Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 13
وَ لَهٗ مَا سَكَنَ فِی الَّیْلِ وَ النَّهَارِ١ؕ وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
وَلَهٗ : اور اس کے لیے مَا : جو سَكَنَ : بستا ہے فِي : میں الَّيْلِ : رات وَالنَّهَارِ : اور دن وَهُوَ : اور وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
اور اس کے لیے ہے جو کچھ رات اور دن میں ٹھہرا ہوا ہے اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے
جو کچھ رات اور دن میں ہے سب اللہ ہی کے لئے ہے وہ دیکھتا اور سنتا ہے : 22: زیر نظر آیت بھی گذشتہ آیات کی طرح توحید الٰہی کی کتنی بڑی دلیل ہے کہ زمین و آسمان جس طرح ظرف مکان ہیں بالکل اسی طرح رات اور دن “ ظرف زمان “ ہیں۔ پہلے فرمایا تھا کہ بلندی اور پستی میں جو کچھ ہے وہ سب کا سب اللہ ہی کا ہے۔ اب بتایا جا رہا ہے کہ زمانے کے پیمانے میں جو کچھ ہے وہ بھی اسی کی ملکیت ہے تو جب سب مکانیات اور زمانیات اس کی پیدا کردہ ہیں اور اس کے قبضہ قدرت میں ہیں تو پھر ان میں سے کوئی انسان خواہ وہ کون ہو اور کوئی پتھر خواہ وہ کسی کی طرف منسوب کیا گیا ہو اور کوئی چیز حیوانات ، نباتات اور جمادات میں سے خواہ کوئی ہو معبود کیسے بن سکتی ہے ؟ ظاہر ہے کہ محتاج کبھی معبود نہیں ہو سکتا۔ محتاج کبھی مشکل کشا نہیں ہو سکتا اور جو خود مشکل میں پھنس جائے وہ کبھی خدا نہیں ہو سکتا۔ یاد رہے کہ اس جگہ ” سکون “ حرکت کی ضد نہیں بلکہ حرکت کو شامل ہے اور محض استقراء کے معنی میں ہے۔ (کبیر) اور متحرک کا ذکر اس لئے نہیں کیا کہ متحرک کی ضد یعنی ساکن کا ذکر کردیا گیا اور ضدین میں سے ایک کا ذکر کردینا دوسرے کے وجود کا خود بخود اثبات ہوجاتا ہے ۔ قرآن کریم میں یہ بات اس قدر عام ہے کہ اس کی طرف اشارہ کی بھی کوئی ضرورت نہ تھی لیکن افسوس کہ بعض اوقات بڑے بڑے علامہ کہلانے والے اس اصل کو بھول جاتے ہیں اور بچوں کی طرح ضد کرنا شروع کردیتے ہیں ۔ ’ وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ “ اس جگہ اللہ تعالیٰ نے اپنی دو صفتوں کا ذکر فرما دیا کہ یہ مشرکوں کے لئے وعید کا کام دیں کہ تمہارے بول سنے جا رہے ہیں تمہارے افعال دیکھے جا رہے ہیں اس لئے تم سے تمہاری ایک ایک بحث ہمارے علم میں ہے۔ تمہیں ہم اپنے قانون امہال کی وجہ سے ڈھیل پر ڈھیل دیئے جا رہے ہیں اور جب مقررہ وقت آجائے گا تو پھر ایک پل کی دیر بھی نہیں ہوگی۔
Top