Al-Qurtubi - Al-Baqara : 78
وَ مِنْهُمْ اُمِّیُّوْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ الْكِتٰبَ اِلَّاۤ اَمَانِیَّ وَ اِنْ هُمْ اِلَّا یَظُنُّوْنَ
وَمِنْهُمْ : اور ان میں أُمِّيُّوْنَ : ان پڑھ لَا يَعْلَمُوْنَ : وہ نہیں جانتے الْكِتَابَ : کتاب اِلَّا اَمَانِيَّ : سوائے آرزوئیں وَاِنْ هُمْ : اور نہیں وہ اِلَّا : مگر يَظُنُّوْنَ : گمان سے کام لیتے ہیں
اور بعض ان میں ان پڑھ ہیں کہ اپنے خیالات باطل کے سوا (خدا کی) کتاب سے واقف ہی نہیں اور وہ صرف ظن سے کام لیتے ہیں
آیت نمبر 78 اس میں چار مسائل ہیں۔ مسئلہ نمبر 1: منھم امیون یعنی یہود میں سے۔ بعض نے فرمایا : یہود اور منافقین میں سے جو نہ لکھتے تھے نہ پڑھتے تھے۔ امیون کا واحد امی ہے۔ یہ الامۃ الامیۃ کی منسب ہے یعنی جو امت اپنی ماؤں کی ولادت کی اصل پر ہوتے ہوئے، لکھنا پڑھنا نہ سیکھے۔ اسی سے نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : انا امۃ لا نکتب ولا نحسب (4) ۔ ہم امی امت ہیں نہ ہم لکھتے ہیں نہ حساب لگاتے ہیں۔ انہیں امیون کہا گیا کیونکہ انہوں نے ام الکتاب کی تصدیق نہیں کی یہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے (1) ۔ حضرت ابو عبیدہ نے کہا : انہیں امیون کہا گیا کیونکہ کتاب کا نزول ان پر ہوا تھا گویا وہ ام الکتاب کی طرف منسوب کئے گئے ہیں۔ گویا فرمایا : ومنھم اھل الکتاب لا یعلمون الکتاب۔ ان میں اہل کتاب جو کتاب کو نہیں جانتے۔ عکرمہ اور ضحاک نے کہا یہ عرب کے نصاریٰ ہیں بعض نے فرمایا : یہ اہل کتاب کی ایک قوم ہے۔ ان کی کتاب کو نہیں جانتے۔ عکرمہ اور ضحاک نے کہا یہ عرب کے نصاریٰ ہیں بعض نے فرمایا : یہ مجوسی ہیں۔ میں کہتا ہوں : پہلا قول اظہر ہے۔ مسئلہ نمبر 2: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لا یعلمون الکتب الا امانی یہاں الا بمعنی لکن ہے یہ مستثنیٰ منقطع ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : مالھم بہ من علم الا اتباع الظن (النساء : 157) نہیں ان کے اس امر کا کوئی صحیح علم بجز اس کے کہ وہ پیروی کرتے ہیں گمان کی) ۔ نابغہ نے کہا : حلفت یمیناً غیر ذی مثنویۃ ولا علمٍ الا حسن ظن بصاحبٍ میں نے قسم اٹھائی جس میں استثناء نہیں اور علم نہیں تھا مگر ساتھ پر حسن ظن کی۔ ابو جعفر، شیبہ اور اعرج نے الا امانی یاء کی تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے ایک یاء کو تخفیف کی خاطر حذف کرد یا۔ ابو حاتم نے کہا : ہر لفظ جو اس طرح ہو کہ ایک مشدد ہو تو اس میں تشدید و تخفیف جائز ہے جیسے اثافی، اغانی، امانی وغیرہ۔ اخفش نے کہا : یہ اس طرح ہے جیسے مفتاح کی جمع کہا جاتا ہے : مفاتیح، ومفاتح۔ یہ جمع کی یاء ہے۔ نحاس نے کہا : معتل میں حذف اکثر ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا : وھل یوجع او یکشف العمی ثلاث الاثانی والرسوم البلاقع کیا تین چیزیں تسلیم کو لوٹاتی ہیں یا اندھے پن کو کھولتی ہیں، چولہے کے پتھر، بقیہ بنیادیں جو کھنڈر بن چکی ہیں۔ الامانی، یہ امنیۃ کی جمع ہے اس کا معنی تلاوت ہے اصل میں امنویۃ، افعولۃ کے وزن پر تھا واو کو یا میں ادغام کیا گیا یا کی وجہ سے نون کو کسرہ دیا گیا ہے تو امنیۃ بن گیا۔ اسی سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : الا اذا تمنی القی الشیطن فی امنیتہ (الحج : 53) یعنی جب وہ تلاوت کرتا ہے تو اس کی تلاوت میں شیطان ڈالتا ہے۔ کعب بن مالک نے کہا تھا : تمنی کتاب اللہ اذل لیلۃ واخرہ لاقی حمام المقادر اس نے رات کے ابتدائی حصہ اور آخری حصہ میں تلاوت کی۔ ایک اور شاعر نے کہا : تمنی کتاب اللہ اخر لیلۃ تمنی داؤد الزبور عل رسل اس نے رات کے آخری حصہ میں کتاب اللہ کی تلاوت کی جس طرح حضرت داؤد (علیہ السلام) نے زبور کی تلاوت آہستہ آہستہ کی۔ الامانی کا معنی جھوٹ بھی ہے۔ حضرت عثمان ؓ کا قول ہے : ما تمنیت منذا سلمت (1) ، جب سے میں نے اسلام قبول کیا ہے جھوٹ نہیں بولا ہے۔ کسی عربی نے ابن وأب کو کہا تھا جب وہ بیان کر رہا تھا : أھذا شیء رویتہ ام شیء تمنیتہ۔ کیا یہ وہ چیز ہے جو تم نے کسی سے روایت کی ہے یا تو نے خود گھڑی ہے۔ حضرت ابن عباس اور مجاہد نے الامانی کی تفسیر اسی مفہوم میں کی ہے (2) ۔ الامانی ہر اس چیز کو بھی کہتے ہیں جس کی انسان تمنا اور خواہش کرتا ہے۔ قتادہ نے کہا : الا امانی یعنی وہ اللہ تعالیٰ پر ایسی تمنا کرتے ہیں جو ان کے لئے نہیں ہے (3) ۔ بعض نے فرمایا : الامانی کا معنی التقدیر ہے کہا جاتا ہے : منی لہ یعنی اس کے لئے مقدر کیا گیا۔ یہ جوہری کا قول ہے۔ ابن بحر نے یہ حکایت کیا ہے۔ شاعر کا قول بیان کیا ہے : لا تامنن وان امسیت فی حرم حتی تلاقی ما یمنی لک المانی تو امن میں نہ ہو اگرچہ تو شام حرم میں گزارے حتیٰ کہ تو وہ پالے جو تقدیر بنانے والے نے تیری تقدیر میں لکھی ہے۔ مسئلہ نمبر 3: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وان ھم الا یظنون، ان بمعنی ما نا فیہ ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ان الکفرون الا فی غرور۔ (الملک) اس آیت میں ان، ما نافیہ کے معنی میں ہے اور یظنون کا معنی ہے وہ جھوٹ بولتے ہیں کیونکہ انہیں اس چیز کی صحت کا علم ہی نہیں ہے جو وہ تلاوت کرتے ہیں۔ وہ تو اپنے علماء کے مقلد ہیں اس میں جو وہ پڑھتے ہیں۔ ابوبکر انباری نے کہا : ہمیں احمد بن یحییٰ نحوی نے بتایا کہ عرب ظن کو علم، شک اور کذب کے معنی میں استعمال کرتے ہیں۔ فرمایا : جب علم کے دلائل قائم ہوجائیں اور وہ شک کے دلائل سے زیادہ ہوں تو ظن یقین ہوگا، اور جب یقین کے دلائل اور شک کے دلائل برابر ہوں تو ظن شک ہوگا۔ جب شک کے دلائل یقین کے دلائل سے زیادہ ہوں تو ظن کذب ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وان ھم الا یظنون یعنی وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ مسئلہ نمبر 4: ہمارے علماء نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے علماء یہود کے بارے میں بتایا کہ وہ تحریف کرتے ہیں اور تبدیلی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور اس کا قول حق ہے : فویلٌ للذین یکتبون الکتب بایدیھم الآیہ (البقر :79) (سو ہلاکت ہو ان کے لئے جو لکھتے ہیں کتاب اپنے ہاتھوں سے ) ۔ جب معاملہ ان کی طرف متوجہ ہوا، اور علماء کی رعیت بری ہوگئی اور وہ دنیا پر حرص و لالچ کرنے لگے اور انہوں نے ایسی چیزیں طلب کیں جو لوگوں کے رخ ان کی طرف پھیر دیں تو انہوں نے اپنی شریعت میں بدعتوں کا نکالا اور شریعت کو بدل ڈالا۔ پھر انہیں تورات کے ساتھ لاحق کردیا۔ اپنے بیوقوف لوگوں کو کہا : یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ وہ ان کی طرف سے یہ قبول کرلیں اور ان کی ریاست مستحکم ہوجائے اور اس کے ذریعے وہ دنیا کا مال ومتاع حاصل کریں اور جو کچھ انہوں نے اختراع کیا تھا اس میں یہ بھی تھا کہ انہوں نے کہا پس لیس علینا فی الامیین سبیل وھم العرب یعنی ہم پر امیوں کے بارے میں کوئی گرفت نہیں ہے اور وہ عرب ہیں یعنی جو کچھ ہم ان کے مال سے لے لیں وہ ہمارے لئے حلال ہے اور ان کی اختراع میں سے یہ بھی تھا کہ انہوں نے لا یضرنا ذنب فنحن احباءہ وابناءہ۔ ہمیں کوئی گناہ مضر نہیں ہم اللہ تعالیٰ کے محبوب اور اس کے بیٹے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس نازیبات سے بلند ہے تورات میں تھا : یا احباری ویا ابناء رسلی۔ (اے میرے علماء اور میرے رسولوں کی اولاد) تو انہوں نے اسے بدل ڈولا اور یہ لکھا : یا احبانی ویا ابنائی (یعنی اے میرے محبوبو ! اے میرے بیٹو ! ) اللہ تعالیٰ نے ان کی تکذیب کو نازل فرمایا : و قالت الیھود والنصریٰ نحن ابنٰؤا اللہ واحبآ ؤہ قل فلم یعذبکم بذنوبکم (المائدہ :18) یہود نے کہا : ہمیں اللہ تعالیٰ عذاب نہیں دے گا۔ اگر وہ عذاب دے گا تو چالیس دن عذاب دے گا جتنے دن ہم نے بچھڑے کی عبادت تھی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نازل فرمایا : وقالوا لن تمسنا النار الا ایاماً معدودۃً قل اتحذتم عند اللہ عھداً (البقرہ :80) (اور انہوں نے کہا ہرگز نہ چھوئے گی ہمیں (دوزخ کی) آگ بجز گنتی کے دن۔ آپ فرمائیے کیا لے رکھا ہے تم نے اللہ سے کوئی وعدہ۔ ) ابن مقسم نے کہا : عھداً سے مراد توحید ہے۔ اس کی دلیل یہ ارشاد ہے : الا من اتخذ عند الرحمٰن عھدًا (مریم :87) اس آیت میں عھداً سے مراد لا الہ الا اللہ ہے۔ فلن یخلف اللہ عھدہ ام تقولون علی اللہ مالا تعلمون۔ (البقرہ) تب تو خلاف ورزی نہ کرے گا اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کی یا (یونہی) بہتان باندھتے ہو اللہ پر جو تم جانتے ہی نہیں) پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو جھوٹا ثابت کیا اور فرمایا : بلیٰ من کسب سیئۃً واحاطت بہ خطیئتہ فاولئک اصحب النار ھم فیھا خلدون۔ والذین امنوا وعملوا الصلحت اولئک اصحب الجنۃ ھم فیھا خلدون۔ (البقرہ) ہاں (ہمارا قانون یہ ہے) جس نے جان بوجھ کر برائی کی اور گھیر لیا اس کو اس کی خطا نے تو وہی دوزخی ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں اور جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے وہی جنتی ہیں وہ اس جنت میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ دوزخ اور جنت میں خلودکفر اور ایمان کے اعتبار سے ہے نہ کہ اس اعتبار سے جو انہوں نے کہا۔
Top