Tafseer-e-Mazhari - Al-Faatiha : 7
صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ١ۙ۬ۦ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ۠   ۧ
صِرَاطَ : راستہ الَّذِينَ : ان لوگوں کا أَنْعَمْتَ : تونے انعام کیا عَلَيْهِمْ : ان پر غَيْرِ : نہ الْمَغْضُوبِ : غضب کیا گیا عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا : اور نہ الضَّالِّينَ : جو گمراہ ہوئے
ان لوگوں کے رستے جن پر تو اپنا فضل وکرم کرتا رہا نہ ان کے جن پر غصے ہوتا رہا اور نہ گمراہوں کے
صَرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ : یہ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ سے بدل ہے اور بدل بھی بدل کل جس کا فائدہ تاکید ہے اور اس بات پر استدلال ہے کہ ان لوگوں کا راستہ وہ ہے جس کے مستقیم ہونے کی شہادت دے دی گئی ہے ( مطلب یہ ہے کہ خداوندا ہمیں ان لوگوں کا راستہ دکھا جن پر تو نے اپنا فضل کیا) اور ان سے وہ باخدا اور نیک دل لوگ مراد ہیں جنہیں خدا نے ایمان اور طاعت پر ثابت قدم رکھا یعنی انبیاء (علیہم السلام) اور صدیقین اور شہداء اور صالحین۔ لفظ علیہم اور الیہم اور لدیھم کو جہاں کہیں بھی قرآن میں آیا ہے حمزہ 1 ؂ نے فصل اور وقف دونوں حالتوں میں ضمہ ہا سے پڑھا ہے لیکن حمزہ کے علاوہ اور تمام قاریوں نے ہ مکسور پڑھا ہے۔ ابن کثیر نے ہر میم جمع کو حالت وصل میں ضمہ اور اشباع سے پڑھا ہے جبکہ اس کے بعد ساکن نہ ہو۔ قالون (رومی زبان کا لفظ جس کے معنی عمدہ (جید) کے ہیں ‘ 12) ہر حالت میں خواہ اس کو بعد کا حرف ساکن ہو یا نہ ہو اشباع اور عدم اشباع دونوں طرح سے پڑھنا جائز رکھتے ہیں لیکن ور ش 2 ؂ صرف الف قطع کے اتصال کے وقت اشباع سے پڑھنا جائز بتاتے ہیں اور جب میم جمع کے بعد الف وصل ہو اور ہ سے پیشتر کسرہ یا ی ساکن ہو جیسے بِھِمُ الْاَسْبَاب 228 وَ عَلَیْھِمُ الْقِتَالُ تو حمزہ اور کسائی ہ اور م دونوں کو مضموم پڑھتے ہیں اور ابو عمر و مکسور اور اسی طرح یعقوب بھی ابو عمرو کے ساتھ متفق ہیں جبکہ اس سے پیشتر کا حرف مکسور ہو۔ ان قراء کے علاوہ باقی لوگ م کو مضموم پڑھتے ہیں اس واسطے کہ وہی اصل ہے اور ہ کو کسرہ سے اس واسطے کہ اس سے پیشتر ی ساکنہ یا کسرہ ہے لیکن یہ اختلاف وصل کی حالت میں تھا۔ رہی وقف کی حالت تو اس صورت میں سب لوگ ما قبل کے مک سورة ہونے کی وجہ سے کسرہ کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ البتہ حمزہ کا اختلاف اس صورت میں بھی باقی رہتا ہے۔ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْن : یہ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ سے بدل ہے یعنی جن پر خدا نے اپنا فضل کیا۔ ان سے وہ لوگ مراد ہیں جو غضب خدا وندی اور گمراہی سے سالم و محفوظ ہیں یا صفت کا شفہ یا صفت احترازیہ ہے۔ بشرطیکہ موصول نکرہ کے قائم مقام فرض کیا جائے اور اس سے کوئی معین اور مقرر گروہ مراد نہ لیا جائے جیسا کہ اس مصرعہ میں ہے مصرعہ وَلَقَدْ اَمُرُّ عَلَی الئیم یَسُبُّنِیْ (یعنی جب میں کسی دنیّ الطبع اور نالائق شخص کی طرف سے گزرتا ہوں جو مجھے گالیاں دیتا ہے) یا یوں کہئے کہ لفظ غیر چونکہ ایسی چیز کی طرف مضاف ہوا ہے جس کی ایک ہی ضد موجود ہے اسلئے بہر حال معرفہ ہے اور اس اضافت کے سبب سے اس میں ایک قسم کی تعیین ہوگئی ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے عَلَیْکُمْ بالْحَرکَۃِ غَیْر السُّکُوْنِ ۔ لفظ عَلَیْھِم فاعل کے قائم مقام واقع ہونے کی وجہ سے رفع کے محل میں ہے ( یعنی ترکیب میں المغضوب کا مفعول ما لم یسم فاعلہ واقع ہوا ہے) اور لا اس نفی کی تاکید مزید کر رہا ہے جو غیر کے معنی سے مستفاد ہوتی ہے گویا تقدیر عبارت یوں ہے لا المَغْضُوْبِ عَلَیْھِم (یعنی نہ ان کا رستہ جن پر خدا کا غضب نازل ہوا) انتقام کے ارادہ سے نفس کے برانگیختہ اور پر جوش ہونے کو غضب کہتے ہیں لیکن جب اسکی نسبت خدا کی طرف ہوتی ہے تو اس سے نتیجہ غضب ( اور) اسکا منتہٰی مراد ہوا کرتا ہے یعنی عتاب اور ضَلَالَۃ۔ ھِدَایَۃ کی ضد ہے ( یعنی اس راہ سے عدول کرنے کو ضلالت کہتے ہیں جو خدا تک پہنچانے والی ہے) اور اسکے بہت سے مراتب و مدارج ہیں۔ عدی بن حاتم سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جن پر خدا کا غضب نازل ہوا ان سے یہود اور گمراہوں سے نصاریٰ مراد ہیں۔ اس حدیث کو امام احمد نے اپنی مسند میں اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے اور ترمذی نے اسکی تحسین کی اور انکے علاوہ اوروں نے عدی ابن حاتم سے روایت کیا ہے ابن مردویہ نے ابوذر کی روایت سے اسی کے قریب ایک اور حدیث نقل کی ہے ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس و ابن مسعود، ربیع بن انس اور زید بن اسلم کی طرف اسی تفسیر کی نسبت کی ہے۔ ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ باوجود تحقیقات کے مجھے اب تک معلوم نہیں ہوا کہ اس تفسیر میں مفسروں کا اختلاف ہو۔ میں (صاحب تفسیر) کہتا ہوں اَلْمَغْضُوْب عَلَیْھِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ ایسے دو عام لفظ ہیں جن کے تحت میں تمام کفار اور خدا کے نافرمانوں اور بدعتی سب لوگ داخل ہوسکتے ہیں۔ چناچہ خدا تعالیٰ نے اس شخص کے حق میں جو کسی ممنوع القتل کو عمداً قتل کردے۔ غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ فرمایا اور کفار و بدعتیوں کے بارے میں ارشادہوا فَمَا ذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلَال اور اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُھُمْ فِیْ الْحِیٰوۃِ الدُّنْیَا سورة فاتحہ کے ختم پر قدرے فصل کے ساتھ اٰمِین کہنا مسنون ہے اور یہ لفظ بدون تشدید مد و قصر دونوں طرح سے منقول ہوا ہے۔ امام بغوی کا بیان ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : اٰمین کے معنی اِسْمَعْ وَا سْتَجِبْ کے ہیں یعنی خدا وندا ہماری دعاء سن اور قبول فرمایا۔ امام ثعلبی نے بحوالہ حضرت ابن عباس ؓ بیان کیا کہ میں نے جناب نبی کریم ﷺ سے اٰمین کے معنی دریافت کئے فرمایا اس کے معنی ہیں اِفْعَلْ ۔ ابن ابی شیبہ نے اپنے مصنف میں اور امام بیہقی نے دلائل میں حضرت ابو میسرہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ جبرئیل (علیہ السلام) نے جناب نبی کریم : ﷺ کو سورة فاتحہ پڑھائی اور وَلَا الضَّآلِّیْنَ پر پہنچ کر فرمایا اٰمین کہئے۔ ابو داوٗد نے اپنی سنن میں حضرت ابو زہیر کی روایت سے جو ایک جلیل القدر صحابی ہیں بیان کیا کہ اٰمین ایسی ہے جیسی خط پر مہر۔ حضرت ابو زہیر فرماتے ہیں کہ ہم ایک رات آنحضرت ﷺ کے ساتھ باہر نکلے اور چلتے چلتے ہمارا گذر ایک ایسے شخص پر ہوا جو جناب الٰہی میں دعا کر رہا تھا اور نہایت الحاح وزاری سے کر رہا تھا۔ نبی ﷺ نے اس کی یہ الحاح وزاری دیکھ کر فرمایا اس کی دعا قبول ہوئی اگر اس نے دعا پر مہر بھی لگائی۔ حاضرین میں سے ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ دعا پر کسی چیز کی مہر لگائی جاتی ہے۔ فرمایا لفظ آمین کی۔ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا (لوگو) جب امام وَلَا الضَّآلِّیْنَ تک پہنچ جائے تو اٰمین کہا کرو کیونکہ اس وقت فرشتے بھی اٰمین کہتے ہیں اور جس شخص کی آمین فرشتوں کی اٰمین کے موافق پڑجائے گی اس کے تمام گزشتہ گناہوں پر قلم عفو کھینچ دیا جائے گا۔ 1 ؂ دار قطنی میں یہ حدیث موجود ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب وَلَا الضَّالِین پڑھ چکتے تو اٰمین کہتے اس حدیث کی تصحیح میں ابن حبان نے نہایت پر زور اور بیش بہا الفاظ لکھے ہیں۔ فصل : دَر بیان فضائل سورة فاتحہ حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ جناب نبی کریم ﷺ نے فرمایا مجھے اس ذات پاک کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے کہ سورة فاتحہ جیسی کوئی سورت نہ تو توریت و انجیل اور زبور میں نازل ہوئی اور نہ قرآن مجید میں۔ یہ وہی سبع مثانی ہے جو خدا تعالیٰ نے مجھے عطا فرمائی ہے۔ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کرکے حسن صحیح بتایا ہے اور حاکم کہتے ہیں کہ شرط مسلم پر صحیح ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ہم صحابیوں کی ایک جماعت جناب نبی اکرم ﷺ کے حضور میں حاضر تھی اور جبرئیل (علیہ السلام) آپ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ دفعتہ اوپر سے دروازہ کھلنے کی سی آواز آئی جبرئیل ( علیہ السلام) نے آسمان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا اور فرمایا یہ دروازہ جو اس وقت کھلا ہے اس سے پیشتر کبھی نہیں کھلا۔ راوی کا بیان ہے کہ اتنے میں ایک فرشتہ آسمان سے اترا اور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگا کہ آپ کو ایسے دو نوروں کا ثمردہ ہو جو آپ سے پیشتر کسی نبی کو نہیں دئے گئے۔ ایک ” فاتحۃ الکتاب “۔ دوسرے سورة بقرہ کا خاتمہ ان دونوں میں سے اگر آپ ایک حرف بھی پڑھیں گے تو وہ نور آپ کو دے دیا جائے گا۔ ( مسلم) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا خدا فرماتا ہے کہ میں نے اپنے اور بندہ کے درمیان نماز کو آدھوں آدھ تقسیم کیا ہے اس کا نصف میرے لیے ہے اور نصف میرے بندہ کے واسطے اور میرے بندہ کو وہ چیز ملے گی جس کی وہ خواستگاری کرے گا۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ جب بندہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ کہتا ہے تو خدا فرماتا ہے حَمِدَنِیْ عَبْدِیْ (میرے بندہ نے میری تعریف کی) اور جب وہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیم کہتا ہے تو خدا فرماتا ہے۔ اَثْنٰی عَلَیَّ عَبْدِی (میرے بندہ نے میری خوب حمد و ثنا کی) جب بندہ مالِکِ یَوْمِ الدِّیْن کہتا ہے تو خدا فرماتا ہے مَجَّدَنِیْ عَبْدِی ( میرے بندہ نے میری بزرگی اور عظمت کا اظہار کیا) بندہ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کہتا ہے تو خدا فرماتا ہے ھٰذَا بَیْنِی وَبَیْنَ عَبدِی وَ لِعَبْدِی مَا سَأَلَ (یعنی یہ مضمون میرے اور میرے بندہ کے درمیان تقسیم ہے اور میرے بندے کیلئے میرے پاس وہ چیز موجود ہے جس کی وہ درخواست کرے) جب بندہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لَآ الضَّالِّیْنَکہتا ہے تو فرماتا ہے فَھٰؤُلَاءِ لِعَبْدِیْ وَ لِعَبْدِیْ مَا سَاَلَ ( یعنی میرے بندہ کی یہ تمام درخواستیں مقبول ہیں اور اس کے علاوہ جو بھی درخواست کرے گا منظور کرونگا۔ (مسلم) عبد الملک بن عمیر سے مرسلاً روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ” فاتحۃ الکتاب “ ہر مرض کیلئے شفا ہے اسے دارمی نے اپنی مسند اور بیہقی نے شعب الایمان میں صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے حضرت عبداللہ بن جابر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت نبی ﷺ نے فرمایا جابر ؓ میں تجھے بہترین سورت کی جو قرآن میں نازل ہوئی ہے خبر دوں ؟ جابر کہتے ہیں میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! فرمائیے ارشاد ہوا کہ وہ ” فاتحۃ الکتاب “ ہے اور میرا خیال ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : کہ وہ ہر مرض کیلئے شفا ہے۔ حضرت جابر سے روایت ہے کہ ” فاتحۃ الکتاب “ بجز موت کے ہر مرض کی دوا ہے۔ اسے خلعی نے اپنے فوائد میں نقل کیا ہے۔ سعید بن المعلی سے روایت ہے کہ قرآن میں سب سے بڑی سورت ( باعتبار ثواب یا بلحاظ قدرو وقعت) اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ہے۔ اس کو بخاری نے روایت کیا ہے۔ بیہقی اور حاکم نے حدیث انس بیان کرتے ہوئے کہا کہ اَلْحَمدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلمِیْنَ افضل قرآن ہے۔ بخاری اپنی سند سے حدیث ابن عباس نقل کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ ” فاتحۃ الکتاب “ قرآن کے دو ثلث کے برابر ہے۔ ابو سلیمان کہتے ہیں کہ ایک دفعہ چند صحابہ کرام کسی غزوہ میں شریک تھے وہاں انکا گزر ایک مرگی والے پر ہوا جو بالکل بےہوش پڑا تھا۔ کسی نے سورة فاتحہ کو پڑھ کر اس کے کان میں پھونک دیا۔ حضرت کو خبر ہوئی تو فرمایا وہ ام القرآن ہے اور ہر مرض کی دوا 1 ؂ ہے۔ اسے ثعلبی نے بروایت معاویہ بن صالح بحوالہ ابو سلیمان بیان کیا ہے۔ حضرت ابو سعید خدری کی روایت ہے کہ جناب نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” فاتحۃ الکتاب “ زہر تک کی دوا ہے۔ اسے سعید بن منصور نے (اپنے سنن) اور بیہقی نے شعب الایمان میں روایت کیا ہے ابو سعید خدری سے مروی ہے کہ ہم لوگ سفر میں تھے چلتے چلتے ایک موضع میں اترے۔ وہاں ایک لونڈی آکر کہنے لگی کہ اس قبیلہ کے سردار کو سانپ ڈس گیا ہے کیا تم میں کوئی منتر پڑھنے والا بھی ہے ؟ یہ سن کر ہم میں سے ایک شخص کھڑا ہوگیا اور لونڈی کے ہمراہ جا کر سورة فاتحہ پڑھ کر سانپ کے ڈسے ہوئے پر پھونک دی ‘ وہ فوراً اچھا ہوگیا۔ جب ہم سفر سے واپس آئے تو حضرت ﷺ سے یہ ماجرا عرض کیا آپ نے اس شخص سے دریافت کیا تجھے کیونکر معلوم ہوا کہ وہ منتر ہے ؟ اسے امام بخاری نے روایت کیا اور ابو الشیخ اور ابن حبان نے ثواب میں ابو سعید خدری اور ابوہریرہ سے روایت کیا ہے۔ سائب بن یزید کہتے ہیں کہ جناب نبی کریم ﷺ نے سورة فاتحہ پڑھ کر مجھ پر دم کیا اور آفات و بلا سے محفوظ رہنے کیلئے یہ سورة پڑھ کر میرے منہ میں لعاب دہن مبارک ڈال دیا۔ اسے طبرانی نے اوسط میں روایت کیا ہے۔ حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ جب تو بچھو نے پر لیٹ کر سورة فاتحہ اور قل ھُو اللہ احد پڑھے گا تو موت کے سوا ہر چیز سے محفوظ و بےخوف رہے گا۔ اسے براء نے روایت کیا ہے۔
Top