Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 79
فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ یَكْتُبُوْنَ الْكِتٰبَ بِاَیْدِیْهِمْ١ۗ ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ هٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ لِیَشْتَرُوْا بِهٖ ثَمَنًا قَلِیْلًا١ؕ فَوَیْلٌ لَّهُمْ مِّمَّا كَتَبَتْ اَیْدِیْهِمْ وَ وَیْلٌ لَّهُمْ مِّمَّا یَكْسِبُوْنَ
فَوَيْلٌ : سو خرابی ہے لِلَّذِیْنَ : ان کے لیے يَكْتُبُوْنَ : لکھتے ہیں الْكِتَابَ : کتاب بِاَيْدِيهِمْ : اپنے ہاتھوں سے ثُمَّ : پھر يَقُوْلُوْنَ : کہتے ہیں هٰذَا : یہ مِنْ : سے عِنْدِ اللہِ : اللہ کے پاس لِيَشْتَرُوْا : تاکہ وہ حاصل کریں بِهٖ : اس سے ثَمَنًا : قیمت قَلِیْلًا : تھوڑی فَوَيْلٌ : سوخرابی لَهُمْ : ان کے لئے مِمَّا : اس سے کَتَبَتْ : جو لکھا اَيْدِيهِمْ : ان کے ہاتھ وَوَيْلٌ : اور خرابی لَهُمْ : ان کے لئے مِمَّا : اس سے جو يَكْسِبُوْنَ : وہ کماتے ہیں
پس ہلاکت اور تباہی ہے اُن لوگوں کے لیے جو اپنے ہاتھوں سے شرع کا نوشتہ لکھتے ہیں، پھر لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس سے آیا ہوا ہے تاکہ اس کے معاوضے میں تھوڑا سا فائدہ حاصل کر لیں ان کے ہاتھوں کا لکھا بھی ان کے لیے تباہی کا سامان ہے اور ان کی یہ کمائی بھی ان کے لیے موجب ہلاکت
[ فَوَيْلٌ: پس بربادی ہے ] [ لِّلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے جو ] [ يَكْتُبُوْنَ : لکھتے ہیں ] [ الْكِتٰبَ : کتاب کو ] [ بِاَيْدِيْهِمْ : اپنے ہاتھوں سے ] [ ۤ ثُمَّ يَقُوْلُوْنَ : پھر وہ کہتے ہیں ] [ ھٰذَا : یہ ] [ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ : اللہ کے پاس سے ہے ] [ لِيَشْتَرُوْا : تاکہ وہ حاصل کریں ] [ بِهٖ : اس کے عوض ] [ ثَــمَنًا قَلِيْلًا ۭ: کچھ تھوری سی قیمت ] [ فَوَيْلٌ: تو تباہی ہے ] [ لَّھُمْ مِّمَّا : ان کے لیے اس سے جو ] [ كَتَبَتْ : لکھا ] [ اَيْدِيْهِمْ : ان کے ہاتھوں نے ] [ وَوَيْلٌ: اور تباہی ہے ] [ لَّھُمْ : ان کے لیے ] [ مِّمَّا : اس سے جو ] [ يَكْسِبُوْنَ : وہ کمائی کرتے ہیں ] [ فویل للذین…] ابتدائی ” فائ “ (ف) بمعنی ” پس : سو : تو : پھر “ ہے دیکھئے [ 2:16:1 (1)] [ وَیْلٌ] کا مادہ ” و ی ل “ اور وزن ” فَعْلٌ“ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد استعمال ہی نہیں ہوتا۔ مزید فیہ کے ” تفعیل، تفعل اور تفاعل سے فعل بمعنی ” کسی کو بربادی کی بددعا دینا “ آتے ہیں۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے کوئی صیغہ فعل کہیں استعمال نہیں ہوا۔ بلکہ اس مادہ سے صرف یہی کلمہ ” ویل “ مختلف طریقوں پر قرآن کریم میں چالیس مقامات پر استعمال ہوا ہے۔ ؤ لفظ ” وَیْل “ کے معنی ” تباہی، بربادی، شر، عذاب، خرابی، ذلت، رسوائی، ہلاکت اور بدبختی “ ہیں۔ یہ بددعا یا اظہارِ افسوس کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اسی لیے اس کا اردو ترجمہ ” بڑی خرابی ہے “ اور ” وائے افسوس ہے “ کے ساتھ کیا گیا ہے۔ اور بعض مقامات پر مندرجہ بالا دوسرے معانی کے ساتھ بھی ترجمہ کیا جاتا ہے جیسا کہ آگے آئیں گے۔ ؤ ” ویل “ کا استعمال کئی طرح ہوتا ہے۔ ۔ مفرد بطورہ مبتداء عموماً نکرہ آتا ہے (نکرہ بددعا میں جائز ہے) مثلاً کہتے ہیں : ” وَیْلٌ لفلانٍ “ (فلاں کے لیے خرابی ہے : ہو) یا یوں سمجھئے کہ جار مجرور خبر مقدم کے بعد مبتداء نکرہ (مؤخر) تھا مگر ترتیب الٹ دی گئی ہے۔ یعنی ” لفلانٍ ویلٌ“ کو ” ویل لفلان “ کہہ دیتے ہیں۔ اس استعمال میں یہ مرفوع ہی آتا ہے۔ اس (مفرد مرفوع) استعمال کے ساتھ یہ لفظ قرآن کریم میں 27 جگہ آیا ہے۔ اور ہر جگہ نکرہ ہی آیا ہے، صرف ایک جگہ (الانبیائ :18) یہ لفظ معرف باللام ” الویل “ استعمال ہوا ہے۔ یہ عموماً لام الجر (ل) کے ساتھ ہی استعمال ہوتا ہے۔ کبھی اس کے ساتھ ” ب “ بھی لاتے ہیں۔ یعنی کہتے ہیں : ” ویل لفلان و بفلانٍ “ تاہم قرآن کریم میں اس (مبتدا والے) استعمال میں یہ ہر جگہ لام الجر (لِ ) کے ساتھ ہی آیا ہے۔ ۔ کبھی مفرد مگر منصوب استعمال ہوتا ہے مثلاً کہتے ہیں : ” ویلاً لِفلان “ اس صورت میں اس سے پہلے ایک فعل محذوف سمجھا جاتا ہے۔ مثلاً ” ادعُو ویلا لہ “ یا ” الزم اللّٰہ ویلا لہ “ (میں اس کے لیے تباہی کو بلاتا ہوں یا اللہ اس کے لیے بربادی لازم کرے) یعنی نصب اس محذوف فعل کے مفعول بہ ہونے کے اعتبار سے آتی ہے۔ اگر اس مادہ سے اپنا فعل استعمال ہوتا (جو کہ ہے ہی نہیں) تو ” ویلاً “ کو مفعول مطلق سمجھ سکتے تھے۔ اس لفظ کا یہ (مفرد منصوب والا) استعمال قرآن کریم میں کہیں نہیں آیا۔ ۔ کبھی یہ مرکتب (مضاف ہوکر) منصوب آتا ہے (اس صورت میں لام الجر کی ضرورت نہیں رہتی) جیسے ” وَیْلَکَ آمِنْ “ (الاحقاف :17) میں ہے یعنی ” تیرا ستیاناس ایمان لے آ “ اس صورت میں بھی اس سے پہلے ایک فعل محذوف سمجھا جاتا ہے۔ یہ استعمال (مرکب منصوب والا) قرآن کریم میں تین جگہ آیا ہے۔ ۔ کبھی یہ حرف نداء کے ساتھ منادیٰ مضاف (لہٰذا) منصوب استعمال ہوتا ہے۔ جیسے ” یَا وَیْلَنَا “ (اے ہماری خرابی) میں ہے۔ یہ استعمال بلکہ یہی ترکیب (یاؤیلنا) قرآن کریم میں چھ جگہ آیا ہے۔ ۔ کبھی یہ لفظ ” ویل “ کی بجائے ” ویلۃ “ استعمال ہوتا ہے کعب لغب میں ” ویلۃ “ کے معنی ” فضیحت اور رسوائی “ بتائے گئے ہیں۔ اس صورت میں بھی یہ (ویلۃ) صرف نداء کے بعد منادیٰ منصوب ہوکر ہی استعمال ہوتا ہے جیسے ” یاویلنا “ (اے ہماری رسوائی) میں ہے یہ استعمال بلکہ یہی ترکیب (یاویلنا) قرآن مجید میں صرف ایک جگہ (الکہف :49) آیا ہے۔ البتہ ” یاویلتیٰ “ (جو ” یاویلتی “ کی دوسری شکل ہے) کی ترکیب بھی قرآن کریم میں تین جگہ وارد ہوتی ہے۔ ان تمام استعمالات پر مزید بات اپنے اپنے موقع پر ہوگی۔ ان شاء اللہ۔ ؤ یہاں ” ویل “ کے بعد ” للذین “ ہے جو دراصل ’ لام الجر (ل) + الذین “ ہے۔ لام الجر کے بعد لام تعریف آئے تو املاء میں ” الف “ ساقط ہوجاتا ہے اور دونوں لام ملا کر لکھے جاتے ہیں ” للذین “ کا ترجمہ ہے “ واسطے ان کے جو ، جس کو، ان کے لیے جو، ان کی جو، ان لوگوں کی جو “ کی صورت میں بھی دی گئی ہے۔ ؤ اس طرح زیر مطالعہ عبارت (فویل للذین…) کے تراجم ” پس خرابی ہے ان لوگوں کی جو : سو خرابی ہے ان کی جو “ کی صورت میں کیے گئے ہیں۔ اور بعض نے ” افسوس ‘ اور ” وائے “ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے یعنی ” تو ان لوگوں پر افسوس ہے جو : پس افسوس ہے ان لوگوں پر جو : پس : تو وائے ہے ان پر جو “ کی شکل میں۔ [ یَکْتُبُوْنَ الْکِتٰبَ ] ” یکتبون “ کا مادہ ” ک ت ب “ اور وزن ” یفعُلُون “ ہے یعنی یہ اس مادہ سے فعل مجرد (کتب = لکھنا) کے باب نصر سے کا فعل مضارع صیغہ جمع مذکر غائب ہے جس کا ترجمہ زیادہ تر فعل حال کے ساتھ ” وہ لکھتے ہیں “ کیا گیا ہے۔ بعض نے صیغہ مضارع ” لکھیں “ ہی سے کیا ہے جو فعل امر نہیں بلکہ ” حال “ کے معنی میں ہے۔ دوسرا لفظ ” الکتاب “ اسی مادہ (ک ت ب) سے فِعَال بمعنی مفعول ہے یعنی ” مکتوب : لکھی ہوئی چیز یا تحریر “ اور خود لفظ کتاب بھی اردو میں مستعمل ہے۔ اس مادہ (ک ت ب) سے فعل کے باب اور معنی کے علاوہ خود لفظ ” کتاب “ کی لغوی تشریح البقرہ :2 [ 2:1:1 (2)] میں دیکھئے۔ 2:49:1 (4) [ بِاَیْدِیْھِم ] یہ تین کلمات کا مرکب ہے۔ ابتدائی ” بائ (ب) “ الجر بمعنی ” سے : کے ساتھ : کے ذریعے “ ہے۔ اور آخر پر ضمیر مجرور ” ھم “ بمعنی ” ان کے : اپنے “ ہے اور درمیان میں وضاحت طلب کلمہ ” اَیْدِیْ “ ہے۔ [ اَیْدِیْ ] یہ جمع مکسر یہاں مجرور باء الجر اور مضاف (لہٰذا خفیف) ہے۔ اس کا واحد ” یدٌ“ ہے جس کا مادہ ” ی و ی “ اور وزن اصلی ” فَعْلٌ“ ہے۔ اصلی شکل ” یَدْیٌ“ تھی جو خلافِ قیاس یا شاید کثرت استعمال کے باعث ” یَدٌ“ استعمال ہوتا ہے۔ حالانکہ اس طرح کے کئی کلمات (مثلاً وَحْیٌ، ھَدْیٌ، ثَدْیٌ، رَمْیٌ وغیرہ) اپنی اصلی حالت پر رہتے ہیں بہرحال اس میں تعلیل کی صورت کچھ یوں بنتی ہے : یَدْیٌ= یَدْیُنْ = یَدُیْنْ = یَدُنْ = یَدٌ۔ اس کی اعرابی صورتیں (واحد کی) یَدٌ، یَدًا اور یدٍ “ ہوتی ہیں (جو دراصل یَدْیٌ یَدْیًا اور یُدْیٍ تھے) اس کا تثنیہ ” یدان (اور یَدَیْنِ ) ہوتا ہے اور شاذ ” یَدیَان “ بھی آتا ہے) جمع مکسر اس کی ” اَیْدِیٍ “ (باملاء ” آیْدٍ “ ) یَدِیٌّ اور آیادٍی، آتی ہے مگر قرآن کریم میں صرف مقدم الذکر جمع (ایدی) ہی استعمال ہوئی ہے۔ یہ بھی دراصل ” اَیْدَیٌ“ (بروزن ” اَفْعُلٌ“ ہی تھا پھر اس میں ” ی “ کی تنوین اڑا کر ” د “ (عین کلمہ) کے نیچے تنوین (-ٍ ) دی گئی جو تنوین جر نہیں بلکہ تنوین ِ عوض ہے جیسے یائی اللام افعال باب ” تفعل “ کے مصدر میں تبدیل ہوئی ہے۔ مثلاً تَلَقُیٍ سے تَلَقِّی اور تَرَقُیٌ سے ترقّیٍ بنتا ہے۔ گویا اَیْدُیٌ= اَیْدُیُنْ = اَیْدِیُنُ = اَیْدِیْنُ = اَیْدِنْ = اَیدٍی ہے اس کی اعرابی گردان ایدٍ ، اَیدِیًا۔ اَیِدٍ (مثل قاضٍ ، قاضیًا، قاضیٍ ) ہے اور رفع اور جر میں مضاف یا معرف باللام ہوتے وقت ” اَیْدِیْ “ ہوجاتا ہے (یعنی ” یائ “ لوٹ آتی ہے) جیسے یہاں زیر مطالعہ لفظ میں ہے۔ ؤ لفظ ” یَد “ کا ترجمہ ” ہاتھ “ ہے۔ عربی میں یہ لفظ ” ہاتھ کی انگلیوں سے لے کر کندھے تک پورے بازو “ کے لیے آتا ہے۔ پھر صرف انگلیوں والے حصے کو بھی ” یَدٌ“ (ہاتھ) ہی کہتے ہیں اور انگلیوں سے کہنی تک کے حصے کو بھی۔ (جیسے المائدہ :6 میں آتا ہے) یہ اس لفظ کے حقیقی معنی ہیں (یعنی جس کے لیے دراصل زبان میں یہ لفظ بنایا گیا ہے) پھر اس سے استعارہ، تشبیہہ اور محاورے کے طور پر یہ لفظ بیس سے زیادہ معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں یہ لفظ واحد مفرد یا مکرب 21 جگہ، تثنیہ مفرد یا مرکب 33 جگہ اور جمع مفرد یا مرکب 65 جگہ آیا ہے۔ ؤ کسی عبارت میں اس لفظ کے معنی (واحد ہو یا تثنیہ یا جمع) متعین کرنے کا عام اصول تو یہ ہے کہ بنیادی طور پر تو لفظ کے حقیقی معنی ہی مراد لیے جائیں گے۔ سوائے اس کے کہ کوئی ایسا قرینہ پایا جائے جس کی بنا پر کوئی مجازی معنی لینا ضروری ہو۔ اور اس قرینہ کی موجودگی یا عدم موجودگی کے بارے میں اختلاف بلکہ بعض دفعہ گمراہی کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ اس لیے قرآن کریم میں اس لفظ کے معنی مراد متعین کرنے میں لغات، زبان کے محاورے (idiom) اور سیاق سباق عبارت کے علاوہ ماثور معنی (جو نبی کریم یا آپ کے صحابہ ؓ سے ثابت ہوں) کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے جو مستند تفاسیر میں بیان ہوئے ہیں۔ کیونکہ اس لفظ کے استعمال کا تعلق کسی جگہ علم الکلام (عقائد) سے ہے اور کوئی جگہ تشریع فقہی احکام سے ہے اس لیے اس کے معنی کے تعین میں محض خواہش کی پیروی میں اس لفظ کے ڈکشنری میں دیے گئے متعدد معانی میں سے اپنی مرضی کے معنی تلاش کرنے کی کوشش ایک خطرناک کام ہے۔ ؤ پوری عبارت (یکتبون الکتاب بایدیھم) کے ترجمے (وہ لکھتے ہیں کتاب اپنے ہاتھوں سے) میں ” اپنے ہاتھوں سے “ کی بجائے بعض نے اردو کی بنا پر ” بایدیھم “ (جمع) کا ترجمہ واحد سے کردیا ہے یعنی ” اپنے ہاتھ سے “ کہ آدمی ایک ہاتھ سے ہی لکھتا ہے۔ مگر یہاں لکھنے والوں کی جمع (الذین اور یکتبون میں) کے باعث لفظ ” اَیْدِیْ “ بصورت جمع آیا ہے (اردو میں لفظ ” ہاتھ “ جمع کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جیسے کہیں ” ان کے ہاتھ “ اور بلحاظ حقیقت جمع بمعنی ” واحد “ ہے۔ ؤ محض لکھتے ہیں ”(یکتبون) کی بجائے ساتھ ” اپنے ہاتھوں سے “ (بایدیھم) مزید تاکید کے لیے آیا ہے کیونکہ لکھا تو ہاتھ سے ہی جاتا ہے اور آدمی اپنے ہی ہاتھ سے لکھتا ہے۔ یہ ایسے ہے جیسے اردو میں کہتے ہیں ” میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ “ یعنی ضرور دیکھا۔ ورنہ ہر شخص آنکھوں سے ہی دیکھتا اور اپنی ہی آنکھوں سے دیکھتا ہے (کسی دوسرے کی سے نہیں) ۔ [ ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ ] ” ثُمَّ “ بمعنی پھر : اس کے بعد (دیکھئے :2:20:1 (4) ) اور ” یقولون “ (وہ کہتے ہیں) کے مادہ، باب اور تعلیل وغیرہ کے لیے دیکھئے [ 2:19:1 (1)] اس فعل کے مادہ (ق و ل) سے فعل مجرد پر پہلی دفعہ البقرہ :8 [ 2:7:1 (5)] میں بات ہوئی تھی۔ اب تو اس کے متعدد صیغے گزر چکے ہیں۔ ؤ اس حصہ عبارت کا ترجمہ تو ہے، ” پھر وہ کہتے ہیں “ جسے بیشتر مترجمین نے سیاق عبارت کے ساتھ اردو محاورے کی مطابقت کرتے ہوئے ” پھر کہہ دیتے ہیں “ سے ترجمہ کیا ہے۔ اور بعض نے ” اور کہتے ہیں “ سے ترجمہ کیا ہے یعنی ثُمَّ کا ترجمہ ” اور “ سے کیا ہے جو آیت کے سابقہ مضمون کی مناسبت سے ہی درست کہا جاسکتا ہے ورنہ اصل لفظ سے تو ہٹ کر ہے بعض نے (یکتبون کی طرح) یہاں بھی مضارع (امر کے نہیں بلکہ) حال ہی کے معنی دیتا ہے۔ [ ھٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰہ ] اس جملے کے تمام کلمات پہلے گزر چکے ہیں اگر ان کی لغوی تشریح کی ضرورت محسوس کریں تو ” ھٰذا “ (یہ) اور دوسرے اسماء اشارہ کے لیے [ 2:1:1 (1)] ” مِن “ (میں سے : سے) کے معنی و استعمال کے لیے ” بحث استعاذۃ “ اور البقرۃ :3 [ 2:2:1 (5)] ” عِندَ “ (کے پاس : کے نزدیک) ظرف کے استعمال و معانی کے لیے [ 2:34:1 (6)] کی طرف رجوع کریں۔ اسم جلالت (اللہ) کی لغوی بحث ’ بسم اللہ ‘ میں گزر چکی ہے۔ ؤ اس طرح اس جملے کا لفظی ترجمہ تو بنتا ہے ” یہ ہے اللہ کے پاس سے “ بعض مترجمین نے تو ” مِن “ اور ” عِندَ “ دونوں کے معنی ترجمہ میں شامل کیے ہیں یعنی ” یہ نزدیک اللہ تعالیٰ کے سے ہے : یہ خدا کے پاس سے ہے : یہ اللہ کے ہاں سے ہے “ کی صورت میں۔ اور بعض نے اردو محاورے کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہاں ” عند “ کا ترجمہ نظر انداز کردیا ہے یعنی ” یہ خدا کی طرف سے ہے “ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے۔ اور بعض نے ” اتری ہے : آئی ہے “ کے تفسیری الفاظ کا اضافہ کردیا ہے۔ جس کی یہاں چنداں ضرورت نہ تھی۔ [ لِیَشْتَرُوا بِہٖ ثَمَنًا قَلِیْلًا ] ” لِیَشْتَرُوْا “ کا مادہ ” ش ری “ اور وزن اصلی ” لِیَفْتَعِلُوْا “ ہے جو دراصل ” لِیَشْترِبُوا “ بنتا تھا پھر واو الجمع سے ماقبل والا حرف علت (ی) گرا کر اس کے ماقبل (ر) کی کسرہ (-ِ ) کو ضمہ (-ُ ) میں بدل دیا جاتا ہے۔ یہ صیغہ ٔفعل اس مادہ سے باب افتعال کا فعل مضارع منصوب (بوجہ لام کَیْ ) صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ اس مادہ اور اس سے اس باب کے فعل (اشتری لشتری = خریدنا) کے استعمال پر البقرہ :16 [ 2:12:1 (1)] ” ثمن “ (جو یہاں منصوب آیا ہے) کے معنی (قیمت) کے علاوہ اس کے مادہ، فعل مجرد اور پھر فعل (اشتری) کے ساتھ اس کے استعمال اور اس کے ساتھ (بہ والے) ” بِ “ کے استعمال پر بھی البقرہ :41 [ 2:28:1 (11)] میں بات گزر چکی ہے اور اسی جگہ لفظ ” قلیل “ بمعنی ” تھوڑا “ (جو عبارت میں منصوب آیا ہے) کے مادہ، فعل وزن وغیرہ کی بات بھی ہوئی تھی۔ ؤ اس طرح یہاں اس عبارت کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ” تاکہ وہ خرید لیں اس کے ساتھ : سے تھوڑی قیمت “ مختلف مترجمین نے یہاں ” لِیشتروا “ کے تراجم ” تاکہ لیویں : کہ لیویں : کہ وصول کرلیں : کہ حاصل کرلیں : کہ اس کو بیچ کر لیویں “ کی صورت میں کیے ہیں پھر اردو محاورے کے مطابق وہ فعل کے اس ترجمہ کو فقرے کے آخر پر لائے ہیں۔ اسی طرح ” بہ “ کے تراجم ” اس کے ذریعے سے : اس کے عوض : بدلے، اس سے : کیے ہیں۔ اور بعض نے ” اس پر “ کیا ہے جس میں لفظ سے زیادہ محاورہ کا خیال رکھا گیا ہے اور ” ثمنا قلیلا “ کا ترجمہ ” مول تھوڑا : تھوڑا مول : کچھ نقد قدرے قلیل : تھوڑے سے دام : قدرے قلیل معاوضہ “ کی صورت میں کیا گیا ہے ان تراجم میں ” نقد “ اور معاوضہ ” ثمن “ (قیمت) کے لیے لائے گئے ہیں۔ [ فَوَیْلٌ لَّھُمْ ] ” وَیْل “ کے معنی و استعمال پر ابھی اوپر [ 2:49:1 (3)] میں بات ہوئی ہے۔ ” فَ “ (پس : سو) اور ” لَھُمْ “ (ان کے لیے) کا ابتدائی ” لام الجر “ لفظ ” ویل “ کے مرفوع استعمال کا ایک حصہ ہے۔ یوں اس عبارت (فویل لھم) کے تراجم ” پس وائے ہے واسطے ان کے : سو خرابی ہے ان کو : سو بڑی خرابی آوے گی ان کو : پس افسوس ہے ان پر : سو خرابی ہے ان کے لیے : خرابی ہے ان کی “ کی صورت میں کیے گئے۔ سب کا مفہوم ایک ہی ہے البتہ ” آوے گی “ وضاحتی ترجمہ ہے۔ [ مِمَّا کَتَبَتْ اَیْدِیْھِمْ ] اس عبارت کے جملہ کلمات پہلے گزر چکے ہیں۔ ” مِمَّا “ (جو مِنْ+مَا) ہے میں ” مِنْ “ تعلیل (کی وجہ سے) کے معنی میں آیا ہے اور ” مَا “ موصولہ بھی ہوسکتا ہے اور مصدریہ بھی موصولہ کی صورت میں ” ممَّا “ کا ترجمہ ” اس چیز کی وجہ سے جو : اس سے کہ : اس کی بدولت جس کو : جس سے : اس کی بدولت جو “ کے ساتھ کیا گیا ہے اور ” کَتَبَتْ “ کا ترجمہ تو ہے اس (مؤنث) نے لکھا۔ مگر مَا کو مصدریہ سمجھ کر ترجمہ ” لکھے سے : اس لکھنے پر “ کی صورت میں کیا گیا ہے ” ایدیھم “ (جو یہاں فاعل ہوکر آیا ہے) کا ترجمہ ” ہاتھ ان کے : ان کے ہاتھوں نے “ بنتا ہے جسے بعض نے ” ان کے ہاتھوں سے “ کیا ہے جو لفظ سے ہٹ کر ہے۔ ؤ اس طرح زیر مطالعہ پوری عبارت (مما کَتَبت ایدیھم) کا لفظی ترجمہ تو بنتا ہے ” اس کی وجہ سے جو لکھا ان کے ہاتھوں نے، جسے سیاق عبارت اور سابقہ فعل ” یکتبون “ ) کی مناسبت سے بعض نے فعل حال کے ساتھ ترجمہ کیا ہے یعنی ” اپنے ہاتھوں سے لکھتے ہیں “ ویسے بھی یہ ترجمہ ” یکتبون بایدیھم “ کا لگتا ہے اگر حال ہی میں کرنا تھا تو بھی ترجمہ ” لکھتے ہیں ان کے ہاتھ “ ہونا چاہیے تھا۔ اکثر مترجمین نے ” مَا “ کو مصدریہ سمجھ کر تراجم ” اپنے ہاتھوں کے لکھے سے : ان کے ہاتھوں کے لکھے سے : ان کے اس لکھنے پر “ کی صورت میں کیے ہیں۔ ان تراجم میں (ماسوائے آخری کے) ” لکھنے “ کی نسبت ” ہاتھوں “ سے ہی ہے جو اصل عبارت کا تقاضا ہے۔ [ وَوَیْلٌ لَّھُمْ ] سابقہ ” فویل لھم “ کی طرح ہے سوائے اس کے کہ یہاں شروع میں واو عاطفہ بمعنی ” اور “ ہے۔ 2:49:1 (5) [ مِمَّا یَکسِبُوْنَ ] یہاں بھی ” مِمَّا “ (من+ما) کا ” مِنْ “ تبعیضیہ نہیں بلکہ تعلیلیہ [ دیکھئے 2:2:1 (5)] بمعنی ” اس کی وجہ سے “ ہے اور اسی لیے اس (مِمَّا) کا ترجمہ ” اس کی جو کہ : اس کی بدولت جس کو : اس لیے کہ : اس چیز سے کہ “ کی صورت میں کیا گیا ہے۔ [ یَکْسِبُوْنَ ] کا مادہ ” ک س ب “ اور وزن ” یَفْعِلُوْنَ “ ہے ۔ فعل مجرد اس سے کَسَب… یکسِبُ کَسْبًا (ضرب سے) آتا ہے اور اس کے معنی ہیں… کو جمع کرنا، …کمانا۔ مثلاً کہتے ہیں ” کسَب المالَ “ (مال کمایا یا جمع کیا) اور ” کسَب الاثم “ (اس نے گناہ کمایا : اٹھایا : سرلیا “ اور ” کسَب لِاَھلہ “ کا مطلب ہے ” اس نے اپنے گھر والوں کے لیے روزی : معاش طلب کی۔ “ کبھی یہ فعل دو مفعول کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً ” کسَب فلاناً مالاً : علماً “ (اس نے فلاں کو علم یا مال حاصل کرایا۔ یعنی اس تک پہنچادیا) تاہم اس فعل کا یہ (دو مفعول والا) استعمال قرآن کریم میں نہیں آیا۔ ؤ اس فعل میں بنیادی طور پر تو ” کسی نفع بخش شے کے حصول کی کوشش۔ یا خوش نصیبی حاصل کرنے کی کوشش “ کا مفہوم ہوتا ہے۔ تاہم کبھی یہ ” نفع کی بجائے نقصان اٹھا بیٹھنے “ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس کا استعمال نیکی بدی دونوں کے آتا ہے۔ قرآن کریم میں اس کا زیادہ استعمال ” بدی “ کے لیے آیا ہے۔ یہ متعدی فعل ہے اور اس کا مفعول بنفسہ (منصوب) آتا ہے۔ البتہ بعض دفعہ مفعول محذوف (غیر مذکور) ہوتا ہے۔ زیادہ تر استعمال اس کا ” مَا “ کے ساتھ آیا ہے یعنی دراصل ” ما “ مفعول ہوتا ہے جو فعل سے پہلے مذکور ہوتا ہے۔ اور فعل کے بعد اس (مَا) کے لیے عائد ضمیر (مفعول) محذوف ہوتی ہے۔ جیسے یہاں زیر مطالعہ آیت میں ہے (گویا اصل تھا ” ممّا یکسبونہ “ ) ؤ اس طرح اس عبارت ” ممّا یکسبون “ کا ترجمہ بنتا ہے ” بوجہ اس کے جو کہ وہ کماتے ہیں “ جسے بعض نے ” ایسی کمائی کرتے ہیں : حاصل کرتے ہیں : کام کرتے ہیں “ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے۔ اور بہت سے مترجمین نے یہاں ” مَا “ کو مصدریہ سمجھ کر ترجمہ ” اپنی کمائی سے : اس کمائی سے : اس کمائی پر : اپنی کمائی : اپنی اس کمائی “ کی صورت میں کیا ہے۔ اس میں ” سے “ اور ” پر “ دراصل ” کی وجہ سے “ (مِنْ ) کا مفہوم رکھتے ہیں۔ بعض نے ماضی کے ساتھ ترجمہ کیا ہے (وصول کرلیا کرتے تھے) جو اصل عبارت کے مطابق درست معلوم نہیں ہوتا۔ 2:49:2 الإعراب بلحاظ ترکیب نحوی زیر مطالعہ قطعہ آیات کو چھ جملوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جن میں سے بعض ” واو الحال “ اور ” ثم عاطفہ “ کے ذریعے باہم ملائے گئے ہیں۔ تفصیل یوں ہے : ۔ وَمنھم اُمّیُّون لا یعلمون الکِتبَ اِلّا امانِیَّ [ وَ ] عاطفہ ہے جو مضمون کے تسلسل کے لیے جملے کو جملے سے ملاتی ہے [ منھم ] جار مجرور (من+ھم) مل کر خبر مقدم کا کام دے رہے ہیں اور [ اُمِّیُّوْن ] مبتداء موخر (لہٰذا) مرفوع ہے اور یہ نکرہ موصوفہ ہے جس میں ” جو کہ “ کا مفہوم ہوتا ہے (یعنی ان میں سے کچھ یا بہت سے اَن پڑھ جو کہ) [ لایعلَمون ] فعل مضارع معروف مع ضمیر الفاعلین (ھم) ہے اور [ الکتاب ] اس فعل کا مفعول بہ (لہٰذا) منصوب ہے علامت نصب آخری ” بائ “ کی فتحہ (بَ ) ہے۔ یہ جملہ (لایعلمون الکتابَ ) ” امّیّون “ (نکرہ موصوفہ) کی صفت ہے اس لیے اسے محلاً مرفوع کہہ سکتے ہیں (یعنی جو نہیں جانتے کتاب کو) [ اِلّا ] حرف استثناء ہے اور [ امانِیَّ ] مستثنیٰ بالا ہے اور یہ استثنا منقطع ہے کیونکہ ” علم الکتاب “ اور ” امانِیَّ “ دو بالکل الگ چیزیں ہیں اس لیے یہاں ” امانِیْ “ کی نصب لازمی ہے (چاہے استثناء سے پہلے جملہ منفی بھی ہے) یعنی ” ان کے پاس “ علم کتاب نہیں بلکہ صرف (جھوٹی آرزوئیں ہیں “ اس عبارت (لایعلمون الکتابَ اِلّا امانِیَّ ) کی ایک اور توجیہ بھی ہوسکتی ہے کہ فعل ” عِلم “ کو یہاں دو مفعول کے ساتھ آنے والا فعل سمجھا جائے جیسے ” اِن عَلِمْتمُوھُن مومناتٍ “ (الممتحنہ :10) میں استعمال ہوا ہے۔ (یعنی اگر تم ان عورتوں کو ایمان والیاں جانو : سمجھو) اس صورت میں ترجمہ ہوگا ” وہ نہیں جانتے : سمجھتے کتاب کو مگر صرف آرزوئوں کا مجموعہ “ گویا وہ ایسے جاہل ہیں کہ کتاب الٰہی کو مجموعہ اوامرو نواہی (جن پر عمل مطلوب ہے) نہیں بلکہ محض ” مجموعہ اور اردو وظائف “ ہی سمجھتے ہیں جو ” دل خوش رکھنے کا سامان “ ہے۔ ۔ وان ھم الایظنون [ وَ ] یہاں حالیہ ہے اور [ اِنْ ] نافیہ بمعنی ” مَا “ [ ھم ] ضمیر مرفوع منفل مبتداء ہے۔ [ اِلَّا ] حرف استثناء ہے جو یہاں حصر کے لیے آیا ہے کیونکہ اس سے پہلے نفی (اِنْ ) آتی ہے یعنی یہ بمعنی ” صرف و محض “ آیا ہے کیونکہ ” نہیں ہے مگر “ مل کر ” صرف “ کا مفہوم دیتا ہے [ یظنّون ] فعل مضارع معروف مع ضمیر فاعلین ” ھم “ (مستتر) جملہ فعلیہ بن کر ” ھم “ مبتداء کی خبر ہے۔ دراصل تو یہاں لفظ ” قوم “ خبر مقدر ہے جس کی صفت ” یظنون “ ہے یعنی مفہوم عبارت ” وَاِنَّ ھم اِلّا قومٌ یظنون “ (حالانکہ وہ صرف ایسے لوگ ہیں جو ظن میں مبتلا ہیں) ہے اور یہ پورا جملہ (وان ھم الّا یظنون) حالیہ ہے جو سابقہ جملے کے فعل ” لایعلمون “ کی ضمیر فاعلین (ھم) کا حال ہونے کی بناء پر اسی سابقہ جملے (ومنھم امیون لایعلمون الکتاب الا امانی) کا ہی ایک حصہ شمار ہوگا کیونکہ حال ذوالحال ایک جملے میں شامل ہوتے ہیں۔ چاہیں تو ایک دفعہ اس جملے (وأن ھم الا یظنون) کے تراجم پر (حصہ اللغۃ میں) نظر ڈال لیں۔ ۔ فویل للذین یکتبون الکتاب بایدیھم [ فَ ] یہاں مستانفہ ہے یعنی یہاں سے ایک الگ جملہ اور الگ مضمون شروع ہوتا ہے یا اس ” فائ “ کو سببیہ بھی سمجھا جاسکتا ہے یعنی ” اس کی وجہ سے “ کے معنی میں۔ [ ویل ] مبتداء (لہٰذا) مرفوع ہے جو یہاں بدعا کے لیے آیا ہے اور دعا یا بددعا کی صورت میں مبتداء نکرہ لایا جاسکتا ہے جیسے ” سلامٌ علیکم “ میں ہے [ للذِین ] لام الجر (لِ ) کے بعد ” الذین “ اسم موصول ہے جو مبنی ہے لہٰذا مجرور بالجر ہونے کے باوجود اس میں کوئی اعرابی علامت ظاہر نہیں ہے۔ اس کے بعد [ یکتبون ] فعل مضارع معروف مع ضمیر الفاعلین ” ھم “ ہے جو ” الذین “ کے لیے ہے اور یہ جملہ فعلیہ (یکتبون) اس ” الذین “ کا صلہ ہے بلکہ یہ صلہ آگے چلتا ہے یعنی صلہ والا جملہ ابھی مکمل نہیں ہوا۔ چناچہ آگے [ الکتاب ] اسی فعل (یکتبون) کا مفعول بہ (لہٰذا) منصوب ہے [ بایدیھم ] میں باء الجر (بِ ) کے بعد ” ایدی “ مضاف اور ” ھم “ مضاف الیہ ہے اور یہ مرکب اضافی (ایدیھم) باء الجر کے باعث اس کا مضاف (ایدی) مجرور ہے علامت جر اس میں آخری یاء ماقبل مکسور (-ِی) کا سکون ہے (جو دراصل ” بِایْدِھِمْ “ تھا مگر یاء مکسور یا مضموم ماقبل مکسور ساکن ہوجاتی ہے) اور یہ مرکب جاری (بایدیھم) متعلق فعل ” یکتبون “ ہے اور اس طرح دراصل پورا جملہ ” یکتبون الکتابَ بایدیھم “ (جس میں فعل فاعل مفعول اور متعلق فعل شامل ہیں) ” الذین “ کا صلہ بنتا ہے۔ اور یوں یہ پورا صلہ موصول ابتدائی لام الجر (لِ ) کے ذریعے ” ویلٌ“ کی خبر کا کام دیتا ہے۔ اس جملے کے تمام اجزاء کے تراجم حصہ ” الغۃ “ میں بیان ہوچکے ہیں۔ ۔ ثم یقولون ھذا من عند اللہ لیشتروا بہ ثمنا قلیلا [ ثُمَّ ] عاطفہ ہے سج کے ذریعے ما بعد والے فعل (یقولون) کو سابقہ جملے والے فعل (یکتبون) پر عطف کیا گیا ہے یعنی ” لکھتے ہیں پھر کہہ دیتے ہیں “ [ یقولون ] فعل مضارع معروف مع ضمیر الفاعلین ” ھم “ ہے [ ھذا ] مبتداء ہے اور [ مِنْ عندِ اللّٰہ ] میں ” مِن “ حرف الجر اور ” عندہ “ ظرف مضاف اور مجرور بالجر (مِنْ ) بھی ہے اور ” اللّٰہ “ مجرور بالاضافہ یعنی مضاف الیہ ہے اور یہ سارا مرکب جاری (من عندِ اللّٰہِ ) ” ھذا “ کی خبر یا قائم مقام خبر ہے۔ اور یہ جملہ اسمیہ (ھذا من عند اللّٰہ) فعل ” یقولون “ کا مقول (مفعول) ہونے کے اعتبار سے محلاً منصوب ہے [ لیشتروا ] کا ابتدائی لام (لِ ) لامِ کَیْ یا لام تعلیل ہے جس کی وجہ سے ” لیشتروا “ فعل مضارع منصوب ہے (لامِ تعلیل کے بعد ایک ” أنْ “ مقدر سمجھا جاتا ہے اور دراصل وہی ناصب ہوتا ہے یعنی ” لِاَن “ ) علامت نصب اس صیغۂ فعل میں آخری ” ن “ کا گر جانا ہے (جو دراصل ” لیشترون “ تھا) اور اس صیغہ میں واو الجمع ضمیر الفاعلین (ھم) کی علامت ہے۔ [ بہ ] جار مجرور (ب+ہ) متعلق فعل (لیشتروا) ہیں [ ثمنًا ] اس فعل کا مفعول بہ (لہٰذا) منصوب ہے اور [ قلیلاً ] اس کی صفت (منصوب) ہے اس طرح ” ثم “ کے ذریعے یہ دونوں جملے (نمبر 3، نمبر 4 مندرجہ بالا) دراصل ایک ہی طویل جملہ (بلحاظ مضمون مربوط) بنتا ہے۔ ۔ فویل لھم مما کتبت ایدیھم [] یہاں بھی استیناف کے لیے ہے یعنی یہاں سے ایک الگ جملہ شروع ہوتا ہے۔ اور اسی لیے سابقہ جملے کے آخر پر (ثمنا قلیلا کے بعد) وقف مطلق کی علامت (ط) ڈالی جاتی ہے [ ویلٌ] سابقہ جملے (نمبر 3 مندرجہ بالا) کی طرح یہاں بھی مبتدأ ہے (نکرہ ہونے کا جواز بھی اوپر بیان ہوا ہے) یہاں بددعا کی تکرار تاکید (لفظی) کے لیے ہے۔ [ لھم ] جار مجرور مل کر ” ویل “ کی خبر کا کام دے رہے ہیں [ مِمَّا ] جو جار (من) اور مجرور (مَا موصولہ) ہیں۔ ان کا تعلق بھی ” ویل “ سے ہے یعنی ” ویل “ (تباہی) اس سبب سے ہے کہ [ کتبتْ ] فعل ماضی معروف صیغۃ واحد مؤنث غائب ہے۔ [ ایدیھِمْ ] مضاف (ایدِیْ ) اور مضاف الیہ (ھم) مل کر فعل ” کتبتْ “ کا فاعل ہے اس لیے ” ایدی “ یہاں حالت رفع میں ہے۔ مگر اس منقوص میں رفع اور جر کی علامت ظاہر نہیں ہوتی۔ یا یوں سمجھئے کہ یہ دراصل ” اَیْدِیْھُمْ “ تھا مگر یائے مضمومہ (اور یائے مکسورہ بھی) کا جب ماقبل مکسور ہو تو وہ ساکن ہوجاتی ہے (جیسے ” یَرْمِنٌ“ سے ” یَرْمِْ “ ہوجاتا ہے) اور فاعل (ایدی) کے جمع مکسر ہونے کی وجہ سے فعل (کتبت) کا صیغۃ واحد مؤنث لایا گیا ہے۔ یہاں ” مِمَّا “ کے ” مَا “ کو موصولہ بھی سمجھا جاسکتا ہے اس صورت میں جملہ ” کتبتْ ایدیھم “ اس کا صلہ ہے اور ترجمہ ” اس کی وجہ سے جو کہ (لکھا ان کے ہاتھوں نے) ہوگا۔ اور اس ” مَا “ کو مصدریہ بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ اس صورت میں ” کتبت “ کا ترجمہ مصدر مووّل ” کتابۃ “ کے ساتھ (یعنی ” من کتابۃ ایدیھم “ کی طرح ” ان کے ہاتھوں کے لکھنے کی وجہ سے “ کے ساتھ ہوگا۔ دونوں طرح کے تراجم حصہ ” اللغہ “ میں بیان ہوچکے ہیں۔ ۔ وَویلٌ لھم مما یَکسِبُون [ وَ ] عاطفہ ہے جس سے (اگلے) جملے کا (پچھلے) جملے پر عطف ہے [ وَیْلٌ] مثل سابق مبتداء (لہٰذا) مرفوع ہے نکرہ ہونے کی وجہ اوپر بیان ہوئی ہے [ لھم ] جار مجرور (ل+ھم) مل کر ” ویلٌ“ کی خبر کا کام دے رہے ہیں [ مِمَّا ] جار مجرور (من+ما) کا تعلق ” ویل “ سے ہے یعنی اس کی وجہ بیان کی گئی ہے [ یکسِبُون ] فعل مضارع معروف مع ضمیر الفاعلین ” ھم “ (مستتر) ہے یعنی جملہ فعلیہ ہے اور یہاں بھی اگر ” مِمَّا “ کے ” مَا “ کو موصولہ سمجھا جائے تو یہ (یکسبُون) اس کا صلہ ہے اور اس کے آخر پر ضمیر عاید محذوف ہے (یعنی مفہوم ” یکسبونہ “ کا ہے) اور اگر ” مِمَّا “ کے ” مَا “ کو مصدریہ سمجھیں تو ترجمہ مصدر مَووّل ” کَسْب “ کے ساتھ ” من کسبھم “ کی طرح کیا جائے گا۔ دونوں طرح سے تراجم حصہ ” اللغۃ “ میں گزر چکے ہیں۔ یہ آخری جملہ ” وَ “ عاطفہ کے ذریعے سابقہ جملے (نمبر 5) کا ہی ایک حصہ بنتا ہے یعنی دونوں کے ترجمے کے درمیان ” اور “ کا ہی اضافہ ہوگا۔ 2:49:3 الرسم قطعہ زیر مطالعہ کے تمام کلمات کا رسم املائی اور رسم عثمانی یکساں ہے۔ البتہ تین کلمات وضاحت طلب ہیں۔ یعنی ” الکتب “ ، ” مِمَّا “ اور ” ھذا “ کلمہ ” الکتاب “ جس کا رسم املائی ” الکتاب “ ہے۔ (جو یہاں دو دفعہ آیا ہے) قرآن مجید میں ہر جگہ (سوائے چار خاص مقامات کے) بحذف الف بعد التاء لکھا جاتا ہے معرفہ ہو یا نکرہ اور مفرد ہو یا مرکب۔ ” مِمَّا “ (یہ بھی یہاں دو دفعہ ہے) یہ دراصل ” من “ ہے مگر قرآن میں عموماً ہر جگہ موصول (ملا کر) ” مِمَّا “ لکھا جاتا ہے ان دونوں کلمات (الکتاب اور مِمَّا) کے رسم پر تفصیلی بحث [ 2:1:3] میں ہوچکی ہے۔ ؤ کلمہ ” ھذا “ کا رسم الخط اس لحاظ سے قابل ذکر ہے کہ اس کا رسم عثمانی اور عام رسم املائی دونوں اسی طرح بحذف الالف بعد الہاء (یعنی ” ھذا “ ) ہے (حالانکہ بظاہر رسم قیاسی ” ھاذا “ ہونا چاہیے تھا) ۔ اس طرح کے بعض کلمات (مثلاً ذٰلک۔ اولئک وغیرہ) پہلے بھی گزر چکے ہیں اور آئندہ بھی ایسے کئی کلمات ہمارے سامنے آئیں گے جن کا رسم املائی عام قیاسی رسم کی بجائے۔ رسم قرآن والا ہی اختیار کیا گیا۔ یعنی ان کا رسم املائی دراصل رسم عثمانی کی یادگارہ ہے۔ اور یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اصل چیز رسم قرآنی یا رسم عثمانی (عہد نبوی اور خلافت راشدہ تک کا رائج رسم الخط) ہی تھا۔ اس میں بعض اصطلاحات یا تبدیلیاں کرکے رسم املائی کے قواعد بنائے گئے۔ یہ نہیں کہ رسم املائی کو توڑ مروڑ کر (کسی مصلحت کے تحت) رسم عثمانی بنایا گیا۔ جیسا کہ عام طور پر کتب رسم میں بیان کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں بہت سے کلمات ایسے ہیں جن کی املاء (رسم) صوتی اصول کے تحت نہیں۔ بلکہ تاریخی اصول کے تحت اختیار کی گئی ہے۔ 2:49:4 الضبط ان دو آیات کے کلمات میں ضبط کا تنوع درج ذیل مثالوں سے سمجھا جاسکتا ہے۔ یکساں ضبط والے کلمات شامل نہیں کیے گئے۔
Top