Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 113
وَ لِتَصْغٰۤى اِلَیْهِ اَفْئِدَةُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ وَ لِیَرْضَوْهُ وَ لِیَقْتَرِفُوْا مَا هُمْ مُّقْتَرِفُوْنَ
وَلِتَصْغٰٓى : اور تاکہ مائل ہوجائیں اِلَيْهِ : اس کی طرف اَفْئِدَةُ : دل (جمع) الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں رکھتے بِالْاٰخِرَةِ : آخرت پر وَلِيَرْضَوْهُ : اور تاکہ وہ اس کو پسند کرلیں وَلِيَقْتَرِفُوْا : اور تاکہ وہ کرتے رہیں مَا : جو هُمْ : وہ مُّقْتَرِفُوْنَ : برے کام کرتے ہیں
اور تاکہ جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے ان کے دل ان کی طرف جھک پڑیں اور ان کی باتیں پسند کریں اور جیسی کچھ بدکرداریاں وہ خود کرتے رہتے ہیں ویسی ہی وہ بھی کرنے لگیں
جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے ان کا جھکاؤ اس طرف ہے ان کو ان کا حصہ مل جائے گا : 171: تصغی ، صغی سے ہے جس کے معنی جھکنے اور مائل ہونے کے ہیں۔ مضارع کا صیغہ اور مونث غائب۔ مقترفون ، قرب سے جس کے معنی درخت کی کھال چھیلنے اور زخم کا چلکا اتارنے کے ہیں۔ مجازی معنی کمائی کرنا ایسی کمائی جو اچھی نہ ہوئی اسم فاعل جمع مذکر۔ ” وہ مرتکب ہونے لگیں جس کے وہ مرتکب ہونا چاہتے ہیں۔ “ اے پیغمبر اسلام ! ہمارے قانون امہال کا یہ نتیجہ ہے کہ جن لوگوں کے دل آخرت پر نہیں جمتے ان کے دل جب ان شیطانوں کی شیطنت کی طرف رغبت کرتے ہیں تو ہم ان کو فوراً نہیں پکڑ لیتے بلکہ ہمارا قانون امہال ان کو مہلت دیتا ہے کہ وہ انکی باتیں پسند کریں اور جیسی بدکرداریاں وہ شیاطین یعنی سردار کر رہے ہیں وہ بھی انکے ساتھ مل کر وہی کچھ کریں جو وہ کر رہے ہیں اگر رسہ گیر ہیں تو رسہ کشید بھی ہوں گے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ممکن نہ تھا کہ دنیا میں کوئی فرد یا کوئی جماعت اپنی بدعملیوں کے ساتھ مہلت حیات پا سکتی۔ اس بات کو دوسری جگہ اس طرح بیان کیا کہ : ” اور جب کبھی انسان کو کوئی رنج پہنچتا ہے خواہ کسی حال میں ہو کروٹ پر لیٹا ہو ، بیٹھا ہو ، کھڑا ہو ہمیں پکارنے لگے گا لیکن جب ہم اس کا رنج دور کردیتے ہیں تو پھر اسی طرح چل دیتا ہے گویا رنج و مصیبت میں کبھی اس نے ہمیں پکارا ہی نہیں تھا تو دیکھو ! جو حد سے گزر گئے ہیں ان کے کام خوشنما کردیئے گئے ہیں ۔ “ (یونس 10 : 12) وہ کہتا ہے کہ جس طرح مادیات میں ہر حالت بتدریج نشو ونما پاتی ہے اور ہر نتیجہ کے ظہور کے لئے ایک خاص مقدار اور ایک خاص مدت اور ایک خاص وقت مقرر کردیا گیا ہے ٹھیک اسی طرح اعمال کے نتائج کے لئے بھی مقدار و اوقات کے احکام مقرر ہیں اور ضروری ہے کہ ہر نتیجہ ایک خاص مدت کے بعد اور ایک خاص مقدار کی نشو ونما کے بعد ظہور میں آئے۔ مثلاً فطرت کا یہ قانون ہے کہ اگر پانی آگ پر رکھا جائے تو وہ گرم ہو کر کھولنے لگے لیکن پانی کے گرم ہونے اور بالاخر کھولنے کے لئے حرارت کی ایک خاص مقدار ضروری ہے اور اس کے ظہور تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ ایک مقرر وقت تک انتظار کیا جائے ایسا نہیں ہوسکتا کہ ٹھنڈا پانی چولہے پر رکھا اور فوراً کھولنے لگے۔ وہ یقیناً کھولنے لگے گا لیکن اس وقت جب حرارت کی مقررہ مقدار بتدریج تکمیل تک پہنچ جائے گی ٹھیک اسی طرح یہاں انسانی اعمال کے نتائج بھی اپنے مقررہ اوقات ہی ظہور پذیر ہوتے ہیں اور ضروری ہے کہ جب تک اعمال کے اثرات ایک خاص مقررہ مقدار تک نہ پہنچ جائیں نتائج کے ظہور کا انتظار کیا جائے۔
Top