Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 79
فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ یَكْتُبُوْنَ الْكِتٰبَ بِاَیْدِیْهِمْ١ۗ ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ هٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ لِیَشْتَرُوْا بِهٖ ثَمَنًا قَلِیْلًا١ؕ فَوَیْلٌ لَّهُمْ مِّمَّا كَتَبَتْ اَیْدِیْهِمْ وَ وَیْلٌ لَّهُمْ مِّمَّا یَكْسِبُوْنَ
فَوَيْلٌ : سو خرابی ہے لِلَّذِیْنَ : ان کے لیے يَكْتُبُوْنَ : لکھتے ہیں الْكِتَابَ : کتاب بِاَيْدِيهِمْ : اپنے ہاتھوں سے ثُمَّ : پھر يَقُوْلُوْنَ : کہتے ہیں هٰذَا : یہ مِنْ : سے عِنْدِ اللہِ : اللہ کے پاس لِيَشْتَرُوْا : تاکہ وہ حاصل کریں بِهٖ : اس سے ثَمَنًا : قیمت قَلِیْلًا : تھوڑی فَوَيْلٌ : سوخرابی لَهُمْ : ان کے لئے مِمَّا : اس سے کَتَبَتْ : جو لکھا اَيْدِيهِمْ : ان کے ہاتھ وَوَيْلٌ : اور خرابی لَهُمْ : ان کے لئے مِمَّا : اس سے جو يَكْسِبُوْنَ : وہ کماتے ہیں
تو ان لوگوں پر افسوس ہے جو اپنے ہاتھ سے تو کتاب لکھتے ہیں اور کہتے یہ ہیں کہ یہ خدا کے پاس سے (آئی) ہے، تاکہ اس کے عوض تھوڑی سے قیمت (یعنی دنیوی منفعت) حاصل کریں۔ ان پر افسوس ہے، اس لیے کہ (بےاصل باتیں) اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں اور (پھر) ان پر افسوس ہے، اس لیے کہ ایسے کام کرتے ہیں
فَوَيْلٌ ( پس وائے ہے) لفظ ویل کے معنی حسرت اور ہلاکت کے ہیں۔ زجاج نے کہا ہے کہ ویل ایک کلمہ ہے جو ہلاکت میں پڑنے والا کہا کرتا ہے اور ابن عباس ؓ نے فرمایا ہے کہ ویل کے معنی شدت عذاب کے ہیں اور سعید بن المسیب (رح) فرماتے ہیں کہ ویل جہنم میں ایک وادی ہے اگر اس میں جہنم کے پہاڑ بھی جلائے جائیں تو وہ بھی ریت ہوجائیں اور یا شدت حرارت سے بالکل پگھل کر پانی کی طرح بہ جائیں۔ علامہ بغوی (رح) نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ ویل جہنم میں ایک وادی ہے کہ کافر اس میں چالیس برس تک اترتا چلا جائے گا تب بھی اسکی تہہ تک نہ پہنچے گا اور صعود جہنم کی آگ کا پہاڑ ہے کہ اس پر کافر ستر برس تک چڑھا یا جائے گا پھر وہاں سے اتنے ہی برسوں تک گرے گا۔ لِّلَّذِيْنَ يَكْتُبُوْنَ الْكِتٰبَ ( ان پر جو لکھتے ہیں کتاب) کتاب سے تحریف شدہ کتاب مراد ہے۔ بِاَيْدِيْهِمْ (اپنے ہاتھوں سے) تاکید ہے جیسے کہہ دیا کرتے ہیں کہ میں نے یہ شے اپنے ہاتھ سے لکھی ہے۔ ثُمَّ يَقُوْلُوْنَ ھٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ لِيَشْتَرُوْا بِهٖ ثَــمَنًا قَلِيْلًا ( پھر کہہ دیتے ہیں یہ خدا کے ہاں سے ہے تاکہ لیویں اس کے ذریعے سے تھوڑے سے دام) ثَمَنًا قَلِیْلاً سے دنیا کا مال متاع مراد ہے اور قلیل اس لیے فرمایا کہ اس حرکت سے جس عذاب کے وہ مستحق ہوئے ہیں اس کی نسبت یہ دنیا کا مال و اسباب کچھ بھی نہیں اگرچہ دنیا میں اس کو بہت شمار کیا جاتا ہو۔ قصہ یہ تھا کہ علماء یہودیہ تو خوب جانتے تھے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نبی برحق ہیں مگر ایمان لانے سے اس لئے ٹھٹکتے تھے کہ اگر ایمان لے آئے تو یہ آمدنی جو ہم کو عام لوگوں سے ان کی مرضی کے موافق مسائل بتا بتا کر اور علم کی قدر دانی کے سبب سے ہو رہی ہے یہ سب گاؤ خورد ہوجائے گی اور نیز یہ بھی سوچتے کہ اگر عوام کو اس بات کی اطلاع ہوئی کہ توریت میں جو صفات نبی آخر الزماں کی لکھی ہیں وہ محمد ﷺ میں سب موجود ہیں تو سب کے سب مسلمان ہوجائیں گے اور ہماری کمائی سب جاتی رہے گی۔ اس لیے تورات میں جو صفت لکھی تھی اسے متغیر کردیا۔ چناچہ تورات میں جناب سرور کائنات فخر عالم رسول مقبول ﷺ کا حلیہ یہ لکھا تھا۔ خوبصورت، اچھے بالوں والے، سرمگیں چشم، متوسط قد والے، اس کی جگہ ان ظالموں نے یہ لکھ دیا۔ لمبے قد والے، نیلگوں چشم، چھدرے بالوں والے جب عام لوگوں نے ان نام نہاد علماء سے پوچھا کہ نبی آخر الزماں کا تورات میں کیا حلیہ لکھا ہے تو انہوں نے یہی متغیر شدہ الفاظ پڑھ دیئے ان سب نے دیکھا کہ محمد ﷺ ان سب احوال سے جدا ہیں اس لیے تکذیب کرنے لگے۔ فَوَيْلٌ لَّھُمْ مِّمَّا كَتَبَتْ اَيْدِيْهِمْ وَوَيْلٌ لَّھُمْ مِّمَّا يَكْسِبُوْنَ ( پس وائے ان پر ان کے ہاتھ کے لکھے 1 ؂ سے اور وائے (افسوس) ان پر ایسے مال اور اعمال کی کمائی سے) ۔
Top