Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 79
فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ یَكْتُبُوْنَ الْكِتٰبَ بِاَیْدِیْهِمْ١ۗ ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ هٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ لِیَشْتَرُوْا بِهٖ ثَمَنًا قَلِیْلًا١ؕ فَوَیْلٌ لَّهُمْ مِّمَّا كَتَبَتْ اَیْدِیْهِمْ وَ وَیْلٌ لَّهُمْ مِّمَّا یَكْسِبُوْنَ
فَوَيْلٌ : سو خرابی ہے لِلَّذِیْنَ : ان کے لیے يَكْتُبُوْنَ : لکھتے ہیں الْكِتَابَ : کتاب بِاَيْدِيهِمْ : اپنے ہاتھوں سے ثُمَّ : پھر يَقُوْلُوْنَ : کہتے ہیں هٰذَا : یہ مِنْ : سے عِنْدِ اللہِ : اللہ کے پاس لِيَشْتَرُوْا : تاکہ وہ حاصل کریں بِهٖ : اس سے ثَمَنًا : قیمت قَلِیْلًا : تھوڑی فَوَيْلٌ : سوخرابی لَهُمْ : ان کے لئے مِمَّا : اس سے کَتَبَتْ : جو لکھا اَيْدِيهِمْ : ان کے ہاتھ وَوَيْلٌ : اور خرابی لَهُمْ : ان کے لئے مِمَّا : اس سے جو يَكْسِبُوْنَ : وہ کماتے ہیں
سو خرابی ہے ان لوگوں کے لیے جو کتاب کو اپنے ہاتھوں سے لکھتے ہیں پھر کہہ دیتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے تھوڑی سی قیمت حاصل کرلیں۔ پس ان کے لیے خرابی ہے اس چیز کے سبب سے جو ان کے ہاتھوں نے لکھی اور ان کے لیے ہلاکی ہے اس چیز کے سبب سے جو وہ کماتے ہیں۔
فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ یَکْتُبُوْنَ الْکِتٰبَ بِاَیْدِیْھِمْ ق ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ ھٰذَامِنْ عِنْدِاللّٰہِ لِیَشْتَرُوْا بِہٖ ثَمَنًا قَلِیْلًاط فَوَیْلٌ لَّھُمْ مِمَّا کَتَبَتْ اَیْدِیْھِمْ وَوَیْلٌ لَّھُمْ مِمَّا یَکْسِبُوْنَ ۔ (البقرۃ : 79) (سو خرابی ہے ان لوگوں کے لیے جو کتاب کو اپنے ہاتھوں سے لکھتے ہیں پھر کہہ دیتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے تھوڑی سی قیمت حاصل کرلیں۔ پس ان کے لیے خرابی ہے اس چیز کے سبب سے جو ان کے ہاتھوں نے لکھی اور ان کے لیے ہلاکی ہے اس چیز کے سبب سے جو وہ کماتے ہیں) علماء یہود کے کرتوت یہود کے تینوں گروہوں کی بد اعمالیوں اور فکری ژولیدگیوں کا ذکر کرنے کے بعداب پھر ان کے سربرآوردہ گروہ یعنی علما کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔ جن کے بارے میں پہلے بتایا جاچکا ہے کہ ان لوگوں نے اللہ کی کتاب میں تحریف تک کرڈالی۔ یہاں ان کی ایک مزیدکرتوت کو بیان کرکے سزا بھی بیان کی گئی ہے کہ ان اللہ کے بندوں کا حال یہ ہے کہ وہ صرف اللہ کی کتاب میں تحریف ہی کے مجرم نہیں ہیں بلکہ انھوں نے اپنے ایسے فتاویٰ کو جو انھوں نے کسی شرعی سند کے بغیر لکھے اور جن کا مقصد اپنی دنیوی اغراض کو پورا کرنا اور اپنے ماننے والے عوام کو خوش کرنا تھا، کتاب اللہ کا درجہ دے دیا اور یہ کہا کہ ہم نے جو کچھ اپنے فتاویٰ میں لکھا ہے وہ سراسر اللہ کی کتاب سے نہ صرف ثابت ہے بلکہ اسی سے ماخوذ ہے۔ یہاں الکتاب کا لفظ کتاب اللہ کے معنی میں نہیں بلکہ شریعت کے احکام و قوانین کے لیے آیا ہے۔ اور مراد اس سے وہ فتاویٰ ہیں جو انھوں نے شرعی احکام جاری کرتے ہوئے مرتب کیے۔ اپنے ہاتھوں سے لکھنے کا مطلب یہی ہے کہ ان فتو وں کے لیے کتاب الہٰی کے اندر کوئی بنیاد اور سند نہیں تھی۔ یہ محض ان کے طبع زاد اور من گھڑت فتوے تھے۔ لیکن ان کا انتساب وہ اللہ اور اس کی شریعت کی طرف کرتے تھے۔ پھر ان فتو وں کے جاری کرنے کے سامنے جو مقاصد تھے انہیں بھی پروردگار نے افشاء فرمادیا۔ فرمایا : لِیَشْتَرُوْا بِہٖ ثَمَنًا قَلِیْلاً کہ وہ یہ ساری حرکتیں اس لیے کرتے تھے تاکہ اس کے بدلے میں فوائد اور منافع حاصل کرسکیں۔ یعنی یہ ان کی خدمت دین نہ تھی بلکہ حصول مال وجاہ کا ایک ذریعہ تھا۔ ثمن کے معنی ” صرف نقد یا زرقیمت نہیں “ بلکہ جو چیز بھی کسی چیز کے معاوضہ میں حاصل ہو وہ اس کی ثمن ہے۔ اس لیے مفسرین نے اسے یہاں اسی وسیع مفہوم یعنی مطلق دنیوی معاوضہ کے معنی میں لیا ہے۔ یعنی ان کے علما اپنے فتاویٰ کے معاوضہ میں ہر طرح کا معاوضہ وصول کرتے تھے۔ دولت دنیا کی شکل میں بھی اور جاہ ومنصب کی صورت میں بھی۔ کبھی وہ اپنے مذہبی رسوخ کو مال وزر کے حصول کا ذریعہ بناتے اور کبھی اسی واسطے سے اقتدار میں شرکت کا راستہ نکالتے۔ دونوں صورتوں میں ان کا مقصد اور ہدف دنیا ہوتی، جس سے اہل دنیا اور اربابِ حکومت فائدہ اٹھاتے اور دین کو اس سے بےپناہ نقصان پہنچتا۔ یہ تو علما کی وہ انفرادی جسارتیں ہیں جن کا ہم نے ذکر کیا ہے۔ لیکن قومی سطح پر جو انھوں نے اللہ کی کتاب اور اس کی شریعت کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ ان نادانوں نے اپنی تفسیروں کو، اپنی قومی تاریخ کو، اپنے اوہام اور قیاسات کو اور اپنے خیالی فلسفوں کو اور اپنے اجتہاد سے وضع کیے ہوئے فقہی قوانین کو کلام الہٰی کے ساتھ خلط ملط کردیا اور یہ ساری چیزیں لوگوں کے سامنے اس حیثیت سے پیش کیں کہ گویا یہ سب اللہ ہی کی طرف سے نازل ہوئی ہیں۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ بائبل کا عہد عتیق ہو یا عہد جدید اس میں اللہ کی کتاب کی آیات کو تلاش کرنا ناممکن ہوگیا۔ کچھ پتہ نہیں چلتا کہ اس میں جو کچھ اللہ کی جانب سے نازل کیا گیا تھا وہ کیا ہے اور جو کچھ انھوں نے اپنی طرف سے شامل کیا وہ کیا ہے ؟ اگر کتاب اللہ کو اوپر متن کی طرح لکھ کرنیچے تشریحات کی صورت میں سب کچھ لکھ دیتے تب بھی شائد کتاب اللہ کی شناخت کا امکان باقی رہتا۔ لیکن انھوں نے تو سب کچھ اس طرح خلط ملط کردیا کہ اب اصل حقیقت کا پہچاننا ناممکن ہوگیا ہے۔ بعض جگہ تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اصل عقیدہ گم کردیا گیا ہے اور اپنے وضع کردہ خیالات کو اس کی جگہ لکھ دیا گیا ہے۔ فَوَیْلٌ لَّھُمْ مِمَّا کَتَبَتْ اَیْدِیْھِمْ وَوَیْلٌ لَّھُمْ مِمَّا یَکْسِبُوْن۔ آیت کے اس آخری حصے میں علما کی ان مجرمانہ حرکتوں پر سزا سنائی گئی ہے۔ انھوں نے تو اپنے طور پر اللہ کے دین کو حصول زر کا ذریعہ بنایا لیکن اللہ نے اسے ان کے لیے دوہرا جرم قرار دیا اور دونوں کی الگ الگ سزا سنائی۔ ان کا ایک جرم یہ ہے کہ انھوں نے اپنے ایسے فتاویٰ کو جو سراسر ان کے خانہ زاد اور ان کے نفس کی ایجاد تھے جن کے پیچھے شریعت کی کوئی سند نہ تھی انھیں اللہ کی طرف منسوب کیا تو اس پر سزا دیتے ہوئے فرمایا کہ انھوں نے اس طرح سے اپنے نفس کے اکسانے پر جو کچھ لکھا اس لکھنے پر ان کے لیے ہلاکت اور خرابی ہے اور پھر اس پر انھوں نے جو کچھ مال وزر یا عہدہ ومنصب حاصل کیا وہ ان کا دوسرا جرم ہے اس پر بھی ان کے لیے تباہی اور بربادی ہے۔ دونوں جگہ ویل کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ کسی بھی بندے کے لیے قیامت میں ایک ہی ہلاکت اور خرابی اس کی ابدی تباہی کے لیے کافی ہے۔ یہاں دو دفعہ انھیں یہ وعید سنائی گئی ہے۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان کی ہلاکت کا کیا عالم ہوگا ؟ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جہنم میں داخل کردیا جانابجائے خود ایک تباہی اور بربادی ہے۔ لیکن خود جہنم کے بھی درجات اور وادیاں ہیں۔ ان میں ایک وادی کا نام ویل ہے جس سے خود جہنم پناہ مانگتا ہے ممکن ہے یہاں اس سے وہی مراد ہو۔
Top