Dure-Mansoor - Al-Baqara : 79
فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ یَكْتُبُوْنَ الْكِتٰبَ بِاَیْدِیْهِمْ١ۗ ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ هٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ لِیَشْتَرُوْا بِهٖ ثَمَنًا قَلِیْلًا١ؕ فَوَیْلٌ لَّهُمْ مِّمَّا كَتَبَتْ اَیْدِیْهِمْ وَ وَیْلٌ لَّهُمْ مِّمَّا یَكْسِبُوْنَ
فَوَيْلٌ : سو خرابی ہے لِلَّذِیْنَ : ان کے لیے يَكْتُبُوْنَ : لکھتے ہیں الْكِتَابَ : کتاب بِاَيْدِيهِمْ : اپنے ہاتھوں سے ثُمَّ : پھر يَقُوْلُوْنَ : کہتے ہیں هٰذَا : یہ مِنْ : سے عِنْدِ اللہِ : اللہ کے پاس لِيَشْتَرُوْا : تاکہ وہ حاصل کریں بِهٖ : اس سے ثَمَنًا : قیمت قَلِیْلًا : تھوڑی فَوَيْلٌ : سوخرابی لَهُمْ : ان کے لئے مِمَّا : اس سے کَتَبَتْ : جو لکھا اَيْدِيهِمْ : ان کے ہاتھ وَوَيْلٌ : اور خرابی لَهُمْ : ان کے لئے مِمَّا : اس سے جو يَكْسِبُوْنَ : وہ کماتے ہیں
سو بڑی خرابی ہے ان لوگوں کے لئے جو کتاب کو لکھتے ہیں اپنے ہاتھوں سے پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اس کے ذریعہ خرید لیں تھوڑی سی قیمت، سو بڑی ہلاکت ہے ان کے لئے بوجہ اس کے جو ان کے ہاتھوں نے لکھا ہے اور بڑی ہلاکت ہے ان کے لئے اس کی وجہ سے جسے وہ کسب کرتے ہیں
(1) وکیع، ابن المنذر اور نسائی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فویل للذین یکتبون الکتب بایدیھم “ اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی۔ (2) احمد، ہناد اور ابن سیرین نے الزہد میں عبد بن حمید ترمذی ابن ابی الدنیا فی صفۃ النار ابو یعلی، ابن جریر، ابن ابی حاتم طبرانی، ابن حبان حاکم، ابن مردویہ بیہقی نے البحث میں حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ” ویل “ جہنم میں ایک وادی ہے جس میں کافر چالیس سال تک اس کی تہہ تک پہنچنے سے پہلے گرتا رہے گا۔ (3) ابن جریر نے حضرت عثمان بن عفان ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا لفظ آیت ” فویل لہم مما کتبت ایدیہم “ میں ” ویل “ جہنم میں ایک پہاڑ ہے اور یہ آیت یہود کے بارے میں نازل ہوئی کیوں کہ انہوں نے تورات میں تحریف کی جو انہوں نے پسند کیا اس میں زیادہ کردیا اور جو وہ ناپسند کرتے تھے اس کو مٹا دیتے تھے اور انہوں نے محمد ﷺ کا نام مبارک بھی اس میں سے مٹا دیا۔ (4) ابن حجر نے سعد بن وقاص ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جہنم میں ایک پتھر ہے جس کو ایل کہا جاتا ہے اس پر قوم کے سربراہ لوگ چڑھیں گے اور اس سے اتریں گے۔ (5) امام حربی نے اپنے فوائد میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ مجھ کو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” ویحک عائشہ “ افسوس ہے تجھ پر اے عائشہ ! تو میں اس سے گھبرا گئی پھر آپ نے مجھ سے فرمایا حمیرا ! بلاشبہ ویحک یاویلک رحمت ہے تو اس سے مت گھبرا لیکن تو ویل (یعنی ہلاکت) سے ڈر۔ (6) ابو نعیم نے دلائل النبوۃ میں حضرت علی ؓ ابن ابی طالب سے روایت کیا کہ الوتح اور الویل دو دروازے ہیں سو ویح رحمت کا دروازہ ہے اور ویل عذاب کا دروازہ ہے۔ (7) سعید بن منصور، ابن المنذر، طبرانی اور بیہقی نے البعث میں حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ ویل جہنم میں ایک وادی ہے جس میں جہنم والوں کی پیپ بہتی ہے۔ ویل جہنم کی ایک وادی ہے (8) عبد بن حمید، ابن ابی حاتم نے نعمان بن بشیر سے روایت کیا ہے کہ ویل جہنم میں ایک کشادہ وادی ہے۔ (9) ابن المبارک عن ابن جریر، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے عطاء بن یسار سے روایت کیا ہے کہ ویل جہنم میں ایسی وادی ہے کہ جس میں اگر پہاڑ چلا دئیے جائیں تو وہ بھی گرمی کی شدت سے پگھل جائیں۔ (10) ھناد فی الذہد، عبد ابن حمید، ابن جریر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ ویل جہنم کی تہہ میں بہنے والی پیپ ہے۔ اور دوسرے لفظ میں ویل جہنم میں ایک وادی ہے جس میں (دوزخیوں کا) پیپ ہوگا۔ (11) ابن ابی حاتم نے عمر مولی عفراہ سے روایت کیا ہے کہ جب تو اللہ تعالیٰ کو ” ویل “ فرماتے ہوئے سنے (ان کی کتاب میں) تو وہ آگ ہے۔ (12) ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” فویل للذین یکتبون الکتب “ (الآیہ) یہود کے وہ علماء مراد ہیں جنہوں نے نبی اکرم ﷺ کی صفات میں لکھا ہوا پایا کہ آپ سرمگین آنکھوں والے، گول چہرے والے گنگھریالے بالوں والے اور خوبصورت چہرے والے ہوں گے۔ جب انہوں نے ان (صفات) کو تورات میں پایا تو حسد اور سرکشی کی وجہ سے اس کو مٹا دیا۔ ان کے پاس قریش کی ایک جماعت آئی اور کہنے لگی کہ کیا تم تورات میں نبی امی کو پاتے ہو ؟ یہود کے علماء نے کہا کیوں نہیں ہم نے ان کو لمبے قد والے، نیلی آنکھوں والے اور سیدھے بالوں والے (لکھا ہوا) پایا ہے تو اس پر قریش نے انکار کردیا اور کہنے لگے کہ یہ ہم میں سے نہیں ہے۔ (13) امام بیہقی نے دلائل میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا فرماتے ہیں کہ تورات میں اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کی صفات کو بیان فرمایا جب رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو یہود کے علماء نے ان پر حسد کرتے ہوئے ان کی صفات کو اپنی کتاب میں تبدیل کردیا اور کہنے لگے کہ ان کی صفات کو ہم اپنے ہاں نہیں پاتے اور اپنے نچلے طبقہ کے لوگوں سے کہنے لگے کہ اس نبی کی یہ صفات نہیں ہیں کہ وہ اس طرح اور اس طرح (چیزوں کو) حرام کر دے گا جیسا کہ انہوں نے اس کو خود لکھا دیا تھا۔ اور جیسی صفات بیان کی گئی تھیں۔ ان کو بدل دیا جس سے لوگ شبہ میں پڑگئے اور یہود کے علماء نے اس لئے یہ حرکت کی تھی کہ انہیں یہ جاہل اور زیر اثر لوگ ان کو تورات کی حفاظت کی وجہ سے نذرانے پیش کرتے تھے۔ اور وہ لوگ اس بات سے ڈرتے تھے کہ یہ جاہل لوگ ایمان نہ لے آئیں تاکہ ان کی نذرانے بند نہ ہوجائیں۔ (14) امام عبد الرزاق نے المصنف میں بخاری، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے شعب الایمان حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ اے مسلمانوں کی جماعت تم کسی طرح اہل کتاب سے کسی چیز کے بارے میں سوال کرتے ہو اور تمہاری کتاب وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ پر نازل فرمایا اس نے اللہ تعالیٰ کے متعلق بڑی واضح اور غیر مبہم باتیں بتائی ہیں جن میں کسی قسم کا التباس نہیں ہے۔ اور تحقیق اللہ تعالیٰ نے تم کو بتادیا کہ اہل کتاب نے اللہ کی کتاب کو بدل دیا اور اس میں تبدیلی کی ہے اور اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھ کر کہنے لگے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اس کے ذریعہ پیسے وصول کریں کیا تم کو اس بات سے اس علم نے نہیں روکا جو تمہارے پاس آچکا ہے ان کے مسائل کے بارے میں اور اللہ کی قسم میں نے یہود میں سے کسی ایک کو بھی تم سے اس کتاب کے بارے میں پوچھتے ہوئے نہیں دیکھا جو تمہاری طرف نازل ہوئی۔ (15) امام ابن ابی حاتم نے سدی سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ یہود میں سے کچھ لوگ اپنے پاس سے کتاب لکھ کر عرب لوگوں کے ہاتھ فروخت کردیتے تھے اور ان کو یہ کہتے تھے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور ان سے تھوڑی قیمت وصول کرتے تھے۔ (16) عبد الرزاق، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے کچھ لوگ کتاب کو اپنے ہاتھوں سے لکھ لیتے تھے تاکہ لوگوں سے مال کھائیں اور کہتے تھے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے حالانکہ وہ اللہ کی طرف نہ ہوتی تھی۔ (17) ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ لفظ آیت ” لیشتروا بہ ثمنا قلیلا “ سے مراد ہے دنیاکا سامان اور ” وویل لہم مما یکسبون “ سے مراد وہ چیزیں ہیں جو وہ نچلے طبقہ اور ان کے علاوہ دوسرے لوگوں سے کھاتے تھے (ان کے لیے ہلاکت ہے) ۔ (18) امام عبد الرزاق، ابن ابی داؤد (نے المصاحف میں) اور ابن ابی حاتم نے ابراہیم نخعی سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ وہ اجرت کے ساتھ مصاحف کی کتابت ناپسند کرتے ہیں۔ (19) حضرت وکیع نے اعمش سے روایت کیا ہے کہ وہ مصاحف کو اجرت پر لکھنے کو ناپسند کرتے ہیں اور اس آیت کے ساتھ تاویل کرتے تھے لفظ آیت ” فویل للذین یکتبون الکتب بایدیہم، ثم یقولون ھذا من عند اللہ “۔ (20) امام وکیع اور ابن ابی داؤد نے محمد بن سیرین سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ وہ مصاحف کو بیچنے اور خریدنے کو ناپسند کرتے تھے۔ (21) امام وکیع اور ابن ابی داؤد نے ابو الضحی سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ میں نے مصاحف کی خریدو فروخت کے بارے میں کوفہ کے تین علماء سے پوچھا عبد اللہ بن یزید خطمی۔ مسروق بن اجدع اور شریح ان میں سے ہر ایک نے کہا کہ ہم اللہ کی کتاب کے لیے پیسے نہیں لیتے۔ (22) عبد الرزاق، ابو عبید، ابن ابی داؤد نے مطرف سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ میں تستر (ایک علاقہ کا نام ہے) کی فتح میں اشعری کے ساتھ حاضر ہوا۔ ہم نے دانیال میں سوس کو پایا اور ہم نے اس کے ساتھ کتان کی دو رسیاں اور ایک تابوت کو پایا۔ جس میں اللہ کی کتاب تھی اور سب سے پہلے جس آدمی نے اس پر حملہ کیا وہ بلعنبر سے تھا جس کا نام حرقوص تھا۔ اشعری نے اس کو دونوں رسیاں اور دو سو درہم دئیے اور ہمارے ساتھ ایک نصرانی مزدور تھا جس کا نام نعیم تھا۔ اس نے کہا کہ مجھ کو یہ تابوت اور جو کچھ اس میں ہے مجھے بیچ دو ۔ انہوں نے کہا اس میں سونا یا چاندی یا للہ کی کتاب ہے ؟ اس نے کہا اگرچہ اس میں اللہ کی کتاب ہو۔ انہوں نے کتاب کے بیچنے کو ناپسند کیا تو ہم نے اس کو تابوت دو درہم میں بیچ دیا اور کتاب اللہ اس کو ہبہ کردی۔ قتادہ ؓ نے فرمایا اس وجہ سے مصاحف کی بیع کو ناپسند کیا گیا اس لئے کہ اشعری اور اس کے ساتھیوں نے اس کتاب کے بیچنے کو مکروہ قرار دیا تھا۔ (23) ابن ابی داؤد نے قتادہ کے طریق سے زرارہ سے سعید بن المسیب اور حسن سے روایت کیا ہے کہ وہ مصاحف کو بیچنا ناپسند فرماتے تھے۔ قرآن کریم کی خریدو فروخت (24) حضرت ابن ابی داؤد نے حماد بن ابو سلیمان سے روایت کیا ہے کہ ان سے مصاحف کے بیچنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ ابراہیم اس کی خریدو فروخت کو ناپسند فرماتے تھے۔ (25) امام ابن ابی داؤد نے سالم سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر جب اس شخص کے پاس آتے جو مصاحف بیچ رہا ہوتا تو آپ فرماتے کتنی بری تجارت ہے۔ (26) ابن ابی داؤد نے عبادہ بن نسی (رح) سے روایت کیا کہ حضرت عمر ؓ فرمایا کرتے تھے کہ مصاحف کو نہ بیچو نہ خرید کرو۔ (27) ابن ابی داؤد نے ابن سیرین (رح) اور ابراہیم دونوں حضرات سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ مصاحف کی خریدو فروخت کو ناپسند فرماتے تھے۔ (28) ابن ابی داؤد نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ وہ مصاحف کی خریدو فروخت کو ناپسند فرماتے تھے۔ (29) ابن ابی داؤد نے نافع کے طریق سے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ مصاحف کی خریدو فروخت پر ہاتھ ٹوٹ جائیں۔ (30) عبد الرزاق ابن ابی داؤد نے سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ مصاحف کی خریدو فروخت پر ہاتھ ٹوٹ جائیں۔ (31) ابن ابی داؤد نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ میں نے سالم بن عبد اللہ ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ مصاحف کی تجارت سب سے بری ہے۔ (32) ابن ابی داؤد نے حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ وہ مصاحف کی خریدوفروخت کو ناپسند کرتے تھے۔ (33) عبد الرزاق، ابن ابی داؤد نے عبد اللہ بن شقیق عقیلی سے روایت کیا ہے کہ وہ مصاحف کی بیع کو ناپسند فرماتے تھے اور فرماتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب مصاحف کی خریدو فروخت میں سختی سے منع کرتے تھے اور اس کو بڑا گناہ سمجھتے تھے۔ (34) ابن ابی داؤد نے سعید بن المسیب سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ وہ مصاحف کے بیچنے کو سخت ناپسند فرماتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ تو اپنے بھائی کی کتاب (خریدنے) میں مدد کر یا اس کو ہبہ کر دے۔ (35) ابن ابی داؤد نے علی بن حسین ؓ سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ مصاحف نہیں بیچے جاتے تھے اور ایک آدمی ورقہ لے کر میرے پاس آتا تھا اور کہتا کون ثواب کی خاطر مجھے یہ لکھ دے گا پھر دوسرا آدمی آتا وہ بھی لکھتا یہاں تک کہ مصحف پورا ہوجاتا۔ (36) ابن ابی داؤد، مسروق، علمقہ، عبد اللہ بن زید انصاری، شریح، عبادہ سے روایت کرتے ہیں کہ یہ حضرات مصاحف کی خریدوفروخت کو ناپسند کرتے اور کہتے تھے کہ ہم کتاب اللہ (لکھنے) پر اجرت نہیں لیتے۔ (37) ابن ابی داؤد نے ابراہیم سے اور انہوں نے اپنے اصحاب سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ یہ لوگ مصاحف کی خریدوفروخت کو ناپسند کرتے تھے۔ (38) ابو العالیہ سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ وہ مصاحف کی خریدوفروخت کو ناپسند کرتے تھے اور مزید فرمایا کہ میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ جو لوگ مصاحف کو بیچتے ہیں اس کو مارا جائے۔ (39) امام ابن ابی داؤد نے ابن سیرین سے روایت کیا ہے کہ وہ مصحف کی فروخت کو اور اجرت کے ساتھ اس کی کتابت کو ناپسند کرتے تھے۔ (40) ابن ابی داؤد نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ عطاء نے فرمایا کہ ماضی میں مصاحف نہیں بیچے جاتے تھے یہ بدعت اب شروع ہوئی ہے وہ کعبہ کے قریب مصاحف کو لے کر حجر اسود کے پاس بیٹھے رہتے تھے۔ پھر ان میں سے کوئی ایک کسی لکھنے والے آدمی سے کہتا تھا جو طواف کر رہا تھا اے فلاں آدمی ! جب تو (طواف سے) فارغ ہوجائے تو میرے پاس آکر میرے لئے مصحف لکھ دینا۔ راوی کہتے ہیں کہ وہ آدمی آکر کچھ حصے لکھ جاتا۔ اور اسی طرح کام ہوتا رہتا تھا۔ یہاں تک وہ اپنے مصحف سے فارغ ہوجاتا تھا۔ (41) ابن ابی داؤد نے عمرو بن مرہ سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں پہلے زمانے میں لوگ جمع ہو کر دوسرے کا قرآن لکھتے تھے پھر وہ اجرت پر غلاموں کو لیتے جو ان کے لیے قرآن لکھتے پھر وہ غلام مصاحف لکھ کر بیچ دیتے تھے اور سب سے پہلے غلاموں نے ہی قرآن فروخت کئے۔ (42) امام ابو عبید اور ابن ابی داؤد نے عمران بن جریر سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ میں نے ابو مچلز سے مصاحف کی خریدوفروخت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ حضرت معاویہ ؓ کے زمانے میں بیچے گئے مگر تم ان کو نہ بیچو۔ (43) ابن ابی داؤد نے محمد بن سیرین سے روایت کیا ہے کہ اللہ کی کتاب کی شان خریدو فروخت سے بلند ہے۔ (44) امام ابن سعید بن حنظلہ سے روایت کیا کہ میں طاؤس کے ساتھ چل رہا تھا کہ ہم ایسی قوم پر گزرے جو مصاحف بیچ رہے تھے تو انہوں نے (یہ دیکھ کر) ” اناللہ وانا الیہ راجعون “ پڑھا۔ ان روایات کا ذکر جن میں مصاحف کی خریدوفروخت کی اجازت دی گئی (45) امام ابن ابی داؤد نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ ان سے مصاحف کی بیع کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اس میں کچھ حرج نہیں کیونکہ وہ اپنے ہاتھوں کی محنت کی اجرت لیتے ہیں۔ (46) امام ابن ابی داؤد نے ابن الحنفیہ سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ مصاحف کی بیع کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا کہ اس میں کچھ حرج نہیں کیونکہ وہ اوراق کو بیچتے ہیں۔ (47) عبد الرزاق، ابو عبید اور ابن ابی داؤد نے شعبی (رح) سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ مصاحف کی بیع میں کچھ حرج نہیں کیونکہ وہ اللہ کی کتاب کو نہیں بیچتے بلکہ وہ کاغذ اور اپنے ہاتھوں کی محنت کو بیچتے ہیں۔ (48) ابن ابی داؤد نے جعفر سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ مصاغف کے خریدنے میں کچھ حرج نہیں اس کی کتابت پر اجرت دی گئی ہوجاتی ہے۔ (49) عبد الرزاق، ابو عبید، ابن ابی داؤد نے مطر الوراق سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ مصاحف کی بیع کے بارے میں پوچھا گیا اس امت کے بہترین افراد امام حسن اور امام شعبی (رح) اس کی بیع میں کوئی حرج نہیں دیکھتے تھے۔ (50) ابن ابی داؤد نے حمید سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ بلاشبہ حسن مصاحف کی بیع کو ناپسند فرماتے تھے۔ مطر الوراق بھی اسی مسلک پر رہے یہاں تک اس کی اجازت دے دی۔ (51) ابن ابی داؤد نے حسن سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ مصاحف کی خریدوفروخت میں کچھ حرج نہیں اور اس کے اعراب لگانے پر اجرت لینے میں بھی کچھ حرج نہیں۔ (52) ابن ابی داؤد نے حکم سے روایت کیا ہے کہ مصاحف کی خریدو فروخت میں کچھ حرج نہیں دیکھتے تھے۔ (53) ابو عبدی، ابن ابی داؤد نے ابو موسیٰ بن نافع سے روایت کیا ہے کہ مجھ سے حضرت سعید بن جبیر نے فرمایا کیا مصحف کے متعلق مجھ پر تیرا کوئی معاوضہ ہے تو اس کے بدلے سامان خریدلے۔ (54) عبد الرزاق، ابو عبید اور ابن ابی داؤد نے کئی طرق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ مصاحف کو خرید مگر اس کو نہ بیچ۔ (55) امام ابن ابی داؤد نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں مصاحف کے خریدنے میں اجازت دی گئی ہے اور اس کے بیچنے کو ناپسند کیا گیا ہے ابن ابی داؤد نے فرمایا کہ اس طرح انہوں نے اجازت دی گویا وہ اس کی سند ہے۔ (56) ابو عبید اور ابو داؤد نے حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے مصاحف کی بیع کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ اس کو خرید لو مگر بیچو نہیں۔ (57) ابن ابی داؤد نے سعید بن المسیب اور سعید بن جبیر ؓ سے بھی اسی طرح روایت کیا ہے۔ (58) عبد الرزاق نے حضرت ابن عمر ؓ سے بھی اسی طرح روایت کیا ہے۔
Top