Anwar-ul-Bayan - Al-An'aam : 113
وَ لِتَصْغٰۤى اِلَیْهِ اَفْئِدَةُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ وَ لِیَرْضَوْهُ وَ لِیَقْتَرِفُوْا مَا هُمْ مُّقْتَرِفُوْنَ
وَلِتَصْغٰٓى : اور تاکہ مائل ہوجائیں اِلَيْهِ : اس کی طرف اَفْئِدَةُ : دل (جمع) الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں رکھتے بِالْاٰخِرَةِ : آخرت پر وَلِيَرْضَوْهُ : اور تاکہ وہ اس کو پسند کرلیں وَلِيَقْتَرِفُوْا : اور تاکہ وہ کرتے رہیں مَا : جو هُمْ : وہ مُّقْتَرِفُوْنَ : برے کام کرتے ہیں
اور (وہ ایسے کام) اس لیے بھی (کرتے تھے) کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل ان کی باتوں پر مائل ہوں اور وہ انھیں پسند کریں اور جو کام وہ کرتے تھے وہی کرنے لگیں۔
(6:113) تصغی۔ مضارع واحد مؤنث غائب۔ وہ چھکتی ہے۔ وہ جھکتے ہیں۔ صغو اور صغی سے (باب سمع۔ نصر) اصغی الیٰ حدیثہ۔ کان لگانا۔ کان دھرنا۔ اصغی الیہ سننے کے لئے جھکنا۔ جھکنا۔ مائل کرنا۔ الیہ اور یرضوہ میں ہ ضمیر ان وسوسوں اور ملمع فریب کی باتوں کی طرف راجع ہے جو شیاطین جن و انس ایک دوسرے کو سکھاتے اور دوسرے لوگوں کے دلوں میں ڈالتے تھے۔ یقترفوا۔ مضارع جمع مذکر غائب اقتراف (افتعال) سے ۔ وہ کمائیں ۔ وہ کریں۔ اقتراف کے اصل معنی درخت سے چھال اتارنے کے ہیں اور زخم سے چھلکا کریدنے کے۔ جو چھال یا چھلکا اتارا جاتا ہے اسے قرب کہتے ہیں۔ اور بطور استعارہ اقترف کمانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے خواہ وہ کسب اچھا ہو یا برا جیسے قرآن پاک میں ہے سیجزون بما کانوا یفترفون (6:120) وہ عنقریب اپنے کئے کی سزا پائیں گے۔ اور و اموال ن اقترفتموھا (9:24) اور مال جو تم کماتے ہو۔ لیکن اس کا بیشتر استعمال برے کام کرنے پر ہوتا ہے۔ ولتصغی الیہ۔ معطوف ہے غرورا پر ۔ کہ دھوکہ میں رکھیں ۔۔ ان کو۔ اور یہ کہ مائل ہوجائیں اس کی طرف ان لوگوں کے دل جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔ اسی طرح ولیرضوہ اور ولیقترفوا کا عطف بھی غرورا پر ہے۔ یعنی اس لئے کہ وہ ان ملمع باتوں کو پسند کرنے لگیں۔ اور جو گناہ وہ کر رہے ہیں وہ کرتے رہیں۔ (اور حق و صداقت کی طرف سے غافل اور دھوکہ میں رہیں)
Top