Dure-Mansoor - Al-Furqaan : 269
یُّؤْتِی الْحِكْمَةَ مَنْ یَّشَآءُ١ۚ وَ مَنْ یُّؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا كَثِیْرًا١ؕ وَ مَا یَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الْاَلْبَابِ
يُّؤْتِي : وہ عطا کرتا ہے الْحِكْمَةَ : حکمت، دانائی مَنْ : جسے يَّشَآءُ : وہ چاہتا ہے وَ : اور مَنْ : جسے يُّؤْتَ : دی گئی الْحِكْمَةَ : حکمت فَقَدْ اُوْتِيَ : تحقیق دی گئی خَيْرًا : بھلائی كَثِيْرًا : بہت وَمَا : اور نہیں يَذَّكَّرُ : نصیحت قبول کرتا اِلَّآ : سوائے اُولُوا الْاَلْبَابِ : عقل والے
وہ حکمت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے، اور جس کو حکمت دی گئی اسے خوب زیادہ خیر عطا کی گئی، اور وہی لوگ نصیحت قبول کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔
(1) ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم اور نحاس نے اپنی ناسخ میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” یؤتی الحکمۃ من یشاء “ حکمت سے مراد ہے قرآن کے ناسخ اور منسوخ اس کے محکم اور متشابہ اس کے مقدم اور مؤخر اس کے حلال اور حرام اور اس کی مثالوں کی معرفت ہے۔ (2) ابن مردویہ، جو پیر کے طریق سے ضحاک سے حضرت ابن عباس ؓ سے مرفوعا روایت کیا کہ لفظ آیت ” یؤتی الحکمۃ “ سے مراد قرآن ہے یعنی اس کی تفسیر۔ اور ابن عباس ؓ سے فرمایا اس کی وجہ سے اس قرآن کو نیکوکار اور فاجر پڑھتا ہے یعنی حکمت سے مراد نیکی اور برائی کا جان لینا۔ (3) ابن الضریس نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کہ لفظ آیت ” یؤتی الحکمۃ “ سے مراد قرآن ہے۔ (4) ابن المنذر نے حضرت ابن عباس رضی عنہما سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” یؤتی الحکمۃ من یشاء “ سے مراد نبوت ہے۔ (5) عبد بن حمید، اور ابن جریر نے، مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” یؤتی الحکمۃ من یشاء “ سے نبوت مراد نہیں ہے بلکہ قرآن علم اور فقہ مراد ہے۔ (6) حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ لفظ آیت ” یؤتی الحکمۃ “ سے مراد قرآن میں سمجھ حاصل کرنا۔ (7) ابو درداء ؓ نے فرمایا کہ ” یؤتی الحکمۃ “ سے مراد قرآن کا پڑھنا اور اس میں فکر حاصل کرنا ہے۔ (8) ابو العالیہ (رح) نے فرمایا کہ ” یؤتی الحکمۃ “ سے مراد کتاب اور اس کا سمجھنا ہے۔ (9) مجاہد (رح) نے فرمایا کہ لفظ آیت ” یؤتی الحکمۃ “ سے مراد کتاب اللہ ہے اور (اللہ تعالیٰ ) جس کو چاہتے ہیں صحیح سمجھ اس کو دیتے ہیں۔ (10) ابراہیم (رح) نے فرمایا ” یؤتی الحکمۃ “ سے سمجھ مراد ہے۔ (11) مجاہد نے فرمایا کہ ” یؤتی الحکمۃ “ سے مراد بات کرنے میں درست ہونا۔ (12) قتادہ (رح) نے فرمایا کہ ” یؤتی الحکمۃ “ سے مراد ہے الفقہ فی القرآن یعنی قرآن میں سمجھ حاصل کرنا۔ (13) ضحاک (رح) نے فرمایا کہ ” یؤتی الحکمۃ “ سے مراد قرآن ہے۔ (14) ابو العالیہ (رح) نے فرمایا کہ ” یؤتی الحکمۃ “ سے مراد خشیت یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرنا ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنا ہر حکمت کی جڑ ہے اور یہ (آیت) پڑھی، لفظ آیت ” انما یخشی اللہ من عبادہ العلموا “ (فاطر آیت 28) ۔ (15) خالد بن ثابت ربعی (رح) نے فرمایا کہ میں نے داؤد (علیہ السلام) کی (کتاب) زبور کے آغاز میں پایا ہے بلاشبہ حکمت کی جڑ رب سے ڈرنا ہے۔ (16) مطر الوراق (رح) نے فرمایا کہ ہم کو یہ بات پہنچی ہے کہ حکمت سے مراد اللہ کا ڈر اور اللہ کی معرفت ہے۔ (17) سعید بن جبیر (رح) سے فرمایا کہ خشیت (یعنی اللہ سے ڈرنا) یہی حکمت ہے جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈر گیا تو اس نے افضل حکمت کو پالیا۔ (18) مالک بن انس ؓ سے روایت کہ زید بن اسلم ؓ سے فرمایا حکمت سے مراد عقل ہے اور میرے دل میں یہ بات واقع ہوئی ہے کہ بلاشبہ حکمت اللہ کے کے دین میں سمجھ حاصل کرنے کا نام ہے، اور ایک ایسا کام ہے جس کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت اور فضل سے دلوں میں داخل فرما دیتے ہیں اور یہ اس سے واضح ہوتا ہے کہ تو ایک شخص کو دیکھتا ہے کہ وہ دنیا کے کاموں میں کمزور ہے لیکن دین کا عالم ہے اللہ تعالیٰ نے اس کو بصیرت عطا فرمائی ہے اور دین کے کاموں سے غافل کو اس سے محروم رکھا جاتا ہے اور حکمت اللہ کے دین میں سمجھ حاصل کرنے کا نام ہے۔ (19) ابن ابی حاتم سے مکحول (رح) سے روایت کیا کہ بلاشبہ قرآن نبوت کے بہتر حصوں میں ایک حصہ ہے اور وہی حکمت ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا لفظ آیت ” ومن یؤت الحکمۃ اوتی خیرا کثیرا “۔ (20) ابن المنذر نے عروہ بن زبیر ؓ سے روایت کیا کہ یوں کہا جاتا تھا کہ نرمی حکمت کی جڑ ہے۔ قرآن پڑھنے کی فضیلت (21) بیہقی نے شعب الایمان میں ابو امامہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے ایک تہائی قرآن پڑھا اس کو فیضان نبوت کا ایک تہائی حصہ عطا کیا گیا اور جس نے آدھا قرآن پڑھا اس کو فیضان نبوت کا آدھا حصہ دیا گیا اور جس نے دو تہائی قرآن پڑھا اس کو دو تہائی فیضان نبوت حصہ دیا گیا جس نے سارا قرآن اس کو فیضان نبوت کا پورا حصہ دیا گیا اور اس سے قیامت کے دن کہا جائے گا پڑھتا جا اور ہر آیت کے بدلے میں ایک درجہ بلند ہوگا یہاں تک کہ جب وہ پورا کرلے گا جو اس کے پاس قرآن تھا تو اس سے کہا جائے پکڑ لے تو وہ (اپنے ہاتھوں سے) پکڑے گا۔ پھر اسے کہا جائے گا کیا تو جانتا ہے۔ (22) الطبرانی اور حاکم (نے اس کو صحیح کہا) اور بیہقی نے عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے قرآن پڑھا تو اس نے اپنے پہلوؤں کے درمیان فیضان نبوت کو جمع کرلیا سوائے اس کے کہ اس کی طرف وحی نہیں کی جاتی اور جس شخص نے قرآن پڑھا پھر اس نے کسی کے بارے میں یہ خیال کیا کہ اس کو مجھ سے افضل نعمت ملی تو اس سے بڑا جانا اس چیز کو جس کو اللہ نے چھوٹا فرمایا اور چھوٹا جانا اس چیز کو جس کو اللہ نے بڑا فرمایا اور قرآن والے کو یہ مناسب نہیں کہ غصہ کرنے والے کے ساتھ غصہ کرے اور جہالت کرنے والے کے ساتھ جہالت کا مظاہرہ کرے حالانکہ اس کے پیٹ میں قرآن ہے۔ (23) الحالم نے (اور اس کو صحیح کہا ہے) عبید اللہ بن ابی نہیک (رح) سے روایت کیا کہ حضرت سعد ؓ نے فرمایا اے کمائی کرنے والے تاجرو ! میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا لفظ آیت ” لیس منا من لم یتغن بالقران “ سفیان بن عینیہ (رح) نے فرمایا اس سے مراد ہے کہ وہ ہم سے نہیں جو قرآن کے ساتھ مستغنی نہ ہو۔ (24) البزار الطبرانی اور حاکم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ شخص ہم میں سے نہیں جو قرآن کو خوش الحانی کے ساتھ نہ پڑھے یا یہ مطلب ہے کہ جو قرآن کے ساتھ مستغنی نہ ہو۔ (25) البزار نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جس نے قرآن کو خوش الحانی کے ساتھ نہ پڑھا۔ تلاوت کرنے والا مالدار ہے (26) الطبرانی نے عبد اللہ بن عمرو ؓ سے روایت کیا کہ ایک عورت نبی اکرم ﷺ کے پاس آکر کہنے لگی میرا خاوندمسکین ہے کسی چیز پر قادر نہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے اس کے خاوند سے فرمایا کیا تو قرآن میں سے کوئی چیز پڑھتا ہے ؟ فرمایا فلاں سورت پڑھ کر اس نے تلاوت کی نبی اکرم ﷺ نے فرمایا واہ، واہ تیرا خاوند تو مالدار ہے (یہ بات سن کر) وہ عورت اپنے خاوند کے ساتھ رہی پھر (ایک دفعہ) رسول اللہ ﷺ کے پاس آکر کہنے لگی اے اللہ کے نبی ! اللہ تعالیٰ نے ہم پر ہمارے رزق کو فراخ کردیا ہے۔ (27) طبرانی اور بیہقی نے شعب میں ابو امامہ ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کے پاس آکر کہنے لگا یا رسول اللہ ! میں نے بنی فلاں کا حصہ خریدا ہے تو میں نے اس پر اتنا اتنا منافع کمایا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کیا میں تم کو اس سے زیادہ نفع پانے والے کا نہ بتاؤں ؟ اس نے کہا کیا کوئی شخص ایسا بھی ہے جو اس سے زیادہ نفع پانے والا ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا وہ آدمی جو دو آیات سیکھے وہ آدمی گیا اور دس آیات سیکھ لیں اور نبی اکرم ﷺ کو یہ خبر دی (کہ میں نے دس آیات سیکھ لیں) ۔ (28) ابن ابی شیبہ اور طبرانی نے حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ وہ ایک آدمی کو ایک آیت پڑھاتے تھے پھر کہتے تھے اس کو سیکھ لو کیونکہ یہ بہتر ہے تیرے لیے ان سب چیزوں میں سے جو آسمان اور زمینوں کے درمیان ہیں یہاں تک کہ وہ سارے قرآن کے بارے میں یوں ہی فرماتے تھے۔ (29) طبرانی نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ اگر تم میں سے کسی کو یہ کہا جائے اگر تو صبح کو فلاں شہر میں آئے گا تو تیرے لیے چار جوان اونٹنیاں ہوں گی فرماتے تھے وہ کہتا ہے کہاں ہیں میرے لیے (چار اونٹنیوں) کہ میں صبح کو آؤں ( پھر فرمایا) اگر تم میں سے کوئی صبح کو آکر کتاب اللہ میں سے ایک آیت سیکھ لے تو اس کے لیے کئی چار (اونٹنیوں) سے بھی بہتر ہے یہاں تک کہ آپ نے بہت چیزوں کو شمار کیا۔ (30) بیہقی نے شعب نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے تاجروں کا گروہ ! کیا تم میں سے کوئی اس بات سے عاجز ہے کہ جب وہ اپنے بازار سے واپس آئے تو دس آیات کو پڑھ لے اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر آیت کے بدلہ میں ایک نیکی لکھ دیں گے۔ (31) البزار نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا وہ گھر جس میں قرآن پڑھا جاتا ہے اس میں خیروبرکت تھوڑی ہوتی ہے۔ (32) ابو نعیم نے فضل العلم اور ریاضۃ المتعلمین میں اور بیہقی نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا قرآن غنی یعنی مالدار ہے اس کے بعد فقر (یعنی غربت) نہیں ہے اور اس کے علاوہ کوئی مالداری نہیں۔ (33) بخاری نے اپنی تاریخ میں اور بیہقی نے رجاء غنوی ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کا حافظ بنا دیا پھر اس نے کسی کے بارے میں یہ خیال کیا کہ وہ مجھ سے افضل نعمت دیا گیا ہے تو اس نے اللہ کی عظیم نعمت (یعنی قرآن) کو حقیر جانا۔ (34) بیہقی نے سمرہ بن جندب ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر تعلیم و تربیت کرنے والے کی تعظیم و تکریم کرنا تجھ پر واجب ہے اور اللہ نے قرآن کو بڑی عظمت بخشی ہے پس اس کو نہ چھوڑے۔ (35) عبد بن حمید نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی آیت نہیں اتاری مگر اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند فرماتے ہیں کہ بندے اس کو سیکھیں جو اتارا گیا کہ اس آیت سے کیا مراد و مقصود ہے۔ (36) عبد بن حمید نے ابو قلابہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے فرمایا سب سے پہلے زمین سے علم اٹھا لیا جائے گا صحابہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا قرآن اٹھا لیا جائے گا ؟ آپ نے فرمایا نہیں لیکن جو اس کی تعلیم دیتے تھے وہ فوت ہوجائیں گے یا یہ فرمایا جو اس کی تاویل کو جانتے ہوں وہ فوت ہوجائیں گے پھر ایسے لوگ باقی رہ جائیں گے جو اپنی خواہشات پر اس کی تاویل کریں گے۔ (37) ابن جریر، بیہقی نے شعب میں حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ جب ہم نبی اکرم ﷺ سے دس آیات قرآن میں سے سیکھتے تھے تو اس کے بعد والی دس آیات اس وقت تک نہیں سیکھتے تھے یہاں تک کہ ہم اس بات کو جان لیتے تھے جو کچھ اس کے اندر ہے (یعنی جو احکام ان آیات میں ہوتے تھے ان کو سیکھتے تھے) شریک رحمۃ سے اللہ علیہ سے پوچھا گیا کیا عمل کرنا سیکھتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا ہاں۔ (38) ابن ابی شیبہ، احمد ابن جریر، ابن المنذر اور المرہبی نے فضل العلم میں ابو عبد الرحمن سلمی (رح) سے روایت کیا کہ ہم کو اس شخص نے بیان کیا جو ہم کو پڑھاتے تھے حضور ﷺ کے صحابہ میں (یعنی صحابی نے بیان کیا) کہ وہ صحابہ کرام ؓ رسول اللہ ﷺ سے دس آیات سیکھتے تھے تو اس کے بعد والی دس آیت کو اس وقت تک نہیں سیکھتے تھے یہاں تک کہ ہم ان پہلی والی دس آیات کے علم وعمل کے بارے میں نہ جان لیتے تھے پھر فرمایا ہم نے علم اور عمل دونوں کو سیکھا۔ (39) طبرانی نے الاوسط میں حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ میں نے اپنے زمانہ میں سے کچھ عرصہ اس طرح زندگی گذار دی کہ ہم میں سے کوئی قرآن سے پہلے ایمان لاتا تھا اور (جو) سورة محمد ﷺ پر اترتی تھی تو ہم اس کے حلال اور اس کے حرام کو سیکھتے تھے اور ہمارے لیے یہ مناسب نہیں تھا کہ ہم اس طرح ﷺ سے وہ سورت سیکھتے جیسا کہ تم قرآن کو سیکھتے ہو پھر میں نے کئی افراد دیکھے وہ ایمان سے پہلے قرآن پڑھتے تھے اور وہ سورة فاتحہ سے آخر تک قرآن پڑھتے تھے لیکن ان کو یہ معلوم نہ ہوتا تھا کہ قرآن نے کیا حکم دیا ہے اور نہ اس بات کو جانتے تھے کہ قرآن نے جس چیز سے منع کیا ہے ہم کو یہ لائق نہیں کہ ہم کو یہ لائق نہیں کہ ہم اسی طرح ٹھہرے رہیں (حرام اور حلال کو نہ سیکھیں) اور ردی کھجور کی طرح قرآن کو بکھیرنا مناسب نہیں۔ (40) ترمذی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا حکمت و دانائی کا کلمہ مؤمن کی کھوئی ہوئی (میراث) ہے جہاں سے اس کو پائے کیونکہ وہ اس کا زیادہ حق دار ہے۔ (41) احمد نے زھد میں مکحول ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس شخص نے اخلاص کے ساتھ چالیس دن اللہ تعالیٰ کی عبادت کی تو حکمت کے چشمہ اس کے دل سے اس کی زبان پر جاری ہوتے ہیں۔ (42) ابو نعیم نے الحلیۃ میں موصولا مکحول کے طریقہ سے ابو ایوب انصار سے مرفوع روایت کی ہے۔ (43) طبرانی نے ابو امامہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ لقمان ؓ نے اپنے بیٹے سے فرمایا اے میرے بیٹے علماء کی مجالس کو لازم پکڑ اور حکماء کے کلام کو سن کیونکہ اللہ تعالیٰ مردہ دل کو حکمت کے نور سے اس طرح زندہ فرماتے ہیں جیسے مردہ زمین کو موسلا دھار بارش سے زندہ کرتا ہے۔ دو آدمیوں پر غبطہ جائز ہے (44) بخاری، مسلم، نسائی، ابن ماجہ نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حسد (یعنی رشک) کرنا (جائز) نہیں ہے مگر دو آدمیوں کے بارے میں ایک وہ آدمی جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہو اور وہ اس کو نیک کاموں میں (برابر) خرچ کرتا رہے اور دوسرا وہ آدمی جس کو اللہ تعالیٰ نے حکمت دی ہو اور وہ اسی کے مطابق فیصلہ کرتا ہو اور اس کو سکھاتا ہو۔ (45) بیہقی نے شعب الایمان میں یزید بن اخنس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مقابلہ (جائز) نہیں ہے مگر دو آدمیوں میں سے ایک وہ آدمی جس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کی نعمت عطا کی ہو پھر وہ دن رات اس کی حفاظت کرتا ہو اس میں غوروفکر بھی کرتا ہو پس ایک آدمی (اس کو دیکھ کر) کہتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھ کو بھی یہ (قرآن والی نعمت) عطا فرمادین جیسے فلاں آدمی فرمائی تو میں بھی اس طرح دن رات اس کی حفاظت کرتا جیسا کہ وہ آدمی اس کی حفاظت کرتا ہے اور دوسرا وہ آدمی جس کو مال دیا گیا وہ اس میں سے (دن رات) خرچ کر رہا ہے صدقہ کر رہا ہے تو ایک آدمی اس کو دیکھ کر کہتا ہے اگر اللہ تعالیٰ مجھ کو بھی ایسے مال عطا فرمادیں جیسے اس آدمی کو عطا کیا گیا تو میں بھی اسی طرح صدقہ و خیرات کرتا۔ ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ ! ایک شخص میں جو بہادری ہوتی ہے (اس کی کیا فضیلت ہے ؟ ) آپ نے فرمایا یہ بہادری اس (فضیلت میں) ان دونوں صفتوں کے برابر نہیں ہے کتا اپنے مالکوں کے پیچھے چلتا ہے۔ (46) بخاری ومسلم اور ابن ماجہ نے حضرت معاویہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ خیر کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس کو دین میں سمجھ عطا فرما دیتے ہیں۔ (47) ابو یعلی نے حضرت معاویہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ خیر کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس کو دین میں سمجھ عطا فرما دیتے ہیں اور جس شخص کو دین کی سمجھ عطا نہیں ہوئی تو اس نے دین میں سے کچھ حاصل نہیں کیا۔ (48) البزار الطبرانی نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتے ہیں اس کو دین میں سمجھ عطا فرما دیتے ہیں اور اس کو ہدایت کا الہام فرماتے ہیں۔ (49) الطبرانی نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا افضل عبادت دین کی سمجھ ہے اور افضل دین پرہیزگاری ہے۔ (50) البزار اور الطبرانی نے الاوسط میں المرھبی نے فضل العلم میں حذیفہ بن یمان ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا علم کی فضیلت عبادت کی فضیلت سے افضل ہے اور تمہارا بہتر دین تقویٰ ہے۔ (51) الطبرانی نے الاوسط میں عبد اللہ بن عمر وؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا تھوڑا علم بہتر ہے زیادہ عبادت سے آدمی کے لیے۔ فقیہ ہونا کافی ہے جب وہ اللہ کی عبادت کرے اور آدمی کے لیے جاہل ہونا کافی ہے جب وہ اپنی رائے کو پسند کرے۔ (52) الطبرانی نے حضرت عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کوئی کمانے والا نہیں کماتا مثل اس فضیلت والے علم کے جو انسان کو ہدایت کی طرف لے جاتا ہے یا اس کو ہلاکت سے روکتا ہے اور اس کا دین پختہ نہیں ہوتا یہا تک کہ اس کی عقل پختہ ہو۔ (53) ابن ماجہ نے ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے ابو ذر ! تو صبح سویرے اللہ تعالیٰ کی کتاب میں سے ایک آیت سیکھ لے یہ سو رکعات پڑھنے سے تیرے لیے بہتر ہے اور اگر صبح سویرے تو علم کا ایک باب سیکھ لے اور اس پر تو عمل کرے یا نہ کرے یہ تیرے لیے ہزار رکعت پڑھنے سے بہتر ہے۔ (54) المرھبی نے فضل العلم میں، الطبرانی نے الاوسط میں، دار قطنی اور بیہقی نے شعب میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا اللہ کے بندے کے لیے فقہ فی الدین (یعنی دین کی سمجھ حاصل کرنا اس سے افضل کوئی چیز نہیں اور البتہ ایک فقیہ زیادہ بھاری ہوتا ہے شیطان پر ہزار عابدوں سے اوپر چیز کا ایک ستون ہونا اور اس دین کا ستون فقہ ہے۔ اور ابوہریرہ ؓ سے فرمایا کہ میں ایک گھڑی دین سیکھنے کے لیے بیٹھ جاؤں یہ میرے نزدیک ساری رات صبح تک عبادت کرنے سے زیادہ محبوب ہے۔ (55) ترمذی اور مرھبی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دو خصلتیں منافق میں جمع نہیں ہوسکتیں، اچھی چال چلن اور فقہ فی الدین (یعنی دین کی سمجھ حاصل کرنا) ۔ (56) الطبرانی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا علم کی فضیلت عبادت سے افضل ہے اور دین کا دارو مدار تقوی پر ہے۔ (57) الطبرانی نے عبدالرحمن بن عوف ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھوڑا تفقہ بہتر ہے کثیر عبادت سے اور تمہارے بہترین اعمال وہ ہیں جو آسان ہوں۔ (58) بیہقی نے شعب میں حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ کے بندے کے لیے دین میں سمجھ بوجھ حاصل کرنے سے بڑھ کر کوئی عبادت افضل نہیں۔ (59) الطبرانی نے ثعبلہ بن حکم ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ قیامت کے علماء کے لیے فرمائیں گے جب اپنی کرسی پر اپنے بندوں کے فیصلے کے لیے بیٹھیں گے تو علماء سے فرمائیں گے کہ میں نے اپنا علم اور حلم تمہارے اندر اس لیے رکھا تھا تاکہ میں تمہاری خطاؤں کو معاف کر دوں اور مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ (60) الطبرانی نے ابو موسیٰ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بندون کو اٹھائے گا پھر علماء کو الگ کر دے گا اور فرمائے گا اے علماء کی جماعت ! میں نے تمہارے اندر علم اس کے لیے نہیں رکھا تھا کہ تم کو عذاب دوں چلے جاؤ میں نے تم کو معاف کردیا۔
Top