Anwar-ul-Bayan - Al-Furqaan : 11
بَلْ كَذَّبُوْا بِالسَّاعَةِ١۫ وَ اَعْتَدْنَا لِمَنْ كَذَّبَ بِالسَّاعَةِ سَعِیْرًاۚ
بَلْ : بلکہ كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا بِالسَّاعَةِ : قیامت کو وَاَعْتَدْنَا : اور ہم نے تیار کیا لِمَنْ كَذَّبَ : اس کے لیے جس نے جھٹلایا بِالسَّاعَةِ : قیامت کو سَعِيْرًا : دوزخ
بلکہ ان لوگوں نے قیامت کو جھٹلایا اور جو شخص قیامت کو جھٹلائے ہم نے اس کے لیے دھکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے
قیامت کے دن کافروں پر دوزخ کا غیظ و غضب، دوزخ کی تنگ جگہوں میں ڈالا جانا، اہل جنت کا جنت میں داخل ہونا اور ہمیشہ ہمیشہ جی چاہی زندگی میں رہنا مشرکین جو طرح طرح سے رسول اللہ ﷺ کی تکذیب کرتے تھے جس میں فرمائشی معجزات کا طلب کرنا بھی تھا اور یہ کہنا بھی تھا کہ آپ کی طرف خزانہ کیوں نہ ڈالا گیا اور آپ کے پاس کوئی باغ کیوں نہیں ہے جس میں سے آپ کھاتے پیتے، اس کے جواب میں فرمایا کہ اللہ پاک جو کثیر البرکات اور کثیر الخیرات ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اگر وہ چاہے تو آپ کو اس سے بہتر عطا فرما دے گا جن کا انہوں نے تذکرہ کیا ہے وہ چاہے تو آپ کو ایسے باغ عطا فرما دے جن کے نیچ نہریں جاری ہوں اور آپ کو محل عطا فرما دے لیکن وہ کسی کا پابند نہیں ہے کہ لوگوں کو اعتراضات کی وجہ سے کسی کو اموال عطا فرمائے وہ جو چاہتا ہے اپنی حکمت کے مطابق دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے اس کو دیتا ہے اس کے بعد معاندین کی ایک اور تکذیب کا ذکر فرمایا (بَلْ کَذَّبُوْا بالسَّاعَۃِ ) یعنی یہ لوگ نہ صرف آپ کی رسالت کے منکر ہیں بلکہ وقوع قیامت کے بھی منکر ہیں۔ اور یہ جو شبہات پیش کرتے ہیں ان کا سبب یہ ہے کہ ان کو آخرت کی فکر نہیں ہے آخرت کی بےفکری نے ان کو شرارت نفس پر آمادہ کر رکھا ہے جس کی وجہ سے طلب حق سے بعید ہو رہے ہیں آیت کے شروع میں جو لفظ بل لایا گیا ہے اس سے یہ مضمون واضح ہو رہا ہے (وَاَعْتَدْنَا لِمَنْ کَذَّبَ بالسَّاعَۃِ سَعِیْرًا) (اور جو شخص قیامت کو جھٹلائے ہم نے اس کے لیے دھکتی ہوئی آگ کا عذاب تیار کیا ہے) ۔ قیامت کے دن جب یہ لوگ حاضر ہوں گے تو دوزخ سے ابھی دورہی ہوں گے کہ دوزخ چیخے گی اور چلائے گی اس کی ہیبت ناک غصہ بھری آواز سنیں گے دوزخ کو اللہ تعالیٰ کے مبغوض لوگوں پر غصہ آئے گا اور اس کا یہ غیظ و غضب اس کی کڑی اور سخت آواز سے ظاہر ہوگا جیسے کوئی اونٹ کسی کی دشمنی میں بپھر جائے اور اس کا بدلہ لینے میں آواز نکالے اور جیسے ہی موقع ملے تو کچا چبا کر بھر تہ بنا دے۔ اول تو مکذبین اور معاندین کو دوزخ کا غیظ و غضب ہی پریشان کر دے گا جب اس میں ڈالے جائیں گے تو تنگ مکان میں پھینک دیئے جائیں گے۔ دوزخ اگرچہ بڑی جگہ ہے لیکن عذاب کے لیے دوزخیوں کو تنگ جگہوں میں رکھا جائے گا بعض روایات میں خود رسول اللہ ﷺ سے اس کی تفسیر منقول ہے کہ جس طرح دیوار میں کیل گاڑھی جاتی ہے اسی طرح دوزخیوں کو دوزخ میں ٹھونس دیا جائے گا (ذکرہ ابن کثیر ص 311 ج 3) دوزخ میں ڈالے جانے والوں کی صفت (مقرنین) بیان فرمائی جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا ہاتھ پاؤں بیڑیوں میں جکڑے ہوئے ہوں گے۔ سورة سبا میں فرمایا ہے (وَ جَعَلْنَا الْاَغْلٰلَ فِیْٓ اَعْنَاقِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ھَلْ یُجْزَوْنَ اِلَّا مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْن) (اور ہم کافروں کی گردنوں میں طوق ڈال دیں گے ان کو انہی اعمال کی سزا دی جائے گی جو وہ کرتے تھے) جب کفار دوزخ میں ڈال دیئے جائیں گے اور وہاں کا عذاب چکھیں گے تو ہلاکت کو پکاریں گے یعنی موت کو پکاریں گے اور یہ آرزو کریں گے کہ کاش موت آجاتی اور اس عذاب سے چھٹکارا ملتا ان سے کہا جائے گا۔ (لاَ تَدْعُوا الْیَوْمَ ثُبُوْرًا وَّاحِدًا وَّادْعُوْا ثُبُوْرًا کَثِیْرًا) (آج ایک موت کو نہ پکارو بلکہ بہت سی موتوں کو پکارو) یعنی یہ آرزو بےکار ہے کہ موت آجائے تو عذاب سے چھٹکارا ہوجائے ایک موت نہیں بلکہ بہت کثیر تعداد میں موتوں کو پکارو بہر حال موت آنے والی نہیں ہے اسی عذاب میں ہمیشہ ہمیشہ رہو گے سورة فاطر میں فرمایا (لَا یُقْضٰی عَلَیْھِمْ فَیَمُوْتُوْا وَ لَا یُخَفَّفُ عَنْھُمْ مِّنْ عَذَابِھَا کَذٰلِکَ نَجْزِیْ کُلَّ کَفُوْرٍ ) (نہ ان کو قضا آئے گی کہ مر ہی جائیں اور نہ ان سے دوزخ کا عذاب ہلکا کیا جائے گا ہم ہر کافر کو ایسی ہی سزا دیں گے) ۔
Top