Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 13
وَ لَهٗ مَا سَكَنَ فِی الَّیْلِ وَ النَّهَارِ١ؕ وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
وَلَهٗ : اور اس کے لیے مَا : جو سَكَنَ : بستا ہے فِي : میں الَّيْلِ : رات وَالنَّهَارِ : اور دن وَهُوَ : اور وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
اور اسی کی ملک ہے جو کوئی بھی رات اور دن میں رہتا ہے اور وہ بڑا سننے والا ہے، بڑا جاننے والا ہے،19 ۔
19 ۔ صفت السمیع کا تعلق انسان کے ظاہر اوراقوال سے ہے۔ صفت العلیم کا تعلق انسان کے باطن اور احوال قلب سے ہے۔ (آیت) ” ما سکن فی الیل والنھار “۔ ابھی اوپر (آیت) ” ما فی السموت والارض “۔ میں سارے موجودات کائنات کا ذکر وجود مکانی کے اعتبار سے آچکا ہے۔ اب ذکر وجود زمانی کے اعتبار سے ہے۔ موجودات کے لیے ظرف دوہی ہیں۔ ظرف مکان وظرف زمان۔ ظرفیت مکانی کا ذکر ابھی آچکا تھا۔ ظرفیت زمانی کا ذکر اب آگیا۔ لیس المراد من ھذا السکون ماھو ضد الحرکۃ بل المراد السکون بمعنی الحلول کما یقال فلان یسکن بلد کذا اذا کان محلہ فیہ (کبیر) یہ سکون حرکت کی ضد نہیں، بلکہ حرکت کو شامل ہے۔ اور محض استقرار کے معنی میں ہے۔ معناہ ھذاواستقر والمراد ما سکن وما تحرک فلیس المراد بالسکون ضد الحرکۃ بل المراد الخلق (قرطبی) اور اس طرح ظرفیت کے لحاظ سے احاطہ کامل ہوگیا، ذکر فی الایۃ الاولی السموت والارض اذلا مکان سواھما وفی ھذہ الایۃ ذکر اللیل والنھار اذلازمان سواھما فاخبر سبحانہ وانہ مالک للمکان والمکانیات ومالک للزمان والزمانیات وھذا بیان فی غایۃ الجلالۃ (کبیر، عن ابی مسلم)
Top