Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 268
اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَ یَاْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَآءِ١ۚ وَ اللّٰهُ یَعِدُكُمْ مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَ فَضْلًا١ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌۖۙ
اَلشَّيْطٰنُ
: شیطان
يَعِدُكُمُ
: تم سے وعدہ کرتا ہے
الْفَقْرَ
: تنگدستی
وَيَاْمُرُكُمْ
: اور تمہیں حکم دیتا ہے
بِالْفَحْشَآءِ
: بےحیائی کا
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
يَعِدُكُمْ
: تم سے وعدہ کرتا ہے
مَّغْفِرَةً
: بخشش
مِّنْهُ
: اس سے (اپنی)
وَفَضْلًا
: اور فضل
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
وَاسِعٌ
: وسعت والا
عَلِيْمٌ
: جاننے والا
شیطان تمہیں تنگدستی سے ڈراتا ہے اور تمہیں بےحیائی کا حکم دیتا ہے اور اللہ تم سے اپنی طرف سے مغفرت اور فضل کا وعدہ فرماتا ہے اور اللہ بڑی وسعت والا اور بڑا علم رکھنے والا ہے۔
اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ وَیَاْمُرُکُمْ بِالْفَحْشَآئِ ط وَاللّٰہُ یَعِدُکُمْ مَّغْفِرَۃً مِّنْہُ وَ فَضْلًا ط وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ۔ لا صلے یُّؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآئُ ج وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا ط وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوالْاَلْبَابِ ۔ (شیطان تمہیں تنگدستی سے ڈراتا ہے اور تمہیں بےحیائی کا حکم دیتا ہے اور اللہ تم سے اپنی طرف سے مغفرت اور فضل کا وعدہ فرماتا ہے اور اللہ بڑی وسعت والا اور بڑا علم رکھنے والا ہے۔ وہ جس کو چاہتا ہے حکمت عطا فرماتا ہے۔ اور جسے حکمت عطا کی گئی یقینا اسے خیر کثیر دے دی گئی۔ اور نصیحت قبول نہیں کرتے مگر عقل والے) (268 تا 269) انفاق کے موانع اس آیت کریمہ میں ان موانع اور رکاوٹوں کا ذکر ہے جن کے ذریعے شیطان انفاق فی سبیل اللہ سے روکتا ہے۔ اس میں نہایت بصیرت افروز باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ فقر کا خوف اور بےحیائی کے کاموں میں ملوث ہونا پہلی بات تو یہ ارشاد فرمائی گئی ہے کہ جب کوئی شخص اعلائے کلمتہ الحق جہاد فی سبیل اللہ ‘ دینی مراکز کی مدد اور اعانت ‘ بھلائی اور خیر کے فروغ ‘ خلق خدا کی خدمت اور ضرورت مندوں کی اعانت کے لیے خرچ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو شیطان وسوسوں کے ذریعے اسے اس مقصد سے باز رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے دل میں یہ بات ڈالتا ہے کہ ابھی تو تمہاری اولاد چھوٹی ہے ‘ تمہارے مصارف کم ہیں ‘ بچے جب بڑے ہوں گے تو ان کے اخراجات بھی بڑھیں گے ‘ اسکول کے بعد کالج ‘ کالج کے بعد یونیورسٹی پھر ہو سکے تو اعلیٰ تعلیم کے لیے ملک سے باہرجانا پڑے گا۔ آج اگر تم نے ہاتھ روک کے نہ رکھا اور جو ذاتی ضروریات سے بچا اسے اللہ کے راستے میں خرچ کر ڈالا تو پھر یہ اخراجات جو سامنے نظر آرہے ہیں انھیں کہاں سے پورا کرو گے۔ مکان تمہارا سرکاری ہے یا تم کرائے کے مکان میں رہتے ہو ‘ جب تک نوکری یا کاروبار ہے تو شاید تمہیں محسوس نہ ہو لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد کرائے کے مکان میں کیسے رہ سکو گے۔ تمہیں اپنی چھت کی ضرورت ہے۔ اگر تم نے ابھی سے اس کی فکر نہ کی تو مکان بنانا کوئی بچوں کا کھیل تو نہیں۔ اس کے لیے زرِ کثیر چاہیے۔ تمہارا خرچ کرنے کا یہی جذبہ تمہارے پاس کچھ نہیں چھوڑے گا۔ بتائو بڑھاپے میں کیا کرو گے ؟ اس طرح کے وسوسے اور اندیشے آدمی کا ہاتھ روک لیتے ہیں اور وہ تصور ہی میں پریشان ہونے لگتا ہے کہ واقعی آج اگر میں نے کچھ بچا کے نہ رکھا تو پھر کیا بنے گا ؟ شیطان کا یہ وہ حربہ ہے جو بڑی آسانی سے ہر ایک پر آزماتا ہے اور ہمیشہ انسان کو آنے والے دنوں میں فکر اور تنگدستی کے اندیشے سے پریشان رکھتا ہے۔ اور جو شخص ان اندیشوں میں ڈوب جاتا ہے وہ ساری عمر اس گائے کی طرح زندگی گزارتا ہے جو روزانہ چراگاہ میں گھاس چرنے کے لیے جاتی ‘ سبز سبز گھاس چرتی جاتی اور ساتھ ساتھ یہ سوچ کے پریشان بھی ہوتی جاتی کہ آج تو مجھے یہ سرسبز کھ اس کھانے کو مل گئی کل کو کیا ہوگا ؟ یہ کل کا اندیشہ اسے ساری عمر پریشان رکھتا ہے۔ وہ ایک دن بھی خالی پیٹ چراگاہ سے واپس نہیں آئی ‘ لیکن ایک دن کے لیے بھی پریشانیوں نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ ہر شخص کو شیطان ایسی گائے بنا کے رکھتا ہے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ پھر وہ یہ بھی برداشت نہیں کرتا کہ چلیے یہ شخص اگر اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتا اور میں اسے خرچ کرنے نہیں دیتا تو پھر اس کا مال محفوظ رہے ‘ اس کے بچوں کے کام آئے ‘ اس کے بڑھاپے میں اس کے لیے سہارا بنے اور یہ شخص ایک آسودہ زندگی گزارے جس میں مستقبل کا کوئی خوف اسے پریشان نہ کرے۔ لیکن شیطان کو یہ بھی گوارا نہیں۔ وہ تو انسان بلکہ مسلمان کا کھلم کھلا دشمن ہے۔ انسانوں کے جد امجد کو سجدہ نہ کرنے کے باعث جب اسے راندہ درگاہ کردیا گیا تو اس نے اللہ سے قیامت تک کے لیے مہلت مانگی ‘ مہلت ملنے پر اس نے نہایت بےباکی سے چیلنج دیا کہ میں اولادِ آدم کو ایمان و عمل کی زندگی نہیں گزارنے دوں گا۔ ہر طرف سے ان پر حملہ آور ہوں گا اور پروردگار سے کہا کہ میں تیرے بندوں کی اکثریت کو تیرا شکر گزار نہیں رہنے دوں گا۔ اس طرح اس نے اپنی دشمنی پہلے دن ہی ظاہر کردی اور پھر اس نے اسے کبھی چھپا کے نہیں رکھا۔ اس لیے جب وہ کسی شخص کے دل میں مستقبل میں فقر کے وسوسے ڈالتا ہے تو مقصد اس شخص کے ساتھ بھلائی کرنا نہیں ہوتا بلکہ اسے ان سعادتوں سے محروم رکھنا ہے جو خرچ کرنے کے نتیجے میں نصیب ہوتی ہیں۔ اور مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کو اس استحکام سے عاری رکھنا ہے جو مسلمان معاشرے کے افراد کی سخاوت و فیاضی کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے جب وہ اس میں کامیاب ہوجاتا ہے اور مسلمان کو اللہ کے راستے میں خرچ کرنے سے روک دیتا ہے تو اب اس کی دوسری کوشش یہ ہوتی ہے کہ میں اس شخص کو ایسے کاموں میں لگائوں جس سے اس کے مال کے ضائع ہونے کے امکانات روز بروز بڑھتے چلے جائیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جب مال برباد ہوجائے گا تو اب اللہ کے راستے میں اس مال کے خرچ ہونے کے امکانات ختم ہوجائیں گے۔ اور دوسرا یہ کہ جب یہ شخص بری صحبتوں میں برے اعمال کے ارتکاب کا عادی ہوجائے گا تو پھر اس کی سوچ اور اس کا مزاج اسے کبھی یہ سوچنے کی مہلت بھی نہیں دے گا کہ فی سبیل اللہ بھی کوئی چیز ہے اور خرچ کرنا بھی کوئی سعادت ہے۔ چناچہ راہ خدا میں خرچ کرنے سے روک کر فوراً وہ اس شخص کو فحشاء کی طرف موڑ دیتا ہے۔ فحشاء کھلی ہوئی بےحیائیوں اور بدکاریوں کو کہتے ہیں۔ قرآن کریم نے اس لفظ کو زنا ‘ لواطت اور عریانی جیسے بڑے بڑے جرائم کے لیے استعمال کیا ہے۔ چناچہ شیطان کا طریقہ یہ ہے کہ وہ نیک آدمی کو شروع میں طریقے طریقے سے غلط صحبت کا عادی بناتا ہے ‘ چار یاری اسے عزیز ہونے لگتی ہے گھر سے نفرت اور عیاش دوستوں کی صحبت پسندیدہ ہوجاتی ہے ‘ پھر ان عیاش دوستوں کی صحبت آہستہ آہستہ شراب نوشی تک لے جاتی ہے۔ شراب نوشی ایسی ام الامراض ہے جس سے تمام بےحیائیاں پھوٹتی ہیں۔ جب کسی مجلس میں اس کا چلن ہوجاتا ہے پھر وہاں بدکاری کا آجانا ایک لازمی سے بات ہے۔ شراب اور عورت جڑواں بیماریاں سمجھی جاتی ہیں پھر قحبہ خانوں میں آنا جانا اس بازار کے پھیرے اور آئے دن نفس امارہ کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے نئی نئی صحبتوں اور نئے نئے مشاغل کی تلاش ایک محبوب عمل بن جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر گنج قارون بھی ہو تو وہ بھی خالی ہوجاتا ہے۔ اس طرح کے مشاغل اور اس طرح کی عیاشیاں دنوں میں خوشحال آدمی کو قلاش بنا دیتی ہیں۔ شیطان نے جس شخص کو اللہ کے راستے میں خرچ کرنے سے اس لیے روکا کہ کہیں وہ فقر کی نذرنہ ہوجائے اسے وہ دنوں میں غلط صحبتوں ‘ غلط مشاغل اور غلط ذوق میں مبتلا کر کے واقعی فقیر کر کے رکھ دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زندگی کی دونوں تصویریں سامنے رکھ دی ہیں۔ ایک تصویر اس مرد مومن کی ہے جو کماتا ہے تاکہ اپنی ضرورتوں پر خرچ کرے اور جو بچ جائے اسے ملک و ملت اور اعلائے کلمتہ الحق کے لیے صرف کرے اور اللہ پر بھروسہ رکھے کہ جس نے آج دیا ہے وہ کل بھی دے گا اور دوسری تصویر اس شخص کی ہے جس نے اللہ کے راستے میں اس اندیشے کی وجہ سے خرچ کرنے سے انکار کردیا کہ میں نادار نہیں ہونا چاہتا ‘ میری اپنی آنے والی ضرورتیں کیسے پوری ہوں گی ‘ لیکن شیطان نے اسے ان مشاغل میں الجھا دیا اور فسق و فجور میں اس طرح مبتلا کیا کہ دنوں میں اس کی خوشحالی قصہ ماضی بن گئی۔ شراب اور بدکاری کی عادتیں ایسی طبیعتِ ثانیہ بنیں کہ انھیں حاصل کیے بغیر چین کا ایک لمحہ بھی مشکل ہوگیا۔ اور جب کمائی کے جائز ذرائع ختم ہوئے تو مجبوراً ناجائز ذرائع پر ہاتھ مارا۔ کبھی قانون کی گرفت میں آیا ‘ کبھی معاشرے میں گالی بن کر رہ گیا اور اگر احساس مرا نہیں تو خود کشی کی نذر ہوگیا۔ زندگی کی یہ دو تصوریں فرضی نہیں ‘ اپنے دائیں بائیں دیکھی جاسکتی ہیں۔ اخباروں میں روز یہ کہانیاں چھپتی ہیں۔ ہر خاندان میں یہ افسانے زندہ حقیقتوں کی صورت میں دیکھے جاسکتے ہیں اور اگر اس پر ایک اور حقیقت کا اضافہ کردیا جائے تو شاید اسے سمجھنا آسان ہوجائے کہ جو شخص اللہ کے راستے میں خرچ کرتا ہے اللہ تعالیٰ واقعی اس کے رزق میں اضافہ کرتا ہے۔ ہم نے آج تک کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا جس نے اللہ کے راستے میں خرچ کرنے سے ہاتھ نہ روکا ہو اور اللہ نے اسے دینے سے میں ہاتھ روک لیا ہو۔ وہ اسے یکسوئی اور غنا کی دولت عطا فرماتا ہے ‘ اچھی شہرت دیتا ہے ‘ عزت سے نوازتا ہے اور صالح اولاد کی صورت میں اسے بڑھاپے کی وہ سہولتیں عطا فرماتا ہے جو مال و دولت سے کبھی حاصل نہیں کی جاسکتیں۔ لیکن جو شخص مال و دولت کو سینت سینت کے رکھتا ہے وہ بری صحبتوں میں نہ بھی پڑے تو اس کی ناخلف اولاد اس کی زندگی ہی میں دولت اڑا دیتی ہے۔ اور ایسے واقعات بھی دیکھنے میں آئے ہیں کہ باپ یہ دیکھ کر کہ میرے بچے آوارہ ہیں ان میں دولت تقسیم نہیں کرتا تو بچے باپ کو مروا دیتے ہیں یا ذہنی مریض بنا کر پاگل خانے میں داخل کروا دیتے ہیں اور اس کے بعد آپس میں دولت تقسیم کر کے دنوں میں اڑا دیتے ہیں۔ یأمرکم بالفحشاء کا مفہوم یأمرکم بالفحشائ اس کا ایک معنی تو یہ ہے کہ شیطان تمہیں بےحیائی کا حکم دیتا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ شیطان انھیں کیسے حکم دے سکتا ہے ؟ وہ ہمیں نظر نہیں آتا ‘ ہم اس کی آواز نہیں سنتے تو پھر حکم دینے کا کیا مطلب ؟ اس سلسلے میں دو باتیں یاد رکھنی چاہئیں۔ ایک تو یہ کہ ” یأمرکم “ کا معنی ہمشہ حکم دینا ہی نہیں ہوتا ‘ بلکہ جب ” ب “ کے ساتھ اس کا صلہ آتا ہے تو عموماً اس کا ترجمہ ہوتا ہے ” وہ تمہیں مشورہ دیتا ہے ‘ وہ تمہیں سجھاتا ہے ‘ وہ تمہارے دل میں یہ بات ڈالتا ہے “ اور دل میں بات ڈالنا جسے وسوسہ اندازی کہتے ہیں ‘ یہ وہ چیز ہے جس کی اللہ نے شیطان کو صلاحیت دے رکھی ہے۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے کہ ” شیطان تمہارے خون کے ساتھ گردش کرتا ہے۔ “ وہ دلوں میں وسوسہ اندازی کے ذریعے وہ سارے کام کرواتا ہے جنھیں بےحیائی کے کام کہا گیا ہے۔ شیطان عموماً اسی وسوسہ اندازی کے ذریعے انسانوں کو گمراہ کرتا ہے۔ اس لحاظ سے ہم اس کا ترجمہ کرسکتے ہیں کہ ” شیطان تمہیں بےحیائی کی باتیں سجھاتا ہے “ یعنی تمہارے دل میں ڈالتا ہے۔ لیکن اگر اس کا ترجمہ ” حکم دینا “ کیا جائے تو یہ بھی غلط نہیں۔ اس لیے کہ گمراہی کا ہر کام شیطان خود نہیں کرتا ‘ وہ جنوں اور انسانوں میں سے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے کرواتا ہے۔ جن انسانوں کو وسوسہ اندازی کے ذریعے وہ اس قدر گمراہ کردیتا ہے کہ وہ شر کی ہر بات کے مبلغ اور مناد بن جاتے ہیں اور خیر کی ہر قوت سے لڑنا اور اسے روکنا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں اور اس راستے میں انھیں کوئی بھی نقصان اٹھانا پڑے تو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو شیطان کی ایجنٹی کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ اس لیے شیطان جب کسی فرد یا کسی قوم سے حکماً بےحیائی کے کام کروانا چاہتا ہے تو وہ شر کی ان قوتوں کو آگے بڑھاکران سے وہ کام لیتا ہے۔ کسی ریاست کا حکمران اگر مسلمانوں کے مفادات کے خلاف غیر مسلم مفادات کا امین بن کر مسلمانوں کو مارتا اور انھیں نقصان پہنچاتا ہے تو وہ حقیقت میں شیطان کا ایجنٹ بن کر یہ سب کچھ کرتا ہے۔ اور وہ اپنی قوت نافذہ اور حکومت کے ذریعے وہ سب کچھ کر گزرتا ہے جو شیطان وسوسہ اندازی کے ذریعے نہیں کرسکتا۔ وہ ایک شخص کو بہکا دیتا ہے جس کے ہاتھ میں طاقت ہے۔ اب اس شخص کی طاقت شیطان کی طاقت بن جاتی ہے۔ اور وہ اس طاقت کے بل بوتے پر جو چاہتا ہے اس کا حکم دیتا ہے۔ میں اس بات کی وضاحت کے لیے ایک ایسا حوالہ دیتا ہوں جس کا آج کل اخبارات میں کسی حد تک ذکر ہو رہا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ اتاترک کے زمانے سے ترکی کوشش کر رہا ہے کہ وہ یورپ کو یقین دلا دے کہ اسلام سے اس کا تعلق نام کی حد تک واجبی سا ہے ‘ ورنہ حقیقت میں وہ اسلام سے اپنا رشتہ کاٹ چکا ہے۔ وہ دن گزر گئے جب ترکی خلافت عثمانیہ کا مرکز تھا اور تمام مسلمان ممالک اس کی نگرانی میں تھے۔ لیکن اب ترکی مسلمان ملکوں سے نہیں بلکہ یورپی یونین سے اپنا تعلق قائم کرنا چاہتا ہے۔ سالہا سال گزر گئے ابھی تک یورپ کو اس بات کا یقین نہیں آیا کہ ترکی واقعی ہمارا ہے۔ وہ اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں کہ ترک قوم اسلام سے اپنا رشتہ کاٹ چکی ہے۔ اس لیے وہ اسے اپنے اندر شامل کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اب ترکی کو کچھ امید پیدا ہوئی تھی کہ شاید یورپ ہمیں اپنے ساتھ شامل کرلے ‘ لیکن عجیب اتفاق یہ ہوا کہ ترک پارلیمنٹ میں ایک بل پیش ہوا کہ ترک پارلیمنٹ کو بدکاری پر پابندی لگانی چاہیے اور امکان پیدا ہوا کہ پارلیمنٹ اس کی منظوری دے دیگی۔ یورپ نے دھمکی دی کہ اگر تم نے بدکاری یعنی زنا پر پابندی لگائی تو ہم کبھی تمہیں یورپی یونین میں شامل کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ کیونکہ یورپ ان خباثتوں کو ” ہیومن ارج “ یعنی فطری تقاضوں کا نام دیتا ہے۔ اور ان باتوں پر پابندی لگانا انسان کی فطری امنگوں پر پابندی سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ میں زنا بالجبر جرم ہے ‘ زنا بالرضا نہیں۔ یعنی جرم زنا اور بدکاری نہیں بلکہ زبردستی ہے۔ اگر باہمی رضا مندی سے یہ خباثت ہوتی رہے تو انھیں اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ برطانیہ کی پارلیمنٹ تو اس سے آگے بڑھ کر باہم جنس پرستی کا قانون بھی پاس کرچکی ہے۔ اب یہ کوئی برائی نہیں ‘ بلکہ ایک علم بن چکا ہے۔ آپ امریکہ کی لائبریریوں میں جائیں تو وہاں آپ کو اس برائی کے حق میں لکھی ہوئی کتابوں پر مشتمل علیحدہ سیکشن ملے گا جس کا عنوان ہے ” گے اسٹائل آف لائف “۔ برسوں سے امریکہ میں بہن سے نکاح کے مطالبے ہو رہے ہیں اور بعض ریاستوں میں باقاعدہ اس کے حق میں جلوس نکالے گئے ہیں۔ پہلے استلذاذ بالاقاربکو طبی نقصانات کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا ‘ لیکن آج اسے ” ہیومن ارج “ قرار دے کر انسان کا بنیادی حق تسلیم کروانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اس سے آپ اندازہ کیجئے کہ یورپ کی بہیمیت اور سفلی جذبات کی بالا دستی کہاں تک پہنچ چکی ہے۔ اس لیے ان کے یہاں تو بدکاری کسی برائی کا نام نہیں ‘ بلکہ یہ انسان کی خواہش کی تکمیل ہے جس میں رکاوٹ ڈالنا برائی سمجھا جاتا ہے۔ ترکی ان سے اپنا رشتہ جوڑنا چاہتا ہے تو انھوں نے باقاعدہ دھمکی دی کہ اگر تم نے یہ بل پاس کردیا تو پھر ہم سے تمہارا کوئی رشتہ قائم نہیں ہوسکتا۔ اب ترکی پارلیمنٹ نے اس معاملے کو موخر کردیا ہے۔ اس مثال سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ بےحیائی کی باتوں کا حکم تو شیطان دیتا ہے ‘ لیکن وہ ذریعہ بعض دفعہ افراد کو بناتا ہے اور بعض دفعہ بڑی بڑی حکومتیں اس کا ذریعہ بنتی ہیں۔ اس لحاظ سے اگر اس کا ترجمہ ” حکم دینا “ کیا جائے تو غلط نہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ” اللہ تم سے مغفرت اور فضل کا وعدہ فرماتا ہے “ مغفرت فحشاء کے مقابلے میں ہے اور فضل فقر کے مقابلے میں۔ شیطان تو تمہیں فقر سے ڈراتا ہے کہ اگر تم نے اس کے راستے میں خرچ کیا تو تم فقیر اور نادار ہوجاؤ گے لیکن اللہ تعالیٰ تم سے وعدہ کرتا ہے کہ تم اس کے راستے میں خرچ کر کے فقیر نہیں ہوسکتے بلکہ تم سے وہ فضل و کرم کا معاملہ فرمائے گا اور وہ زیادہ سے زیادہ تمہیں عطا فرمائے گا۔ اور مسلمانوں کی تاریخ بھی ہمیں یہی بتاتی ہے کہ مسلمان جب مدینہ طیبہ میں آئے تو اکثریت نان شبینہ کی محتاج تھی۔ ایک چھوٹی سی بستی پر ہزاروں کھانے والوں کا بوجھ آپڑا۔ لیکن چند ہی سالوں میں اللہ نے ان کے دن پھیردیئے کہ وہ نان شبینہ کے محتاج جو پیٹ پر پتھر باندھ کر دن بھر کی مزدوری اللہ کے راستے میں دے دیتے تھے اللہ نے انھیں اتنی خوشحالی عطا فرمائی کہ وہ زکوۃ کا مال لے کر زکوۃ لینے والے کو ڈھونڈتے تھے لیکن ملتا نہیں تھا۔ جس کے پاس جاتے کہ گزشتہ سال میں نے تمہیں زکوۃ دی تھی اسی لیے اب میں لے کے آیا ہوں تو وہ معذرت کرتا ہوا کہتا کہ اب تو اللہ تعالیٰ نے مجھے خود زکوۃ دینے کے قابل بنادیا ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اپنے پیچھے گیارہ بیٹے چھوڑے ‘ جنھیں اپنے باپ کی وراثت سے پانچ پانچ درہم حصہ ملا۔ لیکن لوگوں نے چند سالوں کے بعد ان کے بڑے بیٹے عبدالعزیز کو دیکھا کہ انھوں نے ایک دن میں سو غلام خرید کے اللہ کے راستے میں آزاد کیے۔ اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ان کی دولت میں کس قدر وسعت تھی۔ ہشام بن عبدالملک نے بھی اپنے پیچھے گیارہ بیٹے چھوڑے۔ ہشام کے مرنے پر ایک ایک بیٹے کو جو وراثت ملی وہ گیارہ گیارہ لاکھ درہم تھی۔ لیکن ایک وقت آیا لوگوں نے ہشام کے بیٹوں کو مانگتے ہوئے دیکھا۔ ان دونوں مثالوں میں جو چیز سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ عمر بن عبدالعزیز نے سب کچھ اللہ کے راستے میں لٹا دیا تو اللہ نے ان کے بیٹوں کو اپنے فضل سے نوازا اور ہشام نے ظلم اور غبن کے ذریعے دولت اکٹھی کی ‘ اللہ نے اس کی اولاد کو نان شبینہ تک کا محتاج بنا ڈالا۔ اور دوسری بات ارشاد فرمائی کہ شیطان تمہیں بےحیائی کے کاموں کا حکم دیتا ہے اور اللہ تم سے مغفرت اور بخشش کا وعدہ فرماتا ہے۔ یعنی وہ تمہیں عیش و عشرت ‘ مے نوشی ‘ سینما بینی ‘ غلط صحبتوں میں شرکت اور اللے تللوں میں دولت اڑانے پر اکساتا ہے اور تمہیں بےحیائی کا خوگر بنا کر تمہاری تمام دولت بےحیائی کے کاموں میں صرف کروا دیتا ہے۔ لیکن اللہ تم سے وعدہ کرتا ہے کہ اگر تم اپنی دولت اللہ کے راستے میں خرچ کرو گے تو زندگی بھی آسودگی سے گزرے گی اور آخرت میں تمہاری یہ فیاضی ‘ تمہارے لیے جنت میں جانے کا سبب بنے گی۔ اللہ اس کے بدلے میں تمہاری مغفرت اور بخشش فرمائے گا۔ دیکھ لو دونوں میں سے کون سا راستہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ اور اللہ بڑی وسعت والا ہے اور علم والا ہے۔ تم اس کے راستے میں دو گے ‘ تو اس کے وسیع خزانے تم پر نچھاور ہوجائیں گے۔ اور وہ اپنے علم کی وجہ سے خوب جانتا ہے کہ کس نے کیا خرچ کیا اور کس جذبے سے خرچ کیا۔ اس لیے اس کے مطابق وہ قیامت کے دن اجر وثواب سے نوازے گا۔ حکمت کا مفہوم دوسری آیت میں ارشاد فرمایا کہ جو شخص مال و دولت کو ظاہری پیمانوں سے نہیں ناپنا بلکہ وہ اللہ کے وعدوں پر بھروسہ کرتا ہے وہ سینت سینت کے رکھنے کی بجائے اللہ کے راستے میں لٹاتا ہے اور اس بات پر پختہ یقین رکھتا ہے کہ اس کے بدلے میں مجھے اللہ کا فضل و کرم ملے گا اور اللہ کے وعدوں پر اعتماد کو اپنا حقیقی جوہر سمجھتا ہے۔ اس سے جو اصل روح ایمان اور عمل کی پختگی نصیب ہوتی ہے اور آدمی جس گہری بصیرت سے نوازا جاتا ہے یہ وہ چیز ہے جس کو یہاں حکمت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کمی بیشی کے ظاہری پیمانوں سے ہر چیز کو ناپنا اور عقل کی ترازو میں ہر چیز کو تولناہر عقلمند آدمی کا شیوہ ہے۔ لیکن اس سے بلند ہو کر ان روحانی پیمانوں پر یقین کرنا جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور دنیا کی بجائے آخرت کو اپنا مقصد بنانا اور یہاں اللہ کے دین کے تقاضوں کے مطابق ہر چیز کو قربان کر کے آخرت کی نعمتوں کو اپنی مقصد بنا لینا اور ان پر ایسا گہرا یقین اور گہری بصیرت کا پیدا ہوجانا کہ اس سے ہٹ کر ایمانی طبیعت کسی چیز کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہو یہ وہ حکمت ہے جو اللہ تعالیٰ کسی کسی کو عطا فرماتے ہیں۔ اور جس کو یہ حکمت مل جاتی ہے وہ دنیا کے خزف ریزوں کو جمع کرنے کے بجائے اس حکمت کا طالب ہوتا ہے۔ اسے دنیائے فانی کی لذتوں پر فریفتہ ہونے کی بجائے اپنا مال و دولت لٹانے ‘ حتیٰ کہ سر کٹوانے میں مزہ آتا ہے۔ یہی وہ حکمت کا خزانہ ہے جس کا مقام و مرتبہ جوہر عقل سے کہیں زیادہ ہے۔ لیکن اسے سمجھنے کے لیے بھی عقل ہی کی ضرورت پڑتی ہے ‘ لیکن یہ عقل وہ ہے جو ایمان کی تابع ہے۔ جو ایمان کے ساتھ رہ کر اتنی مجلیٰ اور مصفیٰ ہوچکی ہے کہ محسوسات اور معقولات کے پیمانے اسے ناپنے سے عاجز رہ جاتے ہیں۔ وہ فیصلہ کرتی ہے تو ابراہیمی عقل سے کرتی ہے ‘ وہ بحرقلزم کے کنارے کھڑے ہو کر موسیٰ کی زبان سے بولتی ہے ‘ وہ میدانِ بدر میں کثرت و قلت کی پروا کیے بغیر امت کو فتح و کامیابی کا یقین دلاتی ہے۔ یہ وہ حکمت ہے جو سارے خزانوں سے بڑا خزانہ ہے۔ برتر از اندیشہ سود و زیاں ہے زندگی ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیمِ جاں ہے زندگی تو اسے پیمانہ امروز و فردا سے نہ ناپ ہر دم رواں ‘ پیہم جواں ‘ ہر دم دواں ہے زندگی وَمَـآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ نَّفَقَۃٍ اَوْنَذَرْتُمْ مِّنْ نَّذْرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُہٗ ط وَمَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ ۔ (اور جو کچھ تم خرچ کرتے ہو یا جو کچھ تم منت مانتے ہو یقینا اللہ اسے جانتا ہے۔ اور ظالموں کے لیے کوئی مددگار نہیں ہے) (270) نذر کی تعریف امام تفسیر قرطبی نے نذر کی تعریف یہ کی ہے ہو ما اوجبہ المکلف علی نفسہ من عبادات لولم یوجبہ لم یلزمہ (نذر ایسی عبادت کو اپنے اوپر لازم کرلینے کو کہتے ہیں کہ اگر وہ عبادت (نذر ماننے والا) اپنے اوپر واجب نہ کرے تو وہ عبادت اس پر لازم نہیں ہوتی) دوسرے اہل علم بھی اس سے ملتی جلتی بات کہتے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ آدمی اپنی کسی مراد کے برآنے پر کسی ایسے خرچ یا ایسی عبادت یا ایسی خدمت کو اپنے اوپر لازم کرلے جو اس کے ذمے فرض نہیں تو ایسی نذر کا ماننا اور پورا کرنا چند شرائط کے ساتھ جائز ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نذر ماننے کو پسند نہیں کیا گیا۔ یہ ایک طرح سے اللہ تعالیٰ کو پابند کرنے والی بات ہے جو پسندیدہ نہیں ہے۔ لیکن اگر نذر مان لی جائے تو پھر اسے پورا کرنا واجب ہوجاتا ہے ‘ لیکن شرط یہ ہے کہ اس نذر میں کوئی شرعی قباحت نہ ہو۔ یعنی کسی ناجائز کام کے لیے نذر نہ مانی جائے یا کسی جائز کام کے لیے ایسی نذر نہ مانی جائے جس کا مانناشریعت کی رو سے جائز نہیں۔ اگر ایسی شرعی قباحتوں سے وہ نذر محفوظ ہے تو پھر جیسا کہ میں نے عرض کیا اس کا پورا کرنا واجب ہے۔ نذر میں بھی عام طور پر اللہ کے راستے میں خرچ کرنا ہوتا ہے ‘ اس لیے اس کا ذکر بھی انفاق فی سبیل اللہ کے ذکر میں کیا گیا ہے۔ اور یہ فرمایا گیا ہے کہ تم جو کچھ بھی خرچ کرو یا تم نذر مان کر اسے پورا کرتے ہوئے خرچ کرو اور چاہو تم ہزار پردوں میں چھپ کر خرچ کرو اللہ تعالیٰ اس سے بیخبر نہیں ‘ اسے جانتا ہے۔ جاننے سے مراد یہ ہے کہ وہ اس کا صلہ بھی دے گا۔ عموماً اللہ تعالیٰ جب اپنی صفات کا ذکر فرماتے ہیں تو اس سے مقصود ان کا لازم ہونا ہے۔ یہاں بھی یہی مطلب ہے کہ وہ جب تمہارے ہر خرچ اور ہر ایثار کو جانتا ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ تمہیں اس کا صلہ عطا فرمائے گا۔ اور اس کے بعد فرمایا کہ ” ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہوگا “ ظالم سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنی جانوں پر ظلم ڈھایا۔ اللہ نے ان کو مال و دولت دیا تو اس کا تقاضا یہ تھا کہ جس نے وہ دولت دی ہے اسی کے راستے میں خرچ کی جائے لیکن انھوں نے اس کے راستے میں خرچ کرنے کی بجائے اسے اللے تللوں میں اڑایا۔ اور اگر کسی پر خرچ کیا بھی تو دکھاوے کے لیے کیا یا خرچ کرنے کے بعد احسان جتلایا ‘ دل آزاری کی اور یا دولت کو معبود بنا کر پوجتے رہے ‘ بجائے خرچ کرنے کے اس کی حفاظت کو مقصود بنا لیا۔ بجائے اس کے کہ انفاق و ایثار اور اللہ کی رحمت کے فضل و کرم پر بھروسہ کرتے انھوں نے اپنے مال و دولت کو معبود بنا کر اس پر بھروسہ کیا اور اسی پر تکیہ کیے بیٹھے رہے۔ اور یہ سمجھتے رہے کہ دنیا میں بھی یہی مال و دولت کام آیا اور آخرت میں بھی یہی ہماری کامیابیوں کی ضمانت ہوگا۔ کہا ایسے اپنی جانوں کے دشمنوں کے لیے قیامت کے دن کوئی مددگار نہیں ہوگا جو اللہ کے عذاب سے انھیں بچا سکے۔
Top