Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 268
اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَ یَاْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَآءِ١ۚ وَ اللّٰهُ یَعِدُكُمْ مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَ فَضْلًا١ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌۖۙ
اَلشَّيْطٰنُ : شیطان يَعِدُكُمُ : تم سے وعدہ کرتا ہے الْفَقْرَ : تنگدستی وَيَاْمُرُكُمْ : اور تمہیں حکم دیتا ہے بِالْفَحْشَآءِ : بےحیائی کا وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعِدُكُمْ : تم سے وعدہ کرتا ہے مَّغْفِرَةً : بخشش مِّنْهُ : اس سے (اپنی) وَفَضْلًا : اور فضل وَاللّٰهُ : اور اللہ وَاسِعٌ : وسعت والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور برائیوں کی ترغیب دیتا ہے ، لیکن اللہ تمہیں اس راہ کی طرف بلاتا ہے جس میں اس کی مغفرت اور اس کے فضل کا وعدہ ہے اور یاد رکھو اللہ وسعت رکھنے والا ، سب کچھ جاننے والا ہے
شیطان کی دعوت کبھی نیکی کی دعوت نہیں ہو سکتی : 469: کسی فعل کا نتیجہ اور رزلٹ گویا اس فعل کا وعدہ ہے۔ فعل اچھا ہے تو اللہ کی مدد سے اور اس کے قانون مکافات سے اس کا نتیجہ بھی اچھا ہوگا اور یہ گویا اللہ کا وعدہ ہے ، فعل برا ہے تو سمجھ لو کہ اللہ کی مدد اس میں شامل نہیں بلکہ یہ تمہارے نفس کی خرابی ہے اور شیطان کا وعدہ ہے جو اس نے ہر طرف سے ورغلانے کے متعلق کیا ہوا ہے۔ جب ایک شخص اللہ کی راہ میں خرچ کرنے لگتا ہے تو اگر اسے خیال پیدا ہوتا ہے کہ میں غریب و مفلس بن جاؤں گا۔ اپنی ضرورت کے لیے کچھ نہیں رہے گا۔ ابھی کتنی ضرورتیں ہیں جو منہ کھولے بیٹھی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ تمام وساوس شیطانی ہیں۔ ایک مسلم کا فرض ہے کہ ان کی پرواہ نہ کرے بلکہ خوب دل کھول کر خلافت اسلامی کی مدد کرے۔ غرباء و یتماء کی دیکھ بھال کرے۔ اس کا ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ اس کی بعض غلطیوں کا کفارہ ہوجائے گا ، دوسرے اللہ تعالیٰ اس کو مال دے گا اور وہی ہے جو بغیر حساب دینے والا ہے یعنی جہاں سے وہم و گمان بھی نہیں ہوتا ، وہاں سے مل جائے گا۔ یہ تو آپ کو معلوم ہو ہی چکا ہے کہ یہ شیطان کہاں ہے ؟ جو اس طرح کے خطرات اور وساوس پیدا کرتا ہے۔ ہاں ! وہی جو تمہارے اندر خون کی طرح گردش کرتا ہے۔ وہی جو تمہاری ملکوتی طاقت کو دبا کر اس پر سوار ہوجاتا ہے۔ وہی جس کے متعلق تم کو ہدایت دی گئی تھی کہ اس کو اپنے قابو میں رکھو ، وہی جو تمہارا توام ہے ، یعنی تمہارے ساتھ پیدا ہونے والا۔ تمہاری کتنی عزت کی گئی کہ تم کو کچھ نہیں کہا اس شیطان کا نام لیا گیا فرمایا جو خیالات اللہ کی راہ میں مال و جان خرچ کرنے سے مانع ہوتے ہیں۔ وہ حقیقت میں شیطانی خیالات ووساوس ہیں کہ ہم اللہ کی راہ میں خرچ کر کے خود غریب ہوجائیں گے۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” تین باتوں پر قسم کھاتا ہوں ، جن میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں مال دینے سے مال کم نہیں ہوتا “ اور دنیا گواہ ہے کہ آج تک اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے کبھی کوئی شخص فقر و فاقہ میں مبتلا نہیں ہوا ، گو وہ ضرورت کے مطابق پورا مال بھی اللہ کی راہ میں خرچ کر دے۔ البتہ رسم و رواج کی پابندیوں سے بہ تیرے تباہ ہوگئے۔ اللہ ہی وہ ذات ہے جو وسعت رکھنے والا ہے۔ ایسے وصف والے کے ہاں انعام و اکرام کی کیا کمی ؟ اور اللہ ہی ہے جو سب کچھ جاننے والا ہے ، ایسے کامل علم والے پر نیتوں کا حال رتی رتی روشن ہے ، اس لیے ثمرہ بھی نیتوں کے مطابق ہی ملے گا۔
Top