Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 77
فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوْتُ بِالْجُنُوْدِ١ۙ قَالَ اِنَّ اللّٰهَ مُبْتَلِیْكُمْ بِنَهَرٍ١ۚ فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَیْسَ مِنِّیْ١ۚ وَ مَنْ لَّمْ یَطْعَمْهُ فَاِنَّهٗ مِنِّیْۤ اِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةًۢ بِیَدِهٖ١ۚ فَشَرِبُوْا مِنْهُ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْهُمْ١ؕ فَلَمَّا جَاوَزَهٗ هُوَ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ١ۙ قَالُوْا لَا طَاقَةَ لَنَا الْیَوْمَ بِجَالُوْتَ وَ جُنُوْدِهٖ١ؕ قَالَ الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوا اللّٰهِ١ۙ كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِیْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِیْرَةًۢ بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ
فَلَمَّا : پھر جب فَصَلَ : باہر نکلا طَالُوْتُ : طالوت بِالْجُنُوْدِ : لشکر کے ساتھ قَالَ : اس نے کہا اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ مُبْتَلِيْكُمْ : تمہاری آزمائش کرنے والا بِنَهَرٍ : ایک نہر سے فَمَنْ : پس جس شَرِبَ : پی لیا مِنْهُ : اس سے فَلَيْسَ : تو نہیں مِنِّىْ : مجھ سے وَمَنْ : اور جس لَّمْ يَطْعَمْهُ : اسے نہ چکھا فَاِنَّهٗ : تو بیشک وہ مِنِّىْٓ : مجھ سے اِلَّا : سوائے مَنِ : جو اغْتَرَفَ : چلو بھرلے غُرْفَةً : ایک چلو بِيَدِهٖ : اپنے ہاتھ سے فَشَرِبُوْا : پھر انہوں نے پی لیا مِنْهُ : اس سے اِلَّا : سوائے قَلِيْلًا : چند ایک مِّنْهُمْ : ان سے فَلَمَّا : پس جب جَاوَزَهٗ : اس کے پار ہوئے ھُوَ : وہ وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے مَعَهٗ : اس کے ساتھ قَالُوْا : انہوں نے کہا لَا طَاقَةَ : نہیں طاقت لَنَا : ہمارے لیے الْيَوْمَ : آج بِجَالُوْتَ : جالوت کے ساتھ وَجُنُوْدِهٖ : اور اس کا لشکر قَالَ : کہا الَّذِيْنَ : جو لوگ يَظُنُّوْنَ : یقین رکھتے تھے اَنَّهُمْ : کہ وہ مُّلٰقُوا : ملنے والے اللّٰهِ : اللہ كَمْ : بارہا مِّنْ : سے فِئَةٍ : جماعتیں قَلِيْلَةٍ : چھوٹی غَلَبَتْ : غالب ہوئیں فِئَةً : جماعتیں كَثِيْرَةً : بڑی بِاِذْنِ اللّٰهِ : اللہ کے حکم سے وَاللّٰهُ : اور اللہ مَعَ : ساتھ الصّٰبِرِيْنَ : صبر کرنے والے
پھر جب طالوت لشکر لے کر روانہ ہونے لگے تو ان سے کہا کہ دیکھو اللہ کہ طرف سے تمہاری آزمائش ہونے والی ہے ایک نہر کے پانی سے سو یاد رکھو کہ جس نے اس سے پانی پی لیا وہ میرا ساتھی نہیں اور جس نے اس سے چکھا بھی نہ اصل میں وہی میرا ساتھی ہے ہاں جس نے ایک آدھ چلو بھر لیا تو وہ اسے معاف ہے مگر اس سب کے باوجود ان لوگوں نے اس دریا سے سیر ہو کر پانی پیا بجز ان میں کے تھوڑے سے لوگوں کے پھر اس کا نتیجہ1 یہ ہوا کہ جب طالوت اور ان کے ساتھ والے اہل ایمان نے اس دریا کو پار کیا تو انہوں نے ہمت ہار کر صاف کہہ دیا کہ ہمارے اندر جالوت اور اس کے لشکروں سے مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں2 اس پر ان لوگوں نے جو اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ انہوں نے بہرحال اللہ سے ملنا ہے ان سے کہا کی دیکھو کتنی ہی بار ایسا ہوا ہے کہ ایک چھوٹی جماعت بڑی جماعت پر غالب آگئی اللہ کے اذن و حکم سے3 پس تم گھبراؤ نہیں اور اللہ ساتھ ہے صبر کرنے والوں کے
707 لشکر بنی اسرائیل کیلئے ایک آزمائش کا ذکر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ جب طالوت اپنے اس لشکر کے ساتھ روانہ ہونے لگے تو ان لوگوں سے کہا کہ دیکھو آگے ایک نہر کے ذریعے تم لوگوں کی آزمائش ہونے والی ہے۔ تاکہ کھرے کھوٹے کی تمیز ہو سکے، اور سچے اور پختہ کار لوگ آزمائش کے اس مرحلے سے گزر کر دوسروں سے الگ ہوجائیں، اور خام اور ناقص لوگ ان سے الگ ہوجائیں، کیونکہ معرکہ جہاد و قتال میں ایسے پختہ کار اور سچے پکے مومن ہی ثابت قدمی دکھا سکتے ہیں جو اپنی خواہشات پر قابو پانے والے اور کنٹرول رکھنے والے ہوں۔ بہرکیف حضرت طالوت نے اپنی فوج کی وفاداری و اطاعت گزاری اور انکے ڈسپلن کی آزمائش کیلئے یہ اعلان کیا کہ ہمارے راستے میں جو فلاں ندی آرہی ہے، اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ تمہاری جانچ کرے گا۔ تم میں سے جو اس سے پانی پی لے گا وہ میرا ساتھی نہیں بن سکے گا، اور جو اس سے بالکل نہیں پیے گا وہی میرا ساتھی بن سکے گا۔ ہاں اگر کسی نے ایک آدھ چلو پی لیا تو وہ قابل درگزر ہے۔ بہرکیف انہوں نے ان کو پیشگی بتادیا کہ اللہ تعالیٰ اسطرح تمہاری آزمائش کرنے والا ہے۔ 708 اکثریت کی آزمائش میں ناکامی : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس کے باوجود ان لوگوں نے وہاں سے سیر ہو کر پانی پیا بجز تھوڑے سے لوگوں کے۔ یعنی ان کی اکثریت صبر نہ کرسکی، اور اس آزمائش میں ہار کر وہ لوگ ہمت توڑ بیٹھے، اور انہوں نے حوصلہ چھوڑ دیا ۔ والعیاذ باللہ ۔ اور یہی نتیجہ ہوتا ہے ایمان کی کمزوری اور صبر و استقامت کے فقدان کا ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو اکثریت ہمیشہ غلط کاروں کی ہی رہی ۔ الا ماشاء اللہ ۔ بہرکیف ابتلاء و آزمائش کے اس مرحلے میں تھوڑے سے لوگ ہی ثابت قدم رہ سکے اور اکثریت اپنے ضعف ایمانی اور فقدان صبر و استقامت کے باعث ناکام رہی ۔ والعیاذ باللہ ۔ ان میں سے زیادہ لوگوں نے اس ندی سے خوب سیر ہو کر پانی پیا۔ اپنے امیر کے حکم و ارشاد کی کوئی پرواہ نہ کی۔ وہ سب فیل ہوگئے اور تھوڑے سے لوگ اس امتحان میں کامیاب ہوسکے۔ سو ان کی اکثریت اس امتحان میں ناکام ہو کر پیچھے رہ گئی اور وہ یمین ہار گئے۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو صبر و برداشت اور استقامت کی صفت بڑی عظیم الشان صفت ہے۔ وباللہ التوفیق ۔ 709 آزمائش میں کامیابی تھوڑے سے لوگوں ہی کو نصیب ہوئی : سو ارشاد فرمایا گیا بجز ان میں سے تھوڑے سے لوگوں کے۔ کہ انہوں نے صبر و ضبط سے کام لیا، اور وہ آزمائش میں پورے اترے۔ روایات میں ہے کہ یہ لوگ اسی ہزار کی تعداد میں تھے۔ موسم سخت گرمی کا تھا، جو گویا قدرت کی طرف سے ان کی آزمائش کا سامان تھا۔ اس میں کچے لوگ ناکام رہے، اسی ہزار میں سے صرف چار ہزار اس آزمائش میں پورے اتر سکے، جنہوں نے وہاں سے پانی نہیں پیا۔ باقی سب نے وہاں سے اپنے نبی کے روکنے کے باوجود پانی پی لیا اور وہ ناکام رہے (صفوہ وغیرہ) ۔ اسی تھوڑی سی تعداد نے دشمن کا مقابلہ کیا اور اپنے ایمان و یقین کی پختگی و مضبوطی کی بناء پر، اور اپنے خالق ومالک کی توفیق و عنایت سے وہ لوگ سرخرو اور کامیاب ہوئے۔ پس واضح ہوگیا کہ فتح و کامرانی کا اصل مدارو انحصار ظاہری اسباب پر نہیں، بلکہ ایمان و یقین کی باطنی قوت، اور اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت پر ہے، جس کا دار و مدار انسان کے باطن اور اس کی نیت و ارادہ پر ہے۔ وباللہ التوفیق ۔ اور خاص کر ان کی قوت ارادی اور صبر و برداشت اور استقامت پر۔ سو تنگی و تکلیف مشکل و مصیبت اور خاص کر جنگ میں اور دشمن سے معرکہ آرائی کے دوران صبر و برداشت کی صفت کی خاص عظمت و اہمت ہے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارے صاف وصریح طور پر اسطرح ارشاد فرمایا گیا ہے { وَالصَّابِرِیْنَ فِی الْبَاسَائ وَالضَّرَّائ وَحِیْنَ الْبَاْسِ } یعنی خاص کر جو لوگ صبرو برداشت سے کام لیتے ہیں تنگی تکلیف میں اور عین لڑائی کے موقع پر اور روزے کی عظیم الشان اور مقدس عبادت کے ذریعے۔ مومن صادق اسی چیز کا درس لیتا اور سبق سیکھتا ہے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وہو الہادی الی سواء السبیل - 710 صبر و برداشت کا ثمرہ فتح و ظفر : مفسرین کرام کی اکثریت کے نزدیک یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے اس دریا سے پانی نہیں پیا تھا کیونکہ جنہوں نے پانی پیا تھا وہ وہیں رہ گئے اور دریا سے پار جاہی نہیں سکے۔ اور جو آزمائش میں پورے اترے، وہ بعض روایات کے مطابق چار ہزار تھے جبکہ بعض دوسری روایات کے مطابق ان کی تعداد تین سو تیرہ تھی۔ بہرکیف ان تھوڑے سے لوگوں نے جو چلو بھر پانی پیا اس سے یہ سیراب ہوگئے۔ ان کی پیاس بجھ گئی اور ان کے دل مضبوط اور قوی ہوگئے۔ اور جنہوں نے زیادہ پیا تھا ان کی پیاس بھی نہیں بجھی، ان کی ہمتیں بھی ٹوٹ گئیں اور وہ بزدل ہوگئے۔ اور وہ اس قابل بھی نہ رہے کہ نہر سے پار ہوسکیں۔ (المعارف، القرطبی، المراغی وغیرہ) ۔ سو یہی نتیجہ ہوتا ہے بےصبری اور احکام الہی کی خلاف ورزی کا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ پس اصل چیز راہ حق و ہدایت پر صبر و ثبات ہے۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید - 711 دونوں لشکروں کا فرق اور اس کا طبعی اثر : سو کمزور ایمان والوں نے دشمن کے لشکر کی کثرت وقوت کو دیکھ کر کہا کہ ہمارے اندر جالوت اور اس کے لشکروں کے مقابلے کی سکت نہیں۔ اور یہ اس لیے کہ اہل ایمان اور اہل کفر کے ان دونوں لشکروں کے درمیان جو فرق و تفاوات تھا، اس کا طبعی تقاضا اور لازمی اثر یہی تھا کہ وہ بےساختہ طور پر یوں ہی کہیں۔ کیونکہ تعداد اور سامان و اسلحہ کے اعتبار سے دونوں فریقوں کے درمیان کوئی تناسب ہی نہیں رہ گیا تھا۔ ایک طرف صرف چار ہزار لوگ تھے، جن کے پاس کوئی خاص اسلحہ اور سامان حرب و ضرب بھی نہ تھا، جبکہ دوسری طرف ایک لاکھ افراد پر مشتمل ایک ایسا ہولناک لشکر تھا جس کے پاس ہر طرح کا اسلحہ اور ساز و سامان موجود تھا۔ ایسے میں تو یہ مقابلہ کوئی مقابلہ ہی نہیں تھا، چہ جائیکہ اس میں غلبہ حاصل ہو۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ قول انہی لوگوں کا ہو جو خوب پانی پی کر وہیں رہ گئے تھے۔ اور وہ ندی پار کرنے کی ہمت بھی نہ کرسکے تھے، اور انہوں نے ہمت ہار کر کہا کہ اب ہمارے اندر جالوت اور اس کے لشکر کے مقابلے کی ہمت نہیں۔ 712 اصل قوت ایمان و یقین کی قوت ہے : اور اس کے بالمقابل ان لوگوں نے جو اس بات پر یقین رکھتے کہ انہوں نے بہرحال اللہ سے ملنا ہے انہوں نے ان ہمت ہار جانے والوں سے کہا کہ حوصلہ رکھو۔ دیکھو کتنی ہی بار ایسا ہوا ہے کہ ایک چھوٹی جماعت اللہ تعالیٰ کے اذن و حکم سے ایک بڑی جماعت پر غالب آگئی۔ لہذا تم لوگ ہمت نہ ہارو۔ کیونکہ فتح و شکست کا دار و مدار اصل میں ظاہری اسباب و وسائل پر نہیں، بلکہ ایمان و یقین کی باطنی قوت اور اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت پر ہے، کہ ایسی صورت میں جبکہ ایمان و یقین کی قوت مضبوط و مستحکم اور بھرپور ہو ۔ اللہ نصیب فرمائے۔ اور اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت حاصل رہے، تو پھر ایسے میں کوئی بھی قوت اہل حق پر غالب نہیں آسکتی۔ سو اس کی تصدیق و تائید اس قصے سے بھی ہوتی ہے کہ ایک چھوٹی سی اور بےسرو سامان جماعت اتنے بڑے لشکر جرار پر غالب آگئی۔ سو اصل قوت ایمان و یقین کی قوت ہے جس سے ایمان والے نصرت و تائید ایزدی سے سرفراز ہوتے ہیں، جسکے بعد ان کو کوئی شکست نہیں دے سکتا ۔ فزدنا اللہم ایمانا ویقینا - 713 صبر کرنے والوں کے لیے اللہ کی معیت کی نوید مسرت و بشارت : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اپنی تائید و نصرت، اور مدد و حمایت کے اعتبار سے۔ پس تم لوگ صبر و ثبات اور عزم و استقامت سے کام لیتے ہوئے آگے بڑھو۔ اور کفر اور اہل کفر سے اللہ کے بھروسے و اعتماد پر ٹکرا جاؤ۔ کامیابی اور فتح و نصرت تمہارے ہی لئے ہے، کہ جو لشکر تائید و نصرت خداوندی سے سرفراز و سرشار ہوتا ہے اس کو کوئی شکست نہیں دے سکتا، کہ فتح و شکست سب اللہ ہی کے قبضہء قدرت و اختیار میں ہے۔ سو معرکہ حق و باطل میں اصل چیز تعداد اور ساز و سامان کی قلت و کثرت نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت اور اس کی حمایت و مدد ہے۔ اور وہ نصیب ہوتی ہے صبر و ثبات، عزم و ہمت اور حوصلہ و استقامت سے۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وہو الہادی الی سواء السبیل -
Top