Mafhoom-ul-Quran - Al-Baqara : 268
اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَ یَاْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَآءِ١ۚ وَ اللّٰهُ یَعِدُكُمْ مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَ فَضْلًا١ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌۖۙ
اَلشَّيْطٰنُ : شیطان يَعِدُكُمُ : تم سے وعدہ کرتا ہے الْفَقْرَ : تنگدستی وَيَاْمُرُكُمْ : اور تمہیں حکم دیتا ہے بِالْفَحْشَآءِ : بےحیائی کا وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعِدُكُمْ : تم سے وعدہ کرتا ہے مَّغْفِرَةً : بخشش مِّنْهُ : اس سے (اپنی) وَفَضْلًا : اور فضل وَاللّٰهُ : اور اللہ وَاسِعٌ : وسعت والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور برے کام کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ مگر اللہ تمہیں اپنی بخشش اور فضل کی امید دلاتا ہے اللہ بڑا فراخی والاجاننے والا ہے
اللہ کے وعدے اور انعام تشریح : اس آیت میں واضح کیا گیا ہے کہ شیطان تو شروع دن سے انسان کا دشمن ہے۔ وہ ہمیشہ برے خیالات کی طرف انسان کو متوجہ کرتا ہے۔ جیسا کہ جب بھی انسان اللہ کی راہ میں کچھ خرچ کرنے لگتا ہے تو شیطان اس کے دل میں وسوسہ ڈالتا ہے کہ مت خرچ کرو۔ ایسا نہ ہو تم غریب ہوجاؤ۔ حالانکہ جو بھی شخص اللہ کی راہ میں خوش دلی اور نیک نیتی سے خرچ کرتا ہے تو اللہ کا وعدہ ہے کہ اس کے مال میں ہرگز کمی نہیں آتی۔ بلکہ اس میں برکت ہی ہوتی چلی جاتی ہے اور جو اجر آخرت میں ملے گا وہ علیحدہ فائدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو کچھ تمہارے پاس ہے یہ بھی اللہ کا دیا ہوا ہے اور وہ بڑے فضل و کرم والا ہے اور اسی طرح فضل و کرم کرنے والے بندے اسے بےحد پسند ہیں اور وہ ان سے خوش ہو کر اور بھی زیادہ مہربانیاں کرتا ہے۔ اس لئے صدقہ و خیرات کرتے ہوئے کبھی بھی مفلس ہوجانے کا خیال دل میں نہ لاؤ۔ یہ تمام حکمت کی باتیں جس کو سمجھ میں آجائیں وہ بڑا خوش نصیب ہے۔ کیونکہ عقل، سمجھ اور حکمت اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے، اللہ تعالیٰ اپنی رحمت اور نیکی کے راستہ کی طرف بلاتے ہیں کہ یہ زندگی مختصر اور ختم ہوجانے والی ہے اس کی اتنی فکر نہ کرو بلکہ آخرت کی زندگی کی فکر زیادہ کرو جو کہ ہمیشہ ہمیشہ رہنے والی ہے۔ عمل کرنے کا موقعہ صرف اس زندگی میں ہی ہے آخرت کی زندگی میں تو صرف یہاں کا کیا ہوا کام آئے گا۔ یہاں کے اعمال کی جزا اور سزا وہاں ملے گی بس یہی حکمت ہے اور یہی عقل مندی ہے۔ اگلی آیت میں وضاحت کی گئی ہے کہ خیرات کیسے کی جائے۔
Top