Anwar-ul-Bayan - Al-Furqaan : 8
اَوْ یُلْقٰۤى اِلَیْهِ كَنْزٌ اَوْ تَكُوْنُ لَهٗ جَنَّةٌ یَّاْكُلُ مِنْهَا١ؕ وَ قَالَ الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا
اَوْ يُلْقٰٓى : یا ڈالا (اتارا) جاتا اِلَيْهِ : اس کی طرف كَنْزٌ : کوئی خزانہ اَوْ تَكُوْنُ : یا ہوتا لَهٗ جَنَّةٌ : اس کے لیے کوئی باغ يَّاْكُلُ : وہ کھاتا مِنْهَا : اس سے وَقَالَ : اور کہا الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع) اِنْ تَتَّبِعُوْنَ : نہیں تم پیروی کرتے اِلَّا : مگر۔ صرف رَجُلًا : ایک آدمی مَّسْحُوْرًا : جادو کا مارا ہوا
یا اس کی طرف (آسمان سے) خزانہ اتارا جاتا یا اس کا کوئی باغ ہوتا کہ اس میں سے کھایا کرتا اور ظالم کہتے ہیں کہ تم تو ایک جادو زدہ شخص کی پیروی کرتے ہو
(25:8) یلقی الیہ۔ مضارع مجہول واحد مذکر غائب القاء (افعال) مصدر ڈالا جائے اس کی طرف۔ اتارا جائے اس کی طرف او یلقی الیہ کنزیا کیوں نہ اس کی طرف (غیب سے) خزانہ ہی اتارا گیا۔ او تکون لہ جنۃ۔ یا اس کا ایک باغ ہی ہوتا۔ آیت 7:8 میں یلقی اور تکون اگرچہ فعل مضارع ہیں لیکن ان کا عطف انزل فعل ماضی پر ہے کیونکہ دونوں معطوف الیہ اور معطوف کے درمیان فیکون فعل مضارع داخل ہے۔ کفار کے نزدیک کسی رسول من اللہ کے لئے ضروری تھا کہ :۔ (1) وہ کوئی فرشتہ ہوتا جو انسان کی طرح کھانے پینے کا محتاج نہ ہوتا اور نہ ضروریات زندگی کے لئے اسے بازاروں میں گھومنے پھرنے کی ضرورت ہوتی۔ (2) اگر یہ نہیں تھا تو کم از کم ایک فرشتہ ہر وقت اس کی معیت میں رہتا اور لوگوں کو ڈراتا کہ اگر تم نے رسول کی پیروی نہ کی تو ابھی خدا کا عذاب بسا دیتا ہوں۔ (3) یہ نہیں تو اس کے لئے کوئی غیب سے خزانہ ہی اتار دیا جاتا تاکہ معاش کا خاطر خواہ انتظام ہوجاتا۔ (4) یا بدرجہ آخر اس کا کوئی باغ ہی ہوتا جس کا پھل وہ خود بھی کھاتا (اور دوسرون کو بھی کھلاتا) وہ کہتے کہ یہ کیا ماجرا ہے کہ خدا کا رسول ہمارے معمولی رئیسوں سے بھی گیا گذرا ہے نہ خرچ کے لئے مال میسر نہ پھل کھانے کو کوئی باغ نصیب۔ اور دعویٰ یہ کہ ہم اللہ رب العالمین کے پیغمبر ہیں۔ الظلمون۔ ای الکفار۔ ان تتبعون میں ان بمعنی ما ہے تتبعون مضارع جمع مذکر حاضر۔ کفار کا خطاب تابعین رسول اللہ ﷺ سے ہے۔
Top