Tafseer-e-Saadi - Al-An'aam : 113
وَ لِتَصْغٰۤى اِلَیْهِ اَفْئِدَةُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ وَ لِیَرْضَوْهُ وَ لِیَقْتَرِفُوْا مَا هُمْ مُّقْتَرِفُوْنَ
وَلِتَصْغٰٓى : اور تاکہ مائل ہوجائیں اِلَيْهِ : اس کی طرف اَفْئِدَةُ : دل (جمع) الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں رکھتے بِالْاٰخِرَةِ : آخرت پر وَلِيَرْضَوْهُ : اور تاکہ وہ اس کو پسند کرلیں وَلِيَقْتَرِفُوْا : اور تاکہ وہ کرتے رہیں مَا : جو هُمْ : وہ مُّقْتَرِفُوْنَ : برے کام کرتے ہیں
اور (وہ ایسے کام) اس لیے بھی (کرتے تھے) کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل ان کی باتوں پر مائل ہوں اور وہ انھیں پسند کریں اور جو کام وہ کرتے تھے وہی کرنے لگیں۔
آیت 113 اللہ تبارک و تعالیٰ رسول اللہ ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے فرماتا ہے جس طرح ہم نے آپ کے دشمن بنا دیئے جو آپ کی دعوت کو ٹھکراتے ہیں اور آپ سے حسد کرتے ہیں، تو یہ ہماری سنت ہے، ہم ہر نبی کے، جس کو ہم مخلوق کی طرف مبعوث کرتے ہیں، جنوں اور انسانوں میں سے دشمن مقرر کردیتے ہیں وہ ان تمام امور کی مخالفت کرتے ہیں جنہیں رسول لے کر آئے ہیں۔ (یو حی بعضھم الی بعض زخرف القول غرورا) ” سکھلاتے ہیں وہ ایک دوسرے کو ملمع کی ہوئی باتیں، فریب دینے کے لئے “ یعنی وہ ایک دوسرے کو ان باطل امور کو سجا کر اور مزین کر کے پیش کرتے ہیں جن کی طرف وہ دعوت دیتے ہیں اور وہ اس کی تعبیرات کو آراستہ کر کے بہترین اسلوب میں پیش کرتے ہیں تاکہ بیوقوف اس سے دھوکہ کھا جائیں اور سیدھے سادے لوگ ان کے سامنے سر اطاعت خم کردیں جو حقائق کا فہم رکھتے ہیں نہ معافی کو سمجھتے ہیں، بلکہ خوبصورت الفاظ اور ملع سازی ان کو اچھی لگتی ہے، پس وہ حق کو باطل اور باطل کو حق سمجھنے لگتے ہیں۔ بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : (ولتصغی الیہ) ” تاہ اس کی طرف مائل ہوں۔ “ یعنی اس مزین کلام کو سننے کی طرف مائل ہوں (افدۃ الذین لایومنون بالاخرۃ) ” ان لوگوں کے دل جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے “ کیونکہ یوم آخرت پر ان کا ایمان نہ رکھنا اور عقل نافع سے ان کا محروم ہونا، ان کو اس بات پر آمادہ کرتا ہے (ولیر ضوہ) ” اور تاکہ وہ اس کو پسند بھی کرلیں “ یعنی اس کی طرف مائل ہونے کے بعد پس ان کے دل پہلے اس کی طرف مئال ہوتے ہیں پھر ان خوبصورت اور مزید عبارت کو جب دیکھت یہیں تو ان کو پسند کرنے لگتے ہیں یہ عبارات ان کے دل میں سج جاتی ہیں اور ایک راسخ عقیدہ اور لازم وصف بن جاتی ہیں۔ پھر اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان سے اس قسم کے اعمال سر زد ہوتے ہیں یعنی وہ اپنے قول و فعل میں جھوٹ کا ارتکاب کرتے ہیں جو ان عقائد قبیحہ کا لازمہ ہیں پس یہ حال ان شیاطین جن و انس کا ہے جو ان کی دعوت پر لبیک کہتے ہیں۔ رہے آخرت پر ایمان رکھنے والے عقل مند اور سنجیدہ لوگ تو وہ ان عبارات سے دھوکہ کھاتے ہیں نہ ان ملمع سازیوں کا شکار ہوتے ہیں، بلکہ ان کی اہمت اور ان کے ارادے حقائق کی معرفت حاصل کرنے میں مصروف رہتے ہیں وہ ان معانی پر نظر رکھتے ہیں جن کی طرف دعوت دینے والے دعوت دیتے ہیں۔ اگر یہ معانی حق ہیں تو انہیں قبول کرلیتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں خواہ ان کو کم تر عبارات اور غیر وافی الفاظ میں کیوں نہ بیان کیا گیا ہو اور اگر یہ معانی باطل ہیں تو انہیں ان کے قائل کی طرف لوٹا دیتے ہیں خواہ ان کا قائل کوئی بھی ہو اور خواہ ان الفاظ کو ریشم سے بھی زیادہ خوشنما لیا وہ اوڑھا دیا گیا ہو۔ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی حکمت بالغہ ہے کہ اس نے انبیائے کرام کے دشمن بنا دیئے اور باطل کے انصار و اعوان مقرر کردیئے جو باطل کی طرف دعوت دیتے ہیں تاکہ اس کے بندوں کی آزمائش اور امتحان ہوسکے اور سچے، جھوٹے، عقل مند اور جاہل، صاحب بصیرت اور اندھے کے درمیان امتیاز ہوسکے اور یہ بھی اس کی حکمت کا حصہ ہے کہ حق و باطل کی اس کشمکش کے اندر حق کی تبیین اور توضیح ہے کیونکہ جب باطل حق کا مقابلہ کرتا ہے تو حق روشن ہو کر اور نکھر کر سامنے آجاتا ہے۔ تب اس وقت حق کے وہ دلائل اور شواہد واضح ہوجاتے ہیں جو حق کی صداقت اور حقیقت اور باطل کے فساد اور اس کے بطلان پر دلالت کرتے ہیں جو سب سے بڑا مقصد ہے جس کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
Top