Al-Qurtubi - Al-Baqara : 80
وَ قَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّاۤ اَیَّامًا مَّعْدُوْدَةً١ؕ قُلْ اَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللّٰهِ عَهْدًا فَلَنْ یُّخْلِفَ اللّٰهُ عَهْدَهٗۤ اَمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا لَنْ تَمَسَّنَا : ہرگز نہ چھوئے گی النَّارُ : آگ اِلَّا : سوائے اَيَّامًا : دن مَعْدُوْدَةً : چند قُلْ اَتَّخَذْتُمْ : کہ دو کیا تم نے لیا عِنْدَ اللہِ : اللہ کے پاس عَهْدًا : کوئی وعدہ فَلَنْ يُخْلِفَ اللّٰہُ : کہ ہرگز نہ خلاف کرے گا اللہ عَهْدَهُ : اپنا وعدہ اَمْ : کیا تَقُوْلُوْنَ : تم کہتے ہو عَلَى اللہِ : اللہ پر مَا لَا تَعْلَمُوْنَ : جو تم نہیں جانتے
اور کہتے ہیں کہ (دوزخ کی) آگ ہمیں چند روز کے سوا چھو ہی نہیں سکے گی، ان سے پوچھو کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے کہ خدا اپنے اقرار کے خلاف نہیں کرے گا ؟ (نہیں) بلکہ تم خدا کے بارے میں ایسی باتیں کہتے ہو جن کا تمہیں مطلق علم نہیں
آیت نمبر 80 اس میں تین مسائل ہیں۔ مسئلہ نمبر 1: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وقالوا یعنی یہود نے کہا : لن تمسنا النار الا ایاماً معدودۃً اس کے نزول کے سبب میں اختلاف ہے۔ بعض علماء نے کہا : نبی کریم ﷺ نے یہود سے پوچھا : دوزخی کون ہیں ؟ انہوں نے کہا : ہم۔ پھر تم ہمارے پیچھے آؤ گے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : تو نے جھوٹ بولا تم جانتے ہو کہ ہم تمہارے پیچھے نہیں آئیں گے۔ پس اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی (1) ۔ یہ ابن زید کا قول ہے۔ عکرمہ نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ آئے تو یہود کہتے تھے : یہ دنیا سات ہزار (سال) ہے۔ لوگوں کو دنیا کے ہر ہزار سال کے لئے آخرت کے دنوں میں سے ایک دن آگ میں عذاب دیا جائے گا یہ کل سات دن ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ یہ مجاہد کا قول ہے (2) ۔ ایک طائفہ نے کہا : یہود نے کہا : تورات میں ہے کہ جہنم کی مسافت چالیس سال ہے وہ ہر روز ایک سال کی مسافت طے کریں گے حتیٰ کہ اس مسافت کو مکمل کرلیں گے تو جہنم ختم ہوجائے گی۔ ضحاک نے حضرت ابن عباس سے یہ روایت کیا ہے (3) ۔ حضرت ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ یہود نے کہا کہ انہوں نے تورات میں یہ لکھا ہوا پایا ہے کہ جہنم کے دونوں کناروں کے درمیان چالیس سال کی مسافت ہے یہاں تک کہ لوگ زقوم کے درخت تک پہنچیں گے اور یہود نے کہا : ہمیں عذاب دیا جائے گا حتیٰ کہ ہم زقوم کے درخت تک پہنچیں گے پھر جہنم ختم ہوجائے گی۔ حضرت ابن عباس اور قتادہ سے بھی مروی ہے کہ یہود نے کہا : اللہ تعالیٰ نے قسم اٹھائی ہے کہ وہ انہیں چالیس دن آگ میں داخل کرے گا جتنے دن انہوں نے بچھڑے کی عبادت کی تھی۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو جھوٹا ثابت کیا (4) جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر 2: اس آیت میں امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب کا رد ہے جنہوں نے نبی کریم ﷺ کے ارشاد دعی الصلوۃ ایام اقرائک (5) (توا پنے حیض کے دنوں میں نماز چھوڑ دے) سے استدلال کیا ہے کہ حیض کی مدت اتنی ہے جس کو ایام حیض کہا جاتا ہے۔ اس کی کم از کم مدت تین دن ہے اور زیادہ سے زیادہ دس دن (٭) ۔ احناف کہتے ہیں : جو تین دن سے کم ہو اسے یوما اور یومین سے تعبیر کیا جاتا ہے جو دس سے زائد ہوا سے احد عشر یوماً کہا جاتا ہے اس میں ایام نہیں کہا جاتا تین سے دس تک کے اسمائے اعداد کے ساتھ ایام کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فصیام ثلثۃ ایامٍ فی الحج (البقرہ :196) پھر تین دنوں کے روزے حج میں تمتعوا فی دارکم ثلثۃ ایام (ہود :65) تم لطف اٹھا لو اپنے گھروں میں دن۔ سخرھا علیھم سبع لیالٍ (الحاقہ :7) (مسلط کردیا اسے ان پر سات راتیں) ۔ ثمنیۃ ایامٍ حسوماً (الحاقہ :7) (آٹھ دن جو جڑوں سے اکھیڑنے والی تھی) تو احناف کو کہا جائے گا اللہ تعالیٰ نے روزے کے بارے میں ایاماً معدودتٍ فرمایا اس سے پورا مہینہ مراد ہے۔ اور فرمایا لن تمسنا النار الا ایاماً معدودۃً (البقرہ :80) اس ایاماً معدودتٍ سے مراد چالیس دن ہیں اور جب ایام کسی عارض کی طرف مضاف ہوں تو اس سے تعداد کی تحدید مراد نہیں ہوتی بلکہ کہا جاتا ہے : ایام مشیک وسفرک واقامتک۔ اگرچہ تیس اور بیس دن بھی ہوں، جو عدد تو چاہے مراد لے سکتا ہے۔ شاید وہ مراد لیا جو عورت کے لئے معتاد تھا اور عورت کی عادت چھ دن یا سات دن ہوتی ہے۔ پس آپ ﷺ نے کلام اس کے مطابق فرمایا۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر 3: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : قل اتحذتم، اتخذ کے بارے میں کلام گزر چکا ہے اعادہ کی ضرورت نہیں۔ عند اللہ عھدًا کیا تم نے پہلے نیک عمل کیا ہے تم ایمان لائے تم نے اطا عت کی کہ تم آگ سے نکلنے کے مستحق ہو۔ یا تم نے اس کی وحی سے پہچانا ہے جس میں اس نے تم سے عہد کیا ہے۔ فلن یخلف اللہ عھدہ ام تقولون علی اللہ ما لا تعلمون۔ یہ توبیخ اور تقریع ہے۔
Top