Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 79
فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ یَكْتُبُوْنَ الْكِتٰبَ بِاَیْدِیْهِمْ١ۗ ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ هٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ لِیَشْتَرُوْا بِهٖ ثَمَنًا قَلِیْلًا١ؕ فَوَیْلٌ لَّهُمْ مِّمَّا كَتَبَتْ اَیْدِیْهِمْ وَ وَیْلٌ لَّهُمْ مِّمَّا یَكْسِبُوْنَ
فَوَيْلٌ
: سو خرابی ہے
لِلَّذِیْنَ
: ان کے لیے
يَكْتُبُوْنَ
: لکھتے ہیں
الْكِتَابَ
: کتاب
بِاَيْدِيهِمْ
: اپنے ہاتھوں سے
ثُمَّ
: پھر
يَقُوْلُوْنَ
: کہتے ہیں
هٰذَا
: یہ
مِنْ
: سے
عِنْدِ اللہِ
: اللہ کے پاس
لِيَشْتَرُوْا
: تاکہ وہ حاصل کریں
بِهٖ
: اس سے
ثَمَنًا
: قیمت
قَلِیْلًا
: تھوڑی
فَوَيْلٌ
: سوخرابی
لَهُمْ
: ان کے لئے
مِمَّا
: اس سے
کَتَبَتْ
: جو لکھا
اَيْدِيهِمْ
: ان کے ہاتھ
وَوَيْلٌ
: اور خرابی
لَهُمْ
: ان کے لئے
مِمَّا
: اس سے جو
يَكْسِبُوْنَ
: وہ کماتے ہیں
پس ہلاکت اور تباہی ہے اُن لوگوں کے لیے جو اپنے ہاتھوں سے شرع کا نوشتہ لکھتے ہیں، پھر لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس سے آیا ہوا ہے تاکہ اس کے معاوضے میں تھوڑا سا فائدہ حاصل کر لیں ان کے ہاتھوں کا لکھا بھی ان کے لیے تباہی کا سامان ہے اور ان کی یہ کمائی بھی ان کے لیے موجب ہلاکت
[ فَوَيْلٌ: پس بربادی ہے ] [ لِّلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے جو ] [ يَكْتُبُوْنَ : لکھتے ہیں ] [ الْكِتٰبَ : کتاب کو ] [ بِاَيْدِيْهِمْ : اپنے ہاتھوں سے ] [ ۤ ثُمَّ يَقُوْلُوْنَ : پھر وہ کہتے ہیں ] [ ھٰذَا : یہ ] [ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ : اللہ کے پاس سے ہے ] [ لِيَشْتَرُوْا : تاکہ وہ حاصل کریں ] [ بِهٖ : اس کے عوض ] [ ثَــمَنًا قَلِيْلًا ۭ: کچھ تھوری سی قیمت ] [ فَوَيْلٌ: تو تباہی ہے ] [ لَّھُمْ مِّمَّا : ان کے لیے اس سے جو ] [ كَتَبَتْ : لکھا ] [ اَيْدِيْهِمْ : ان کے ہاتھوں نے ] [ وَوَيْلٌ: اور تباہی ہے ] [ لَّھُمْ : ان کے لیے ] [ مِّمَّا : اس سے جو ] [ يَكْسِبُوْنَ : وہ کمائی کرتے ہیں ] [ فویل للذین…] ابتدائی ” فائ “ (ف) بمعنی ” پس : سو : تو : پھر “ ہے دیکھئے [ 2:16:1 (1)] [ وَیْلٌ] کا مادہ ” و ی ل “ اور وزن ” فَعْلٌ“ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد استعمال ہی نہیں ہوتا۔ مزید فیہ کے ” تفعیل، تفعل اور تفاعل سے فعل بمعنی ” کسی کو بربادی کی بددعا دینا “ آتے ہیں۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے کوئی صیغہ فعل کہیں استعمال نہیں ہوا۔ بلکہ اس مادہ سے صرف یہی کلمہ ” ویل “ مختلف طریقوں پر قرآن کریم میں چالیس مقامات پر استعمال ہوا ہے۔ ؤ لفظ ” وَیْل “ کے معنی ” تباہی، بربادی، شر، عذاب، خرابی، ذلت، رسوائی، ہلاکت اور بدبختی “ ہیں۔ یہ بددعا یا اظہارِ افسوس کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اسی لیے اس کا اردو ترجمہ ” بڑی خرابی ہے “ اور ” وائے افسوس ہے “ کے ساتھ کیا گیا ہے۔ اور بعض مقامات پر مندرجہ بالا دوسرے معانی کے ساتھ بھی ترجمہ کیا جاتا ہے جیسا کہ آگے آئیں گے۔ ؤ ” ویل “ کا استعمال کئی طرح ہوتا ہے۔ ۔ مفرد بطورہ مبتداء عموماً نکرہ آتا ہے (نکرہ بددعا میں جائز ہے) مثلاً کہتے ہیں : ” وَیْلٌ لفلانٍ “ (فلاں کے لیے خرابی ہے : ہو) یا یوں سمجھئے کہ جار مجرور خبر مقدم کے بعد مبتداء نکرہ (مؤخر) تھا مگر ترتیب الٹ دی گئی ہے۔ یعنی ” لفلانٍ ویلٌ“ کو ” ویل لفلان “ کہہ دیتے ہیں۔ اس استعمال میں یہ مرفوع ہی آتا ہے۔ اس (مفرد مرفوع) استعمال کے ساتھ یہ لفظ قرآن کریم میں 27 جگہ آیا ہے۔ اور ہر جگہ نکرہ ہی آیا ہے، صرف ایک جگہ (الانبیائ :18) یہ لفظ معرف باللام ” الویل “ استعمال ہوا ہے۔ یہ عموماً لام الجر (ل) کے ساتھ ہی استعمال ہوتا ہے۔ کبھی اس کے ساتھ ” ب “ بھی لاتے ہیں۔ یعنی کہتے ہیں : ” ویل لفلان و بفلانٍ “ تاہم قرآن کریم میں اس (مبتدا والے) استعمال میں یہ ہر جگہ لام الجر (لِ ) کے ساتھ ہی آیا ہے۔ ۔ کبھی مفرد مگر منصوب استعمال ہوتا ہے مثلاً کہتے ہیں : ” ویلاً لِفلان “ اس صورت میں اس سے پہلے ایک فعل محذوف سمجھا جاتا ہے۔ مثلاً ” ادعُو ویلا لہ “ یا ” الزم اللّٰہ ویلا لہ “ (میں اس کے لیے تباہی کو بلاتا ہوں یا اللہ اس کے لیے بربادی لازم کرے) یعنی نصب اس محذوف فعل کے مفعول بہ ہونے کے اعتبار سے آتی ہے۔ اگر اس مادہ سے اپنا فعل استعمال ہوتا (جو کہ ہے ہی نہیں) تو ” ویلاً “ کو مفعول مطلق سمجھ سکتے تھے۔ اس لفظ کا یہ (مفرد منصوب والا) استعمال قرآن کریم میں کہیں نہیں آیا۔ ۔ کبھی یہ مرکتب (مضاف ہوکر) منصوب آتا ہے (اس صورت میں لام الجر کی ضرورت نہیں رہتی) جیسے ” وَیْلَکَ آمِنْ “ (الاحقاف :17) میں ہے یعنی ” تیرا ستیاناس ایمان لے آ “ اس صورت میں بھی اس سے پہلے ایک فعل محذوف سمجھا جاتا ہے۔ یہ استعمال (مرکب منصوب والا) قرآن کریم میں تین جگہ آیا ہے۔ ۔ کبھی یہ حرف نداء کے ساتھ منادیٰ مضاف (لہٰذا) منصوب استعمال ہوتا ہے۔ جیسے ” یَا وَیْلَنَا “ (اے ہماری خرابی) میں ہے۔ یہ استعمال بلکہ یہی ترکیب (یاؤیلنا) قرآن کریم میں چھ جگہ آیا ہے۔ ۔ کبھی یہ لفظ ” ویل “ کی بجائے ” ویلۃ “ استعمال ہوتا ہے کعب لغب میں ” ویلۃ “ کے معنی ” فضیحت اور رسوائی “ بتائے گئے ہیں۔ اس صورت میں بھی یہ (ویلۃ) صرف نداء کے بعد منادیٰ منصوب ہوکر ہی استعمال ہوتا ہے جیسے ” یاویلنا “ (اے ہماری رسوائی) میں ہے یہ استعمال بلکہ یہی ترکیب (یاویلنا) قرآن مجید میں صرف ایک جگہ (الکہف :49) آیا ہے۔ البتہ ” یاویلتیٰ “ (جو ” یاویلتی “ کی دوسری شکل ہے) کی ترکیب بھی قرآن کریم میں تین جگہ وارد ہوتی ہے۔ ان تمام استعمالات پر مزید بات اپنے اپنے موقع پر ہوگی۔ ان شاء اللہ۔ ؤ یہاں ” ویل “ کے بعد ” للذین “ ہے جو دراصل ’ لام الجر (ل) + الذین “ ہے۔ لام الجر کے بعد لام تعریف آئے تو املاء میں ” الف “ ساقط ہوجاتا ہے اور دونوں لام ملا کر لکھے جاتے ہیں ” للذین “ کا ترجمہ ہے “ واسطے ان کے جو ، جس کو، ان کے لیے جو، ان کی جو، ان لوگوں کی جو “ کی صورت میں بھی دی گئی ہے۔ ؤ اس طرح زیر مطالعہ عبارت (فویل للذین…) کے تراجم ” پس خرابی ہے ان لوگوں کی جو : سو خرابی ہے ان کی جو “ کی صورت میں کیے گئے ہیں۔ اور بعض نے ” افسوس ‘ اور ” وائے “ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے یعنی ” تو ان لوگوں پر افسوس ہے جو : پس افسوس ہے ان لوگوں پر جو : پس : تو وائے ہے ان پر جو “ کی شکل میں۔ [ یَکْتُبُوْنَ الْکِتٰبَ ] ” یکتبون “ کا مادہ ” ک ت ب “ اور وزن ” یفعُلُون “ ہے یعنی یہ اس مادہ سے فعل مجرد (کتب = لکھنا) کے باب نصر سے کا فعل مضارع صیغہ جمع مذکر غائب ہے جس کا ترجمہ زیادہ تر فعل حال کے ساتھ ” وہ لکھتے ہیں “ کیا گیا ہے۔ بعض نے صیغہ مضارع ” لکھیں “ ہی سے کیا ہے جو فعل امر نہیں بلکہ ” حال “ کے معنی میں ہے۔ دوسرا لفظ ” الکتاب “ اسی مادہ (ک ت ب) سے فِعَال بمعنی مفعول ہے یعنی ” مکتوب : لکھی ہوئی چیز یا تحریر “ اور خود لفظ کتاب بھی اردو میں مستعمل ہے۔ اس مادہ (ک ت ب) سے فعل کے باب اور معنی کے علاوہ خود لفظ ” کتاب “ کی لغوی تشریح البقرہ :2 [ 2:1:1 (2)] میں دیکھئے۔ 2:49:1 (4) [ بِاَیْدِیْھِم ] یہ تین کلمات کا مرکب ہے۔ ابتدائی ” بائ (ب) “ الجر بمعنی ” سے : کے ساتھ : کے ذریعے “ ہے۔ اور آخر پر ضمیر مجرور ” ھم “ بمعنی ” ان کے : اپنے “ ہے اور درمیان میں وضاحت طلب کلمہ ” اَیْدِیْ “ ہے۔ [ اَیْدِیْ ] یہ جمع مکسر یہاں مجرور باء الجر اور مضاف (لہٰذا خفیف) ہے۔ اس کا واحد ” یدٌ“ ہے جس کا مادہ ” ی و ی “ اور وزن اصلی ” فَعْلٌ“ ہے۔ اصلی شکل ” یَدْیٌ“ تھی جو خلافِ قیاس یا شاید کثرت استعمال کے باعث ” یَدٌ“ استعمال ہوتا ہے۔ حالانکہ اس طرح کے کئی کلمات (مثلاً وَحْیٌ، ھَدْیٌ، ثَدْیٌ، رَمْیٌ وغیرہ) اپنی اصلی حالت پر رہتے ہیں بہرحال اس میں تعلیل کی صورت کچھ یوں بنتی ہے : یَدْیٌ= یَدْیُنْ = یَدُیْنْ = یَدُنْ = یَدٌ۔ اس کی اعرابی صورتیں (واحد کی) یَدٌ، یَدًا اور یدٍ “ ہوتی ہیں (جو دراصل یَدْیٌ یَدْیًا اور یُدْیٍ تھے) اس کا تثنیہ ” یدان (اور یَدَیْنِ ) ہوتا ہے اور شاذ ” یَدیَان “ بھی آتا ہے) جمع مکسر اس کی ” اَیْدِیٍ “ (باملاء ” آیْدٍ “ ) یَدِیٌّ اور آیادٍی، آتی ہے مگر قرآن کریم میں صرف مقدم الذکر جمع (ایدی) ہی استعمال ہوئی ہے۔ یہ بھی دراصل ” اَیْدَیٌ“ (بروزن ” اَفْعُلٌ“ ہی تھا پھر اس میں ” ی “ کی تنوین اڑا کر ” د “ (عین کلمہ) کے نیچے تنوین (-ٍ ) دی گئی جو تنوین جر نہیں بلکہ تنوین ِ عوض ہے جیسے یائی اللام افعال باب ” تفعل “ کے مصدر میں تبدیل ہوئی ہے۔ مثلاً تَلَقُیٍ سے تَلَقِّی اور تَرَقُیٌ سے ترقّیٍ بنتا ہے۔ گویا اَیْدُیٌ= اَیْدُیُنْ = اَیْدِیُنُ = اَیْدِیْنُ = اَیْدِنْ = اَیدٍی ہے اس کی اعرابی گردان ایدٍ ، اَیدِیًا۔ اَیِدٍ (مثل قاضٍ ، قاضیًا، قاضیٍ ) ہے اور رفع اور جر میں مضاف یا معرف باللام ہوتے وقت ” اَیْدِیْ “ ہوجاتا ہے (یعنی ” یائ “ لوٹ آتی ہے) جیسے یہاں زیر مطالعہ لفظ میں ہے۔ ؤ لفظ ” یَد “ کا ترجمہ ” ہاتھ “ ہے۔ عربی میں یہ لفظ ” ہاتھ کی انگلیوں سے لے کر کندھے تک پورے بازو “ کے لیے آتا ہے۔ پھر صرف انگلیوں والے حصے کو بھی ” یَدٌ“ (ہاتھ) ہی کہتے ہیں اور انگلیوں سے کہنی تک کے حصے کو بھی۔ (جیسے المائدہ :6 میں آتا ہے) یہ اس لفظ کے حقیقی معنی ہیں (یعنی جس کے لیے دراصل زبان میں یہ لفظ بنایا گیا ہے) پھر اس سے استعارہ، تشبیہہ اور محاورے کے طور پر یہ لفظ بیس سے زیادہ معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں یہ لفظ واحد مفرد یا مکرب 21 جگہ، تثنیہ مفرد یا مرکب 33 جگہ اور جمع مفرد یا مرکب 65 جگہ آیا ہے۔ ؤ کسی عبارت میں اس لفظ کے معنی (واحد ہو یا تثنیہ یا جمع) متعین کرنے کا عام اصول تو یہ ہے کہ بنیادی طور پر تو لفظ کے حقیقی معنی ہی مراد لیے جائیں گے۔ سوائے اس کے کہ کوئی ایسا قرینہ پایا جائے جس کی بنا پر کوئی مجازی معنی لینا ضروری ہو۔ اور اس قرینہ کی موجودگی یا عدم موجودگی کے بارے میں اختلاف بلکہ بعض دفعہ گمراہی کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ اس لیے قرآن کریم میں اس لفظ کے معنی مراد متعین کرنے میں لغات، زبان کے محاورے (idiom) اور سیاق سباق عبارت کے علاوہ ماثور معنی (جو نبی کریم یا آپ کے صحابہ ؓ سے ثابت ہوں) کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے جو مستند تفاسیر میں بیان ہوئے ہیں۔ کیونکہ اس لفظ کے استعمال کا تعلق کسی جگہ علم الکلام (عقائد) سے ہے اور کوئی جگہ تشریع فقہی احکام سے ہے اس لیے اس کے معنی کے تعین میں محض خواہش کی پیروی میں اس لفظ کے ڈکشنری میں دیے گئے متعدد معانی میں سے اپنی مرضی کے معنی تلاش کرنے کی کوشش ایک خطرناک کام ہے۔ ؤ پوری عبارت (یکتبون الکتاب بایدیھم) کے ترجمے (وہ لکھتے ہیں کتاب اپنے ہاتھوں سے) میں ” اپنے ہاتھوں سے “ کی بجائے بعض نے اردو کی بنا پر ” بایدیھم “ (جمع) کا ترجمہ واحد سے کردیا ہے یعنی ” اپنے ہاتھ سے “ کہ آدمی ایک ہاتھ سے ہی لکھتا ہے۔ مگر یہاں لکھنے والوں کی جمع (الذین اور یکتبون میں) کے باعث لفظ ” اَیْدِیْ “ بصورت جمع آیا ہے (اردو میں لفظ ” ہاتھ “ جمع کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جیسے کہیں ” ان کے ہاتھ “ اور بلحاظ حقیقت جمع بمعنی ” واحد “ ہے۔ ؤ محض لکھتے ہیں ”(یکتبون) کی بجائے ساتھ ” اپنے ہاتھوں سے “ (بایدیھم) مزید تاکید کے لیے آیا ہے کیونکہ لکھا تو ہاتھ سے ہی جاتا ہے اور آدمی اپنے ہی ہاتھ سے لکھتا ہے۔ یہ ایسے ہے جیسے اردو میں کہتے ہیں ” میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ “ یعنی ضرور دیکھا۔ ورنہ ہر شخص آنکھوں سے ہی دیکھتا اور اپنی ہی آنکھوں سے دیکھتا ہے (کسی دوسرے کی سے نہیں) ۔ [ ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ ] ” ثُمَّ “ بمعنی پھر : اس کے بعد (دیکھئے :2:20:1 (4) ) اور ” یقولون “ (وہ کہتے ہیں) کے مادہ، باب اور تعلیل وغیرہ کے لیے دیکھئے [ 2:19:1 (1)] اس فعل کے مادہ (ق و ل) سے فعل مجرد پر پہلی دفعہ البقرہ :8 [ 2:7:1 (5)] میں بات ہوئی تھی۔ اب تو اس کے متعدد صیغے گزر چکے ہیں۔ ؤ اس حصہ عبارت کا ترجمہ تو ہے، ” پھر وہ کہتے ہیں “ جسے بیشتر مترجمین نے سیاق عبارت کے ساتھ اردو محاورے کی مطابقت کرتے ہوئے ” پھر کہہ دیتے ہیں “ سے ترجمہ کیا ہے۔ اور بعض نے ” اور کہتے ہیں “ سے ترجمہ کیا ہے یعنی ثُمَّ کا ترجمہ ” اور “ سے کیا ہے جو آیت کے سابقہ مضمون کی مناسبت سے ہی درست کہا جاسکتا ہے ورنہ اصل لفظ سے تو ہٹ کر ہے بعض نے (یکتبون کی طرح) یہاں بھی مضارع (امر کے نہیں بلکہ) حال ہی کے معنی دیتا ہے۔ [ ھٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰہ ] اس جملے کے تمام کلمات پہلے گزر چکے ہیں اگر ان کی لغوی تشریح کی ضرورت محسوس کریں تو ” ھٰذا “ (یہ) اور دوسرے اسماء اشارہ کے لیے [ 2:1:1 (1)] ” مِن “ (میں سے : سے) کے معنی و استعمال کے لیے ” بحث استعاذۃ “ اور البقرۃ :3 [ 2:2:1 (5)] ” عِندَ “ (کے پاس : کے نزدیک) ظرف کے استعمال و معانی کے لیے [ 2:34:1 (6)] کی طرف رجوع کریں۔ اسم جلالت (اللہ) کی لغوی بحث ’ بسم اللہ ‘ میں گزر چکی ہے۔ ؤ اس طرح اس جملے کا لفظی ترجمہ تو بنتا ہے ” یہ ہے اللہ کے پاس سے “ بعض مترجمین نے تو ” مِن “ اور ” عِندَ “ دونوں کے معنی ترجمہ میں شامل کیے ہیں یعنی ” یہ نزدیک اللہ تعالیٰ کے سے ہے : یہ خدا کے پاس سے ہے : یہ اللہ کے ہاں سے ہے “ کی صورت میں۔ اور بعض نے اردو محاورے کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہاں ” عند “ کا ترجمہ نظر انداز کردیا ہے یعنی ” یہ خدا کی طرف سے ہے “ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے۔ اور بعض نے ” اتری ہے : آئی ہے “ کے تفسیری الفاظ کا اضافہ کردیا ہے۔ جس کی یہاں چنداں ضرورت نہ تھی۔ [ لِیَشْتَرُوا بِہٖ ثَمَنًا قَلِیْلًا ] ” لِیَشْتَرُوْا “ کا مادہ ” ش ری “ اور وزن اصلی ” لِیَفْتَعِلُوْا “ ہے جو دراصل ” لِیَشْترِبُوا “ بنتا تھا پھر واو الجمع سے ماقبل والا حرف علت (ی) گرا کر اس کے ماقبل (ر) کی کسرہ (-ِ ) کو ضمہ (-ُ ) میں بدل دیا جاتا ہے۔ یہ صیغہ ٔفعل اس مادہ سے باب افتعال کا فعل مضارع منصوب (بوجہ لام کَیْ ) صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ اس مادہ اور اس سے اس باب کے فعل (اشتری لشتری = خریدنا) کے استعمال پر البقرہ :16 [ 2:12:1 (1)] ” ثمن “ (جو یہاں منصوب آیا ہے) کے معنی (قیمت) کے علاوہ اس کے مادہ، فعل مجرد اور پھر فعل (اشتری) کے ساتھ اس کے استعمال اور اس کے ساتھ (بہ والے) ” بِ “ کے استعمال پر بھی البقرہ :41 [ 2:28:1 (11)] میں بات گزر چکی ہے اور اسی جگہ لفظ ” قلیل “ بمعنی ” تھوڑا “ (جو عبارت میں منصوب آیا ہے) کے مادہ، فعل وزن وغیرہ کی بات بھی ہوئی تھی۔ ؤ اس طرح یہاں اس عبارت کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ” تاکہ وہ خرید لیں اس کے ساتھ : سے تھوڑی قیمت “ مختلف مترجمین نے یہاں ” لِیشتروا “ کے تراجم ” تاکہ لیویں : کہ لیویں : کہ وصول کرلیں : کہ حاصل کرلیں : کہ اس کو بیچ کر لیویں “ کی صورت میں کیے ہیں پھر اردو محاورے کے مطابق وہ فعل کے اس ترجمہ کو فقرے کے آخر پر لائے ہیں۔ اسی طرح ” بہ “ کے تراجم ” اس کے ذریعے سے : اس کے عوض : بدلے، اس سے : کیے ہیں۔ اور بعض نے ” اس پر “ کیا ہے جس میں لفظ سے زیادہ محاورہ کا خیال رکھا گیا ہے اور ” ثمنا قلیلا “ کا ترجمہ ” مول تھوڑا : تھوڑا مول : کچھ نقد قدرے قلیل : تھوڑے سے دام : قدرے قلیل معاوضہ “ کی صورت میں کیا گیا ہے ان تراجم میں ” نقد “ اور معاوضہ ” ثمن “ (قیمت) کے لیے لائے گئے ہیں۔ [ فَوَیْلٌ لَّھُمْ ] ” وَیْل “ کے معنی و استعمال پر ابھی اوپر [ 2:49:1 (3)] میں بات ہوئی ہے۔ ” فَ “ (پس : سو) اور ” لَھُمْ “ (ان کے لیے) کا ابتدائی ” لام الجر “ لفظ ” ویل “ کے مرفوع استعمال کا ایک حصہ ہے۔ یوں اس عبارت (فویل لھم) کے تراجم ” پس وائے ہے واسطے ان کے : سو خرابی ہے ان کو : سو بڑی خرابی آوے گی ان کو : پس افسوس ہے ان پر : سو خرابی ہے ان کے لیے : خرابی ہے ان کی “ کی صورت میں کیے گئے۔ سب کا مفہوم ایک ہی ہے البتہ ” آوے گی “ وضاحتی ترجمہ ہے۔ [ مِمَّا کَتَبَتْ اَیْدِیْھِمْ ] اس عبارت کے جملہ کلمات پہلے گزر چکے ہیں۔ ” مِمَّا “ (جو مِنْ+مَا) ہے میں ” مِنْ “ تعلیل (کی وجہ سے) کے معنی میں آیا ہے اور ” مَا “ موصولہ بھی ہوسکتا ہے اور مصدریہ بھی موصولہ کی صورت میں ” ممَّا “ کا ترجمہ ” اس چیز کی وجہ سے جو : اس سے کہ : اس کی بدولت جس کو : جس سے : اس کی بدولت جو “ کے ساتھ کیا گیا ہے اور ” کَتَبَتْ “ کا ترجمہ تو ہے اس (مؤنث) نے لکھا۔ مگر مَا کو مصدریہ سمجھ کر ترجمہ ” لکھے سے : اس لکھنے پر “ کی صورت میں کیا گیا ہے ” ایدیھم “ (جو یہاں فاعل ہوکر آیا ہے) کا ترجمہ ” ہاتھ ان کے : ان کے ہاتھوں نے “ بنتا ہے جسے بعض نے ” ان کے ہاتھوں سے “ کیا ہے جو لفظ سے ہٹ کر ہے۔ ؤ اس طرح زیر مطالعہ پوری عبارت (مما کَتَبت ایدیھم) کا لفظی ترجمہ تو بنتا ہے ” اس کی وجہ سے جو لکھا ان کے ہاتھوں نے، جسے سیاق عبارت اور سابقہ فعل ” یکتبون “ ) کی مناسبت سے بعض نے فعل حال کے ساتھ ترجمہ کیا ہے یعنی ” اپنے ہاتھوں سے لکھتے ہیں “ ویسے بھی یہ ترجمہ ” یکتبون بایدیھم “ کا لگتا ہے اگر حال ہی میں کرنا تھا تو بھی ترجمہ ” لکھتے ہیں ان کے ہاتھ “ ہونا چاہیے تھا۔ اکثر مترجمین نے ” مَا “ کو مصدریہ سمجھ کر تراجم ” اپنے ہاتھوں کے لکھے سے : ان کے ہاتھوں کے لکھے سے : ان کے اس لکھنے پر “ کی صورت میں کیے ہیں۔ ان تراجم میں (ماسوائے آخری کے) ” لکھنے “ کی نسبت ” ہاتھوں “ سے ہی ہے جو اصل عبارت کا تقاضا ہے۔ [ وَوَیْلٌ لَّھُمْ ] سابقہ ” فویل لھم “ کی طرح ہے سوائے اس کے کہ یہاں شروع میں واو عاطفہ بمعنی ” اور “ ہے۔ 2:49:1 (5) [ مِمَّا یَکسِبُوْنَ ] یہاں بھی ” مِمَّا “ (من+ما) کا ” مِنْ “ تبعیضیہ نہیں بلکہ تعلیلیہ [ دیکھئے 2:2:1 (5)] بمعنی ” اس کی وجہ سے “ ہے اور اسی لیے اس (مِمَّا) کا ترجمہ ” اس کی جو کہ : اس کی بدولت جس کو : اس لیے کہ : اس چیز سے کہ “ کی صورت میں کیا گیا ہے۔ [ یَکْسِبُوْنَ ] کا مادہ ” ک س ب “ اور وزن ” یَفْعِلُوْنَ “ ہے ۔ فعل مجرد اس سے کَسَب… یکسِبُ کَسْبًا (ضرب سے) آتا ہے اور اس کے معنی ہیں… کو جمع کرنا، …کمانا۔ مثلاً کہتے ہیں ” کسَب المالَ “ (مال کمایا یا جمع کیا) اور ” کسَب الاثم “ (اس نے گناہ کمایا : اٹھایا : سرلیا “ اور ” کسَب لِاَھلہ “ کا مطلب ہے ” اس نے اپنے گھر والوں کے لیے روزی : معاش طلب کی۔ “ کبھی یہ فعل دو مفعول کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً ” کسَب فلاناً مالاً : علماً “ (اس نے فلاں کو علم یا مال حاصل کرایا۔ یعنی اس تک پہنچادیا) تاہم اس فعل کا یہ (دو مفعول والا) استعمال قرآن کریم میں نہیں آیا۔ ؤ اس فعل میں بنیادی طور پر تو ” کسی نفع بخش شے کے حصول کی کوشش۔ یا خوش نصیبی حاصل کرنے کی کوشش “ کا مفہوم ہوتا ہے۔ تاہم کبھی یہ ” نفع کی بجائے نقصان اٹھا بیٹھنے “ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس کا استعمال نیکی بدی دونوں کے آتا ہے۔ قرآن کریم میں اس کا زیادہ استعمال ” بدی “ کے لیے آیا ہے۔ یہ متعدی فعل ہے اور اس کا مفعول بنفسہ (منصوب) آتا ہے۔ البتہ بعض دفعہ مفعول محذوف (غیر مذکور) ہوتا ہے۔ زیادہ تر استعمال اس کا ” مَا “ کے ساتھ آیا ہے یعنی دراصل ” ما “ مفعول ہوتا ہے جو فعل سے پہلے مذکور ہوتا ہے۔ اور فعل کے بعد اس (مَا) کے لیے عائد ضمیر (مفعول) محذوف ہوتی ہے۔ جیسے یہاں زیر مطالعہ آیت میں ہے (گویا اصل تھا ” ممّا یکسبونہ “ ) ؤ اس طرح اس عبارت ” ممّا یکسبون “ کا ترجمہ بنتا ہے ” بوجہ اس کے جو کہ وہ کماتے ہیں “ جسے بعض نے ” ایسی کمائی کرتے ہیں : حاصل کرتے ہیں : کام کرتے ہیں “ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے۔ اور بہت سے مترجمین نے یہاں ” مَا “ کو مصدریہ سمجھ کر ترجمہ ” اپنی کمائی سے : اس کمائی سے : اس کمائی پر : اپنی کمائی : اپنی اس کمائی “ کی صورت میں کیا ہے۔ اس میں ” سے “ اور ” پر “ دراصل ” کی وجہ سے “ (مِنْ ) کا مفہوم رکھتے ہیں۔ بعض نے ماضی کے ساتھ ترجمہ کیا ہے (وصول کرلیا کرتے تھے) جو اصل عبارت کے مطابق درست معلوم نہیں ہوتا۔ 2:49:2 الإعراب بلحاظ ترکیب نحوی زیر مطالعہ قطعہ آیات کو چھ جملوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جن میں سے بعض ” واو الحال “ اور ” ثم عاطفہ “ کے ذریعے باہم ملائے گئے ہیں۔ تفصیل یوں ہے : ۔ وَمنھم اُمّیُّون لا یعلمون الکِتبَ اِلّا امانِیَّ [ وَ ] عاطفہ ہے جو مضمون کے تسلسل کے لیے جملے کو جملے سے ملاتی ہے [ منھم ] جار مجرور (من+ھم) مل کر خبر مقدم کا کام دے رہے ہیں اور [ اُمِّیُّوْن ] مبتداء موخر (لہٰذا) مرفوع ہے اور یہ نکرہ موصوفہ ہے جس میں ” جو کہ “ کا مفہوم ہوتا ہے (یعنی ان میں سے کچھ یا بہت سے اَن پڑھ جو کہ) [ لایعلَمون ] فعل مضارع معروف مع ضمیر الفاعلین (ھم) ہے اور [ الکتاب ] اس فعل کا مفعول بہ (لہٰذا) منصوب ہے علامت نصب آخری ” بائ “ کی فتحہ (بَ ) ہے۔ یہ جملہ (لایعلمون الکتابَ ) ” امّیّون “ (نکرہ موصوفہ) کی صفت ہے اس لیے اسے محلاً مرفوع کہہ سکتے ہیں (یعنی جو نہیں جانتے کتاب کو) [ اِلّا ] حرف استثناء ہے اور [ امانِیَّ ] مستثنیٰ بالا ہے اور یہ استثنا منقطع ہے کیونکہ ” علم الکتاب “ اور ” امانِیَّ “ دو بالکل الگ چیزیں ہیں اس لیے یہاں ” امانِیْ “ کی نصب لازمی ہے (چاہے استثناء سے پہلے جملہ منفی بھی ہے) یعنی ” ان کے پاس “ علم کتاب نہیں بلکہ صرف (جھوٹی آرزوئیں ہیں “ اس عبارت (لایعلمون الکتابَ اِلّا امانِیَّ ) کی ایک اور توجیہ بھی ہوسکتی ہے کہ فعل ” عِلم “ کو یہاں دو مفعول کے ساتھ آنے والا فعل سمجھا جائے جیسے ” اِن عَلِمْتمُوھُن مومناتٍ “ (الممتحنہ :10) میں استعمال ہوا ہے۔ (یعنی اگر تم ان عورتوں کو ایمان والیاں جانو : سمجھو) اس صورت میں ترجمہ ہوگا ” وہ نہیں جانتے : سمجھتے کتاب کو مگر صرف آرزوئوں کا مجموعہ “ گویا وہ ایسے جاہل ہیں کہ کتاب الٰہی کو مجموعہ اوامرو نواہی (جن پر عمل مطلوب ہے) نہیں بلکہ محض ” مجموعہ اور اردو وظائف “ ہی سمجھتے ہیں جو ” دل خوش رکھنے کا سامان “ ہے۔ ۔ وان ھم الایظنون [ وَ ] یہاں حالیہ ہے اور [ اِنْ ] نافیہ بمعنی ” مَا “ [ ھم ] ضمیر مرفوع منفل مبتداء ہے۔ [ اِلَّا ] حرف استثناء ہے جو یہاں حصر کے لیے آیا ہے کیونکہ اس سے پہلے نفی (اِنْ ) آتی ہے یعنی یہ بمعنی ” صرف و محض “ آیا ہے کیونکہ ” نہیں ہے مگر “ مل کر ” صرف “ کا مفہوم دیتا ہے [ یظنّون ] فعل مضارع معروف مع ضمیر فاعلین ” ھم “ (مستتر) جملہ فعلیہ بن کر ” ھم “ مبتداء کی خبر ہے۔ دراصل تو یہاں لفظ ” قوم “ خبر مقدر ہے جس کی صفت ” یظنون “ ہے یعنی مفہوم عبارت ” وَاِنَّ ھم اِلّا قومٌ یظنون “ (حالانکہ وہ صرف ایسے لوگ ہیں جو ظن میں مبتلا ہیں) ہے اور یہ پورا جملہ (وان ھم الّا یظنون) حالیہ ہے جو سابقہ جملے کے فعل ” لایعلمون “ کی ضمیر فاعلین (ھم) کا حال ہونے کی بناء پر اسی سابقہ جملے (ومنھم امیون لایعلمون الکتاب الا امانی) کا ہی ایک حصہ شمار ہوگا کیونکہ حال ذوالحال ایک جملے میں شامل ہوتے ہیں۔ چاہیں تو ایک دفعہ اس جملے (وأن ھم الا یظنون) کے تراجم پر (حصہ اللغۃ میں) نظر ڈال لیں۔ ۔ فویل للذین یکتبون الکتاب بایدیھم [ فَ ] یہاں مستانفہ ہے یعنی یہاں سے ایک الگ جملہ اور الگ مضمون شروع ہوتا ہے یا اس ” فائ “ کو سببیہ بھی سمجھا جاسکتا ہے یعنی ” اس کی وجہ سے “ کے معنی میں۔ [ ویل ] مبتداء (لہٰذا) مرفوع ہے جو یہاں بدعا کے لیے آیا ہے اور دعا یا بددعا کی صورت میں مبتداء نکرہ لایا جاسکتا ہے جیسے ” سلامٌ علیکم “ میں ہے [ للذِین ] لام الجر (لِ ) کے بعد ” الذین “ اسم موصول ہے جو مبنی ہے لہٰذا مجرور بالجر ہونے کے باوجود اس میں کوئی اعرابی علامت ظاہر نہیں ہے۔ اس کے بعد [ یکتبون ] فعل مضارع معروف مع ضمیر الفاعلین ” ھم “ ہے جو ” الذین “ کے لیے ہے اور یہ جملہ فعلیہ (یکتبون) اس ” الذین “ کا صلہ ہے بلکہ یہ صلہ آگے چلتا ہے یعنی صلہ والا جملہ ابھی مکمل نہیں ہوا۔ چناچہ آگے [ الکتاب ] اسی فعل (یکتبون) کا مفعول بہ (لہٰذا) منصوب ہے [ بایدیھم ] میں باء الجر (بِ ) کے بعد ” ایدی “ مضاف اور ” ھم “ مضاف الیہ ہے اور یہ مرکب اضافی (ایدیھم) باء الجر کے باعث اس کا مضاف (ایدی) مجرور ہے علامت جر اس میں آخری یاء ماقبل مکسور (-ِی) کا سکون ہے (جو دراصل ” بِایْدِھِمْ “ تھا مگر یاء مکسور یا مضموم ماقبل مکسور ساکن ہوجاتی ہے) اور یہ مرکب جاری (بایدیھم) متعلق فعل ” یکتبون “ ہے اور اس طرح دراصل پورا جملہ ” یکتبون الکتابَ بایدیھم “ (جس میں فعل فاعل مفعول اور متعلق فعل شامل ہیں) ” الذین “ کا صلہ بنتا ہے۔ اور یوں یہ پورا صلہ موصول ابتدائی لام الجر (لِ ) کے ذریعے ” ویلٌ“ کی خبر کا کام دیتا ہے۔ اس جملے کے تمام اجزاء کے تراجم حصہ ” الغۃ “ میں بیان ہوچکے ہیں۔ ۔ ثم یقولون ھذا من عند اللہ لیشتروا بہ ثمنا قلیلا [ ثُمَّ ] عاطفہ ہے سج کے ذریعے ما بعد والے فعل (یقولون) کو سابقہ جملے والے فعل (یکتبون) پر عطف کیا گیا ہے یعنی ” لکھتے ہیں پھر کہہ دیتے ہیں “ [ یقولون ] فعل مضارع معروف مع ضمیر الفاعلین ” ھم “ ہے [ ھذا ] مبتداء ہے اور [ مِنْ عندِ اللّٰہ ] میں ” مِن “ حرف الجر اور ” عندہ “ ظرف مضاف اور مجرور بالجر (مِنْ ) بھی ہے اور ” اللّٰہ “ مجرور بالاضافہ یعنی مضاف الیہ ہے اور یہ سارا مرکب جاری (من عندِ اللّٰہِ ) ” ھذا “ کی خبر یا قائم مقام خبر ہے۔ اور یہ جملہ اسمیہ (ھذا من عند اللّٰہ) فعل ” یقولون “ کا مقول (مفعول) ہونے کے اعتبار سے محلاً منصوب ہے [ لیشتروا ] کا ابتدائی لام (لِ ) لامِ کَیْ یا لام تعلیل ہے جس کی وجہ سے ” لیشتروا “ فعل مضارع منصوب ہے (لامِ تعلیل کے بعد ایک ” أنْ “ مقدر سمجھا جاتا ہے اور دراصل وہی ناصب ہوتا ہے یعنی ” لِاَن “ ) علامت نصب اس صیغۂ فعل میں آخری ” ن “ کا گر جانا ہے (جو دراصل ” لیشترون “ تھا) اور اس صیغہ میں واو الجمع ضمیر الفاعلین (ھم) کی علامت ہے۔ [ بہ ] جار مجرور (ب+ہ) متعلق فعل (لیشتروا) ہیں [ ثمنًا ] اس فعل کا مفعول بہ (لہٰذا) منصوب ہے اور [ قلیلاً ] اس کی صفت (منصوب) ہے اس طرح ” ثم “ کے ذریعے یہ دونوں جملے (نمبر 3، نمبر 4 مندرجہ بالا) دراصل ایک ہی طویل جملہ (بلحاظ مضمون مربوط) بنتا ہے۔ ۔ فویل لھم مما کتبت ایدیھم [] یہاں بھی استیناف کے لیے ہے یعنی یہاں سے ایک الگ جملہ شروع ہوتا ہے۔ اور اسی لیے سابقہ جملے کے آخر پر (ثمنا قلیلا کے بعد) وقف مطلق کی علامت (ط) ڈالی جاتی ہے [ ویلٌ] سابقہ جملے (نمبر 3 مندرجہ بالا) کی طرح یہاں بھی مبتدأ ہے (نکرہ ہونے کا جواز بھی اوپر بیان ہوا ہے) یہاں بددعا کی تکرار تاکید (لفظی) کے لیے ہے۔ [ لھم ] جار مجرور مل کر ” ویل “ کی خبر کا کام دے رہے ہیں [ مِمَّا ] جو جار (من) اور مجرور (مَا موصولہ) ہیں۔ ان کا تعلق بھی ” ویل “ سے ہے یعنی ” ویل “ (تباہی) اس سبب سے ہے کہ [ کتبتْ ] فعل ماضی معروف صیغۃ واحد مؤنث غائب ہے۔ [ ایدیھِمْ ] مضاف (ایدِیْ ) اور مضاف الیہ (ھم) مل کر فعل ” کتبتْ “ کا فاعل ہے اس لیے ” ایدی “ یہاں حالت رفع میں ہے۔ مگر اس منقوص میں رفع اور جر کی علامت ظاہر نہیں ہوتی۔ یا یوں سمجھئے کہ یہ دراصل ” اَیْدِیْھُمْ “ تھا مگر یائے مضمومہ (اور یائے مکسورہ بھی) کا جب ماقبل مکسور ہو تو وہ ساکن ہوجاتی ہے (جیسے ” یَرْمِنٌ“ سے ” یَرْمِْ “ ہوجاتا ہے) اور فاعل (ایدی) کے جمع مکسر ہونے کی وجہ سے فعل (کتبت) کا صیغۃ واحد مؤنث لایا گیا ہے۔ یہاں ” مِمَّا “ کے ” مَا “ کو موصولہ بھی سمجھا جاسکتا ہے اس صورت میں جملہ ” کتبتْ ایدیھم “ اس کا صلہ ہے اور ترجمہ ” اس کی وجہ سے جو کہ (لکھا ان کے ہاتھوں نے) ہوگا۔ اور اس ” مَا “ کو مصدریہ بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ اس صورت میں ” کتبت “ کا ترجمہ مصدر مووّل ” کتابۃ “ کے ساتھ (یعنی ” من کتابۃ ایدیھم “ کی طرح ” ان کے ہاتھوں کے لکھنے کی وجہ سے “ کے ساتھ ہوگا۔ دونوں طرح کے تراجم حصہ ” اللغہ “ میں بیان ہوچکے ہیں۔ ۔ وَویلٌ لھم مما یَکسِبُون [ وَ ] عاطفہ ہے جس سے (اگلے) جملے کا (پچھلے) جملے پر عطف ہے [ وَیْلٌ] مثل سابق مبتداء (لہٰذا) مرفوع ہے نکرہ ہونے کی وجہ اوپر بیان ہوئی ہے [ لھم ] جار مجرور (ل+ھم) مل کر ” ویلٌ“ کی خبر کا کام دے رہے ہیں [ مِمَّا ] جار مجرور (من+ما) کا تعلق ” ویل “ سے ہے یعنی اس کی وجہ بیان کی گئی ہے [ یکسِبُون ] فعل مضارع معروف مع ضمیر الفاعلین ” ھم “ (مستتر) ہے یعنی جملہ فعلیہ ہے اور یہاں بھی اگر ” مِمَّا “ کے ” مَا “ کو موصولہ سمجھا جائے تو یہ (یکسبُون) اس کا صلہ ہے اور اس کے آخر پر ضمیر عاید محذوف ہے (یعنی مفہوم ” یکسبونہ “ کا ہے) اور اگر ” مِمَّا “ کے ” مَا “ کو مصدریہ سمجھیں تو ترجمہ مصدر مَووّل ” کَسْب “ کے ساتھ ” من کسبھم “ کی طرح کیا جائے گا۔ دونوں طرح سے تراجم حصہ ” اللغۃ “ میں گزر چکے ہیں۔ یہ آخری جملہ ” وَ “ عاطفہ کے ذریعے سابقہ جملے (نمبر 5) کا ہی ایک حصہ بنتا ہے یعنی دونوں کے ترجمے کے درمیان ” اور “ کا ہی اضافہ ہوگا۔ 2:49:3 الرسم قطعہ زیر مطالعہ کے تمام کلمات کا رسم املائی اور رسم عثمانی یکساں ہے۔ البتہ تین کلمات وضاحت طلب ہیں۔ یعنی ” الکتب “ ، ” مِمَّا “ اور ” ھذا “ کلمہ ” الکتاب “ جس کا رسم املائی ” الکتاب “ ہے۔ (جو یہاں دو دفعہ آیا ہے) قرآن مجید میں ہر جگہ (سوائے چار خاص مقامات کے) بحذف الف بعد التاء لکھا جاتا ہے معرفہ ہو یا نکرہ اور مفرد ہو یا مرکب۔ ” مِمَّا “ (یہ بھی یہاں دو دفعہ ہے) یہ دراصل ” من “ ہے مگر قرآن میں عموماً ہر جگہ موصول (ملا کر) ” مِمَّا “ لکھا جاتا ہے ان دونوں کلمات (الکتاب اور مِمَّا) کے رسم پر تفصیلی بحث [ 2:1:3] میں ہوچکی ہے۔ ؤ کلمہ ” ھذا “ کا رسم الخط اس لحاظ سے قابل ذکر ہے کہ اس کا رسم عثمانی اور عام رسم املائی دونوں اسی طرح بحذف الالف بعد الہاء (یعنی ” ھذا “ ) ہے (حالانکہ بظاہر رسم قیاسی ” ھاذا “ ہونا چاہیے تھا) ۔ اس طرح کے بعض کلمات (مثلاً ذٰلک۔ اولئک وغیرہ) پہلے بھی گزر چکے ہیں اور آئندہ بھی ایسے کئی کلمات ہمارے سامنے آئیں گے جن کا رسم املائی عام قیاسی رسم کی بجائے۔ رسم قرآن والا ہی اختیار کیا گیا۔ یعنی ان کا رسم املائی دراصل رسم عثمانی کی یادگارہ ہے۔ اور یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اصل چیز رسم قرآنی یا رسم عثمانی (عہد نبوی اور خلافت راشدہ تک کا رائج رسم الخط) ہی تھا۔ اس میں بعض اصطلاحات یا تبدیلیاں کرکے رسم املائی کے قواعد بنائے گئے۔ یہ نہیں کہ رسم املائی کو توڑ مروڑ کر (کسی مصلحت کے تحت) رسم عثمانی بنایا گیا۔ جیسا کہ عام طور پر کتب رسم میں بیان کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں بہت سے کلمات ایسے ہیں جن کی املاء (رسم) صوتی اصول کے تحت نہیں۔ بلکہ تاریخی اصول کے تحت اختیار کی گئی ہے۔ 2:49:4 الضبط ان دو آیات کے کلمات میں ضبط کا تنوع درج ذیل مثالوں سے سمجھا جاسکتا ہے۔ یکساں ضبط والے کلمات شامل نہیں کیے گئے۔
Top