Al-Qurtubi - Al-Baqara : 249
فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوْتُ بِالْجُنُوْدِ١ۙ قَالَ اِنَّ اللّٰهَ مُبْتَلِیْكُمْ بِنَهَرٍ١ۚ فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَیْسَ مِنِّیْ١ۚ وَ مَنْ لَّمْ یَطْعَمْهُ فَاِنَّهٗ مِنِّیْۤ اِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةًۢ بِیَدِهٖ١ۚ فَشَرِبُوْا مِنْهُ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْهُمْ١ؕ فَلَمَّا جَاوَزَهٗ هُوَ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ١ۙ قَالُوْا لَا طَاقَةَ لَنَا الْیَوْمَ بِجَالُوْتَ وَ جُنُوْدِهٖ١ؕ قَالَ الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوا اللّٰهِ١ۙ كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِیْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِیْرَةًۢ بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ
فَلَمَّا : پھر جب فَصَلَ : باہر نکلا طَالُوْتُ : طالوت بِالْجُنُوْدِ : لشکر کے ساتھ قَالَ : اس نے کہا اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ مُبْتَلِيْكُمْ : تمہاری آزمائش کرنے والا بِنَهَرٍ : ایک نہر سے فَمَنْ : پس جس شَرِبَ : پی لیا مِنْهُ : اس سے فَلَيْسَ : تو نہیں مِنِّىْ : مجھ سے وَمَنْ : اور جس لَّمْ يَطْعَمْهُ : اسے نہ چکھا فَاِنَّهٗ : تو بیشک وہ مِنِّىْٓ : مجھ سے اِلَّا : سوائے مَنِ : جو اغْتَرَفَ : چلو بھرلے غُرْفَةً : ایک چلو بِيَدِهٖ : اپنے ہاتھ سے فَشَرِبُوْا : پھر انہوں نے پی لیا مِنْهُ : اس سے اِلَّا : سوائے قَلِيْلًا : چند ایک مِّنْهُمْ : ان سے فَلَمَّا : پس جب جَاوَزَهٗ : اس کے پار ہوئے ھُوَ : وہ وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے مَعَهٗ : اس کے ساتھ قَالُوْا : انہوں نے کہا لَا طَاقَةَ : نہیں طاقت لَنَا : ہمارے لیے الْيَوْمَ : آج بِجَالُوْتَ : جالوت کے ساتھ وَجُنُوْدِهٖ : اور اس کا لشکر قَالَ : کہا الَّذِيْنَ : جو لوگ يَظُنُّوْنَ : یقین رکھتے تھے اَنَّهُمْ : کہ وہ مُّلٰقُوا : ملنے والے اللّٰهِ : اللہ كَمْ : بارہا مِّنْ : سے فِئَةٍ : جماعتیں قَلِيْلَةٍ : چھوٹی غَلَبَتْ : غالب ہوئیں فِئَةً : جماعتیں كَثِيْرَةً : بڑی بِاِذْنِ اللّٰهِ : اللہ کے حکم سے وَاللّٰهُ : اور اللہ مَعَ : ساتھ الصّٰبِرِيْنَ : صبر کرنے والے
غرض جب طالوت فوجیں لے کر روانہ ہوا تو اس نے (ان سے) کہا کہ خدا ایک نہر سے تمہاری آزمائش کرنے والا ہے جو شخص اس میں سے پانی پی لے گا (اس کی نسبت تصور کیا جائیگا کہ) وہ میرا نہیں اور جو نہ پئے گا وہ (سمجھا جائیگا) میرا ہے ہاں اگر کوئی ہاتھ سے چلّو بھر پانی لے لے (تو خیر جب وہ لوگ نہر پر پہنچے) تو چند شخصوں کے سوا سب نے پانی پی لیا پھر جب طالوت اور مومن لوگ جو اس کے ساتھ تھے نہر کے پار ہوگئے تو کہنے لگے کہ آج ہم میں جالوت اور اس کے لشکر سے مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں جو لوگ یقین رکھتے تھے کہ خدا کے روبرو حاضر ہونا ہے وہ کہنے لگے کہ بسا اوقات تھوڑی سی جماعت نے خدا کے حکم سے بڑی جماعت پر فتح حاصل کی ہے اور خدا استقلال رکھنے والوں کے ساتھ ہے
آیت نمبر : 249 اس میں گیارہ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) قولہ تعالیٰ (آیت) ” فلما فصل طالوت بالجنود “۔ فصل کا معنی ہے جب وہ ان کے ساتھ نکلا فصلت انشیء فانفصل یعنی میں نے شے کو کاٹا پس وہ کٹ گئی۔ حضرت وہب بن منبہ ؓ نے کہا ہے : جب طالوت روانہ ہوا تو لشکریوں نے اسے کہا : بیشک ہم سے نہیں اٹھائے جاسکتے لہذا تم اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ ہمارے لئے نہرجاری کردے تو طالوت نے انہیں کہا : بیشک اللہ تعالیٰ تمہیں ایک نہر سے آزمانے والا ہے۔ سدی کے قول کے مطابق فوجوں کی تعداد اسی ہزار تھی، اور حضرت وہب نے کہا ہے کوئی بھی اس سے پیچھے نہ رہا تھا سوائے اس کے جو صغر سنی یا کبر سنی یا مرض کی وجہ سے معذور تھا (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 334 دارالکتب العلمیہ) اور الابتلاء کا معنی الاختبار آزمائش اور امتحان ہے۔ اور النھر اور النھریہ دونوں لغتیں ہیں۔ اس کا معنی السعۃ سے ہے (یعنی وسعت خوشحالی) اور اس سے النھار بھی ہے تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔ حضرت قتادہ نے کہا : وہ نہر جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے انہیں آزمایا وہ اردن اور فلسطین کے درمیان ہے (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 334 دارالکتب العلمیہ) جمہور نے بنھر کو ہا کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے، اور مجاہد اور حمید الاعرج نے بنھرہاء کے سکون کے ساتھ قرات کی ہے اور اس ابتلاء کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا امتحان لیا، پس جس کی اطاعت وپیروی پانی کو ترک کرنے میں ظاہر ہوئی تو اس کے بارے یہ معلوم ہوگا کہ وہ اس کے سوا دیگر احکام میں بھی مطیع وفرمانبردار رہے گا، اور جس پر پانی کے بارے میں اس کی خواہش اور طلب غالب رہی اور اس نے حکم کی تعمیل نہ کی تو وہ بدرجہ اولی دیگر تکالیف ومصائب میں نافرمان ہوگا۔ پس روایت ہے کہ وہ نہر پر پہنچے اس حال میں کہ پیاس انہیں لگی ہوئی تھی اور نہر کا پانی انتہائی میٹھا اور خوبصورت تھا، سو اس لئے اطاعت کرنے والوں کو چلو میں لینے کی رخصت دی گئی، تاکہ ان سے شدت پیاس کی اذیت کچھ نہ کچھ ختم ہوجائے اور اس حال میں وہ نفس کا جھگڑا ختم کرسکیں (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 334 دارالکتب العلمیہ) اور یہ بیان فرما دیا کہ زندگی کی تنگی پر صبر کرنے والوں کی احتیاط کے وقت پیاس کے ضرر اور تکلیف کو ختم کرنے کے لئے ایک چلو کافی ہو رہے گا جن کا قصد و ارادہ آسودگی اور خوشگواری نہ ہو، جیسا کہ عروہ نے کہا ہے : واحسوا قراح الماء والماء بارد : اور انہوں نے خالص پانی تھوڑا تھوڑا پلایا اور پانی ٹھنڈا تھا۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : اس معنی کے مطابق حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : حسب المرء لقیمات یقمن صلبہ (2) (جامع ترمذی، کتاب الزہد، جلد 2، صفحہ 60 وزارت تعلیم، ایضا، جامع ترمذی باب ما جاء فی کراھیۃ کثرۃ الاکل، حدیث نمبر 2302، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) آدمی کے لئے چند لقمے کافی ہیں جو اس کی صلب (ریڑھ کی ہڈی مراد پشت) کو سیدھا رکھ سکیں۔ اور بعض وہ لوگ جو معانی کی گہرائی میں غور وفکر کرتے ہیں انہوں نے کہا ہے : یہ آیت ایک مثال ہے جو اللہ تعالیٰ نے دنیا کے لئے بیان فرمائی ہے، پس اللہ تعالیٰ نے دنیا کو نہر سے تشبیہ دی ہے اور اس سے پانی پینے والے کو اس سے جو دنیا کی طرف مائل ہے اور اس سے حظ وافر لینے کا طالب ہے اور پانی نہ پینے والے کو دنیا سے انحراف کرنے والے اور اس میں زہد وتقوی اختیار کرنے والے کے ساتھ تشبیہ دی ہے اور اپنے ہاتھ سے ایک چلو لینے والے کو دنیا میں بقدر حاجت لینے والے کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ تینوں احوال مختلف ہیں۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : یہ کتنی حسین تعبیر ہے اگر اس تاویل میں تحریف اور ظاہر معنی سے خروج کا اندیشہ نہ ہو لیکن اس کا صحیح معنی دوسرا ہی ہے۔ مسئلہ نمبر : (2) جنہوں نے یہ کہا ہے کہ طالوت نبی تھے انہوں نے اس ارشاد سے استدلال کیا ہے : (آیت) ” ان اللہ مبتلیکم “ کہ اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں اس کی طرف وحی اور الہام فرمایا اور اس نے الہام کو ان کے لئے اللہ تعالیٰ کی جانب سے آزمائش قرار دیا، اور جنہوں نے کہا وہ نبی نہ تھا انہوں نے کہا : اسے ان کے نبی حضرت شمویل (علیہ السلام) نے وحی کے سبب اس کے کی خبر دی جب طالوت نے اپنی قوم کو اس کے بارے آگاہ کیا اور بلاشبہ یہ آزمائش اس لئے آئی تاکہ صادق اور کاذب کے مابین تمیز ہو سکے۔ اور ایک قوم نے کہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابی حضرت عبداللہ بن حذافہ ؓ نے اپنے ساتھیوں کی اطاعت وپیروی کو آزمائے کے لئے انہیں آگ روشن کرنے اور پھر اس میں کود جانے کا حکم ارشاد فرمایا، لیکن اسے اس معنی پر محمول کیا گیا کہ یہ آپ کا اس امر سے ڈرانے کے لئے مزاح ہے جس کا آپ نے انہیں مکلف اور پابند بنایا تھا، اس کا تفصیلی بیان سورة النساء میں آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مسئلہ نمبر : (3) قولہ تعالیٰ (آیت) ” فمن شرب منہ فلیس منی “۔ یہاں شرب “ بمعنی کرع ہے (یعنی پانی پر منہ رکھ کر بلاواسطہ پانی پینا) اور فلیس منی کا معنی ہے وہ اس جنگ میں میرا ساتھی نہیں ہے اور اس نے انہیں اس جملہ کے ساتھ ایمان سے خارج نہیں کیا۔ سدی نے کہا ہے : وہ اسی ہزار تھے اور لامحالہ ان میں مومن، منافق، محنت کرنے والے اور سست سبھی تھے، اور حدیث طیبہ میں ہے :” من غشافلیس منا “۔ (1) (صحیح مسلم، کتاب الایمان، جلد 1، صفحہ 70، وزارت تعلیم) (جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں ہے) یعنی وہ ہمارے اصحاب میں سے نہیں ہے اور وہ ہمارے طریقہ اور ہماری ہدایت پر نہیں ہے، شاعر نے کہا ہے : اذاحاولت فی اسد فجورا فانی لست منک ولست منی : جب تو اخلاق میں فسق وفجور کا قصد کرے گا تو پھر میں تجھ سے نہیں ہوں اور تو مجھ سے نہیں ہے، کلام عرب میں یہ عام رائج ہے کہ جب کسی آدمی کا بیٹا اس کے اسلوب اور طریقہ کے خلاف چلے تو وہ بیٹے کو کہہ دیتا ہے : لست منی تو مجھ سے نہیں ہے۔ مسئلہ نمبر : (4) قولہ تعالیٰ (آیت) ” ومن لم یطعمہ فانہ منی “۔ کہا جاتا ہے : طعمت الشیء یعنی میں نے شے کو چکھا۔ اور اطعمتہ الماء یعنی میں نے اسے پانی چکھایا۔ اور یہاں ومن لم یشربہ نہیں کہا کیونکہ یہ اہل عرب کی عادت ہے کہ جب وہ کسی شے کو مکرر (دوبارہ) ذکر کریں تو وہ اسے دوسرے لفظ کے ساتھ مکرر لاتے ہیں اور لغۃ القرآن تو تمام لغات سے زیادہ فصیح ہے۔ لہذا اس میں اس کی جرح وقدح کا کوئی اعتبار نہیں جو یہ کہتا ہے : کہ طعمت الماء (میں نے پانی کھایا) نہیں جاسکتا۔ مسئلہ نمبر : (5) ہمارے علماء نے اس سے سد ذرائع کے قول پر استدلال کیا ہے کیونکہ ذوق (چکھنا) وہ کم سے کم شے ہے جو لفظ طعم میں داخل ہے اور جب طعم سے نہی واقع ہے تو شرب کے وقوع کا اس سے کوئی امکان نہیں ہے جو طعم سے اجتناب کرے گا، اسی مبالغہ کی خاطر کلام ومن لم یشرب منہ نہیں لائے۔ مسئلہ نمبر : (6) جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” ومن لم یطعمہ “ تو یہ اس پر دلیل ہے کہ پانی طعام ہے اور جب وہ طعام ہے تو پھر وہ (انسان کی زندگی) باقی رکھنے کے لئے خوراک ہے اور بدنوں کی خوراک اسی سے (حاصل ہوتی ہے) تو پھر یہ واجب ہے کہ اس میں ربا جاری ہو، ابن عربی نے کہا ہے : یہی مذہب صحیح ہے۔ (2) (احکام القرآن لابن العربی، جلد 1، صفحہ : 323، دارالفکر) ابو عمر نے بیان کیا ہے کہ امام مالک نے فرمایا : (دریا کے) کنارے پر پانی کی بیع پانی کے ساتھ کرنا متفاضل اور ایک خاص مدت تک اس میں کوئی حرج نہیں ہے، یہی امام ابوحنیفہ اور امام ابو یوسف رحمہما اللہ تعالیٰ کا قول ہے۔ اور امام محمد بن حسن نے کہا وہ اس لئے کہ ان کے نزدیک اس میں ربا ہے، کیونکہ ربا میں اس کی علت کیل اور وزن ہیں۔ اور امام شافعی نے کہا ہے : پانی کی بیع نہ متفاضلا جائز ہے اور نہ اس میں معینہ مدت کا ادھار جائز ہے، اور ربا میں اس کی علت یہ ہے کہ یہ جنس ماکول میں سے ہے۔ مسئلہ نمبر : (7) ابن عربی (رح) نے بیان کیا ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہنے کہا ہے : جس کسی نے کہا : اگر میرے فلاں غلام نے فرات سے پیا تو وہ آزاد ہے تو وہ آزاد نہیں ہوگا مگر یہ کہ وہ اس میں منہ لگا کر پانی پیے۔ الکرع کا معنی ہے کہ آدمی دریا سے اپنا منہ لگا کر بلاواسطہ پانی پیے، اور اگر اس نے اپنے ہاتھ سے پانی پیا یا برتن کے ساتھ اس سے پیا تو وہ آزاد نہ ہوگا، کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی نے دریا میں منہ لگا کر پانی پینے اور ہاتھ کے ساتھ پانی پینے کے درمیان فرق کیا ہے۔ (1) (احکام القرآن لابن العربی، جلد 1، صفحہ : 323، دارالفکر) فرمایا یہ فاسد ہے، کیونکہ شرب الماء کا اطلاق لغت عرب میں ہر ہئیت اور صفت پر کیا جاتا ہے، ہاتھ کے ساتھ چلو بھر کر یا منہ لگا کر پینا یہ ایک ہی ہے اور جب لغۃ اور حقیقۃ وہ شرب پایا گیا جس کی قسم کھائی گئی ہے تو وہ حانث ہوگیا، پس اسے جان لو۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کا قول زیادہ صحیح ہے، کیونکہ اہل لغت نے ان دونوں کے درمیان فرق کیا ہے جیسا کہ کتاب وسنت نے فرق بیان کیا ہے۔ جوہری وغیرہ نے کہا ہے : کرع فی الماء کروعا (کہا جاتا ہے) جب کوئی اپنے منہ کے ساتھ پانی اس کے محل سے پیے نہ وہ ہتھیلی کے ساتھ پیے اور نہ کسی برتن کے ساتھ اور اس میں دوسری لغت ہے۔ کرع یعنی را کے کسرہ کے ساتھ یکرع، کر عا اور الکرع سے مراد بارش کا پانی ہے جو منہ میں پڑتا ہے۔ اور رہی حدیث طیبہ تو ابن ماجہ نے اپنی سنن میں ذکر کیا ہے کہ واصل بن عبدالاعلی، ابن فضیل نے لیث عن سعید بن عامر عن ابن عمر ؓ کی سند سے بیان کیا ہے کہ ہم ایک تالاب کے پاس سے گزرے اور ہم اس میں منہ لگاکر پانی پینے لگے تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : تم منہ لگا کر نہ پیو بلکہ اپنے ہاتھوں کو دھو اور پھر ان سے پانی پیو کیونکہ ہاتھ سے بڑھ کر اچھا اور پاکیزہ برتن کوئی نہیں ہے (2) سنن ابن ماجہ کتاب الاشربہ، جلد 1، صفحہ 253، وزارت تعلیم، ابن ماجہ باب الشرب بالاکف والکرع، حدیث نمبر 3423، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور یہ نص ہے لیث بن ابی سلیم مسلم نے اس کی روایت نقل کی ہے اور اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (8) قولہ تعالیٰ (آیت) ” الا من اغترف غرفۃ بیدہ “۔ الاغتراف ‘ کا ہم معنی ہے۔ اور غرفۃ غین کے فتحہ کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے اور یہ مصدر ہے اور اغترافۃ نہیں کہا، کیونکہ الغرف اور الاغتراف کا معنی ایک ہے۔ اور الغرفۃ کا معنی ہے ایک بار اور اسے غرفتہ غین کے ضمہ کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے۔ اور اس سین مراد وہ شی ہے جس کا چلو بھرا جاتا ہے اور بعض مفسرین نے کہا ہے کہ الغرفۃ ایک ہاتھ کے ساتھ چلو بھرنا اور الغرفۃ دو ہاتھوں کے ساتھ چلو بھرنا ہے۔ اور بعض نے کہا ہے : دونوں لغتیں ایک ہی معنی میں ہیں اور حضرت علی ؓ نے فرمایا : ہتھیلیاں صاف ترین برتن ہیں۔ اسی معنی میں حسن کا قول ہے : لایدلفون الی ماء بانیۃ الا اغترافا من الغدران بالزاح : الدلیف کا معنی ہے آہستہ چال۔ وہ برتن لے کر پانی کی طرف آہستہ چال نہیں چلتے مگر نہروں ہتھیلی کے ساتھ چلو بھرتے ہوئے (لیتے ہیں) میں (مفسر) کہتا ہوں : جو کوئی ان زمانوں میں بغیر شک اور ارتیاب کے خالص حلال کا ارادہ کرے تو اسے چاہیے کہ وہ چشموں اور ان دریاؤں سے جو مسخر کیے گئے ہیں اور رات دن جاری ہیں اپنی ہتھیلیوں کے ساتھ پانی پیے، اس کے سبب اللہ تعالیٰ سے نیکیاں کمانے، بوجھ اتارنے، نیکوکار ائمہ کرام کے ساتھ ملنے کا ارادہ اور نیت کرے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” جس نے اپنے ہاتھ کے ساتھ پانی پیا درآنحالیکہ وہ برتن پر قدرت رکھتا ہو (اور) اس سے وہ تواضع کا ارادہ رکھتا ہو اللہ تعالیٰ اس کے لئے اس کی انگلیوں کی تعداد کے مطابق نیکیاں لکھ دیتا ہے۔ اور یہ حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) کا برتن ہے جب انہوں نے پیالہ پھینکا تو کہا : اف یہ دنیا کے ساتھ ہے “ اسے ابن ماجہ نے حضرت ابن عمر ؓ کی حدیث سے نقل کیا ہے۔ فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے کہ ہم اپنے پیٹوں کے بل لیٹ کر پانی پئیں اور وہ منہ پانی پر رکھ کر پانی پینا ہے، اور آپ نے ہمیں منع کیا ہے کہ ہم ایک ہاتھ کے ساتھ چلو بھر کر پئیں اور فرمایا : ” تم میں سے کوئی اس طرح آواز نکال کر (پانی) نہ پیے جس طرح کتا آواز نکال کر پیتا ہے اور کوئی ایک ہاتھ کے ساتھ اس طرح نہ پیے جس طرح وہ قوم پیتی تھی جس پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوا اور کسی برتن میں رات کے وقت نہ پیے یہاں تک کہ وہ حرکت دے لے (خوب ہلالے) مگر یہ کہ برتن ڈھانپا ہوا ہو اور جس نے اپنے ہاتھ کے ساتھ پانی پیا اور وہ برتن پر قدرت رکھتا ہو (1) (سنن ابن ماجہ، کتاب الطب، جلد 1، صفحہ 253، ایضا ابن ماجہ باب الشرب والکرع، حدیث نمبر 3423، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) آگے حدیث سابقہ حدیث کی طرح ہے۔ اس کی اسناد میں بقیہ بن الولید ہے۔ ابو حاتم نے کہا ہے : اس کی حدیث لکھی جاتی ہے اور اس سے استدلال نہیں کیا جاتا اور ابو زرعہ نے کہا ہے : جب بقیہ ثقہ راویوں سے حدیث بیان کرے تو وہ ثقہ ہوتا ہے۔ مسئلہ نمبر : (9) قولہ تعالیٰ (آیت) ” فشربوا منہ الا اقلیلا منھم “۔ حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا ہے، انہوں نے اپنے یقین کی مقدار پر پانی پیا اور کفار نے شدت پیاس کی بیماری والے کی طرح پیا اور گنہگاروں اور نافرمانوں نے اس سے تھوڑا کم پیا اور قوم سے چھہتر ہزار واپس لوٹ آئے اور بعض مومنین باقی رہ گئے اور جنہوں نے پانی چھوڑ دیا ان کی حالت اچھی رہی اور وہ ان کی نسبت زیادہ مضبوط رہے جنہوں نے چلو لے لیا تھا۔ مسئلہ نمبر : (10) قولہ تعالیٰ (آیت) ” فلما جاوزہ ھو “۔ اس میں ہاضمیر نہر کی طرف لوٹ رہی ہے اور ھو تاکید کے لئے ہے، (آیت) ” والذین “ یہ محل رفع میں ہے اور جاوزہ میں ضمیر فعل پر اس کا عطف ہے۔ کہا جاتا ہے : جاوزت المکان مجاوزۃ وجوازا، (میں نے مکان سے تجاوز کرلیا) اور کلام میں مجاز وہی ہے جو استعمال میں جائز ہو اور نافذ ہو اور اپنی علت پر برقرار ہو۔ حضرت ابن عباس ؓ اور سدی (رح) نے کہا ہے : اس (طالوت) کے ساتھ نہر کو چار ہزار آدمیوں نے عبور کیا، ان میں وہ بھی تھے جنہوں نے پانی پیا۔ پس جب انہوں نے جالوت اور اس کے لشکروں کی طرف دیکھا، ان کی تعداد ایک لاکھ تھی، تمام کے تمام ہتھیاروں کی شکایت کرنے لگے اور ان میں سے تین ہزار چھ سو اسی سے کچھ زائد واپس لوٹ گئے (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 336 دارالکتب العلمیہ) پس اس قول کی بنا پر کہا کہ وہ مومنین جنہیں اس وقت دوباہ اٹھائے جانے اور اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹنے کا ایقان حاصل تھا ان کی تعداد اہل بدر کے برابر تھی، (آیت) ” کم من فئۃ قلیلۃ غلبت فئۃ کثیرۃ باذن اللہ “۔ اکثر مفسرین نے اس پر کہا ہے کہ اس کے ساتھ نہر کو عبور انہوں نے کیا جنہوں نے بالکل پانی نہ پیا اور بعض نے کہا : دشمن کی اتنی کثرت کے باوجود ہم ان کا مقابلہ کیسے کرسکتے ہیں تو ان میں سے جو صاحب عزم وہمت تھے۔ انہوں نے کہا : (آیت) ’ ’ کم من فئۃ قلیلۃ غلبت فئۃ کثیرۃ باذن اللہ “ ترجمہ : اللہ کے اذن سے بارہا چھوٹی جماعتیں بڑی جماعتوں پر غالب آئی ہیں۔ حضرت براء بن عازب ؓ نے بیان کیا ہے : ہم گفتگو کرتے رہتے تھے کہ اہل بدر کی تعداد ان اصحاب طالوت کی تعداد کی مثل تھی جنہوں نے اس کے ساتھ نہر کو عبور کیا وہ تین سو دس سے کچھ زائد آدمی تھے اور ایک روایت میں ہے : تین سو دس سے کچھ زائد آدمی تھے اور ایک روایت میں ہے تین سو تیرہ آدمی اور اس کے ساتھ صرف مومنین نے اسے عبور کیا تھا۔ (1) (صحیح بخاری باب : عدۃ اصحاب بدر، حدیث نمبر : 3663، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) مسئلہ نمبر : (11) قولہ تعالیٰ (آیت) ” قال الذین یظنوں یہاں ظن بمعنی یقین ہے۔ اور یہ بھی جائز ہے کہ یہ بمعنی شک ہو یقین نہ ہو، یعنی ان لوگون نے کہا جو وہم رکھتے تھے کہ انہیں طالوت کے ساتھ قتل کردیا جائے گا اور وہ شہداء بن کر اللہ تعالیٰ سے ملاقات کریں گے، پس قتل میں شک پڑگیا۔ قولہ تعالیٰ (آیت) ’ ’ کم من فئۃ قلیلۃ غلبت فئۃ کثیرۃ باذن اللہ “ الفئۃ کا معنی ہے لوگوں کی ایک جماعت اور ان کا ایک گروہ، یہ فاوت راسہ بالسیف اور فایتہ سے ماخوذ ہے یعنی میں نے اس کا سر تلوار سے کاٹ دیا، اور ان (صحابہ کرام) رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے قول میں ہے : (آیت) ’ ’ کم من فئۃ قلیلۃ “۔ الآیہ۔ یہ قتال پر انگیخت دلانا ہے اور صبر کا شعور بیدار کرنا ہے اور انکی اقتدا اور پیروی کرنا ہے جنہوں نے اپنے رب کی تصدیق کی۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : اسی طرح کرنا ہم پر بھی واجب ہے لیکن اعمال قبیحہ اور نیات فاسدہ اس سے مانع ہیں، یہاں تک کہ ہم میں سے بڑی تعداد دشمن کی قلیل تعداد کے سامنے شکست خوردہ ہوجاتی ہے جیسا کہ ہم نے کئی بار اس کا مشاہدہ کیا ہے اور ایسا ہمارے اپنے اعمال کے سبب ہے۔ اور بخاری میں ہے : حضرت ابوالدرداء ؓ نے فرمایا : بلاشبہ تم اپنے اعمال کے ساتھ جنگ لڑتے ہو، اور اس میں مسند روایت بھی ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” تمہارے ضعفاء کے سبب تمہیں رزق دیا جاتا ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے (2) (صحیح بخاری، کتاب الجہاد جلد 1، صفحہ 405، وزارت تعلیم) پس اعمال فاسد ہوچکے ہیں، ضعفاء مہمل ہوگئے ہیں، صبر قلیل ہے، اعتماد ضعیف اور کمزور اور کمزور ہوچکا ہے اور تقوی زائل ہوگیا ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : (آیت) ” اصبروا وصابروا و رابطو، واتقواللہ “۔ (ال عمران : 200) ترجمہ : صبر کرو اور ثابت قدم رہو (دشمن کے مقابلہ میں) اور کمر بستہ رہو، (خدمت دین کے لئے) ہمیشہ اسی اللہ سے ڈرتے رہو) ۔ اور مزید فرمایا : (آیت) ” وعلی اللہ فتوکلوا “۔ (اور اللہ تعالیٰ پر ہی بھروسہ کرو) اور مزید فرمایا : (آیت) ” ان اللہ مع الذین اتقوا والذین ھم محسنون “۔ (النحل) ترجمہ : یقینا اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہے جو (اس سے) ڈرتے ہیں اور جو نیک کاموں میں سرگرم رہتے ہیں) مزید فرمایا : (آیت) ” ولینصرن اللہ من ینصرہ “۔ (الحج : 40) ترجمہ : اور اللہ تعالیٰ ضرور مدد فرمائے گا اس کی جو اس (کے دین) کی مدد کرے گا) مزید فرمایا : (آیت) ” اذا لقیتم فئۃ فاثبتوا واذکروا اللہ کثیرا لعلکم تفلحون “۔ (الانفال) ترجمہ : جب جنگ آزما ہو کسی لشکر سے تو ثابت قدم رہو اور ذکر کرو اللہ تعالیٰ کا کثرت سے تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ) پس یہی نصرت کے اسباب ہیں اور اس کی شرائط ہیں اور یہ ہمارے پاس معدوم ہیں، ہم میں موجود نہیں ہے۔ پس (آیت) ” انا للہ وانا الیہ رجعون “۔ اس پر جو مصیبت اور آفت ہم پر آئے اور ہم میں اترے بلکہ اسلام میں سے سوائے اس کے ذکر کے کوئی شے باقی نہیں رہی اور نہ ہی دین میں سے سوائے اس کی رسم کے کچھ باقی رہا ہے اور یہ فساد کے ظہور، رعونت وسرکشی کی کثرت اور ہدایت و راہنمائی کی قلت کے سبب ہے، یہاں تک کہ دشمن شرق وغرب اور بحر وبر میں غالب آچکا ہے، فتنے عام ہوگئے ہیں، آزمائشیں بڑھ گئی ہیں اور کوئی بچانے والا نہیں ہے مگر وہی جو رحم فرمانے والا ہے۔
Top