Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Asrar-ut-Tanzil - Al-Baqara : 249
فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوْتُ بِالْجُنُوْدِ١ۙ قَالَ اِنَّ اللّٰهَ مُبْتَلِیْكُمْ بِنَهَرٍ١ۚ فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَیْسَ مِنِّیْ١ۚ وَ مَنْ لَّمْ یَطْعَمْهُ فَاِنَّهٗ مِنِّیْۤ اِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةًۢ بِیَدِهٖ١ۚ فَشَرِبُوْا مِنْهُ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْهُمْ١ؕ فَلَمَّا جَاوَزَهٗ هُوَ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ١ۙ قَالُوْا لَا طَاقَةَ لَنَا الْیَوْمَ بِجَالُوْتَ وَ جُنُوْدِهٖ١ؕ قَالَ الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوا اللّٰهِ١ۙ كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِیْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِیْرَةًۢ بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ
فَلَمَّا
: پھر جب
فَصَلَ
: باہر نکلا
طَالُوْتُ
: طالوت
بِالْجُنُوْدِ
: لشکر کے ساتھ
قَالَ
: اس نے کہا
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
مُبْتَلِيْكُمْ
: تمہاری آزمائش کرنے والا
بِنَهَرٍ
: ایک نہر سے
فَمَنْ
: پس جس
شَرِبَ
: پی لیا
مِنْهُ
: اس سے
فَلَيْسَ
: تو نہیں
مِنِّىْ
: مجھ سے
وَمَنْ
: اور جس
لَّمْ يَطْعَمْهُ
: اسے نہ چکھا
فَاِنَّهٗ
: تو بیشک وہ
مِنِّىْٓ
: مجھ سے
اِلَّا
: سوائے
مَنِ
: جو
اغْتَرَفَ
: چلو بھرلے
غُرْفَةً
: ایک چلو
بِيَدِهٖ
: اپنے ہاتھ سے
فَشَرِبُوْا
: پھر انہوں نے پی لیا
مِنْهُ
: اس سے
اِلَّا
: سوائے
قَلِيْلًا
: چند ایک
مِّنْهُمْ
: ان سے
فَلَمَّا
: پس جب
جَاوَزَهٗ
: اس کے پار ہوئے
ھُوَ
: وہ
وَالَّذِيْنَ
: اور وہ جو
اٰمَنُوْا
: ایمان لائے
مَعَهٗ
: اس کے ساتھ
قَالُوْا
: انہوں نے کہا
لَا طَاقَةَ
: نہیں طاقت
لَنَا
: ہمارے لیے
الْيَوْمَ
: آج
بِجَالُوْتَ
: جالوت کے ساتھ
وَجُنُوْدِهٖ
: اور اس کا لشکر
قَالَ
: کہا
الَّذِيْنَ
: جو لوگ
يَظُنُّوْنَ
: یقین رکھتے تھے
اَنَّهُمْ
: کہ وہ
مُّلٰقُوا
: ملنے والے
اللّٰهِ
: اللہ
كَمْ
: بارہا
مِّنْ
: سے
فِئَةٍ
: جماعتیں
قَلِيْلَةٍ
: چھوٹی
غَلَبَتْ
: غالب ہوئیں
فِئَةً
: جماعتیں
كَثِيْرَةً
: بڑی
بِاِذْنِ اللّٰهِ
: اللہ کے حکم سے
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
مَعَ
: ساتھ
الصّٰبِرِيْنَ
: صبر کرنے والے
پھر جب طالوت لشکروں کو لے کر چلے تو فرمایا بیشک اللہ تم کو نہر سے آزمائیں گے پھر جو اس میں سے پی لے گا تو وہ میرے ساتھیوں میں نہیں اور جو کوئی اسے نہیں چکھے گا تو وہ میرا ساتھی ہوگا سوائے اس کے کوئی اپنے ہاتھ سے چلو بھر لے پھر ان میں سے سوائے تھوڑے لوگوں کے (سب نے) اس سے پی لیا پھر جب وہ (طالوت) اور ایمان والے لوگ جو ان کے ساتھ تھے اس کے پار اترے تو وہ کہتے لگے کہ آج ہم میں جالوت اور اس کے لشکرکے ساتھ لڑنے کی طاقت نہیں۔ جو اللہ سے ملاقات پر یقین رکھتے تھے انہوں نے کہا کتنی ہی تھوڑی جماعتوں نے اللہ کے حکم سے بڑی جماعتوں پر غلبہ پایا اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہیں
آیات 249- 253 اسرارو معارف فلما فصل طالوت………………لمن المرسلین۔ اب جہاد کی تیاری شروع ہوئی اور حضرت طالوت لشکر کو لے کر چلے تو فرمایا اللہ نے تمہارا امتحان مقرر کیا ہے کہ راستے میں نہر پڑتی ہے لیکن اس سے پانی پینے کی اجازت نہیں ہاں اگر کوئی چلو بھر کر پی لے تو اجازت ہے۔ اب سفر اور گرمی کے مارے ہوئے لوگ صبر نہ کرسکے سوائے ایک محدود تعداد کے جن کے ایمان مضبوط تھے۔ جس نے پیٹ بھر کر پانی پیا وہ چلنے کے قابل ہی نہ رہا اور نہ اس کی پیاس ہی بجھ سکی۔ جنہوں نے چند گھونٹ لئے پیاس بھی بجھ گئی اور جہاد کی فضیلت بھی نصیب ہوئی۔ مگر جب جالوت کے لشکر کا سامنا ہوا تو یہ تعداد میں بہت کم تھے کچھ لوگ گھبراگئے کہ اتنے بڑے لشکر کا مقابلہ کییس کرسکیں گے۔ جالوت عمالقہ کے حکمران کا نا م تھا جو بہت خود سر اور سخت مزاج تھا اور ایک بڑا لشکر اس کے پاس تھا۔ مگر ان میں بھی جو اخص الخواص اور اکمل تھے کہنے لگے۔ کہ فتح وشکست اللہ کے ہاتھ ہے کتنی کم تعداد جماعتوں کے حالات تاریخ میں محفوظ ہیں جو اپنے سے بڑے لشکروں پر فتحیاب ہوئیں۔ لوگ تین طرح کے ہوتے ہیں ۔ ناقص ، جو پانی پر بھی صبر نہ کرسکے اور پیچھے رہ گئے ، کامل جو دنیاوی نعمتوں پر صبر کرتے ہوئے آگے بڑھے اور اکمل جو ان کے لئے بھی ثابت قدمی کا سبب بنے۔ جب جالوت کے لشکر کے مقابل ہوئے تو اللہ سے دعا کی کہ ہمیں ثابت قدم رکھ اور ہمارے دلوں پر اپنی طرف سے صبر اور استقامت کی قوت نازل فرما ! نیز ہمیں کفار پر فتح دے اور یہی توکل ہے کہ اللہ سے دعا بھی کرے ، اسباب ظاہر ی پوری کوشش سے اختیار کرے اور پھر نتیجہ اللہ کے سپرد کردے جو اللہ کی طرف سے ہو اس پر راضی رہے۔ چنانچہ حضرت دائو د (علیہ السلام) نے ، جو اس وقت نو عمر تھے اور کمزور اور زرد رو تھے اللہ کے حکم سے جالوت کو قتل کرکے اس کا غرور خاک میں ملادیا۔ طالوت نے انہیں بیٹی کا رشتہ بھی دیا اور پھر سلطنت بھی انہی کو منتقل ہوگئی اور اللہ نے نبوت سے سرفراز فرما دیا اور جس قدر حاصل کرتے اور حکومت اللہ کے لئے کرتے تھے تمام جانوروں کی زبان سمجھتے تھے۔ اللہ نے زبان میں سوزرکھا پہاڑ اور درخت ان کے ساتھ مل کر ذکر کرتے تھے جسے ذکر حال نہ سمجھا جائے کہ وہ تو ہر شے اللہ کا ذ کہ ہمہ وقت کررہی ہے۔ حضرت دائود (علیہ السلام) کی خصوصیت تو یہ تھی کہ پہاڑ اور چٹانیں زبان قال سے ان کے ساتھ مل کر اللہ کا ذکر کیا کرتی تھیں۔ اللہ ہمیشہ بدی کا نیکی سے اور بدکاروں کا نیکوکاروں سے رد فرماتے رہتے ہیں یہ بھی اللہ کا بہت بڑا احسان ہے اور جہان والوں پر کرم اور اللہ تو ہے عالمین پر کرم فرمانے والا۔ یہ سب احوال اللہ کی طرف سے آپ ﷺ پر بیان ہوتے ہیں اور بالکل درست اور صحیح۔ جبکہ آپ ﷺ نے نہ کسی سے پڑھا ، نہ سنا۔ تو یہ آپ ﷺ کی رسالت کی بھی بہت بڑی دلیل ہے جہاں ان میں ترغیب وترہیب ہے وہاں ان کا بیان آپ ﷺ کا ایک بہت بڑا معجزہ بھی ہے اور آپ ﷺ کی بعثت کے بعد نوع انسانی کو آپ ﷺ کی اطاعت یا پھر اللہ کی گرفت ، دو میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ تلک الرسل فضلنا بعضھم علی بعض…………ولکن اللہ یفعل مارید۔ پارہ دوم نبی کریم ﷺ کی رسالت ونبوت کے اثبات کے موضوع پر ختم ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے گزشتہ امتوں اور انبیاء (علیہ السلام) کے احوال اس صحت کے ساتھ بیان کرنا حضور ﷺ کی نبوت کی دلیل قرار دیا۔ کہ آپ ﷺ نے نہ کسی مکتب ومدرسہ میں تعلیم حاصل کی ، نہ کسی راہب وعالم سے کچھ سیکھا ، نہ آپ ﷺ نے کسی قصہ گو کی مجلس اختیار فرمائی اور نہ عوامی میلوں میں کبھی شرکت فرمائی بلکہ ایسے معاشرے میں جس میں تعلیم و تعلم کا سرے سے کوئی اہتمام ہی نہیں ، بحالت یتیمی پرورش پائی اور پھر آپ ﷺ کا بچپن بھی سادگی ، سنجیدگی وصداقت ، شرم وحیا اور تنہائی کے لمحات پر محیط ہے ایسے شخص کا جس کی عمر عزیز چالیس سال سے متجاوز ہورہی ہے اور یہ چالیس برس صداقتوں کے سنگ میل ہیں اعلان فرمانا کہ اللہ نے مجھ پر وحی نازل فرمائی ہے سراسر حق ہے کہ جس ہستی نے اتنی عمر میں کسی انسان پر بھی جھوٹ نہ بولا ہو ، وہ یکایک اللہ پر کیسے جھوٹ بول سکتا ہے اور پھر اس کے ساتھ وہ حقائق پوری صحت کے ساتھ بیان فرمانا جنہیں سابقہ امتوں کے علماء بھی صحت کے ساتھ بیان نہیں کرسکتے بیشک آپ ﷺ کی رسالت کی دلیل ہے۔ اس کے بعد انبیاء ورسل ﷺ کی فضیلت اور ان کا اعلیٰ مقام اور ان کی عظمت ارشاد فرما کر پھر آپ ﷺ کی عظمت کو جملہ انبیاء ورسل پر ارشاد فرمایا : یہ اللہ کے رسولوں کی مقدس جماعت ہے۔ رسالت بجائے خود بہت بڑا مرتبہ ہے کہ نبی یا رسول ہی ایک ایسا فرد ہوتا ہے جو براہ راست ذات باری سے اخذ فیض کرتا ہے باقی مخلوق اس استعداد سے محروم ہے اور ساری مخلوق کے لئے انتہائی کمال یہ ہے کہ اپنے نبی یا رسول سے ایسی نسبت حاصل ہوجائے کہ وہ اس کی وساطت سے فیوضات باری پاسکے۔ انبیاء ورسل معصوم عن الخطا ہوتے ہیں کہ براہ راست ذات باری سے حصول فیض کے لئے عصمت شرط ہے اس لئے اگر کسی نے حضور ﷺ کے بعد بھی کسی انسان کو معصوم مانا تو گویا وہ آپ ﷺ کے بعد اجرائے نبوت کا قائل ہے اور یہ کفر ہے کیونکہ نبوت و رسالت آپ ﷺ کی ذات والا صفات پر ختم ہے۔ اب قیامت تک یہی امت ہے یہی کتاب اور یہی دین رہے گا حتیٰ کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی اپنے نزول کے بعد اپنی کتاب یا شریعت پر عمل نہ فرمائیں گے بلکہ خود شریعت محمدی ﷺ کے تابع ہوں گے اور لوگوں کو بھی اس کی تعلیم وتلقین فرمائیں گے۔ انبیاء ورسل اگرچہ نبوت میں سب شریک ہیں مگر عنداللہ قرب میں اور آخرت کے ثواب میں اپنے اپنے مدارج ہیں جس میں بعض کو بعض پر فضیلت حاصل ہے۔ حدیث شریف میں وارد ہے کہ انبیاء کے درمیان تفصیل نہ کیا کرو۔ اس کے مختلف جوابات دیئے گئے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ یہ کام اپنی رائے سے مت کرو ، کسی انسان کے بس کا نہیں۔ ہاں ! اگر کتاب اللہ یا حدیث پاک سے ثابت ہو تو پھر اس پر ایمان رکھنا ہوگا۔ دوسری بات یہ ہے کہ وصف نبوت میں سب برابر ہیں۔ فرق صرف مراتب قرب الٰہی میں ہے جو صرف اللہ تعالیٰ ارشاد فرماسکتا ہے یا اللہ کے حکم سے اللہ کا رسول بتا سکتا ہے۔ اہل اللہ کی باہم دگر فضیلت : نیز ایسی فضیلت کسی حال نہ دی جائے جس میں دوسرے نبی کی کسر شان ہو کر سب اعلیٰ اور اچھے ہیں پھر بعض اچھوں میں بھی بہت اچھے ہیں اور یہی طریقہ اہل اللہ کی ذوات سے بھی روارکھنا چاہیے کہ ولایت کا تعلق بندے اور اللہ کے بین ہے۔ اللہ ہی جانے کہ کون زیادہ مقبول ہے ، ہاں حالات وواقعات بیان کرنے میں حرج نہیں مگر اس احتیاط سے کہ کسی ایک کے ذکر سے دوسرے ولی اللہ کی توہین کا پہلو نہ نکلتا ہو۔ اب بعض فضائل کا ذکر ہے کہ کوئی براہ راست اللہ سے ہمکلام ہوا ، کسی کو اس سے بھی زیادہ مراتب نصیب ہوئے ، جیسے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو بغیر وحی کے واسطے کے اللہ سے شرف ہمکلامی نصیب ہوا۔ اللہ جس کو نبوت کے لئے چن لیتا ہے اسے عصمت عطا فرماتا ہے نوع انسانی سے ہونا جملہ انسانی حاجات و ضروریات کے ساتھ ، اور زندگی کے جملہ تقاضوں کو مختلف بھلے برے معاشرے میں رہ کر پورا کرنا اور پھر ایسی دیانت ، امانت ، صداقت اور شرافت سے پورا کرنا کہ زندگی بھر کبھی گناہ یا معصیت سرزد نہ ہو۔ معصوم عن الخطا ہے۔ یہ صرف اور صرف نبی کا شان اور مقام ہے غیر نبی کو نصیب نہیں۔ یہ رفعت انہیں حاصل ہے جن پر وحی نازل ہوئی۔ اب جس ہستی کو وحی کے بغیر براہ راست اللہ سے شرف ہمکلامی نصیب ہوا اس کی شان کتنی بلند اور اس کی پاکیزگی ونفاست کس قدر اعلیٰ وارفع ہوگی ، سبحان اللہ !۔ فرمایا بعض کے درجات اس سے بھی بہت بلند ہیں جس سے مفسرین کرام کے نزدیک آقائے نامدار ﷺ کی ذات گرامی مراد ہے کہ وہاں رف ہمکلامی ہے مگر بلا حجاب نہیں اور پھر زمین ہی کے ایک حصہ پر یہ دولت نصیب ہوتی ہے مگر آپائے نامدار ﷺ آسمانوں سے اوپر تشریف لے گئے۔ کروڑوں ، اربوں حجابات سے بالا ، جہاں شرف ہمکلامی سے مشرف ہوئے کہ ارشاد ہوتا ہے۔ فاوحی الی عبدہ ما اوحی۔ جب یہ کلام ہورہا تھا تو حامل وحی سدرۃ المنتہیٰ پہ منتظر تھے جو بہت نیچے ساتویں آسمان کے آخر پہ ایک مقام ہے اور حضور ﷺ اس سے بہت اوپر ، بہت آگے جہاں اللہ نے چاہا تشریف رکھتے تھے پھر تجلیات باری سے بھی سیراب ہو رہے تھے کہ یہاں طور پر دیدار جمال کا تقاضا ہوا تو فرمایا لن ترانی کہ برداشت نہ کر پائو گے اور پھر واقعی جب کوئی ذرہ تجلی ذاتی کا جلوہ گر ہوا تو نہ طور برداشت کرپایا اور نہ اللہ کا رسول ہوش میں رہا۔ یہاں بھی علمائے کرام کی دو آراء ہیں بعض کے نزدیک دیدار باری نہیں ہو اور بعض کے نزدیک ہوا۔ کہ نہ ہونا تو دنیا میں ہے ، دنیا اور یہاں کی زندگی میں انسانی قوت برداشت ایسی نہیں کہ دیدار کرسکے۔ مگر آخرت میں نگاہ اور دل دونوں کو وہ قوت عطا ہوگی کہ مومن اپنے رب کا دیدار کرسکیں گے اور یہ بات تو بالائے عرش کی ہے۔ دیدار باری : جب وجود مادی جو مادہ سے صورت پذیر ہے مگر اس قدر شفاف ، اس قدر پاکیزہ ، اس قدر لطائف سے پر ہے کہ بالائے عرش جہاں پہنچنے کو روحیں ترستی ہیں وہاں تشریف لے جاسکتا ہے وہاں جب جنت و دوزخ کا ملاحظہ فرمای جانا مذکور ہے براہ راست ہم کلام ہونا مذکور ہے تو دیدار سے مشرف ہونے میں کوئی شے مانع نہیں بلکہ اللہ کا یہ فرمان ماذاغ البصر وما طغیٰ بجائے خوددیدار باری کی دلیل ہے کہ اگر جمال باری کا دیدار نہیں ہوا تو پھر آنکھ کس چیز سے نہیں بھٹکی۔ میری ناقص رائے میں سب سے قریب تر جو ذاتی تجلی تھی وہ صرف حضور ﷺ نے ملاحظہ فرمائی اور دیدار باری سے مراد بھی یہی ہے کہ تجلیات ذاتی کا دیدار ہوا ورنہ ذات باری تو مخلوق کی رسائی سے بالاتر ہے۔ اگر کوئی ایک آنکھ ہی سہی جب وہ اللہ کو سما سکے تو وجود باری محدود قرار پائے گا۔ جو باطل ہے اللہ حدود سے بالاتر ہے۔ اس کے دیدار سے مراد قریب ترین ذاتی تجلی جہاں تک مخلوق کی رسائی ہوسکی وہ حضور ﷺ نے مشاہدہ فرمائی یہ تجلی نہ عین ذات ہے اور نہ ذات سے جدا ہے اور اس کی فضیلت میں بھی بدستور ترقی ہوتی رہے گی اور قریب سے قریب تر تجلیات کا دیدار نصیب ہوگا کہ دیدار باری کے مختلف مدارج بلحاظ افراد کے ہوں گے ، بلحاظ مقامات کے ہوں گے اور بلحاظ اوقات کے ہوں گے جیسا کہ جنت میں سب جنتی دیدار باری سے ضرور مشرف ہوں گے مگر اپنے اپنے درجے کے مطابق۔ ایسے ہی بلحاظ فرد اور بلحاظ مقام سب پر آقائے نامدار ﷺ کی ذات گرامی کو فضیلت حاصل ہے۔ ایسے ہی عیسیٰ (علیہ السلام) کو معجزات عطا فرمائے کہ بیماروں کو اچھا کرنا ، مادر زادہ اندھوں کو بینا کرنا اور کوڑھ کے مریضوں کو تندرست کردینا ، مٹی کا پرندہ بناکر اس میں دم کرنا اور اس کا زندہ ہونا ، مردوں کو زندہ کرنا آپ کے معجزات میں سے تھا ، اور آپ پر آسمان سے خون اتارا گیا تھا۔ نیز یہود سے حفاظت کے لئے روح القدس یعنی جبرائیل امین (علیہ السلام) آپ کے ساتھ رہتے تھے ۔ یہ سب اللہ کے انعامات تھے ، ان کی صداقت اور حقانیت کا ثبوت تھے۔ نہ یہ کہ یہود نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تو مانا مگر عیسیٰ (علیہ السلام) کی توہین پہ اترآئے اور عیسائی حضرات نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا بنادیا۔ یہ دونوں نظرئیے باطل قرار پائے اور کمالات موسوی نیز کمالات ان حضرات (علیہ السلام) کی نبوت کا ثبوت اور اللہ کے انعامات ہیں۔ ان کے ارشادات اور ان کی تعلیمات پہ عمل ہی کا نام ان سے نسبت ہے۔ مشرکین عرت کے ساتھ یہود ونصاریٰ ہی دو قومیں تھیں جو اپنی مذہبی حیثیت منوانے پہ مصر تھیں اور خود کو حق پر کہتی تھیں۔ انبیاء کے فضائل کے ضمن میں یہ بات بھی واضح ہوگئی۔ انبیاء سابقہ کی تعلیمات میں بھی یہ بات موجود تھی کہ بعثت محمدی ﷺ کے بعد صرف حضور ﷺ کا اتباع ضروری ہوگا۔ اب ہر شخص کا معاملہ اللہ سے ہے اور جیسا اس کا تعلق ہوتا ہے ویسے اللہ نتائج مرتب کرتا ہے وہ قادر ہے چاہتا تو سب کو بچا لیتا اور ایسی عظیم ہستیوں کی بعثت کے بعد اور اس قدر روشن دلائل کے بعد گمراہ نہ ہوتے۔ نہ ایک دوسرے کا گلا کاٹتے اور نہ فساد بپا کرتے۔ لیکن یہ سب کچھ ہوا کہ اللہ کی حکمت نے انہیں اپنی راہ پسند کرنے کا اختیار بخشا تھا۔ لوگوں نے اختلاف کیا ، آراء میں ، اعمال میں اور یہی اختلاف بڑھ کر قتل و غارت گری تک جا پہنچا۔ کوئی ایمان پر قائم نہ رہا اور کچھ دوسرے کفر کی گمراہی میں چلے گئے۔ اللہ تو قادر ہے اگر بچانا چاہتا تو یقینا ایک دوسرے کو قتل نہ کرتے ، مگر وہ حکیم ودانا ہے اور مالک ومختار جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اس میں بہت بڑی تسلی آپ ﷺ کے لئے بھی ہے کہ اختلاف لوگوں کی فطرت ہے یقینا آپ ﷺ سے بھی کریں گے کہ کبھی سارے لوگ ایک بات پہ جمع نہیں ہوتے۔
Top