Al-Qurtubi - Al-Baqara : 79
فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ یَكْتُبُوْنَ الْكِتٰبَ بِاَیْدِیْهِمْ١ۗ ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ هٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ لِیَشْتَرُوْا بِهٖ ثَمَنًا قَلِیْلًا١ؕ فَوَیْلٌ لَّهُمْ مِّمَّا كَتَبَتْ اَیْدِیْهِمْ وَ وَیْلٌ لَّهُمْ مِّمَّا یَكْسِبُوْنَ
فَوَيْلٌ : سو خرابی ہے لِلَّذِیْنَ : ان کے لیے يَكْتُبُوْنَ : لکھتے ہیں الْكِتَابَ : کتاب بِاَيْدِيهِمْ : اپنے ہاتھوں سے ثُمَّ : پھر يَقُوْلُوْنَ : کہتے ہیں هٰذَا : یہ مِنْ : سے عِنْدِ اللہِ : اللہ کے پاس لِيَشْتَرُوْا : تاکہ وہ حاصل کریں بِهٖ : اس سے ثَمَنًا : قیمت قَلِیْلًا : تھوڑی فَوَيْلٌ : سوخرابی لَهُمْ : ان کے لئے مِمَّا : اس سے کَتَبَتْ : جو لکھا اَيْدِيهِمْ : ان کے ہاتھ وَوَيْلٌ : اور خرابی لَهُمْ : ان کے لئے مِمَّا : اس سے جو يَكْسِبُوْنَ : وہ کماتے ہیں
تو ان لوگوں پر افسوس ہے جو اپنے ہاتھ سے تو کتاب لکھتے ہیں اور کہتے یہ ہیں کہ یہ خدا کے پاس سے (آئی) ہے تاکہ اس کے عوض تھوڑی سی قیمت (یعنی دنیوی منفعت) حاصل کریں، ان پر افسوس ہے اس لیے کہ (بےاصل باتیں) اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں اور (پھر) ان پر افسوس ہے اس لئے کہ ایسے کام کرتے ہیں
آیت نمبر 79 اس میں پانچ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: فویلٌ، ویل کے بارے میں اختلاف ہے کہ یہ کیا ہے۔ حضرت عثمان بن عفان نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے کہ یہ آگ کا پہاڑ ہے (1) ۔ حضرت ابو سعید خدری نے روایت کیا ہے کہ ویل دو پہاڑوں کے درمیان جہنم میں ایک وادی ہے جس میں گرنے والا چالیس سال گرتا جائے گا۔ (1) سفیان اور عطا بن یسار سے مروی ہے کہ اس آیت میں ویل سے مراد ایک وادی ہے جو جہنم کے فنا میں ہے اس میں دوزخیوں کی پیپ چلتی ہے (2) ۔ بعض نے فرمایا : جہنم میں ایک حوض ہے۔ الزہراوی نے دوسروں سے حکایت کیا ہے کہ یہ جہنم کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے (3) ، الویل، عذاب کی تکلیف ہے۔ خلیل نے کہا : اس تکلیف کی شدت ہے۔ اصمعی نے کہا : ویل سے مراد افسوس کا اظہار کرنا ہے۔ اور الویح سے مراد رحم کا اظہار کرنا ہے۔ سیبویہ نے کہا : جو ہلاکت میں واقع ہو اس کے لئے ویل اور جو ہلاکت کے قریب ہو اس کے لئے ویح استعمال ہوتا ہے۔ ابن عرفہ نے کہا ویل سے مراد غم ہے۔ کہا جاتا ہے : تویل الرجل جب وہ ویل پکارے یہ غم اور مصیبت کے وقت کہا جاتا ہے۔ اس سے ہے فویلٌ للذین یکتبون الکتب بایدیھم۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کی اصل ہلاکت ہے ہر وہ شخص جو ہلاکت میں واقع ہوا ہو وہ ویل کو پکارتا ہے۔ اسی سے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : یویلتنا مال ھذا الکتب (الکہف :49) ویل اور ویلہ دونوں کا معنی ہلاکت ہے اس کی جمع ویلات ہے۔ شاعر نے کہا : لہ الویل ان امسی ولا ام ہاشم ایک اور نے کہا : فقالت لک الویلات انک مرجلی ویل پر رفع ابتدا کی وجہ سے ہے۔ اس کو مبتدا بنانا جائز ہے اگرچہ نکرہ ہے کیونکہ اس میں دعا کا معنی ہے۔ اخفش نے کہا : فعل کے اضمار کی بنا پر نصب بھی جائز ہے یعنی الزمھم اللہ ویلاً ۔ فراء نے کہا : الویل اصل میں وئ تھا یعنی غم۔ جیسے تو کہتا ہے : وی لفلان یعنی کے لئے غم۔ عربوں نے اس کے ساتھ لام ملا دیا اور پھر اس سے اسے مقدر کیا اور اسے اعراب دیا۔ اس میں بہتر یہ ہے کہ جب یہ مضاف نہ ہو تو اس پر رفع ہو کیونکہ یہ وقوع کا تقاضا کرتی ہے اور دعا کے معنی پر نصب بھی صحیح ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے۔ خلیل نے کہا : صرف ان الفاظ کا مبنی ہونا سنا گیا ہے : ویح وویس وویہ وویک وویل وویب۔ یہ تمام الفاظ قریب المعنی ہیں، بعض نے ان کے درمیان فرق کیا ہے۔ یہ مصادر ہیں ان کو عرب فعل کے ساتھ نہیں بولتے۔ الجرمی نے کہا : اور ان کلمات میں سے جن کو نصب مصادر کی نصب کی طرح دمی جاتی ہے وہ ویلہ، عولہ، ویحہ اور ولیسہ ہیں جب ان کے ساتھ لام کو داخل کرے گا تو تو رفع دے گا اور کہے گا : ویلٌ لہ، وویحٌ لہ۔ مسئلہ نمبر 2: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : للذین یکتبون کتاب معروف ہے اور سب سے پہلے جس نے قلم کے ساتھ لکھا اور قلم کے ساتھ تحریر لکھی وہ حضرت ادریس (علیہ السلام) تھے اور یہ بات حضرت ابو ذر کی حدیث میں آئی ہے جسے الآجری وغیرہ نے نقل کیا ہے۔ بعض علماء نے کہا حضرت آدم (علیہ السلام) کو کتاب کا فن دیا گیا تو وہ آپ کی اولاد میں وراثت ہوگیا۔ مسئلہ نمبر 3: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بایدیھم یہ تاکید ہے کیونکہ یہ معلوم شدہ ہے کہ کتابت (لکھائی) ہمیشہ ہاتھ کے ساتھ ہوتی ہے یہ اس ارشاد کی مثل ہے : ولا طئرٍ یطیر یجناحیہ (انعام : 38) اس آیت میں جناح کا ذکر تاکید کے لئے ہے کیونکہ پرندہ اڑتا ہی پروں کے ساتھ ہے، اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ویقولون بافواھھم۔ وہ اپنے مونہوں سے بولتے ہیں تو بولنا تو وہتا ہی منہ کے ساتھ ہے اس لئے یہاں افواھھم تاکید کے لئے ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : بایدیھم ان کے جرم کے بیان کے لئے ہے اور ان کے اعلانیہ یہ کام کرنے کے اثبات کے لئے ہے جو خود کسی کام کو شدت سے سر انجام دیتا ہے وہ ان لوگوں سے ہوتا ہے جس کے وہ کام سپرد نہ ہوا گرچہ اس کی رائے موجود ہو۔ ابن سراج نے کہا بایدیھم یہ کنایہ ہے کہ یہ ان کی اپنی طرف سے تھا ان پر نازل نہیں کیا گیا تھا۔ اگرچہ ہاتھوں کے لکھنے میں حقیقت نہ تھی۔ (1) مسئلہ نمبر 4: اس آیت اور اس سے پہلے والی آیت میں تبدیلی، تغییر اور شرع میں زیادتی کرنے سے ڈرایا گیا ہے۔ پس جس نے اللہ دین میں کوئی بدعت نکالی، کوئی ایسی تبدیلی کی جو دین میں سے نہیں ہے اور دین میں وہ جائز نہ ہو تو وہ اس سخت وعید اور عذاب الیم میں داخل ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو ڈرایا جب آپ نے آخر زمانہ میں جو ہونے والا ہے، اسے جان لیا۔۔۔۔ فرمایا : خبردار ! تم میں سے اہل کتاب بہتر ملتوں میں جدا جدا ہوئے اور یہ امت تہتر ملتوں میں تقسیم ہوگی سوائے ایک کے سب دوزخ کی آگ میں جائیں گے۔۔۔۔ اور آپ ﷺ نے اپنی طرف سے دین میں کوئی ایسی بات ایجاد کرنا جو قرآن وسنت اور اصحاب کی سنت کے مخالف ہوگی تو وہ لوگوں کو اس کے ساتھ گمراہ کریں گے۔ جس سے نبی کریم ﷺ نے ڈرایا تھا وہ واقع ہوا اور عام ہوا۔ پھیلا اور کثرت سے پھیلا۔ انا للہ وانا الیہ رجعون۔ مسئلہ نمبر 5: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے لیشتروا بہ ثمناً قلیلاً اللہ تعالیٰ نے اس چیز کو قلت کی صفت سے بیان فرمایا جو وہ لیتے تھے۔ اس لئے کہ یا تو وہ فنا ہونے والی تھی اور اس کو ثبات نہیں تھا یا وہ حرام تھی کیونکہ حرام میں بھی برکت نہیں ہوتی اور وہ اللہ کی بارگاہ میں نہیں بڑھتا۔ ابن اسحاق اور کلبی نے کہا : تورات میں رسول اللہ ﷺ کی یہ صفت ذکر تھی ربعۃ اسمر (درمیانہ قد اور گندمی رنگ) اور انہوں نے اسے آدم سبطاً طویلاً کے الفاظ سے بدل ڈالا یعنی گندمی سیدھے بالوں والا لمبے قد والا۔ وہ اپنے ساتھیوں اور متبعین کو کہتے : اس نبی کی صفت دیکھو جو آخر زمانہ میں مبعوث ہوگا۔ اس کی صفت تو اس کے مشابہ نہیں ہے۔ یہود کے مشائخ اور علماء کے لئے ریاست اور کمائی تھی۔ پس انہیں اندیشہ ہوا کہ اگر وہ صحیح صحیح بیان کریں گے تو ان کے کھانے بند ہوجائیں گے اور ریاست چلی جائے گی اس وجہ سے انہوں نے تحریف کی۔ (2) پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فویلٌ لھم مما کتبت ایدیھم وویلٌ لھم مما یکسبون۔ بعض علماء نے فرمایا : مما یکسبون سے مراد ان کے کھانے ہیں۔ بعض نے فرمایا : گناہ ہیں اور ان کے فعل کی تغلیظ کے لئے ویل کو دوبارہ ذکر کیا۔
Top