Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 268
اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَ یَاْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَآءِ١ۚ وَ اللّٰهُ یَعِدُكُمْ مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَ فَضْلًا١ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌۖۙ
اَلشَّيْطٰنُ : شیطان يَعِدُكُمُ : تم سے وعدہ کرتا ہے الْفَقْرَ : تنگدستی وَيَاْمُرُكُمْ : اور تمہیں حکم دیتا ہے بِالْفَحْشَآءِ : بےحیائی کا وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعِدُكُمْ : تم سے وعدہ کرتا ہے مَّغْفِرَةً : بخشش مِّنْهُ : اس سے (اپنی) وَفَضْلًا : اور فضل وَاللّٰهُ : اور اللہ وَاسِعٌ : وسعت والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
(اور دیکھنا) شیطان (کا کہا نہ ماننا وہی) تمہیں تنگدستی کا خوف دلاتا اور بےحیائی کے کام کرنے کو کہتا ہے اور خدا تم سے اپنی بخشش اور رحمت کا وعدہ کرتا ہے اور خدا بڑی کشائش والا اور سب کچھ جاننے والا ہے
(2:268) یعدکم الفقر۔ یعد فعل کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر الفقر مفعول ثانی۔ یعد مضارع واحد مذکر غائب وعد (باب ضرب) مصدر بمعنی ڈرانا۔ وہ تم کو محتاجی سے ڈراتا ہے وہ تم کو تنگ دستی کا خوف دلاتا ہے۔ الفقر۔ اسم فعل اور مصدر۔ تنگ دستی۔ ناداری۔ مفلسی۔ محتاجی۔ امام راغب نے لکھا ہے کہ فقہ کا استعمال چار طور پر ہوا ہے :۔ (1) زندگی کی بنیادی ضروریات کا نہ پایا جانا۔ اسی اعتبار سے انسان کیا کائنات کی ہر شے فقیر (محتاج) ہے۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا ہے : یایھا الناس انتم الفقراء الی اللہ (35:15) لوگو تم سب خدا کے محتاج ہو۔ (2) ضروریات زندگی کا کما حقہ پورا نہ ہونا۔ مثلاً للفقراء الذین احصروا ۔۔ من التفعع (2:273) تو ان حاجتمندوں کے لئے جو خدا کی راہ میں رکے بیٹھے ہیں۔ (3) فقر نفس۔ یعنی مال کی ہوس ۔ کتنا ہی مال ہو مگر نفس حریص رہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ : کاد الفقران یکون کفرا (کچھ تعجب نہیں کہ فقر کفر تک پہنچا دے) ۔ (4) اللہ کی طرف احتیاج۔ ایسا فقر ہر آدمی ہر جانور بلکہ کائنات کی ہر چیز میں ہے سب اللہ کے محتاج ہیں۔ چناچہ قرآن مجید میں ہے : رب انی لما انزلت الی من خیر فقیر (28:24) اے میرے پروردگار میں اس کا محتاج ہوں کہ تو مجھ پر اپنی نعمت نازل فرمائے۔ الفخشائ۔ اسم تفضیل واحد مؤنث اس سے واحد مذکر افحش آئے گا اور جمع فحش۔ فحش مادہ بھی ہے۔ بمعنی برا کام ۔ وہ قول و عمل جس کی برائی کھلی ہو۔ اور اس کا سننا یا کرنا برا لگے۔ بےحیائی امر قبیح، بمعنی زنا بھی آیا ہے۔ واللہ یعدکم۔ اوپر آیا ہے۔ الشیطن یعدکم الفقر۔ شیطان تمہیں محتاجی سے ڈراتا ہے یہاں ارشاد ہے واللہ یعدکم مغفرۃ۔ اور اللہ تم سے مغفرت کا وعدہ کرتا ہے۔ وعد یعد بمعنی ڈرانا اور وعدہ کرنا ہر دو معنی میں مستعمل ہے۔ فضلا۔ اسم فعل (حالت بوجہ مفعول) فضل کے معنی ہیں مہربانی۔ برتری، بڑھوتری، مال ، قوت، حسن، رتبہ، عزت، حکومت، عقل، علم، حلم وغیرہ میں زیادتی۔ واسع۔ اسم فاعل۔ واحد مذکر۔ سعۃ مصدر باب سمع۔ وسیع فضل والا۔ کشادہ بخشش والا ۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی میں سے ہے۔ علیم۔ فعیل کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے۔ بڑا دانا۔ خوب جاننے والا۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی میں سے ہے۔
Top