Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 249
فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوْتُ بِالْجُنُوْدِ١ۙ قَالَ اِنَّ اللّٰهَ مُبْتَلِیْكُمْ بِنَهَرٍ١ۚ فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَیْسَ مِنِّیْ١ۚ وَ مَنْ لَّمْ یَطْعَمْهُ فَاِنَّهٗ مِنِّیْۤ اِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةًۢ بِیَدِهٖ١ۚ فَشَرِبُوْا مِنْهُ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْهُمْ١ؕ فَلَمَّا جَاوَزَهٗ هُوَ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ١ۙ قَالُوْا لَا طَاقَةَ لَنَا الْیَوْمَ بِجَالُوْتَ وَ جُنُوْدِهٖ١ؕ قَالَ الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوا اللّٰهِ١ۙ كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِیْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِیْرَةًۢ بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ
فَلَمَّا
: پھر جب
فَصَلَ
: باہر نکلا
طَالُوْتُ
: طالوت
بِالْجُنُوْدِ
: لشکر کے ساتھ
قَالَ
: اس نے کہا
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
مُبْتَلِيْكُمْ
: تمہاری آزمائش کرنے والا
بِنَهَرٍ
: ایک نہر سے
فَمَنْ
: پس جس
شَرِبَ
: پی لیا
مِنْهُ
: اس سے
فَلَيْسَ
: تو نہیں
مِنِّىْ
: مجھ سے
وَمَنْ
: اور جس
لَّمْ يَطْعَمْهُ
: اسے نہ چکھا
فَاِنَّهٗ
: تو بیشک وہ
مِنِّىْٓ
: مجھ سے
اِلَّا
: سوائے
مَنِ
: جو
اغْتَرَفَ
: چلو بھرلے
غُرْفَةً
: ایک چلو
بِيَدِهٖ
: اپنے ہاتھ سے
فَشَرِبُوْا
: پھر انہوں نے پی لیا
مِنْهُ
: اس سے
اِلَّا
: سوائے
قَلِيْلًا
: چند ایک
مِّنْهُمْ
: ان سے
فَلَمَّا
: پس جب
جَاوَزَهٗ
: اس کے پار ہوئے
ھُوَ
: وہ
وَالَّذِيْنَ
: اور وہ جو
اٰمَنُوْا
: ایمان لائے
مَعَهٗ
: اس کے ساتھ
قَالُوْا
: انہوں نے کہا
لَا طَاقَةَ
: نہیں طاقت
لَنَا
: ہمارے لیے
الْيَوْمَ
: آج
بِجَالُوْتَ
: جالوت کے ساتھ
وَجُنُوْدِهٖ
: اور اس کا لشکر
قَالَ
: کہا
الَّذِيْنَ
: جو لوگ
يَظُنُّوْنَ
: یقین رکھتے تھے
اَنَّهُمْ
: کہ وہ
مُّلٰقُوا
: ملنے والے
اللّٰهِ
: اللہ
كَمْ
: بارہا
مِّنْ
: سے
فِئَةٍ
: جماعتیں
قَلِيْلَةٍ
: چھوٹی
غَلَبَتْ
: غالب ہوئیں
فِئَةً
: جماعتیں
كَثِيْرَةً
: بڑی
بِاِذْنِ اللّٰهِ
: اللہ کے حکم سے
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
مَعَ
: ساتھ
الصّٰبِرِيْنَ
: صبر کرنے والے
(پھر جب طالوت فوجوں کو لے کر چلے تو انھوں نے (اپنی فوجوں سے کہا) بیشک اللہ تمہیں آزمانے والا ہے ایک نہر کے ذریعے۔ جو اس نہر سے پی لے گا وہ میرا ساتھی نہیں۔ اور جو اس کو نہیں چکھے گا تو وہ یقینا میرا ساتھی ہے۔ الا یہ کہ کوئی اپنے ہاتھ سے ایک چلو بھر لے۔ تو سب نے اس میں سے پی لیا مگر تھوڑے سے لوگ ان میں سے بچے۔ پھر جب دریا پار کر گئے طالوت اور وہ لوگ جو ان کے ساتھ ثابت قدم رہے تو انھوں نے کہا کہ ہم میں آج جالوت اور اس کی فوجوں سے لڑنے کی طاقت نہیں۔ تو ان لوگوں نے کہا جو یقین رکھتے تھے کہ وہ اللہ سے ملنے والے ہیں۔ کہ کتنی چھوٹی جماعتیں رہی ہیں جو اللہ کے حکم سے بڑی جماعتوں پر غالب آگئی ہیں۔ اللہ تو ثابت قدم رہنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے
فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوْتُ بِالْجُنُوْدِ لا قَالَ اِنَّ اللَّہَ مُبْتَلِیْـکُمْ بِنَہَرٍج فَمَنْ شَرِبَ مِنْہُ فَلَیْسَ مِنِّیْ ج وَمَنْ لَّمْ یَطْعَمْہُ فَاِنَّـہٗ مِنِّیْٓ اِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَۃً م بِیَدِہٖ ج فَشَرِبُوْا مِنْہُ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْہُمْ ط فَلَمَّا جَاوَزَہٗ ھُوَوَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ لا قَالُوْا لَاطَاقَۃَ لَنَا الْیَوْمَ بِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِہٖ ط قَالَ الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّہُمْ مُّلٰـقُوا اللُّہِ لا کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً م بِاِذْنِ اللّٰہِ ط وَاللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ ۔ (پھر جب طالوت فوجوں کو لے کر چلے تو انھوں نے (اپنی فوجوں سے کہا) بیشک اللہ تمہیں آزمانے والا ہے ایک نہر کے ذریعے۔ جو اس نہر سے پی لے گا وہ میرا ساتھی نہیں۔ اور جو اس کو نہیں چکھے گا تو وہ یقینا میرا ساتھی ہے۔ الا یہ کہ کوئی اپنے ہاتھ سے ایک چلو بھر لے۔ تو سب نے اس میں سے پی لیا مگر تھوڑے سے لوگ ان میں سے بچے۔ پھر جب دریا پار کر گئے طالوت اور وہ لوگ جو ان کے ساتھ ثابت قدم رہے تو انھوں نے کہا کہ ہم میں آج جالوت اور اس کی فوجوں سے لڑنے کی طاقت نہیں۔ تو ان لوگوں نے کہا جو یقین رکھتے تھے کہ وہ اللہ سے ملنے والے ہیں۔ کہ کتنی چھوٹی جماعتیں رہی ہیں جو اللہ کے حکم سے بڑی جماعتوں پر غالب آگئی ہیں۔ اللہ تو ثابت قدم رہنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے) (249) گزشتہ آیات میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ حضرت سموئیل (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے طالوت کو بنی اسرائیل کا امیر مقرر کیا۔ انھوں نے اس کی امارت کو تسلیم کرنے کے سلسلے میں اعتراضات کیے ‘ لیت و لعل سے کام لیا ‘ لیکن حضرت سموئل (علیہ السلام) کے سمجھانے اور تابوتِ سکینہ کے معجزانہ طریقے سے واپس مل جانے کے بعد وہ حضرت طالوت کی امارت پر یکسو ہوگئے۔ حضرت سموئل تو عرصہ دراز سے ان کی اصلاح کا کام کر رہے تھے۔ اب حضرت طالوت کے امیر بن جانے کے بعد طالوت نے بھی ان کے کام میں معاونت شروع کی۔ اصلاحی پروگرام کو آگے بڑھایا لیکن وہ اصل کام جس کے لیے انھیں امیر بنایا گیا تھا اس کے لیے اگرچہ عقیدہ و عمل کی اصلاح خشت اول کی حیثیت رکھتی تھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی بےحد ضروری تھی کہ اس قوم میں شیرازہ بندی کی جائے ‘ ان میں ڈسپلن پیدا ہو ‘ ان کے عزائم میں توانائی آئے اور ان میں حربی صلاحیت اور جہادی روح پیدا کرکے دشمنوں سے اپنے علاقے واگزار کرائے جائیں اور وہ قومی افتخار جو قصہ پارینہ بنتا جا رہا ہے اس کی بحالی کا اہتمام کیا جائے۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ طالوت کو اس کام میں کتنا عرصہ لگا لیکن جب انہوں نے محسوس کیا کہ اب قوم کی اجتماعی حالت پہلے سے بہتر ہوگئی ہے تو وہ اپنی فوجوں کو فلسطینیوں کے مقابلے میں لے کر نکلے جن کا سردار جاتی جو لیت تھا جسے قرآن کریم نے جالوت کے نام سے یاد کیا ہے۔ جاتی جو لیت معلوم ہوتا ہے عبرانی لفظ ہے جو معرب ہو کر جالوت ہوگیا۔ حضرت سموئیل اور حضرت طالوت کی اصلاحی کوششوں اور انتظامی اقدامات سے اگرچہ بنی اسرائیل میں بہت کچھ بہتری کے آثار پیدا ہوگئے تھے لیکن ابھی تک حضرت سموئل اور حضرت طالوت دشمن کے سامنے ان کی ثابت قدمی کے حوالے سے پوری طرح مطمئن نہ تھے اس لیے حضرت سموئیل نے حضرت طالوت کو اللہ کا یہ حکم پہنچایا کہ میدان جنگ میں پہنچنے سے پہلے ساتھ جانے والے فوجیوں کا امتحان لے لینا چاہیے ‘ ایسا نہ ہو کہ وہ میدانِ جنگ میں جا کر بزدلی دکھائیں اور اس کے نتیجے میں کوئی بڑا حادثہ پیش آئے۔ چناچہ حضرت طالوت نے ان کے ڈسپلن اور اطاعت و وفاداری کا امتحان لینے کے لیے اعلان کیا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں آزمانا چاہتے ہیں کہ تم اللہ کے راستے میں جہاد و قتال کے جذبے میں کہاں تک مخلص ہو۔ چونکہ یہ حکم اللہ ہی نے دیا تھا اس لیے اس کی نسبت بھی طالوت نے اپنی طرف کرنے کے بجائے اللہ کی طرف کی۔ فوج کی ثابت قدمی کا امتحان اِنَّ اللَّہَ مُبْتَلِیْـکُمْ بِنَہَرٍ (اللہ تعالیٰ تمہیں ایک نہر کے ذریعے آزمانے والا ہے) نہر عربی زبان میں دریا کو بھی کہتے ہیں اور ندی نالے کو بھی۔ تعین سے یہ بات کہنا مشکل ہے کہ وہ دریائے اردن تھا یا راستے کا کوئی ندی نالہ۔ دریائے اردن بھی کوئی بہت بڑا دریا نہیں اس کی براہ راست لمبائی کل پینسٹھ میل ہے۔ البتہ اس کے خم و پیچ کو ملا کر اس کا طول دو سو میل ہوجاتا ہے۔ علاقہ فلسطین میں اہم ترین دریا یہی ہے اور یہ ملک کی قدرتی سرحد کا کام بھی دیتا ہے۔ اس کا بہائو شمال سے جنوب کی جانب ہے اور بحرجلیل اور بحرطبریہ سے ہوتا ہوا بحر مردار میں جا گرتا ہے۔ اس کا پانی شروع میں تو صاف ‘ شفاف ‘ شیریں ہے لیکن آگے جا کر گدلا ‘ بدبودار اور مضر ہوجاتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کا یہ لشکر دریائے اردن پار کر کے فلستیوں کے ساتھ نبردآزما ہونے والا تھا۔ جالوت اپنا لشکر لے کر وہیں ان کا انتظار کر رہا تھا۔ یا ممکن ہے کوئی اور ندی نالہ مراد ہو اصل مقصود تو صرف یہ بتلانا ہے کہ طالوت نے اللہ کے حکم سے ان کی اطاعت و وفاداری کو دیکھنے اور ان کی ثابت قدمی کو جانچنے کے لیے اعلان کیا کہ آگے جو دریا یا ندی نالہ آرہا ہے تمہیں اس کے پانی سے فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں۔ یہ صحیح ہے کہ گرمی اور سفر کی وجہ سے تمہیں پیاس تنگ کر رہی ہے ‘ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ تم اللہ کے راستے میں کہاں تک تکالیف برداشت کرسکتے ہو۔ اس لیے تمہارے لیے حکم یہ ہے کہ تم اس کے پانی کو چکھ بھی نہیں سکتے۔ لیکن پھر اس حکم میں تخفیف کرتے ہوئے فرمایا کہ ہاں تم میں سے اگر کسی نے ہاتھ سے ایک چلو بھر کے پانی پی لیا تو وہ معاف ہے ‘ لیکن جس نے اس سے زیادہ پانی پیا تو اس کا تعلق میری فوج سے نہیں ہوگا۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ ان میں سے ایک محدود تعداد کے سوا پوری فوج نے اس حکم کو توڑ ڈالا اور انھوں نے جی بھر کے پانی پیا۔ مفسرین کہتے ہیں کہ انھیں پانی پینے کی سزا یہ دی گئی کہ وہ ڈھیر ہو کر رہ گئے۔ ان میں اٹھنے کی ہمت نہ رہی لیکن جن لوگوں نے اللہ کے حکم کی اطاعت کرتے ہوئے اپنے امیر کا ساتھ دیا اور ثابت قدمی دکھائی وہ تروتازہ اور شاداب چہروں کے ساتھ دریا کو عبور کر گئے اور پانی نہ پینے کے باوجود ان کی پیاس ختم کردی گئی۔ یہ تو ان پر اللہ کا انعام ہوا لیکن اصل بات جو دیکھنے کی تھی وہ صرف یہ تھی کہ جو لوگ چند گھنٹوں کے لیے پانی پینے پر صبر نہیں کرسکتے وہ میدانِ جنگ میں کیا پامردی دکھائیں گے اور ایسے بےصبر اور کم ظرف لوگوں سے کس معرکے کی توقع ہوسکتی ہے۔ چناچہ جو لوگ اس معمولی سے امتحان میں کامیاب نہ ہوسکے انھیں اس لشکر سے الگ کردیا گیا۔ اب آگے وہ لوگ بڑھے جو واقعتا زندگی کی تلخیوں پر صبر کرنے کی صلاحیت سے مالا مال تھے۔ جو مصائب کو خندہ پیشانی سے برداشت کرسکتے تھے۔ جن کے پیش نظر اپنی ضروریات کا حصول اور اپنے راحت و آرام کا خیال نہ تھا۔ بلکہ وہ سمجھتے تھے کہ ہم اللہ کے راستے میں ایک فیصلہ کن معرکہ سر انجام دینے کے لیے نکلے ہیں۔ یہ لوگ حضرت طالوت کے ساتھ آگے بڑھ کر جب میدانِ جنگ میں پہنچے تو انھوں نے دیکھا کہ جالوت ایک لشکرجرار کے ساتھ میدان میں موجود ہے اور خود جالوت کی جسمانی وجاہت کا عالم یہ ہے کہ وہ اپنے قدوقامت اور اپنی بہادری میں کوئی ثانی نہیں رکھتا۔ اور اس کے ساتھ اتنی بڑی افرادی قوت ہے کہ بنی اسرائیل کی فوج اس کے مقابلے میں نہایت قلیل اور کمزور ہے۔ نہ اس کی تعداد سے ان کی تعداد کا مقابلہ ہوسکتا ہے نہ اس کے اسلحہ جنگ کے مقابلہ میں ان کے پاس اسلحہ جنگ موجود ہے۔ بعض محققین کا خیال یہ ہے کہ یہ جنگ بالکل ایسی ہی تھی جیسے جنگ بدر۔ جس میں ایک طرف قریش کا ایک عظیم لشکر تھا جو اسلحہ جنگ کے اعتبار سے پوری طرح مسلح تھا اور دوسری طرف مسلمانوں کا لشکرجن کی تعداد ان سے ایک تہائی بھی نہیں تھی۔ اور اسلحہ جنگ بھی واجبی سا تھا۔ دیکھنے والی نگاہیں دونوں لشکروں میں مقابلے کا کوئی امکان نہیں دیکھتی تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ مسلمان موت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح کی کیفیت طالوت اور جالوت کی فوجوں کے درمیان بھی تھی۔ چناچہ طالوت کی فوج کے کچھ لوگوں نے جالوت اور اس کی فوجوں کو دیکھتے ہی کہا : یہ قول کس کا ہے ؟ لاَ طَاقَۃَ لَنَا الْیَوْمَ بِجَالُوْتَ وَ جُنُوْدِہٖ (آج جالوت اور اس کی فوجوں سے لڑنے کی ہم میں طاقت نہیں) اس میں بظاہر کمزوری اور بزدلی کا اظہار ہوتا ہے اس لیے اس کی تاویل میں مفسرین کے دو گروہ ہوگئے۔ ایک گروہ نے یہ کہا کہ یہ قول ان لوگوں کا ہے جو دریا پر پانی پی کر ڈھیر ہوگئے تھے اور وہ آگے بڑھنے والے ساتھیوں کے حوصلوں کو توڑنے یا اپنے تئیں حقیقت کا اظہار کرنے کے لیے پکار پکار کر کہہ رہے تھے کہ دیکھو خودکشی نہ کرو آج جتنی طاقت جالوت اور اس کی فوجوں کے پاس ہے اسے دیکھتے ہوئے ان سے لڑنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے ہم اس کے مقابلے میں جانے کی غلطی نہیں کرسکتے۔ تمہیں اگر مذہبی جنون نے پاگل کردیا ہے تو تم جا کر جان دو ۔ مفسرین کے دوسرے گروہ کا کہنا یہ ہے کہ یہ قول طالوت کے ساتھ آگے بڑھنے والوں میں سے ایک گروہ کا تھا۔ انھوں نے جیسے ہی جالوت اور اس کی فوجوں کی تعداد اور اسلحہ کی فراوانی کو دیکھا تو بیساختہ پکار اٹھے کہ اتنی عظیم فوج اور ایسے گرانڈیل جوان جرنیل کے ساتھ کون لڑ سکتا ہے۔ لیکن اس میں بزدلی یا کم ہمتی کا اظہار نہیں تھا بلکہ ایک امر واقعی کا اعتراف تھا۔ یہ بالکل ایسے ہی تھا جیسے جنگ یرموک میں مسلمانوں کے ایک محدود لشکر کے مقابلے میں رومیوں کی لا تعداد فوج کو دیکھ کر ایک سپاہی نے بےساختہ حضرت خالد بن ولید سے کہا کہ کوئی حد ہے رومیوں کی فوج کی تعداد کی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کی فوجیں زمین سے امڈتی چلی آرہی ہیں۔ تو حضرت خالد بن ولید نے اسے تھپڑ مارا اور کہا اگر میرے گھوڑے کے سم نہ گھس گئے ہوتے تو میں انھیں کہتا کہ اتنی ہی فوج اور لے آئو۔ کہنے کا مطلب یہ تھا کہ جنگیں فوجوں کی کثرت سے نہیں لڑی جاتیں بلکہ جذبہ بےپناہ اور اللہ کی تائید و نصرت سے لڑی جاتی ہیں۔ لیکن کہنے والے کے پیش نظر بھی کسی کمزوری کا اظہار نہ تھا بلکہ فوجوں کی کثرت پر حیرانی کا اظہار تھا۔ یہاں بھی بنی اسرائیل کے کچھ لوگوں نے ان کی کثرت تعداد اور اسلحہ کی فراوانی پر حیرت کا اظہار کیا تھا مقصود یہ تھا کہ ہمیں اس پہلو پر بھی غور کرلینا چاہیے۔ یہ لوگ کامل الایمان تھے۔ ان کے ایمان میں کوئی کمزوری نہیں تھی۔ البتہ اسباب پر اللہ کی نصرت کو غالب کردینے کی ابھی مشق نہیں ہوئی تھی۔ وہ اللہ سے مدد مانگتے تھے لیکن ساتھ ہی معروضی حقیقتوں کو بھی سامنے رکھتے تھے۔ لیکن ان کے وہ ساتھی جو اکمل الایمان ہونے کا درجہ رکھتے تھے انھوں نے انھیں ٹوکا اور وہ نعرہ لگایا جس کے سامنے اسباب بےاثر ہو کر رہ جاتے ہیں۔ فتح و شکست کا انحصار کثرت و قلت پر نہیں کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً م بِاِذْنِ اللّٰہِ ط وَاللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ (کتنی چھوٹی چھوٹی جماعتیں اللہ کے حکم سے بڑی بڑی جماعتوں اور لشکروں پر غالب آئی ہیں اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے) یہ ایک ایسا انقلابی اور سرفروشانہ نعرہ ہے جو صرف ان لوگوں کی زبان پر آسکتا ہے جنھیں دو باتوں کا یقین ہو ایک تو یہ بات کہ اصل طاقت کا سرچشمہ اللہ کی ذات ہے۔ انسانوں کی طاقت یا دنیوی طاقت کے اسباب دوسرے اسباب کے مقابلے میں تو کام آتے ہیں لیکن اللہ کی طاقت کے مقابلے میں کبھی کام نہیں آتے۔ جس طرح تلوار چاہے کیسی ہی کاٹ کیوں نہ رکھتی ہو اس کی اصل طاقت وہ ہاتھ ہے جو اسے استعمال کرتا ہے۔ وہ تلوار جو بزدل کے ہاتھ میں ہوتی ہے وہ کبھی کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ لیکن وہی تلوار خالد بن ولید کے ہاتھ میں آجائے تو صفیں الٹ دیتی ہے۔ کیونکہ اصل طاقت اس ہاتھ میں ہے جس میں تلوار چمکتی ہے۔ اسی طرح وہ بندہ خدا یا بندگانِ خدا کا گروہ جو اللہ کے فوجدار بن کر صرف اس کی رضا کے حصول کے لیے میدانِ جنگ میں یہ سمجھ کے آتے ہیں کہ ہماری زندگیاں اللہ کی ہیں۔ یہ اسی کی دین ہیں اس لیے ضروری ہے کہ اسی کی رضا کے لیے اور اسی کے راستے میں قربان کی جائیں۔ مقابلے میں کوئی چھوٹی طاقت ہو یا بڑی جس آدمی کی نظروں میں صرف اللہ کے حکم کو سربلند کرنا اور اس کے لیے جان دینا مقصد زندگی ٹھہرے اس کے لیے یہ چیزیں بےمعنی ہوجاتی ہیں۔ جان لینے کے لیے تو شاید بڑی طاقت درکار ہو لیکن جان دینے اور تعمیل حکم کے لیے تو کسی بڑی طاقت کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ایسے لوگ عقل سے نہیں ایمان سے سوچتے ہیں۔ وہ جب اس بات میں یکسو ہوجاتے ہیں کہ اللہ کا راستہ یہی ہے اور آج اس راستے کا مطالبہ یہ ہے کہ میں اس کی مشکلات کو دور کرنے کے لیے اپنی جان نذر کر دوں تو پھر طاقت اور قوت کے فلسفے ان پر اثر انداز نہیں ہوتے۔ وہ بڑی سے بڑی طاقت سے دیوانہ وار ٹکرا جاتے ہیں انھیں یقین ہوتا ہے کہ ہماری پشت پر اللہ کی طاقت ہے۔ اور اللہ کی طاقت پر کوئی دوسری طاقت غالب نہیں آسکتی۔ آنحضرت ﷺ جب ایک درخت کے نیچے آرام فرما رہے تھے کہ ایک بدو برہنہ شمشیر لے کر آپ ﷺ کے سر پر آپہنچا اور کہنے لگا کہ بتائو تمہیں میرے ہاتھ سے کون بچا سکتا ہے ؟ تو آپ ﷺ نے نہایت اطمینان سے فرمایا ” اللہ “ اس بےساختہ جواب پر اس کے ہاتھ میں کپکپی طاری ہوئی اور تلوار اس کے ہاتھ سے گرگئی۔ غارِ ثور میں جب دشمن غار کے دہانے تک پہنچ گیا۔ صدیق اکبر پریشان ہوئے تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ابوبکر تمہاری ان دو آدمیوں کے بارے میں کیا رائے ہے جن کا تیسرا خدا ہے ؟ مطلب واضح ہے کہ ہم دو ہیں ہمارے ساتھ تیسرا خدا ہے جو ہماری حفاظت کر رہا ہے۔ ہمیں کسی دشمن سے کیا ڈر ہوسکتا ہے اور ہمارا کوئی کیا بگاڑسکتا ہے۔ اور دوسری یہ بات کہ جس آدمی کو یہ یقین ہوجائے کہ یہ جسم و جان میرے نہیں اللہ کے ہیں۔ یہ اس کی امانت ہیں۔ جب بھی اس کی طرف سے ایسے حالات پیدا ہوجائیں کہ انھیں حوالہ کیے بغیر غلبہ دین کا کام مکمل نہ ہوتا ہو تو پھر ضروری ہے کہ میں انھیں اس کے راستے میں قربان کر دوں اور اس بات کا یقین رکھوں کہ یہ قربانی کوئی گھاٹے کا سودا نہیں۔ بلکہ یہ ایسا سودا ہے جس کا نفع بےانتہا اور یقینی ہے میری جان نکلتے ہی جنت کے پٹ میرے لیے کھل جائیں گے ‘ جنت کی حوریں میرے لیے چشم براہ ہوں گی ‘ اللہ کی رحمت جھوم کر مجھ پر نثار ہوگی۔ یہ یقین ایک ایسی قوت ہے جس کے سامنے کوئی قوت ٹھہر نہیں سکتی۔ اس کے راستے میں پیش آنے والی مشکلات سامانِ سفر بن جاتی ہیں۔ اس یقین سے سرشار لوگوں کے لیے مرنا آسان اور زندہ رہنا مشکل ہوجاتا ہے۔ وہ اپنے سر کو کندھے کا بوجھ سمجھنے لگتے ہیں اور ان کی روح اس وقت سرشار ہوجاتی ہے جب یہ بوجھ اتر جاتا ہے۔ ایک صحابی جنھوں نے جنگ احد میں آنحضرت ﷺ سے پوچھا اور شاید وہ اسی روز مسلمان ہوئے تھے کہ حضور اب مجھے کیا کرنا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا جنت تلواروں کے سائے میں ہے۔ وہ کھجوریں کھا رہے تھے ‘ کھجوریں حضور ﷺ کے حوالے کیں اور کہا کھجوروں کو ختم کرنا لمبی زندگی ہے ‘ کون اتنا انتظار کرے۔ دیوانہ وار آگے بڑھے اور لڑتے لڑتے جامِ شہادت نوش کر گئے۔ آنحضرت ﷺ نے انھیں خود قبر میں اتارا اور فرمایا عمل قلیلا واجر کثیرا (اس شخص نے کام تھوڑا کیا لیکن اجر بہت پا گیا) اس کی روح جنت میں سیر کر رہی ہے۔ انسانوں کا جو گروہ اس انقلابی سوچ سے سرشار ہو کر اٹھتا ہے وہ ایک ایسا طوفانِ بےپناہ ہوتا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔ چناچہ ایسی ہی سوچ سے سرشار لوگوں نے یہ بات کہی کہ کتنی چھوٹی چھوٹی جماعتیں اللہ کے حکم سے بڑے بڑے لشکروں پر غالب آگئیں۔ ہم اگر تھوڑے ہیں تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے ‘ ہم اگر کمزور ہیں تو اللہ تو کمزور نہیں ‘ نہ اس کی طاقت چھوٹی ہے ‘ ہمیں اسی پر اعتماد اور توکل کرتے ہوئے آگے بڑھنا اور دشمن سے ٹکرانا ہے۔ شرط صرف ایک ہے کہ ہمارے قدموں میں تزلزل نہ آنے پائے۔ ہم صبر کی چٹان بن کر ان کے راستے میں حائل ہوجائیں۔ اللہ کو اگر منظور ہوا تو وہ ہماری کمزوری کو بھی طاقت میں بدل دے گا اور اگر اس کو منظور نہ ہوا تو ہم اس کے نام پر قربان ہو کر حقیقی زندگی سے بہروہ ور ہوجائیں گے۔ ایک ایسی زندگی جسے کبھی زوال نہیں۔
Top