Al-Quran-al-Kareem - Al-An'aam : 113
وَ لِتَصْغٰۤى اِلَیْهِ اَفْئِدَةُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ وَ لِیَرْضَوْهُ وَ لِیَقْتَرِفُوْا مَا هُمْ مُّقْتَرِفُوْنَ
وَلِتَصْغٰٓى : اور تاکہ مائل ہوجائیں اِلَيْهِ : اس کی طرف اَفْئِدَةُ : دل (جمع) الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں رکھتے بِالْاٰخِرَةِ : آخرت پر وَلِيَرْضَوْهُ : اور تاکہ وہ اس کو پسند کرلیں وَلِيَقْتَرِفُوْا : اور تاکہ وہ کرتے رہیں مَا : جو هُمْ : وہ مُّقْتَرِفُوْنَ : برے کام کرتے ہیں
اور تاکہ ان لوگوں کے دل اس (جھوٹ) کی طرف مائل ہوں جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے اور تاکہ وہ اسے پسند کریں اور تاکہ وہ بھی وہی برائیاں کریں جو یہ کرنے والے ہیں۔
وَلِتَصْغٰٓى اِلَيْهِ۔۔ : اس کا عطف ”غُرُوْرًا“ پر ہے، یعنی ”لِیَغُرُّوْا بِذٰلِکَ وَ لِتَصْغٰی“ ”تاکہ وہ اس کے ساتھ دھوکا دیں اور تاکہ ان لوگوں کے دل جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اس (جھوٹ) کی طرف مائل ہوں۔“ یہ توجیہ ان تمام توجیہوں سے بہتر ہے جو یہاں کی گئی ہیں۔ (رازی) وَلِيَرْضَوْهُ وَلِيَقْتَرِفُوْا۔۔ : ”اِکْتَسَبَ یَکْتَسِبُ“ اچھی یا بری دونوں کمائیوں کو کہتے ہیں، جبکہ ”اِقْتَرَفَ یَقْتَرِفُ“ برے اعمال کمانے کو کہتے ہیں، یعنی ان شیاطین کے پیش نظر اس وحی سے یہ سب مقاصد ہیں۔ (رازی) شاہ عبد القادر ؓ لکھتے ہیں کہ یہ کئی آیتیں اس وقت نازل ہوئیں جب کفار کہنے لگے کہ مسلمان اپنا مارا ہوا جانور کھاتے ہیں اور اللہ کے مارے ہوئے کو حرام سمجھتے ہیں۔ فرمایا کہ ایسی فریب کی باتیں شیطان کرتے ہیں، تاکہ انسانوں کو شبہات میں ڈالا جائے۔ عقل کا حکم نہیں، حکم اللہ کا ہے۔ آگے پھر واضح طور پر سمجھایا گیا کہ ہر جانور کو مارنے والا اللہ ہی ہے اور اس کے نام میں برکت ہے، سو جو اس کے نام پر ذبح ہوا وہ حلال ہے اور جو اس کے نام کے بغیر مرگیا وہ مردار ہے۔ (موضح)
Top