Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-Baqara : 249
فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوْتُ بِالْجُنُوْدِ١ۙ قَالَ اِنَّ اللّٰهَ مُبْتَلِیْكُمْ بِنَهَرٍ١ۚ فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَیْسَ مِنِّیْ١ۚ وَ مَنْ لَّمْ یَطْعَمْهُ فَاِنَّهٗ مِنِّیْۤ اِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةًۢ بِیَدِهٖ١ۚ فَشَرِبُوْا مِنْهُ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْهُمْ١ؕ فَلَمَّا جَاوَزَهٗ هُوَ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ١ۙ قَالُوْا لَا طَاقَةَ لَنَا الْیَوْمَ بِجَالُوْتَ وَ جُنُوْدِهٖ١ؕ قَالَ الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوا اللّٰهِ١ۙ كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِیْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِیْرَةًۢ بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ
فَلَمَّا
: پھر جب
فَصَلَ
: باہر نکلا
طَالُوْتُ
: طالوت
بِالْجُنُوْدِ
: لشکر کے ساتھ
قَالَ
: اس نے کہا
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
مُبْتَلِيْكُمْ
: تمہاری آزمائش کرنے والا
بِنَهَرٍ
: ایک نہر سے
فَمَنْ
: پس جس
شَرِبَ
: پی لیا
مِنْهُ
: اس سے
فَلَيْسَ
: تو نہیں
مِنِّىْ
: مجھ سے
وَمَنْ
: اور جس
لَّمْ يَطْعَمْهُ
: اسے نہ چکھا
فَاِنَّهٗ
: تو بیشک وہ
مِنِّىْٓ
: مجھ سے
اِلَّا
: سوائے
مَنِ
: جو
اغْتَرَفَ
: چلو بھرلے
غُرْفَةً
: ایک چلو
بِيَدِهٖ
: اپنے ہاتھ سے
فَشَرِبُوْا
: پھر انہوں نے پی لیا
مِنْهُ
: اس سے
اِلَّا
: سوائے
قَلِيْلًا
: چند ایک
مِّنْهُمْ
: ان سے
فَلَمَّا
: پس جب
جَاوَزَهٗ
: اس کے پار ہوئے
ھُوَ
: وہ
وَالَّذِيْنَ
: اور وہ جو
اٰمَنُوْا
: ایمان لائے
مَعَهٗ
: اس کے ساتھ
قَالُوْا
: انہوں نے کہا
لَا طَاقَةَ
: نہیں طاقت
لَنَا
: ہمارے لیے
الْيَوْمَ
: آج
بِجَالُوْتَ
: جالوت کے ساتھ
وَجُنُوْدِهٖ
: اور اس کا لشکر
قَالَ
: کہا
الَّذِيْنَ
: جو لوگ
يَظُنُّوْنَ
: یقین رکھتے تھے
اَنَّهُمْ
: کہ وہ
مُّلٰقُوا
: ملنے والے
اللّٰهِ
: اللہ
كَمْ
: بارہا
مِّنْ
: سے
فِئَةٍ
: جماعتیں
قَلِيْلَةٍ
: چھوٹی
غَلَبَتْ
: غالب ہوئیں
فِئَةً
: جماعتیں
كَثِيْرَةً
: بڑی
بِاِذْنِ اللّٰهِ
: اللہ کے حکم سے
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
مَعَ
: ساتھ
الصّٰبِرِيْنَ
: صبر کرنے والے
غرض جب طالوت فوجیں لے کر روانہ ہوا تو اس نے (ان سے) کہا کہ خدا ایک نہر سے تمہاری آزمائش کرنے والا ہے جو شخص اس میں سے پانی پی لے گا (اس کی نسبت تصور کیا جائیگا کہ) وہ میرا نہیں اور جو نہ پئے گا وہ (سمجھا جائیگا) میرا ہے ہاں اگر کوئی ہاتھ سے چلّو بھر پانی لے لے (تو خیر جب وہ لوگ نہر پر پہنچے) تو چند شخصوں کے سوا سب نے پانی پی لیا پھر جب طالوت اور مومن لوگ جو اس کے ساتھ تھے نہر کے پار ہوگئے تو کہنے لگے کہ آج ہم میں جالوت اور اس کے لشکر سے مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں جو لوگ یقین رکھتے تھے کہ خدا کے روبرو حاضر ہونا ہے وہ کہنے لگے کہ بسا اوقات تھوڑی سی جماعت نے خدا کے حکم سے بڑی جماعت پر فتح حاصل کی ہے اور خدا استقلال رکھنے والوں کے ساتھ ہے
آیت نمبر :
249
اس میں گیارہ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (
1
) قولہ تعالیٰ (آیت) ” فلما فصل طالوت بالجنود “۔ فصل کا معنی ہے جب وہ ان کے ساتھ نکلا فصلت انشیء فانفصل یعنی میں نے شے کو کاٹا پس وہ کٹ گئی۔ حضرت وہب بن منبہ ؓ نے کہا ہے : جب طالوت روانہ ہوا تو لشکریوں نے اسے کہا : بیشک ہم سے نہیں اٹھائے جاسکتے لہذا تم اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ ہمارے لئے نہرجاری کردے تو طالوت نے انہیں کہا : بیشک اللہ تعالیٰ تمہیں ایک نہر سے آزمانے والا ہے۔ سدی کے قول کے مطابق فوجوں کی تعداد اسی ہزار تھی، اور حضرت وہب نے کہا ہے کوئی بھی اس سے پیچھے نہ رہا تھا سوائے اس کے جو صغر سنی یا کبر سنی یا مرض کی وجہ سے معذور تھا (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
334
دارالکتب العلمیہ) اور الابتلاء کا معنی الاختبار آزمائش اور امتحان ہے۔ اور النھر اور النھریہ دونوں لغتیں ہیں۔ اس کا معنی السعۃ سے ہے (یعنی وسعت خوشحالی) اور اس سے النھار بھی ہے تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔ حضرت قتادہ نے کہا : وہ نہر جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے انہیں آزمایا وہ اردن اور فلسطین کے درمیان ہے (
2
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
334
دارالکتب العلمیہ) جمہور نے بنھر کو ہا کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے، اور مجاہد اور حمید الاعرج نے بنھرہاء کے سکون کے ساتھ قرات کی ہے اور اس ابتلاء کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا امتحان لیا، پس جس کی اطاعت وپیروی پانی کو ترک کرنے میں ظاہر ہوئی تو اس کے بارے یہ معلوم ہوگا کہ وہ اس کے سوا دیگر احکام میں بھی مطیع وفرمانبردار رہے گا، اور جس پر پانی کے بارے میں اس کی خواہش اور طلب غالب رہی اور اس نے حکم کی تعمیل نہ کی تو وہ بدرجہ اولی دیگر تکالیف ومصائب میں نافرمان ہوگا۔ پس روایت ہے کہ وہ نہر پر پہنچے اس حال میں کہ پیاس انہیں لگی ہوئی تھی اور نہر کا پانی انتہائی میٹھا اور خوبصورت تھا، سو اس لئے اطاعت کرنے والوں کو چلو میں لینے کی رخصت دی گئی، تاکہ ان سے شدت پیاس کی اذیت کچھ نہ کچھ ختم ہوجائے اور اس حال میں وہ نفس کا جھگڑا ختم کرسکیں (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
334
دارالکتب العلمیہ) اور یہ بیان فرما دیا کہ زندگی کی تنگی پر صبر کرنے والوں کی احتیاط کے وقت پیاس کے ضرر اور تکلیف کو ختم کرنے کے لئے ایک چلو کافی ہو رہے گا جن کا قصد و ارادہ آسودگی اور خوشگواری نہ ہو، جیسا کہ عروہ نے کہا ہے : واحسوا قراح الماء والماء بارد : اور انہوں نے خالص پانی تھوڑا تھوڑا پلایا اور پانی ٹھنڈا تھا۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : اس معنی کے مطابق حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : حسب المرء لقیمات یقمن صلبہ (
2
) (جامع ترمذی، کتاب الزہد، جلد
2
، صفحہ
60
وزارت تعلیم، ایضا، جامع ترمذی باب ما جاء فی کراھیۃ کثرۃ الاکل، حدیث نمبر
2302
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) آدمی کے لئے چند لقمے کافی ہیں جو اس کی صلب (ریڑھ کی ہڈی مراد پشت) کو سیدھا رکھ سکیں۔ اور بعض وہ لوگ جو معانی کی گہرائی میں غور وفکر کرتے ہیں انہوں نے کہا ہے : یہ آیت ایک مثال ہے جو اللہ تعالیٰ نے دنیا کے لئے بیان فرمائی ہے، پس اللہ تعالیٰ نے دنیا کو نہر سے تشبیہ دی ہے اور اس سے پانی پینے والے کو اس سے جو دنیا کی طرف مائل ہے اور اس سے حظ وافر لینے کا طالب ہے اور پانی نہ پینے والے کو دنیا سے انحراف کرنے والے اور اس میں زہد وتقوی اختیار کرنے والے کے ساتھ تشبیہ دی ہے اور اپنے ہاتھ سے ایک چلو لینے والے کو دنیا میں بقدر حاجت لینے والے کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ تینوں احوال مختلف ہیں۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : یہ کتنی حسین تعبیر ہے اگر اس تاویل میں تحریف اور ظاہر معنی سے خروج کا اندیشہ نہ ہو لیکن اس کا صحیح معنی دوسرا ہی ہے۔ مسئلہ نمبر : (
2
) جنہوں نے یہ کہا ہے کہ طالوت نبی تھے انہوں نے اس ارشاد سے استدلال کیا ہے : (آیت) ” ان اللہ مبتلیکم “ کہ اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں اس کی طرف وحی اور الہام فرمایا اور اس نے الہام کو ان کے لئے اللہ تعالیٰ کی جانب سے آزمائش قرار دیا، اور جنہوں نے کہا وہ نبی نہ تھا انہوں نے کہا : اسے ان کے نبی حضرت شمویل (علیہ السلام) نے وحی کے سبب اس کے کی خبر دی جب طالوت نے اپنی قوم کو اس کے بارے آگاہ کیا اور بلاشبہ یہ آزمائش اس لئے آئی تاکہ صادق اور کاذب کے مابین تمیز ہو سکے۔ اور ایک قوم نے کہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابی حضرت عبداللہ بن حذافہ ؓ نے اپنے ساتھیوں کی اطاعت وپیروی کو آزمائے کے لئے انہیں آگ روشن کرنے اور پھر اس میں کود جانے کا حکم ارشاد فرمایا، لیکن اسے اس معنی پر محمول کیا گیا کہ یہ آپ کا اس امر سے ڈرانے کے لئے مزاح ہے جس کا آپ نے انہیں مکلف اور پابند بنایا تھا، اس کا تفصیلی بیان سورة النساء میں آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مسئلہ نمبر : (
3
) قولہ تعالیٰ (آیت) ” فمن شرب منہ فلیس منی “۔ یہاں شرب “ بمعنی کرع ہے (یعنی پانی پر منہ رکھ کر بلاواسطہ پانی پینا) اور فلیس منی کا معنی ہے وہ اس جنگ میں میرا ساتھی نہیں ہے اور اس نے انہیں اس جملہ کے ساتھ ایمان سے خارج نہیں کیا۔ سدی نے کہا ہے : وہ اسی ہزار تھے اور لامحالہ ان میں مومن، منافق، محنت کرنے والے اور سست سبھی تھے، اور حدیث طیبہ میں ہے :” من غشافلیس منا “۔ (
1
) (صحیح مسلم، کتاب الایمان، جلد
1
، صفحہ
70
، وزارت تعلیم) (جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں ہے) یعنی وہ ہمارے اصحاب میں سے نہیں ہے اور وہ ہمارے طریقہ اور ہماری ہدایت پر نہیں ہے، شاعر نے کہا ہے : اذاحاولت فی اسد فجورا فانی لست منک ولست منی : جب تو اخلاق میں فسق وفجور کا قصد کرے گا تو پھر میں تجھ سے نہیں ہوں اور تو مجھ سے نہیں ہے، کلام عرب میں یہ عام رائج ہے کہ جب کسی آدمی کا بیٹا اس کے اسلوب اور طریقہ کے خلاف چلے تو وہ بیٹے کو کہہ دیتا ہے : لست منی تو مجھ سے نہیں ہے۔ مسئلہ نمبر : (
4
) قولہ تعالیٰ (آیت) ” ومن لم یطعمہ فانہ منی “۔ کہا جاتا ہے : طعمت الشیء یعنی میں نے شے کو چکھا۔ اور اطعمتہ الماء یعنی میں نے اسے پانی چکھایا۔ اور یہاں ومن لم یشربہ نہیں کہا کیونکہ یہ اہل عرب کی عادت ہے کہ جب وہ کسی شے کو مکرر (دوبارہ) ذکر کریں تو وہ اسے دوسرے لفظ کے ساتھ مکرر لاتے ہیں اور لغۃ القرآن تو تمام لغات سے زیادہ فصیح ہے۔ لہذا اس میں اس کی جرح وقدح کا کوئی اعتبار نہیں جو یہ کہتا ہے : کہ طعمت الماء (میں نے پانی کھایا) نہیں جاسکتا۔ مسئلہ نمبر : (
5
) ہمارے علماء نے اس سے سد ذرائع کے قول پر استدلال کیا ہے کیونکہ ذوق (چکھنا) وہ کم سے کم شے ہے جو لفظ طعم میں داخل ہے اور جب طعم سے نہی واقع ہے تو شرب کے وقوع کا اس سے کوئی امکان نہیں ہے جو طعم سے اجتناب کرے گا، اسی مبالغہ کی خاطر کلام ومن لم یشرب منہ نہیں لائے۔ مسئلہ نمبر : (
6
) جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” ومن لم یطعمہ “ تو یہ اس پر دلیل ہے کہ پانی طعام ہے اور جب وہ طعام ہے تو پھر وہ (انسان کی زندگی) باقی رکھنے کے لئے خوراک ہے اور بدنوں کی خوراک اسی سے (حاصل ہوتی ہے) تو پھر یہ واجب ہے کہ اس میں ربا جاری ہو، ابن عربی نے کہا ہے : یہی مذہب صحیح ہے۔ (
2
) (احکام القرآن لابن العربی، جلد
1
، صفحہ :
323
، دارالفکر) ابو عمر نے بیان کیا ہے کہ امام مالک نے فرمایا : (دریا کے) کنارے پر پانی کی بیع پانی کے ساتھ کرنا متفاضل اور ایک خاص مدت تک اس میں کوئی حرج نہیں ہے، یہی امام ابوحنیفہ اور امام ابو یوسف رحمہما اللہ تعالیٰ کا قول ہے۔ اور امام محمد بن حسن نے کہا وہ اس لئے کہ ان کے نزدیک اس میں ربا ہے، کیونکہ ربا میں اس کی علت کیل اور وزن ہیں۔ اور امام شافعی نے کہا ہے : پانی کی بیع نہ متفاضلا جائز ہے اور نہ اس میں معینہ مدت کا ادھار جائز ہے، اور ربا میں اس کی علت یہ ہے کہ یہ جنس ماکول میں سے ہے۔ مسئلہ نمبر : (
7
) ابن عربی (رح) نے بیان کیا ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہنے کہا ہے : جس کسی نے کہا : اگر میرے فلاں غلام نے فرات سے پیا تو وہ آزاد ہے تو وہ آزاد نہیں ہوگا مگر یہ کہ وہ اس میں منہ لگا کر پانی پیے۔ الکرع کا معنی ہے کہ آدمی دریا سے اپنا منہ لگا کر بلاواسطہ پانی پیے، اور اگر اس نے اپنے ہاتھ سے پانی پیا یا برتن کے ساتھ اس سے پیا تو وہ آزاد نہ ہوگا، کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی نے دریا میں منہ لگا کر پانی پینے اور ہاتھ کے ساتھ پانی پینے کے درمیان فرق کیا ہے۔ (
1
) (احکام القرآن لابن العربی، جلد
1
، صفحہ :
323
، دارالفکر) فرمایا یہ فاسد ہے، کیونکہ شرب الماء کا اطلاق لغت عرب میں ہر ہئیت اور صفت پر کیا جاتا ہے، ہاتھ کے ساتھ چلو بھر کر یا منہ لگا کر پینا یہ ایک ہی ہے اور جب لغۃ اور حقیقۃ وہ شرب پایا گیا جس کی قسم کھائی گئی ہے تو وہ حانث ہوگیا، پس اسے جان لو۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کا قول زیادہ صحیح ہے، کیونکہ اہل لغت نے ان دونوں کے درمیان فرق کیا ہے جیسا کہ کتاب وسنت نے فرق بیان کیا ہے۔ جوہری وغیرہ نے کہا ہے : کرع فی الماء کروعا (کہا جاتا ہے) جب کوئی اپنے منہ کے ساتھ پانی اس کے محل سے پیے نہ وہ ہتھیلی کے ساتھ پیے اور نہ کسی برتن کے ساتھ اور اس میں دوسری لغت ہے۔ کرع یعنی را کے کسرہ کے ساتھ یکرع، کر عا اور الکرع سے مراد بارش کا پانی ہے جو منہ میں پڑتا ہے۔ اور رہی حدیث طیبہ تو ابن ماجہ نے اپنی سنن میں ذکر کیا ہے کہ واصل بن عبدالاعلی، ابن فضیل نے لیث عن سعید بن عامر عن ابن عمر ؓ کی سند سے بیان کیا ہے کہ ہم ایک تالاب کے پاس سے گزرے اور ہم اس میں منہ لگاکر پانی پینے لگے تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : تم منہ لگا کر نہ پیو بلکہ اپنے ہاتھوں کو دھو اور پھر ان سے پانی پیو کیونکہ ہاتھ سے بڑھ کر اچھا اور پاکیزہ برتن کوئی نہیں ہے (
2
) سنن ابن ماجہ کتاب الاشربہ، جلد
1
، صفحہ
253
، وزارت تعلیم، ابن ماجہ باب الشرب بالاکف والکرع، حدیث نمبر
3423
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور یہ نص ہے لیث بن ابی سلیم مسلم نے اس کی روایت نقل کی ہے اور اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
8
) قولہ تعالیٰ (آیت) ” الا من اغترف غرفۃ بیدہ “۔ الاغتراف ‘ کا ہم معنی ہے۔ اور غرفۃ غین کے فتحہ کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے اور یہ مصدر ہے اور اغترافۃ نہیں کہا، کیونکہ الغرف اور الاغتراف کا معنی ایک ہے۔ اور الغرفۃ کا معنی ہے ایک بار اور اسے غرفتہ غین کے ضمہ کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے۔ اور اس سین مراد وہ شی ہے جس کا چلو بھرا جاتا ہے اور بعض مفسرین نے کہا ہے کہ الغرفۃ ایک ہاتھ کے ساتھ چلو بھرنا اور الغرفۃ دو ہاتھوں کے ساتھ چلو بھرنا ہے۔ اور بعض نے کہا ہے : دونوں لغتیں ایک ہی معنی میں ہیں اور حضرت علی ؓ نے فرمایا : ہتھیلیاں صاف ترین برتن ہیں۔ اسی معنی میں حسن کا قول ہے : لایدلفون الی ماء بانیۃ الا اغترافا من الغدران بالزاح : الدلیف کا معنی ہے آہستہ چال۔ وہ برتن لے کر پانی کی طرف آہستہ چال نہیں چلتے مگر نہروں ہتھیلی کے ساتھ چلو بھرتے ہوئے (لیتے ہیں) میں (مفسر) کہتا ہوں : جو کوئی ان زمانوں میں بغیر شک اور ارتیاب کے خالص حلال کا ارادہ کرے تو اسے چاہیے کہ وہ چشموں اور ان دریاؤں سے جو مسخر کیے گئے ہیں اور رات دن جاری ہیں اپنی ہتھیلیوں کے ساتھ پانی پیے، اس کے سبب اللہ تعالیٰ سے نیکیاں کمانے، بوجھ اتارنے، نیکوکار ائمہ کرام کے ساتھ ملنے کا ارادہ اور نیت کرے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” جس نے اپنے ہاتھ کے ساتھ پانی پیا درآنحالیکہ وہ برتن پر قدرت رکھتا ہو (اور) اس سے وہ تواضع کا ارادہ رکھتا ہو اللہ تعالیٰ اس کے لئے اس کی انگلیوں کی تعداد کے مطابق نیکیاں لکھ دیتا ہے۔ اور یہ حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) کا برتن ہے جب انہوں نے پیالہ پھینکا تو کہا : اف یہ دنیا کے ساتھ ہے “ اسے ابن ماجہ نے حضرت ابن عمر ؓ کی حدیث سے نقل کیا ہے۔ فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے کہ ہم اپنے پیٹوں کے بل لیٹ کر پانی پئیں اور وہ منہ پانی پر رکھ کر پانی پینا ہے، اور آپ نے ہمیں منع کیا ہے کہ ہم ایک ہاتھ کے ساتھ چلو بھر کر پئیں اور فرمایا : ” تم میں سے کوئی اس طرح آواز نکال کر (پانی) نہ پیے جس طرح کتا آواز نکال کر پیتا ہے اور کوئی ایک ہاتھ کے ساتھ اس طرح نہ پیے جس طرح وہ قوم پیتی تھی جس پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوا اور کسی برتن میں رات کے وقت نہ پیے یہاں تک کہ وہ حرکت دے لے (خوب ہلالے) مگر یہ کہ برتن ڈھانپا ہوا ہو اور جس نے اپنے ہاتھ کے ساتھ پانی پیا اور وہ برتن پر قدرت رکھتا ہو (
1
) (سنن ابن ماجہ، کتاب الطب، جلد
1
، صفحہ
253
، ایضا ابن ماجہ باب الشرب والکرع، حدیث نمبر
3423
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) آگے حدیث سابقہ حدیث کی طرح ہے۔ اس کی اسناد میں بقیہ بن الولید ہے۔ ابو حاتم نے کہا ہے : اس کی حدیث لکھی جاتی ہے اور اس سے استدلال نہیں کیا جاتا اور ابو زرعہ نے کہا ہے : جب بقیہ ثقہ راویوں سے حدیث بیان کرے تو وہ ثقہ ہوتا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
9
) قولہ تعالیٰ (آیت) ” فشربوا منہ الا اقلیلا منھم “۔ حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا ہے، انہوں نے اپنے یقین کی مقدار پر پانی پیا اور کفار نے شدت پیاس کی بیماری والے کی طرح پیا اور گنہگاروں اور نافرمانوں نے اس سے تھوڑا کم پیا اور قوم سے چھہتر ہزار واپس لوٹ آئے اور بعض مومنین باقی رہ گئے اور جنہوں نے پانی چھوڑ دیا ان کی حالت اچھی رہی اور وہ ان کی نسبت زیادہ مضبوط رہے جنہوں نے چلو لے لیا تھا۔ مسئلہ نمبر : (
10
) قولہ تعالیٰ (آیت) ” فلما جاوزہ ھو “۔ اس میں ہاضمیر نہر کی طرف لوٹ رہی ہے اور ھو تاکید کے لئے ہے، (آیت) ” والذین “ یہ محل رفع میں ہے اور جاوزہ میں ضمیر فعل پر اس کا عطف ہے۔ کہا جاتا ہے : جاوزت المکان مجاوزۃ وجوازا، (میں نے مکان سے تجاوز کرلیا) اور کلام میں مجاز وہی ہے جو استعمال میں جائز ہو اور نافذ ہو اور اپنی علت پر برقرار ہو۔ حضرت ابن عباس ؓ اور سدی (رح) نے کہا ہے : اس (طالوت) کے ساتھ نہر کو چار ہزار آدمیوں نے عبور کیا، ان میں وہ بھی تھے جنہوں نے پانی پیا۔ پس جب انہوں نے جالوت اور اس کے لشکروں کی طرف دیکھا، ان کی تعداد ایک لاکھ تھی، تمام کے تمام ہتھیاروں کی شکایت کرنے لگے اور ان میں سے تین ہزار چھ سو اسی سے کچھ زائد واپس لوٹ گئے (
2
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
336
دارالکتب العلمیہ) پس اس قول کی بنا پر کہا کہ وہ مومنین جنہیں اس وقت دوباہ اٹھائے جانے اور اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹنے کا ایقان حاصل تھا ان کی تعداد اہل بدر کے برابر تھی، (آیت) ” کم من فئۃ قلیلۃ غلبت فئۃ کثیرۃ باذن اللہ “۔ اکثر مفسرین نے اس پر کہا ہے کہ اس کے ساتھ نہر کو عبور انہوں نے کیا جنہوں نے بالکل پانی نہ پیا اور بعض نے کہا : دشمن کی اتنی کثرت کے باوجود ہم ان کا مقابلہ کیسے کرسکتے ہیں تو ان میں سے جو صاحب عزم وہمت تھے۔ انہوں نے کہا : (آیت) ’ ’ کم من فئۃ قلیلۃ غلبت فئۃ کثیرۃ باذن اللہ “ ترجمہ : اللہ کے اذن سے بارہا چھوٹی جماعتیں بڑی جماعتوں پر غالب آئی ہیں۔ حضرت براء بن عازب ؓ نے بیان کیا ہے : ہم گفتگو کرتے رہتے تھے کہ اہل بدر کی تعداد ان اصحاب طالوت کی تعداد کی مثل تھی جنہوں نے اس کے ساتھ نہر کو عبور کیا وہ تین سو دس سے کچھ زائد آدمی تھے اور ایک روایت میں ہے : تین سو دس سے کچھ زائد آدمی تھے اور ایک روایت میں ہے تین سو تیرہ آدمی اور اس کے ساتھ صرف مومنین نے اسے عبور کیا تھا۔ (
1
) (صحیح بخاری باب : عدۃ اصحاب بدر، حدیث نمبر :
3663
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) مسئلہ نمبر : (
11
) قولہ تعالیٰ (آیت) ” قال الذین یظنوں یہاں ظن بمعنی یقین ہے۔ اور یہ بھی جائز ہے کہ یہ بمعنی شک ہو یقین نہ ہو، یعنی ان لوگون نے کہا جو وہم رکھتے تھے کہ انہیں طالوت کے ساتھ قتل کردیا جائے گا اور وہ شہداء بن کر اللہ تعالیٰ سے ملاقات کریں گے، پس قتل میں شک پڑگیا۔ قولہ تعالیٰ (آیت) ’ ’ کم من فئۃ قلیلۃ غلبت فئۃ کثیرۃ باذن اللہ “ الفئۃ کا معنی ہے لوگوں کی ایک جماعت اور ان کا ایک گروہ، یہ فاوت راسہ بالسیف اور فایتہ سے ماخوذ ہے یعنی میں نے اس کا سر تلوار سے کاٹ دیا، اور ان (صحابہ کرام) رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے قول میں ہے : (آیت) ’ ’ کم من فئۃ قلیلۃ “۔ الآیہ۔ یہ قتال پر انگیخت دلانا ہے اور صبر کا شعور بیدار کرنا ہے اور انکی اقتدا اور پیروی کرنا ہے جنہوں نے اپنے رب کی تصدیق کی۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : اسی طرح کرنا ہم پر بھی واجب ہے لیکن اعمال قبیحہ اور نیات فاسدہ اس سے مانع ہیں، یہاں تک کہ ہم میں سے بڑی تعداد دشمن کی قلیل تعداد کے سامنے شکست خوردہ ہوجاتی ہے جیسا کہ ہم نے کئی بار اس کا مشاہدہ کیا ہے اور ایسا ہمارے اپنے اعمال کے سبب ہے۔ اور بخاری میں ہے : حضرت ابوالدرداء ؓ نے فرمایا : بلاشبہ تم اپنے اعمال کے ساتھ جنگ لڑتے ہو، اور اس میں مسند روایت بھی ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” تمہارے ضعفاء کے سبب تمہیں رزق دیا جاتا ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے (
2
) (صحیح بخاری، کتاب الجہاد جلد
1
، صفحہ
405
، وزارت تعلیم) پس اعمال فاسد ہوچکے ہیں، ضعفاء مہمل ہوگئے ہیں، صبر قلیل ہے، اعتماد ضعیف اور کمزور اور کمزور ہوچکا ہے اور تقوی زائل ہوگیا ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : (آیت) ” اصبروا وصابروا و رابطو، واتقواللہ “۔ (ال عمران :
200
) ترجمہ : صبر کرو اور ثابت قدم رہو (دشمن کے مقابلہ میں) اور کمر بستہ رہو، (خدمت دین کے لئے) ہمیشہ اسی اللہ سے ڈرتے رہو) ۔ اور مزید فرمایا : (آیت) ” وعلی اللہ فتوکلوا “۔ (اور اللہ تعالیٰ پر ہی بھروسہ کرو) اور مزید فرمایا : (آیت) ” ان اللہ مع الذین اتقوا والذین ھم محسنون “۔ (النحل) ترجمہ : یقینا اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہے جو (اس سے) ڈرتے ہیں اور جو نیک کاموں میں سرگرم رہتے ہیں) مزید فرمایا : (آیت) ” ولینصرن اللہ من ینصرہ “۔ (الحج :
40
) ترجمہ : اور اللہ تعالیٰ ضرور مدد فرمائے گا اس کی جو اس (کے دین) کی مدد کرے گا) مزید فرمایا : (آیت) ” اذا لقیتم فئۃ فاثبتوا واذکروا اللہ کثیرا لعلکم تفلحون “۔ (الانفال) ترجمہ : جب جنگ آزما ہو کسی لشکر سے تو ثابت قدم رہو اور ذکر کرو اللہ تعالیٰ کا کثرت سے تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ) پس یہی نصرت کے اسباب ہیں اور اس کی شرائط ہیں اور یہ ہمارے پاس معدوم ہیں، ہم میں موجود نہیں ہے۔ پس (آیت) ” انا للہ وانا الیہ رجعون “۔ اس پر جو مصیبت اور آفت ہم پر آئے اور ہم میں اترے بلکہ اسلام میں سے سوائے اس کے ذکر کے کوئی شے باقی نہیں رہی اور نہ ہی دین میں سے سوائے اس کی رسم کے کچھ باقی رہا ہے اور یہ فساد کے ظہور، رعونت وسرکشی کی کثرت اور ہدایت و راہنمائی کی قلت کے سبب ہے، یہاں تک کہ دشمن شرق وغرب اور بحر وبر میں غالب آچکا ہے، فتنے عام ہوگئے ہیں، آزمائشیں بڑھ گئی ہیں اور کوئی بچانے والا نہیں ہے مگر وہی جو رحم فرمانے والا ہے۔
Top