Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 79
فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ یَكْتُبُوْنَ الْكِتٰبَ بِاَیْدِیْهِمْ١ۗ ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ هٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ لِیَشْتَرُوْا بِهٖ ثَمَنًا قَلِیْلًا١ؕ فَوَیْلٌ لَّهُمْ مِّمَّا كَتَبَتْ اَیْدِیْهِمْ وَ وَیْلٌ لَّهُمْ مِّمَّا یَكْسِبُوْنَ
فَوَيْلٌ : سو خرابی ہے لِلَّذِیْنَ : ان کے لیے يَكْتُبُوْنَ : لکھتے ہیں الْكِتَابَ : کتاب بِاَيْدِيهِمْ : اپنے ہاتھوں سے ثُمَّ : پھر يَقُوْلُوْنَ : کہتے ہیں هٰذَا : یہ مِنْ : سے عِنْدِ اللہِ : اللہ کے پاس لِيَشْتَرُوْا : تاکہ وہ حاصل کریں بِهٖ : اس سے ثَمَنًا : قیمت قَلِیْلًا : تھوڑی فَوَيْلٌ : سوخرابی لَهُمْ : ان کے لئے مِمَّا : اس سے کَتَبَتْ : جو لکھا اَيْدِيهِمْ : ان کے ہاتھ وَوَيْلٌ : اور خرابی لَهُمْ : ان کے لئے مِمَّا : اس سے جو يَكْسِبُوْنَ : وہ کماتے ہیں
سو بڑی خرابی ہے، ان لوگوں کیلئے جو لکھتے ہیں کتاب کو اپنے ہاتھوں سے، (اپنے خود ساختہ اضافوں کے ساتھ) پھر کہتے ہیں کہ یہ (سب کچھ) اللہ کی طرف سے ہے، تاکہ اس طرح وہ (اپنی جسارت کے عوض دنیا دوں کا) کچھ گھٹیا مول حاصل کرسکیں، سو بڑی خرابی ہے ان کے لئے ان کے اپنے ہاتھوں کے اس لکھے کی بناء پر، اور بڑی خرابی ہے ان کے لئے ان کی اپنی اس کمائی کی بناء پر،1
225 تحریف کرنے والوں کیلئے بڑی سخت خرابی : ـ یعنی " ویل " کی تنوین تعظیم و تفخیم کیلئے ہے، اور " ویل " مصدر ہے " ویح " کی طرح، لیکن اس سے نہ کوئی فعل آتا ہے اور نہ ہی جمع (صفوۃ البیان وغیرہ) ۔ اور اس کے معنی خرابی، ہلاکت اور تباہی وغیرہ کے آتے ہیں، اور ظاہر ہے کہ عذاب دوزخ میں مبتلا ہونے سے بڑھ کر ہلاکت و خرابی اور کیا ہوسکتی ہے ؟ اور سنن ترمذی وغیرہ کی بعض روایات میں وارد ہے کہ ویل سے مراد دوزخ کی ایک وادی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اسی لئے حضرات سلف میں سے اکثر نے اس کا مصداق اسی کو قرار دیا ہے (صفوۃ البیان، روح المعانی، ابن کثیر، وغیرہ وغیرہ) ۔ سو کلام الہٰی میں تحریف اور اللہ کے ذمے ایسی بات لگانا جو اس نے نہیں فرمائی، بڑا ہی سنگین جرم ہے اور اس کا انجام نہایت ہی ہولناک ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ پس سلامتی کی راہ اور نجات کی راہ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی تعلیم فرمودہ ہدایات اور اس کے ارشاد فرمودہ احکام واوامر کی پیروی کرے۔ وباللہ التوفیق۔ بہرکیف تحریف کرنے والوں کے لیے بڑی سخت خرابی ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 226 جرم بالائے جرم کا ارتکاب۔ والعیاذ باللہ : سو کلام الہی میں اپنی طرف سے اضافے کرنے، اور پھر ان کو اللہ کی طرف منسوب کرنے اور اس طرح وہ جرم پر جرم کے مرتکب ہوتے ہیں کہ ایک طرف تو اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کو بدلنے کی سنگین جسارت کا ارتکاب کرتے ہیں، اور دوسری طرف وہ کتاب ہدایت کو بدل کر اس کی سچی اور نورانی تعلیمات سے خلق خدا کو محروم کرنے کا جرم کرتے ہیں۔ اور تیسری طرف وہ اللہ پاک۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ پر افترا باندھتے ہیں اور ایسی باتوں کو اس کے ذمے لگانے کی سعی مذموم کرتے ہیں جو اس نے نہیں فرمائیں ۔ تَعَالٰی وَتَقَدَّسَ عَمَّا یَقُوْلُوْنَ عُلُُوًّا کَبِیْرًا ۔ اور اللہ پر افترا کرنے والوں سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوسکتا ہے ؟۔ اور یہ سب کچھ ایسے بدبخت جانتے بوجھتے کرتے ہیں۔ کوئی بیخبر ی اور جہالت کی بنا پر نہیں۔ اور محض اس لیے کرتے ہیں کہ اس طرح یہ لوگ دنیائے دوں کے چند ٹکے کما سکیں۔ جس سے ان کی دنیا پرستی، خواہشات نفس کی پیروی اور لذت ایمان و یقین سے محرومی جیسے رذائل و قبائح ظاہر و واضح ہوجاتے ہیں اور انکے دعوائے ایمان کی قلعی کھل جاتی ہے مگر ان کو اپنی اس محرومی کا احساس و شعور ہی نہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ 227 نور حق و ہدایت کے مقابلے میں دنیا ساری ہی ہیچ اور صفر ہے : ـ کہ اول تو دنیا ساری ہی آخرت کے مقابلے میں قلیل اور بےحقیقت ہے۔ جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا ۔ { قُلْ مَتَاع الدُّنْیَا قَلِیْلٌ } ۔ (النسائ : 77) ۔ نیز فرمایا گیا ۔ { فَمَا مَتَاعُ الْحَیٰوۃ الدُّنْیَا فِی الآخِرَۃ الاَّ قَلِیْلٌ } ۔ (التوبۃ : 38) ۔ اور حدیث شریف میں حضرت نبئ معصوم (علیہ الصلوۃ والسلام) سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ " اگر اس ساری دنیا کی قدرو قیمت اللہ تعالیٰ کے یہاں مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کسی کافر کو پانی کا گھونٹ بھی نہ پلاتا " ( ترمذی، باب الزھد) ۔ نیز حضرت جابر ؓ کی روایت کے مطابق ایک مرتبہ آپ ﷺ نے بکری کے مرے ہوئے ایک ایسے بچے کو جس کے کان بھی چھوٹے چھوٹے تھے ( یعنی وہ بچہ تھا) کان سے پکڑ کر لوگوں سے پوچھا کہ تم میں سے کون ہے جو اس کو ایک درہم کے بدلے میں لینے کو تیار ہو ؟ تو اس کے جواب میں صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا کہ کوئی بھی نہیں، اس کو ہم کیا کرینگے۔ یہ اگر زندہ ہوتا تو بھی ہم اسے لینے کو تیار نہ ہوتے کہ یہ عیب دار ہے، کہ اس کے کان چھوٹے چھوٹے ہیں، تو اب اس حالت میں جبکہ یہ مرا ہوا اور مردار ہے اسے کوئی لے کر کیا کرے گا ؟ تب اللہ کے رسول ۔ عَلَیْہ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلاَم ۔ نے قسم کھا کر فرمایا کہ یہ دنیا اللہ تعالیٰ کے یہاں اس سے بھی کہیں زیادہ گھٹیا اور گئی گزری ہے، جتنا کہ تمہارے نزدیک بکری کا یہ مرا ہوا بچہ ہے " فَوَ اللّٰہ اَلدُّنْیَا أَہْوَنُ عَلَی اللّٰہ مِنْ ہٰذَا عَلَیْکُمْ " تو جب پوری دنیا کی بھی اللہ پاک کے یہاں یہ حقیقت و حیثیت ہے، تو پھر اس کے کچھ ٹکوں کی اور وہ بھی حق فروشی اور حق پوشی کے عوض و بدلہ میں ملنے والے ٹکوں کی حیثیت ہی کیا ہوسکتی ہے ؟ ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ پس اسی عظیم حقیقت کو ہم نے یہاں اپنے ترجمے میں ظاہر کرنے کی امکانی تک کوشش کی ہے ۔ وَالْحَمْدُ لِلّٰہ رَبّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ سو اصل چیز دین و ایمان کی دولت بےمثال ہے، جسکے بعد دنیا ملے تو بھی خیر اور نہ ملے تو بھی خیر، جبکہ اس کے بغیر دنیا ملے تو بھی عذاب، اور نہ ملے تو بھی عذاب۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو دولت ایمان و یقین ایک عظیم الشان اور بےمثال دولت ہے ۔ والحمد للہ الذی شرفنا بنعمۃ الایمان ۔ 228 دین فروشی کے بدلے میں کی جانے والی کمائی بہت ہی بری کمائی ہے : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ دین فروشی اور تحریف کے ذریعے کی جانے والی کمائی بہت ہی بری کمائی ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ ـ سو یہ لوگ کتمان حق اور دین فروشی کے ذریعے ایسے ہولناک جرم کا ارتکاب کرتے ہیں کہ اس طرح یہ لوگ دنیا کے ان عارضی اور فانی فائدوں پر ریجھ کر آخرت کے دائمی اور ہولناک عذاب کو اپنانے کا سامان کرتے ہیں، جو کہ خساروں کا خسارہ ہے۔ والعیاذ باللہ ۔ اور اس طرح یہ لوگ ہدایت سے خود بھی محروم ہوتے ہیں، جو کہ محرومیوں کی محرومی ہے۔ والعیاذ باللہ ۔ اور اس کو بدل سدل کر یہ لوگ دوسروں کو بھی محروم کرنے کے دوہرے جرم کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ تو پھر اس سے بڑھ کر خبیث او بری کمائی اور کون سی ہوسکتی ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ بہرکیف دین فروشی اور کتمان حق یعنی حق کو چھپانے کا جرم ایک نہایت سنگین جرم ہے۔ اور اس جرم کے ذریعے حاصل کی جانے والی کمائی حرام اور گناہ کی کمائی ہے، اور حرام کمائی جب کسی جسم میں جاتی ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ تو وہ مسلوب التوفیق اور مسلوب الخیر ہوجاتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور حق و ہدایت کی دولت ایسی عظیم الشان اور اس قدر بےمثال دولت ہے کہ پوری دنیا بھی اس کے مقابلے میں ہیچ اور صفر ہے جبکہ اصل اور حقیقی دولت جنت کی نعیم مقیم ہی کی دولت ہے۔ اور اصل زندگی آخرت ہی کی زندگی ہے جو کہ ابدی اور لا محدود زندگی ہے اور جس میں کامیابی کی اساس و بنیاد تقویٰ و پرہیزگاری ہی پر ہے۔ چناچہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { قل متاع الدنیا قلیل والآخرۃ خیر لمن اتقی ولا تظلمون فتیلا } ۔ ( النساء : 77) ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وہو الہادی الی سواء السبیل ۔ سو بڑے ہی بدبخت اور محروم القسمت ہیں وہ لوگ جو دنیائے دوں کے چند ٹکوں کی خاطر دین فروشی کے ہولناک جرم کا ارتکاب کرتے ہیں اور اس طرح اپنے لیے دائمی ہلاکت و تباہی کا سامان کرتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top