Al-Qurtubi - Al-An'aam : 13
وَ لَهٗ مَا سَكَنَ فِی الَّیْلِ وَ النَّهَارِ١ؕ وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
وَلَهٗ : اور اس کے لیے مَا : جو سَكَنَ : بستا ہے فِي : میں الَّيْلِ : رات وَالنَّهَارِ : اور دن وَهُوَ : اور وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
اور جو مخلوق رات اور دن میں بستی ہے سب اسی کی ہے اور وہ سنتا جانتا ہے۔
آیت نمبر 13 تا 16 :۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : ولہ ما سکن فی الیل و النھار یعنی جو ثابت ہے یہ بھی مشرکوں کے خلاف حجت ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ آیت نازل ہوئی، کیونکہ انہوں نے کہا تھا ہم جانتے ہیں کہ جو تم کرتے ہو اس پر تمہیں کوئی چیز نہیں ابھارتی مگر حاجت پس ہم تمہارے لیے مال جمع کرتے ہیں حتی کہ تو ہمارے غنی لوگوں میں ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے محبوب ! انہیں بتائیے کہ تمام اشیاء اللہ تعالیٰ کی ہیں وہ مجھے غنی کرنے پر قادر ہے۔ سکن کا معنی پرسکون ہونا اور ٹھہرنا ہے مراد ہے جو ساکن ہے اور جو متحرک ہے سامع کے علم کی وجہ سے حذف کیا گیا۔ بعض علماء نے فرمایا : ساکن کو خصوصی طور پر ذکر کیا، کیونکہ سکون جن کو شامل ہے وہ حرکت کرنے والی چیزوں سے زیادہ ہیں۔ بعض نے فرمایا : اس کا معنی ہے جو اس نے پیدا کیا یہ تمام ساکن ومتحرک و مخلوقات کو شامل ہے، کیونکہ اس پر رات، دن جاری ہوتے ہیں۔ اس مفہوم کی بناء پر سکون سے مراد وہ نہ ہوگا جو حرکت کی ضد ہے بلکہ مراد مخلوق ہے۔ یہ عمدہ قول ہے، کیونکہ یہ مختلف اقوال کا جامع ہے۔ آیت : وھوالسمیع وہ ان کی آوازوں کو سننے والا ہے۔ العلیم ان کے بھیدوں کو جاننے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : قل اغیر اللہ اتخذولیا، اتخذ کے دو مفعول ہیں جب مشرکین نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے آباء کے دین بت پرستی کی طرف بلایا تو اللہ تعالیٰ یہ ارشاد نازل فرمایا : اے پیارے محمد ﷺ ! تم کہو کہ میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو اپنا رب، معبود اور ناصربنائوں ؟ آیت : فاطرالسموت ولارض اسم جلالت کی صفت کی بناپرجر کے ساتھ ہے۔ اخفش نے مبتدا کے اضمار کی بنا پر رفع کو جائز قرار دیا ہے۔ زجاج نے کہا : مدح کی بنا پر نصب بھی جائز ہے۔ ابوعلی فارسی نے کہا : فعل مضمر پر اس کی نصب بھی جائز ہے گویا فرمایا : اترک فاطرالسموت والارض کیا میں آسمانوں اور زمین پیدا کرنے والے کو چھوڑدون ؟ کیونکہ آیت : اغیر اللہ اتخذولیا اس کی ولایت ترک پر دلالت کرتا ہے۔ اس دلالت کی قوت کی وجہ سے فعل اضماربہتر ہے۔ آیت : وھویطعم ولا یطعم اکثر علماء کی یہی قراءت ہے یعنی وہ رزق دیتا ہے، اسے رزق نہیں دیا جاتا، اس کی دلیل یہ ارشاد ہے آیت : ما اریدمنھم من رزق وما اریدان یطعمون (50) (الذاریات) میں ان سے رزق نہیں چاہتا اور میں نہیں چاہتا کہ وہ مجھے کھلائیں۔ سعید بن جبیر، مجاہد اور اعمش کی قراءت وھویطعم ولایطعم ہے۔ یہ قراءت عمدہ ہے یعنی وہ بندوں کو رزق دیتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کا محتاج نہیں جس کی مخلوق محتاج ہوتی ہے مثلا غذا (وغیرہ) ۔ دونوں فعلوں کو یا کے ضمہ اور عین کے کسرہ کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کھلاتا ہے اور انہیں رزق دیتا ہے اور بت نہ اپنے آپ کو کھلاتا ہے اور نہ اپنے بنانے والے کو کھلاتا ہے۔ پہلے میں یا اور عین کے فتح کے ساتھ پڑھا گیا ہے یعنی بت ولا یطعم نہیں کھلاتا یا کے ضمہ اور عین کے کسرہ کے ساتھ۔ کھانا کھلانے کو خصوصاذکر کیا گیا ہے دوسرے انعامات کو ذکر نہیں کیا، کیونکہ تمام لوگوں کو اس کی زیادہ حاجت ہوتی ہے۔ آیت : قل انی امرت ان اکون اول من اسلم یعنی سب سے پہلے میں اللہ کے امر کے سامنے سر جھکائوں۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کا مطلب ہے اپنی قوم اور اپنی امت سے میں پہلے اخلاص کا اظہار کروں۔ یہ ھسن وغیرہ سے مروی ہے۔ آیت : ولا تکونن من المشرکین یعنی مجھے کہا گیا کہ تو ہر گز نہ بننا مشرکوں میں سے۔ آیت : قل انی اخاف ان عصیت ربی یعنی ڈر رہتا ہے کہ میں غیر کی عبات کروں گا تو وہ مجھے عذاب دے گا۔ الخوف کا معنی مکروہ کی توقع ہے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : اخاف یہاں اعلم کے معنی میں ہے۔ آیت : من یصرف عنہ یعنی جس سے عذاب ٹالا گیا۔ یومئذ یعنی قیامت کا دن۔ فقد رحمہ وہ نجات پا گیا، کامیاب ہوگیا رحم کیا گیا۔ کوفیوں نے من یصرف یا کے فتحہ اور را کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ ابن ابی حاتم اور ابوعبید کا یہی مختار ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : قل لمن ما فی السموت ولارض قل للہ۔ اور ارشاد ہے فقدرحمہ رحم مجہول کا صیغہ ذکر نہیں فرمایا اور حضرت ابی کی قراءت کی وجہ سے من یصرفہ اللہ عنہ۔ سیبویہ نے پہلی قراءت کو اختیار کیا اور اہل مدینہ اور ابی عمرو کی قراءت ہے۔ سیبویہ نے کہا : جب کلام میں اضمار کم ہوتا ہے تو بہتر ہوتا ہے۔ رہی ان کی قراءت جنہوں نے یصرف یاء کے فتحہ کے ساتھ پڑھا تو اس کی تقدیر یہ ہوگی : من یصرف اللہ عنہ العذاب اور جب من یصرف عنہ پڑھا جائے گا تو تقدیر یہ ہوگی من یصرف عنہ العذاب۔ آیت : وذالک الفوز المبین (16) یعنی واضح نجات۔
Top