Madarik-ut-Tanzil - Al-Faatiha : 7
صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ١ۙ۬ۦ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ۠   ۧ
صِرَاطَ : راستہ الَّذِينَ : ان لوگوں کا أَنْعَمْتَ : تونے انعام کیا عَلَيْهِمْ : ان پر غَيْرِ : نہ الْمَغْضُوبِ : غضب کیا گیا عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا : اور نہ الضَّالِّينَ : جو گمراہ ہوئے
ان لوگوں کے راستے جن پر تو اپنا فضل و کرم کرتا رہا نہ ان کے جن پر غصے ہوتا رہا، اور نہ گمراہوں کے
خاص نکتہ : مگر اس جگہ مخصوص بات یہ ہے کہ جب حمد و ثنا کے لائق ذات کا تذکرہ کیا اور اس پر ان عظیم صفات کو جاری کیا تو اب علم ایک عظیم الشان ذات سے متعلق ہوا جو کہ تعریف کے لائق اور مہمات و مشکلات میں مدد کے قابل اور اس لائق ہے کہ اپنی اتنہائی عاجزی اس کے سامنے پیش کی جائے۔ پس اسی معلوم اور جانی پہچانی ذات کو خطاب کر کے کہا جو ان صفات سے ممتاز ہے، اے وہ ذات ہے جس کی یہ صفات ہیں ہم تیری ہی عبادت کرتے اور تجھ ہی سے مدد طلب کرتے ہیں تیرے سوا اور کسی سے نہیں۔ نکتہ : عبادت کو استعانت پر اس وجہ سے مقدم کیا گیا، کیونکہ طلب حاجت سے پہلے ذریعہ طلب کو لانا قبولیت کے زیادہ قریب ہے یا نظم عبارت کا لحاظ کرتے ہوئے عبادت کو استعانت پر اسی طرح مقدم کردیا جیسا رحمن کو رحیم پر اگرچہ بلیغ تر بعد میں لایا جاتا ہے۔ استعانت کو بلا کسی قید کے ذکر کیا تاکہ ہر ہر چیز جس میں استعانت کی ضرورت ہے ان سب کو شامل ہو۔ اور یہ بھی درست ہے کہ یہ مراد لی جائے کہ ادئے عبادت میں اللہ تعالیٰ سے مدد اور توفیق مانگی گئی ہے (اس طرح) اھدنا مطلوبہ معونت کا بیان بن جائے گا۔ گویا اس طرح کہا گیا (اے میرے بندو) میں کیسے تمہاری امداد کروں ؟ تو بندوں نے عرض کیا (تو ہمیں سیدھے راستے پر ثابت قدم فرما) ہدایت و صراط کا مطلب : اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ ۔ یعنی ہمیں واضح راستے پر قائم فرما، جیسا کھڑے کو کہا جاتا ہے قم حتی اعود الیک یعنی اپنی اسی حالت پر میرے لوٹنے تک ثابت و قائم رہو۔ تو ہمیں مستقبل میں بھی اسی طرح ہدایت دے جس طرح حال میں ہدایت دے رکھی ہے۔ ھدی : ایک مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے دو مفعول کی طرف اس کا متعدی ہونا بھی بغیر صلہ کے اس آیت میں آیا ہے، اور الی اور لام کے صلہ کے ساتھ بھی متعدی ہونا قرآن مجید کی ان آیات (ھدنا لھذا) الاعراف :43 ۔ (ھدانی ربی الی صراط مستقیم) الانعام :162 ۔ میں وارد ہے۔ الصراط : راستہ، یہ شرط الشیئ سے لیا گیا، اس نے اس چیز کو نگل لیا، گویا چلنے والا اپنے پا افتاد کو چلتے ہوئے نگلتا جاتا ہے۔ اختلاف قرات : السرط کی سین کو صاد سے بدل دیا گیا۔ کیونکہ حروف اطباق ہونے میں میں یہ طا کا ہم جنس ہے، ص، ض، ط، ظ یہ حروف اطباق میں سے ہیں۔ کبھی ص کوز کی آواز کا اشمام دے کر پڑھتے ہیں، کیونکہ ز، ط کے قریب تر ہے، کیونکہ وہ دونوں حروف مجہورہ میں سے ہیں۔ یہ امام حمزہ کی قرات ہے۔ امام ابن کثیر تمام قرآن میں س پڑھتے ہیں، اور کلمہ کی اصل یہی ہے۔ باقی قراء خالص ص پڑھتے ہیں اور لغت قریش یہی ہے اور مصحف امام میں ص ہی ثابت ہے۔ صراط کا لفظ مذکر و مونث استعمال ہوتا ہے جیسا کہ طریق اور سبیل کا لفظ، صراط مستقیم سے مراد حق کا راستہ ہے اور وہ ملت اسلام ہے۔ فائدہ تاکید : صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ : یہ صراط کا لفظ پہلے صراط سے بدل ہے اور اس کو دوبارہ لانے کا حکم وہی ہے جو عامل کو دوبارہ لانے کا ہے، دوبارہ لانے میں تاکید کا فائدہ حاصل ہوا اور یہ بھی بتلا دیا کہ صراط مستقیم کی تفسیر صراط المسلمین (مسلمانوں کا راستہ) ہے۔ تاکہ مسلمانوں کے راستہ پر استقامت اختیار کرنے کی انتہائی بلیغ دلیل بن جائے، اور موکد شہادت ثابت ہو۔ (انعمت علیھم) وہ مومن ہیں یا انبیاء (علیہم السلام) یا تبدیلی سے پہلے بنی اسرائیل جو قوم موسیٰ (علیہ السلام) ہیں۔ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ ۔ تفسیر اول : یہ الذین انعمت علیھم سے بدل ہے، یعنی انعام یافتہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے غضب اور گمراہی سے محفوظ رہے۔ تفسیر ثانی : الذین کی صفت ہے، اب معنی یہ ہوگا کہ انہوں نے عمومی نعمت یعنی ایمان اور غضب الہی اور گمراہی میں سے سلامتی والی نعمتوں کو جمع کرلیا ہے۔ معروف اشکال : اشکال : یہ الذین کی صفت کیسے بن سکتی ہے جبکہ وہ معرفہ ہے۔ جواب اول : یہ الذین کی صفت بن سکتی ہے، اگرچہ وہ معرفہ ہے اور غیر کا لفظ اضافت سے معرفہ بھی نہیں بنتا، اصل وجہ یہ ہے کہ یہاں وہ دو متضاد معرفوں کے درمیان واقع ہے، پس غیر کا لفظ اضافت سے معرفہ بن گیا، جیسا اس مثال میں عجبت من الحرکۃ غیر السکون (الحرکۃ والسکون تو متضاد معرفے ہیں پس غیر اضافت کی وجہ سے معرفہ بن کر الحرکۃ کی صفت ہوا) اسی طرح آیت میں منعم علیھم اور مغضوب علیھم دو متضاد معرفے ہیں۔ (اس لیے غیر المغضوب معرفہ ہو کر صفت بن گیا) جواب ثانی : الذین نکرہ کے قریب ہے اور اس سے مراد کوئی معین و مخصوص قوم نہیں اور غیر المغضوب علیھم یہ معرفہ کے قریب ہے۔ اس تخصیص کی وجہ سے جو اضافت کی وجہ سے اس کو حاصل ہوئی۔ پس حاصل یہ ہے کہ ایک ایک لحاظ سے دونوں میں ابہام ہے، اور ایک ایک وجہ سے تخصیص ہے، پس دونوں حیثیت میں برابر ہوئے۔ (صفت بننے میں اشکال نہ رہا) اول علیھم : یہ مفعولیت کی وجہ سے محلا منصوب ہے، دوسرا علیھم : فاعلیت کی وجہ سے محلا مرفوع ہے۔ مراد غضب اللہ : غضب اللہ : سے مراد جھٹلانے والوں سے انتقام کا ارادہ کرنا اور ان پر سزا کا اتارنا اور ان کے ساتھ ایسا سلوک کرنا جو بادشاہ اپنے ماتحتوں سے کرتے ہیں جبکہ وہ ان پر غضبناک ہوں۔ بعض علماء نے کہا : مغضوب علیھم سے مراد یہود ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (من لعنہ اللہ وغضب علیہ) المائدہ :60 ۔ اور الضالون سے مراد نصرانی ہیں کیونکہ ارشاد الہی ہے : (قد ضلوا من قبل) المائدہ :77 ۔ لا : بصریین کے ہاں لا زائدہ ہے جو تاکید کے لیے لایا گیا، کو فیین کے نزدیک یہ غیر کے معنی میں ہے۔ امین : یہ اسم صورت ہے جو فعل استجب کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، جس طرح کہ روید اسم ہے۔ امھل فعل کے معنی میں آتا ہے۔ معنی آمین قول ابن عباس : میں نے رسول اللہ سے آمین کا معنی دریافت کیا تو آپ نے فرمایا۔ افعل (ایسا کردے) تحقیق لفظ : یہ مبنی ہے اس میں دو لغتیں ہیں مد اور قصر، قصر اصل ہے، جبکہ مد اشباع ہمزہ کی وجہ سے ہے، جیسا کہ شاعر کا قول و یرحم اللہ عبدا قال امینا۔ دوسرے شاعر کا قول : امین فزاد اللہ ما بیننا بعدا۔ پہلے شعر میں مد ہے جبکہ دوسرے میں قصر ہے۔ رسول اللہ نے فرمایا : جبریل امین نے مجھے قرات فاتحہ کے وقت آمین کی تلقین فرمائی اور کہا کہ یہ خط کے آخر میں مہر کی طرح ہے۔ البتہ آمین قرآن میں سے نہیں اسی لیے اس کو مصاحف میں لکھا نہیں جاتا۔
Top