Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 13
وَ لَهٗ مَا سَكَنَ فِی الَّیْلِ وَ النَّهَارِ١ؕ وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
وَلَهٗ : اور اس کے لیے مَا : جو سَكَنَ : بستا ہے فِي : میں الَّيْلِ : رات وَالنَّهَارِ : اور دن وَهُوَ : اور وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
اور اسی کے قبضہ قدرت میں ہے ‘ جو چیز شب میں ساکن ہوتی ہے اور جو دن میں متحرک ہوتی ہے۔ وہ سمیع وعلیم ہے
وَلَہٗ مَا سَکَنَ فِی الَّیْلِ وَالنَّھَارِ ط وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ۔ (الانعام : 13) (اور اسی کے قبضہ قدرت میں ہے ‘ جو چیز شب میں ساکن ہوتی ہے اور جو دن میں متحرک ہوتی ہے۔ وہ سمیع وعلیم ہے) یعنی لوگوں کو یہ شبہ ہے کہ ایک ایک آدمی کے عمل سے اللہ تعالیٰ کیسے باخبر ہوسکتے ہیں ؟ اس لیے انھیں بتایا جا رہا ہے کہ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ شب کی تاریکیوں میں جو چیز ساکن ہوتی ہے اور دن کی روشنی میں جو چیز بھی متحرک ہوتی ہے ‘ سب اللہ ہی کے اختیار ‘ اسی کے قبضہ قدرت اور اسی کے کنٹرول میں ہے۔ مجال نہیں کہ کوئی چیز ‘ اس کی نگاہوں سے اوجھل ہو سکے اور اس کے اذن کے بغیر اپنی جگہ سے سرک سکے۔ رات کی تاریکی اور دن کی روشنی ‘ دونوں اس کے لیے یکساں ہیں۔ وہ ہر جگہ سے سب کو اکٹھا کر دے گا اور جس طرح اس کی قدرت سب پر محیط ہے ‘ اسی طرح اس کا علم بھی ‘ ہر چیز پر حاوی ہے۔ اس لیے کہ وہ سمیع وعلیم ہے۔ صحرا میں کوئی پتہ گرتا ہے تو وہ اس کی آہٹ سنتا ہے۔ دل و دماغ میں خیال کی کوئی لہر اٹھتی ہے تو وہ اسے جانتا ہے۔ انسانی دماغ چونکہ اس کے علم کی وسعتوں کا احاطہ نہیں کرسکتا ‘ اس لیے عجیب و غریب شبہات میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ پروردگار عالم کی قدرت کی ہمہ گیری ‘ اس کے علم کی بےانتہاء وسعت اور اس کی رحمت بےکراں کا مدلل ذکر فرمانے کے بعد ‘ آنحضرت ﷺ کی زبان مبارک سے لوگوں کے سامنے ایک سوال رکھا جا رہا ہے ‘ جو بیان کردہ صورتحال کا لازمی اور منطقی نتیجہ ہے۔ ارشاد خداوندی ہے۔
Top