گے، پہلا قول زیادہ صحیح ہے، کیونکہ مرفوع روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :” جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولا تو وہ جہنم کی دو آنکھوں کے درمیان اپنا ٹھکانہ بنا لے “۔ عرض کی گئی : یا رسول اللہ ﷺ ! اس کی دو آنکھیں بھی ہیں ؟ فرمایا : ” کیا تم اللہ تعالیٰ کو ارشاد فرماتے ہوئے نہیں سنتے : اذا راتھم من مکان بعید سمعوا لھا تغیطا وزفیرا (2) جہنم کی آگ میں سے ایک گردن ظاہر ہوگی جس کی دو آنکھیں ہوں گی اور ایک زبان ہوگی جو بولے گی، وہ کہے گی : جس نے بھی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو معبود بنایا اس کا معاملہ میرے سپرد کردیا گیا ہے، تو وہ ان لوگوں کو اس پرندے سے زیادہ دیکھے گی جو تل کے دانہ کو دیکھتا ہے اور اسے اٹھا لیتا ہے “۔ ایک روایت میں ہے : ” آگ سے ایک گردن نکلے گی وہ کفار کو یوں اچک لے گی جس طرح پرندہ تل کے دانے کو اٹھا لیتا ہے “۔ (تفسیر طبری) ۔ رزین نے اسے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے اور ابن عربی نے اسے اپنی قبس میں صحیح قرار دیا ہے اور کہا : وہ گردن مخلوق سے انہیں یوں الگ کرلے گی جس طرح پرندہ مٹی سے تل کے دانے کو الگ کرلیتا ہے۔ امام ترمذی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ایک حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :” قیامت کے روز آگ (جہنم) سے ایک گردن نکلے گی جس کی دو آنکھیں ہوں گی جو دیکھتی ہوں گی، دو کان ہوں گے جو سنتے ہوں گے، ایک زبان ہوگی جو گفتگو کرے گی وہ کہے گی : تین قسم کے افراد میرے سپرد کیے گئے ہیں : (1) ہر عناد رکھنے والا جابر (2) ہر وہ شخص جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کے معبود ہونے کا دعویٰ کیا (3) تصویریں بنانے والے “۔ اس باب میں حضرت ابو سعید کی ایک روایت ہے۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی نے کہا : یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔ کلبی نے کہا : انہوں نے ایسا غصہ سنا جیسا کہ انسان کا غصہ ہوتا ہے اور ایسی آواز سنی جیسی آواز گدھے کی ہوتی ہے۔ ایک قول یہ کہا گیا ہے : اس میں تقدیم و تاخیر ہے انہوں نے اس کی چنگھاڑ کو سنا اور اس کے غصہ کو جانا، قطرب نے کہا : تغیظ کو سنا نہیں جاتا بلکہ اسے دیکھا جاتا ہے، اس کا معنی ہے، انہوں نے اس کے غصہ کو دیکھا اور اس کی چنگھاڑ کو سنا، جس طرح شاعر کا قول ہے : ورایت زوجک فی الوغی متقلدا سیفا ورمخا میں نے جنگ میں تیرے خاوند کو دیکھا جو تلوار کو قلاوہ بنائے اور نیزہ اٹھائے ہوئے تھا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : لھا، فیھا کے معنی میں ہے یعنی اس میں عذاب دیئے گئے لوگوں کے غصہ اور چیخ و پکار کو سنیں گے، جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : لھم فیھا زفیر وشھیق۔ ( ہود) فی اور لام قریب قرب ہیں۔ تو کہتا ہے : افضل ھذا فی اللہ وللہ میں اللہ تعالٰ کے لیے یہ عمل کرتا ہوں، دونوں جملوں کا معنی ایک ہے۔ واذا القوا منھا مکانا ضیقا مقرنین قتادہ نے کہا : ہمارے لیے یہ ذکر کیا گیا کہ حضرت عبد اللہ کہا کرتے تھے : جہنم کافر پر یوں تنگ کی جائے گی جس طرح لوہا نیزے کے سرے پر تنگ کیا جاتا ہے، ابن مبارک نے اسے دقائق میں ذکر کیا ہے حضرت ابن عباس ؓ نے بھی اسی طرح کہا ہے، ثعلبی اور قشیری نے ان سے یہ بیان کیا ہے، ماوردی نے حضرت عبد اللہ بن عمرو سے روایت نقل کی ہے۔ مقرنین کا معنی ہے جکڑے ہوئے، یہ ابو صالح کا قول ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : ان کے ہاتھ ان کی گردنوں کے ساتھ طوق میں جکڑ دیئے جائیں گے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : انہیں شیاطین کے ساتھ ملا دیا جائے گا یعنی ان میں سے ہر ایک کو اس کے شیطان کے ساتھ ملا دیا جائے گا : یہ یحییٰ بن سلام کا قول ہے۔ سورة ابراہیم میں یہ گزر چکا ہے، عمرو بن کلثوم نے کہا : فآبوابالنھاب وبالمایا وابنا بالملوک مقرنین وہ غنیمتوں اور قیدیوں کے ساتھ لونے جب کہ ہم لوٹے ایسے بادشاہوں کے ساتھ جن کو جکڑا گیا تھا۔ دعواھمالک تبورا ثبورکا معنی ہلاک ہے : یہ ضحاک نے کہا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : ثبورا کا معنی ویل ہے۔ (1) نبی کریم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا :’ ’ سب سے پہلے جو کلمہ کہے گا وہ ابلیس ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے آگ کا حلہ پہنایا جائے گا، اس حلہ کو اس کو آبروئوں پر رکھا جائے گا، اس کے پیچھے سے اسے ہانکا جائے گا اس کی اولاد اس کے پیچھے ہوگی وہ کہہ رہا ہوگا : ہائے ہلاکت “۔ مفعول مطلق ہونے کی حیثیت سے اسے نصب دی گئی ہے، تقدیر کلام یہ ہے : ثبرنا ثبورا : یہ زجاج کا قول ہے۔ دوسرے علماء نے کہا : یہ مفعول بہ ہے۔ لا تدعوا لیوم تبورا اواحداوادعواتبور کثیرا کیونکہ تمہاری ہلاکت اس سے زیادہ ہے کہ تم ایک دفعہ ہلاکت پکارو۔ ثمورا کہا، کیونکہ یہ مصدر ہے جو قلیل اور کثیر کے واقع ہوتا ہے، اسی وجہ سے اس کی جمع نہیں بنائی جاتی، یہ تیرے اس قول کی طرح ہے : ضربتہ ضرباً کثیرا و قعد قعود طویلا یہ آیات ابن خطل اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئیں۔
Top